Urwatul-Wusqaa - Maryam : 27
فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ١ؕ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْئًا فَرِیًّا
فَاَتَتْ بِهٖ : پھر وہ اسے لیکر آئی قَوْمَهَا : اپنی قوم تَحْمِلُهٗ : اسے اٹھائے ہوئے قَالُوْا : وہ بولے يٰمَرْيَمُ : اے مریم لَقَدْ جِئْتِ : تو لائی ہے شَيْئًا : شے فَرِيًّا : بری (غضب کی)
پھر وہ لڑکے کو اٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئی ، وہ بول اٹھے ، مریم تو نے بڑی ہی عجیب بات کر دکھائی
اس وقت کا ذکر جب سیدہ مریم (علیہ السلام) بچے کو ساتھ لے کر قوم کے پاس آئیں : 27۔ جیسا کہ آپ پیچھے چکے ہیں اور مفسریں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ جب ناصرہ سے یوسف ‘ مریم اور دوسرے افراد خانہ نکل کر بیت لحم کی طرف آئے اور بیت لحم ہی عیسیٰ (علیہ السلام) تولد ہوئے اور بیت لحم میں تولد ہونے والے ایک ایک بچے کی پیش گوئیاں بنی اسرائیل کے ہاں معروف تھیں اور اس کے ساتھ بقول انجیل یہ اتفاق بھی ہوگیا جیسا کہ تحریر ہے : ” جب یسوع ہیرودیس کے زمانہ میں یہودیہ کے بیت لحم میں پیدا ہوگیا تو دیکھو کئی مجوسی پورب سے یروشلم میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے وہ کہاں ہے ؟ کیونکہ یورب میں اس کا ستارہ دکھ کر ہم اس کو سجدہ کرنے آئے ہیں یہ سن کر ہیرودیس بادشاہ اور اس کے ساتھ یروشلم کے سب لوگ گھبرا گئے اور اس نے قوم کے سب سردار کاہنوں اور فقیہوں کو جمع کر کے ان سے پوچھا کہ مسیح کی پیدائش کہاں ہونی چاہئے ؟ انہوں نے اس سے کہا یہودیہ کے بیت لحم میں کیونکہ نبی کی معرفت یوں لکھا گیا ہے ۔ “ (متی 2 : 1 تا 5) ہیرودیس بادشاہ کے کہنے پر وہ لوگ یروشلم سے بیت لحم میں آئے اور وہاں انہوں نے عیسیٰ (علیہ السلام) کو دیکھا اور اپنی عقیدت کا اظہار کیا پھر جب ان کو معلوم ہوگیا کہ ہیرودیس نے ہمیں یہاں دھوکہ اور فریب کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ ہم اس بچے کی خبر اس کو دیں اور حقیقت میں وہ بادشاہ ہیرودیس اس بچے کے قتل کرنے کے درپے ہے تو وہ واپس یروشلم نہ گئے بلکہ اپنے گھروں کو چلے گئے اور اس کے بعد جو ہوا اس کو انجیل نے اس طرح بیان کیا : ” جب وہ روانہ ہوگئے تو دیکھو خداوند کے فرشتہ نے یوسف کو خواب میں دکھائی دے کر کہا کہ اٹھ بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر کو بھاگ جا اور جب تک کہ میں تجھ سے نہ کہوں وہیں رہنا کیونکہ ہیرودیس اس بچہ کو تلاش کرنے کو ہے تاکہ اسے ہلاک کرے ، پس وہ اٹھا اور رات کے وقت بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لے کر مصر کو روانہ ہوگیا ۔ اور ہیرودیس کے مرنے تک وہیں رہا تاکہ جو خداوند نے نبی کو معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ مصر میں سے میں نے اپنے بیٹے کو بلایا ۔ (متی 2 : 14 تا 16) اس طرح یہ بچہ اپنے والدین کے ساتھ 12 برس تک مصر میں رہا تا آنکہ ہیرودیس مر گیا اس کے والدین تو ہر سال یروشلم عید فسح کے لئے آتے رہے لیکن بچے کو وہ کبھی ساتھ نہ لائے ہاں ہیرودیس کے مرنے کے بعد ” جب وہ بارہ برس کا ہوا تو وہ عید کے دستور کے موافق یروشلم گئے تو بچہ ان کے ساتھ تھا جب وہ ان دونوں کو پورا کر کے لوٹے تو ہو لڑکا یسوع یروشلم میں رہ گیا اور اس کے ماں باپ کو خبر نہ ہوئی مگر وہ یہ سمجھ کر کہ وہ قافلہ میں ہے ایک منزل نکل گئے کہ اسے اپنے رشتہ داروں اور جان پہچان والوں میں ڈھونڈنے لگے جب نہ ملا تو اسے ڈھونڈتے ہوئے یروشلم تک واپس گئے اور تین روز کے بعد ایسا ہوا کہ انہوں نے اسے ہیکل میں استادوں کے پیچ میں بیٹھے ان کی سنتے اور ان سے سوال کرتے ہوئے پایا ۔ “ (لوقا 2 : 41 تا 47) بات واضح ہوگئی کہ سیدہ مریم (علیہ السلام) جب عیسیٰ (علیہ السلام) کو یروشلم واپس لائیں تو یہی ان کی پہلی ملاقات تھی جو قوم کے لوگوں کے ساتھ ہوئی ، چونکہ پیدائش عیسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ ہی قوم کے پاس اٹھا لانے کا ذکر تھا درمیان کے واقعات کو ذکر نہیں کیا گیا مفسرین نے یہ سمجھا کہ اس وقت جب کہ ابھی بچہ پیدا ہی ہوا تھا ، مریم قوم کے پاس اٹھالائی اور انجیل نے ہم کو بتایا کہ ایسا معاملہ نہیں بلکہ انکا آنا بارہ برس کی عمر کے بعد ہوا اور یہی صحیح ہے جس طرح پیچھے آپ یحییٰ (علیہ السلام) کے ذکر میں پڑھ چکے ہیں کہ ادھر زکریا (علیہ السلام) کو بیٹے کی بشارت ملی تھی کہ ساتھ ہی قرآن کریم نے یحییٰ (علیہ السلام) کو کتاب کو مضبوطی سے پکڑنے اور نماز قائم کرنے کی تلقین کردی لیکن وہاں ہمارے مفسرین نے تسلیم کرلیا کہ قرآن کریم نے ایک بڑے لمبے عرصے کا ذکر چھوڑ کر آپ کی نبوت کے زمانہ سے آپ کا واقعہ بیان کرنا شروع کردیا ۔ چونکہ درمیانی عرصہ کے بیان کرنے کی ضرورت نہ تھی لہذا اس کو چھوڑ دیا گیا اور یہ بات قرآن کریم کے قصص میں عام ملتی ہے اور ویسے بھی انسان اپنے ہاں کسی کی باتیں کرتے ہوئے اس کی ضروری باتوں کا ذکر کرتے وقت درمیانی واقعات کو حذف کرتا رہتا ہے یہی بات یہاں ہوئی لیکن یہاں مفسریں نے واقعات کا حذف ذکر نہ کیا اور قصہ گوؤں نے اپنی طرف سے اس کے ساتھ معجزہ کا لفظ لگا کر حذف شدہ واقعات اور اقامت مصر کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اس پر دلیل یہ قائم کی کہ دیکھو قرآن کریم میں لکھا ہے کہ (فاتت بہ قومھا تحملہ) پھر ایسا ہوا کہ وہ لڑکے کو ساتھ لے کر اپنی قوم کے پاس آئی لڑکا اس کی گود میں تھا ، حالانکہ ” لڑکا اس کی گود میں تھا “ کا بالکل اضافہ ہے جس کا اشارہ تک قرآن کریم یا حدیث صحیح میں نہیں اور (تحملہ) کا لفظ اپنے ساتھ سوا کر کے لانے پر دلالت کرتا ہے لیکن ترجمہ سے ” سوار کرکے لانے “ کو بھی حذف کردیا گیا ہے ۔ (تحملہ) کا لفظ بالکل اسی طرح استعمال ہوا ہے جس طرح (لتحملکم) اور (احملکم) کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں اور یہ دونوں الفاظ سورة التوبہ کی آیت 92 میں ذکر کئے گئے ہیں چناچہ ارشاد الہی ہے کہ (آیت) ” ولا علی الذین اذا ما اتوک لتحملکھم قلت لا اجد ما احملکم علیہ) (التوبہ 9 : 92) اور نہ ان لوگوں پر کچھ گناہ ہے جن کا حال یہ تھا کہ تیرے پاس آئے کہ ان کے لئے سواری بہم پہنچا دے (لتحملھم) اور جب تو نے کہا میں تمہارے لئے کوئی سواری نہیں پاتا ۔ (لا اجد ما احملکم) (ترجمان القرآن آزاد) ” اور نہ ان لوگوں پر کہ جب تیرے پاس آئے تاکہ تو ان کو سواری دے تو نے کہا میرے پاس کوئی چیز نہٰں کہ تم کو اس پر سوار کر دو ۔ (عثمانی) ” اس طرح ان لوگوں پر بھی کوئی اعتراض کا موقع نہیں ہے جنہوں نے خود آکر تم سے درخواست کی تھی کہ ہمارے لئے سواریاں بہم پہنچائی جائیں اور جب تم نے کہا کہ میں تمہارے لئے سواریوں کا انتظام نہیں کرسکتا ۔ “ (تفہیم مودودی) ” اور نہ گناہ ہے ان پر کہ جس وقت آتے ہیں تیرے پاس اے محمد ! تاکہ سواری دے تو ان کو کہتا ہے تو کہ نہیں پاتا ہوں وہ چیز کہ سوار کروں میں تم کو اوپر اس کے “ (حسینی) باقی تمام تراجم میں بھی ” سوار کرنے “ ’ سواری طلب کرنے “ کے ہیں اور اگر ہم نے (تحملہ) کا ترجمہ ” سوار کر کے لانے “ سے کیا ہے تو ہم پر اعتراض کیوں ؟ اس لئے کہ دوسرے حضرات نے اس جگہ ” سوار کرکے لانے “ کا ترجمہ نہیں کیا بلکہ اس طرح کیا ہے کہ ” لائی اس کو گود میں “ (عثمانی) ” وہ اس کو گود میں اٹھائے ہوئے لائی “ (تدبیر) ” وہ لے آئیں بچہ کو اپنی قوم کے پاس گود میں “ (ضیاء) ” لائیں حضرت مریم (علیہ السلام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو گود میں اٹھا کر “ (حسینی) ہمارے مترجمین ومفسرین نے چونکہ پیدا ہوتے ہی بچہ کو قوم کے پاس لانے کا تصور قائم کیا تھا اس لئے ترجمہ میں سب نے گود میں اٹھا لانے کا ذکر کیا ۔ ہم انجیل کی عبارت پر اعتماد کرتے ہوئے جس کی تصدیق مفسرین نے بھی کی ہے ہم بارہ برس کے بعد لانے کا تصور رکھتے ہیں اس لئے ترجمہ میں ” سوار کرکے لانے “ کا تصور دیا ہے ۔ مفسرین نے یہ تسلیم کیا ہے کہ وہ بیت لحم سے مصر کی طرف ہجرت کر گئیں ، لیکن جب اس آیت پر پہنچے تو ان کو یاد نہ رہا کہ ہم پہلے کیا لکھ چکے ہیں اس لئے انہوں نے اس جگہ گود میں اٹھا لانے کا ذکر کردیا ۔ عوام بیچاروں کا حافظہ بھی کمزور ‘ مطالعہ بھی علمائے کرام کی اندھی تقلید میں ‘ وہ کچھ کہہ ہی کیا سکتے ہیں اور پھر جنہوں نے کچھ کہا انہوں نے قوم کے علمائے گرامی قدر سے جو انعام پایا ہے وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے لہذا اس کی کوئی جرات ہی آخر کیوں کرے گا کہ وہ علماء کے خلاف بات کرے ؟ قرآن کریم ‘ رب ذوالجلال والاکرام اور نبی اعظم وآخر ﷺ کے فرمان کے اگر خلاف ہو تو ہو علمائے کرام کا خلاف کہہ کر کوئی زندہ رہے نہایت مشکل ہے پھر آسان کو چھوڑ کر مشکل کو کون دیکھے گا اور کیوں دیکھے گا ؟ سیدہ مریم (علیہ السلام) کا کم عمر بچہ جب قوم کے بڑے بڑے استادوں اور بزرگوں کے درمیان بیٹھ کر باتیں کرنے لگا اور ان کے سوالوں کے جوابات دینے لگا پھر ان کی قوم کے سرداروں اور بزرگوں سے اس کے سوالوں کا جواب بن نہ آیا تو انہوں نے جونہی مریم کو دیکھا جو اس کو اپنے ساتھ لائی تھیں تو انہوں نے بچہ کو چھوڑ کر مریم کو مخاطب کیا اور اپنی شکست کا سارا غصہ ایک ہی فقرہ میں نکال دیا کہ ” مریم تو نے (اس لڑکے کو جنم دے کر) بڑی ہی عجیب بات کر دکھائی ہے ۔ “ کہ اس نے کسی کی عزت کا خیال نہیں کیا اور اس طرح آنکھیں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کی ہیں کہ گویا قوم کا بڑا آدمی وہی ہے ۔ زیر نظر آیت کے آخر میں لفظ (فریا) استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہم نے ” بڑی ہی عجیب بات کر دکھائی ہے “ کے کئے ہیں اور بعض مترجمین نے اس کے معنی کئے ہیں ” بہت ہی برا کام کیا ہے ۔ “ لفظ (فریا) کی تحقیق کرتے ہوئے صاحب تاج العروس نے لکھا ہے کہ الفری کفنی الامر المختلق المصنوع اوالعظیم نقلھم الجوھری والعجیب نقلہ الراغب یعنی فری جو غنی کا ہم وزن ہے جوہری نے اس کے دو معنی ذکر کئے ہیں گھڑا ہوا ‘ بناوٹی اور بہت بڑا ‘ امام راغب نے اس کے معنی عجیب ‘ حیران کن کئے ہیں اور علامہ آلوسی نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے انہ یستعمل فی العظیم من الامر شرا او خیرا قولا اوفعلا (روح المعانی) ہر بڑے کام کے لئے خواہ وہ برا ہو یا اچھا قول ہو یا فعل لفظ فری کا استعمال ہوتا ہے اور یہ وضاحت گزشتہ سارے معنوں پر حاوی ہے اور تعجب انگیز کام بلاشبہ ایک بڑا کام ہی ہو سکتا ہے اور یہی ہم نے اختیار کیا ہے فرق یہ ہے کہ مفسرین نے یہ بتا دیا ہے کہ قوم کے لوگوں نے اس بچے کی پیدائش کو بہت برا فعل یا کام محسوس کیا اور ہمارے خیال میں یہ ہے کہ قوم کے لوگوں نے اس بچہ کو عجیب قسم کا بچہ قرار دیا کیونکہ ہو عمر میں تو چھوٹا تھا لیکن جو اس نے باتیں کیں انہوں نے ان لوگوں کو تعجب میں ڈال دیا کہ جو بچہ ہو کر اس طرح کی باتیں کر رہا ہے وہ بڑا ہو کر کیا کرے گا کہ پوری قوم کے دین و مذہب کو ہلاک کر رکھ دے گا ۔ مریم مندورہ تھی ۔ اگر یہ نکاح نہ کرتی تو ایسا بچہ ہماری قوم میں کیسے داخل ہوجاتا ؟ مریم نے جو منذورہ ہونے کے باوجود شادی کی تو کوئی اچھا فعل نہ کیا اور جو بچہ جنا اس نے اور بھی کمال کردیا کہ بچہ ہو کے قوم کے برسر آوردہ لوگوں کا ذرا بھر لحاظ نہ کیا اور تابڑ توڑ جواب سوال شروع کردیئے یہ تو وہی بات ہوئی کہ ” بڑے میاں تو بڑے میاں چھوٹے میاں سبحان اللہ ! “
Top