Al-Qurtubi - Maryam : 26
فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًا١ۚ فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا١ۙ فَقُوْلِیْۤ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّاۚ
فَكُلِيْ : تو کھا وَاشْرَبِيْ : اور پی وَقَرِّيْ : اور ٹھنڈی کر عَيْنًا : آنکھیں فَاِمَّا تَرَيِنَّ : پھر اگر تو دیکھے مِنَ : سے الْبَشَرِ : آدمی اَحَدًا : کوئی فَقُوْلِيْٓ : تو کہدے اِنِّىْ نَذَرْتُ : میں نے نذر مانی ہے لِلرَّحْمٰنِ : رحمن کے لیے صَوْمًا : روزہ فَلَنْ اُكَلِّمَ : پس میں ہرگز کلام نہ کرونگی الْيَوْمَ : آج اِنْسِيًّا : کسی آدمی
تو کھاؤ اور پیو اور آنکھیں ٹھنڈی کرو اگر تم کسی آدمی کو دیکھو تو کہنا کہ میں نے خدا کے لیے روزے کی منت مانی ہے تو آج میں کسی آدمی سے ہرگز کلام نہ کروں گی
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاما ترین من البشر احدا، فقولی انی نذرت للرحمن صوما اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاما تریناصل میں ترأیین تھا ہمزہ کو حذف کیا گیا جس طرح تری سے ہمزہ سے حذف کیا گیا ہے۔ پھر اس کا فتحہ راء کی طرف نقل کیا گیا ہے تو یہ ترکین بن گیا پھر پہلی یا کوائف سے بدلا کیونکہ وہ متحرک ہے اور اس کا ما قبل مفتوح ہے۔ پھر دو ساکن الف یا یاء تانیث جمع ہوتے تو التقاء ساکنین کی وجہ سے الف کو حذف کردیا گیا تو ترین ہوا پھر جزم کی علامت کے طور پر نون کو حذف کیا گیا کیونکہ ان حرف شرط اور ماصلۃ ہے۔ پس تری رہ گیا۔ پھر نون ثقیلہ داخل ہوا تو التقاء ساکنین کی وجہ سے یاء تانیث کو کسرہ دیا کیونکہ نون ثقیلہ دونوں کے مقام ہوتا ہے اور پہلا نون ساکن ہے پس یہ ترین بن گیا۔ اس طریقہ پر ابن درید کا قول ہے : أماتری رأسی حا کی لونہ اور الافوہ کا قول ہے : اما تری رأسی أزری بہ اور یہاں کے ما کے توطئتہ کے لیے نون داخل ہوا جس طرح اس کے دخول کے لیے لام قسم بطور توطئہ داخل کیا جاتا ہے۔ طلحہ، ابو جعفر اور شبیہ نے ترین یاء کے سکون اور نون کے فتحہ کے ساتھ تخفیف سے پڑھا ہے۔ ابو الفتح نے کہا : یہ شاذ ہے۔ مسئلہ نمبر 2 ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فقولی انی نذرت۔ یہ جواب شرط ہے اور اس میں اضمار ہے یعنی تیرے بچے کے متعلق کوئی سوال کرے تو تو یہ کہہ کر میں نے خاموشی کے روزے کی نذز مانی ہے، یہ حضرت ابن عباس اور حضرت انس بن مالک کا قول ہے (1) ۔ حضرت ابی بن کعب کی قرأت میں انی نذرت للرحمن صوماً صمتاً ہے۔ حضرت انس سے بھی مروی ہے اور حضرت انس سے وصمتا وائو کے ساتھ بھی مروی ہے۔ لفظوں کا اختلاف دلالت کرتا ہے کہ ایک تفسیر کے لیے ذکر کیا گیا ہے نہ کہ قرأت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ جب اس کے ساتھ وائو ہو تو ممکن ہے کہ یہ روزے کے علاوہ ہو۔ محدثین اور لغات کے روات سے جو روایات مروی ہیں وہ متفق ہیں کہ روزے سے مراد حاموشی ہے کیونکہ الصوم کا مطلب بھی امساک (رکنا) ہے اور الصمت کا معنی کلام سے روکنا ہے۔ بعض علماء نے فرمایا : الصوم سے مراد روزہ ہی ہے اور ان لوگوں پر روزے کے دن خاموشی بھی لازم ہوتی تھی مگر اشارہ کے ساتھ کلام جائز تھا اس بنا پر حضرت انس کی قرأت وصمتاً وائو کے ساتھ ہوگی۔ الصمت (خاموشی) ان کے نزدیک روزے میں نذر کے ساتھ لازم تھی جیسا کہ کسی نے ہم میں سے بیت اللہ کی طرف چلنے کی نذر مانی تو یہ حج یا عمرہ کے ساتھ احرام کا بھی مقتضی ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبرئیل کی زبان پر حضرت مریم کو حکم دیا یا ان کے بیٹے کی زبان پر انہیں حکم دیا جیسا کہ اختلاف گزر چکا ہے کہ انسان کے مخاطب ہونے سے رک جانا اور اپنے بیٹے کی طرف سوال کرنے والے کو پھیر دینا تاکہ وہ اس خجالت کو دور کرے۔ معجزہ ظاہر ہو اور حضرت مریم کا عذر قبول ہو۔ آیت کا ظاہر یہ ہے کہ حضرت مریم کے لیے یہ الفاظ کہنا مباح کیا گیا تھا جو آیت کے اندر موجود ہیں، یہ جمہور کا قول ہے۔ ایک جماعت نے کہا : اس کا مطلب ہے تو اشارہ سے یہ کہہ نہ کہ کلام سے۔ زمخشری نے کہا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ (سفیہ) بیوقوف پر خاموش ہونا واجب ہے اور لوگوں میں سے ذلیل ترین وہ بیوقوف ہے جو بیوقوف کو نہ سمجھے۔ مسئلہ نمبر 3 ۔ جس نے نذر کے ساتھ یہ التزام کیا کہ وہ آدمیوں میں سے کسی سے بات نہیں کرے گا تو یہ احتمال رکھتا ہے کہ یہ قربت ہو اور نذر کے ساتھ لازم ہوئی ہو ارور یہ بھی احتمال رکھتا ہے کہ یہ ہماری شرع میں جائز نہیں کیونکہ اس میں نفس کی تعذیب اور تنگی ہے جیسے کوئی نذر مانے کہ وہ دھوپ میں کھڑا ہوگا۔ اس بنا پر خاموشی کی نذر اس شریعت میں تھی ہماری شریعت میں نہیں۔ یہ مسئلہ پہلے گزر چکا ہے جس نے خاموشی کی نذر مانی تھی ؛ حضرت ابن مسعود نے اسے کلام کرنے کا حکم دیا تھا اور ابو اسرائیل کی حدیث کی وجہ سے یہ یہ صحیح ہے۔ اس حدیث کو امام بخاری نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے۔ ابن زید اور ادی نے کہا : پہلے لوگوں کے نزدیک صیام (روزہ) رکھنے اور کلام کرنے سے رکنا تھا۔ میں کہتا ہوں : ہماری سنت سے ہے کہ ہم بھی روزے کی حالت میں قبیح کلام سے رک جائیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو وہ نہ بری بات کرے اور نہ جہالت کا کام کرے، اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اسے اتنا کہنا چاہیے میں روزہ رکھے ہوں ہوں “ (1) اور نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے : ” جو جھوٹی بات اور جھوٹ پر عمل کو نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے کی حاجت نہیں “ (2) (تفسیر یت 27-28)
Top