Al-Qurtubi - Maryam : 78
اَطَّلَعَ الْغَیْبَ اَمِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًاۙ
اَطَّلَعَ : کیا وہ مطلع ہوگیا ہے الْغَيْبَ : غیب اَمِ : یا اتَّخَذَ : اس نے لے لیا عِنْدَ الرَّحْمٰنِ : اللہ رحمن سے عَهْدًا : کوئی عہد
کیا اس نے غیب کی خبر پا لی ہے ؟ یا خدا کے یہاں (سے) عہد لے لیا ہے ؟
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اطلع الغیب اس کا الف، الف استفہام ہے کیونکہ اس کے بعد أم آیا ہے اس کا معنی تو بیخ ہے۔ اس کی اصل أاطلع ہے۔ پھر دوسرے الف کو حذف کیا گیا کیونکہ الف وصل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ الف کے بعد مدّکو کیوں نہیں لائے اور کہتے : اطلع جس طرح کہا : اللہ خیر (النمل :59) ء الذین کرین حرم (الانعام :143) تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان آیات میں اصل اللہ، الذکرین ہے پس دوسرے الف کو مد سے بدلا تاکہ استفہام اور خبر کے درمیان فرق ہوجائے اگر اللہ خیر بغیر مد کے کہتے تو استفہام خبر کے ساتھ ملتبس ہوجاتا اور اطلع میں اس مد کی ضرورت محسوس نہ کی کیونکہ الف استفہام میں مفتوح ہے اور خبر کا الف مکسور ہے، اسی وجہ سے تو استفہام میں کہتا ہے : اطلع ؟ افتری ؟ استغفرت ؟۔ الف کے فتحہ کے ساتھ اور خبر میں تو کہتا ہے : اطلع، افتری، اصطفی، استغفرت لھم۔ یہ تمام ہمزہ مک سورة کے ساتھ ہیں پس انہوں نے فتحہ اور کسرہ کے درمیان فرق کیا ہے اور دوسرے فرق کی ضرورت محسوس نہ کی۔
Top