Al-Qurtubi - Al-Baqara : 49
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ
وَاِذْ : اور جب نَجَّيْنَاكُمْ : ہم نے تمہیں رہائی دی مِنْ : سے آلِ فِرْعَوْنَ : آل فرعون يَسُوْمُوْنَكُمْ : وہ تمہیں دکھ دیتے تھے سُوْءَ : برا الْعَذَابِ : عذاب يُذَبِّحُوْنَ : وہ ذبح کرتے تھے اَبْنَآءَكُمْ : تمہارے بیٹے وَيَسْتَحْيُوْنَ : اور زندہ چھوڑ دیتے تھے نِسَآءَكُمْ : تمہاری عورتیں وَفِیْ ذَٰلِكُمْ : اور اس میں بَلَاءٌ : آزمائش مِنْ : سے رَبِّكُمْ : تمہارا رب عَظِیْمٌ : بڑی
اور (ہمارے ان احسانات کو یاد کرو) جب ہم نے تم کو قوم فرعون سے مخلصی بخشی وہ (لوگ) تم کو بڑا دکھ دیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی
آیت 49 اس آیت میں تیرہ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر 1: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذ نجینکم من ال فرعون، اذ حالت نصب میں ہے۔ اس کا اذ کروا نعمتی پر عطف ہے۔ یہ اور بعد والی آیات میں بنی اسرائیل کو وہ بعض نعمتیں یاد دلا نا ہے جو ان پر تھیں۔ یعنی تم میری نعمت کو یاد کرو کہ میں نے تمہیں دشمن سے نجات دی اور تم میں انبیاء بنائے۔ یہ خطاب موجودہ لوگوں کو ہے اور مرادان کے آباء ہیں۔ جیسا کہ فرمایا : انا لما طغا الماء حملنکم فی الجاریۃ۔ (الحاقہ) (یعنی ہم نے تمہارے آباء کو کشتی میں سوار کیا) بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : نجینکم کیونکہ آباء کی نجات، موجودہ لوگوں کی نجات کا سبب تھی اور نجینکم کا معنی ہے ہم نے تمہیں زمین کی اونچی جگہ پر ڈالا، یہ اصل ہے پھر ہر کامیاب ہونے والے کو ناجی کہا گیا۔ پس ناجی وہ ہوتا ہے جو تنگی سے خوشحالی کی طرف نکلتا ہے اسے اذا نجیتکم بھی پڑھا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : من ال فرعون، ال فرعون سے مراد اس کی قوم، اس کے متبعین اور اس کے دین کے پیروکار ہیں۔ اسی طرح آل رسول جو نبی کریم ﷺ کے دین، آپ کی ملت پر تھے کسی زمانہ میں بھی ہوں، خواہ ان کا نسبی تعلق ہو یا نہ ہو، اور جو آپ کے دین اور ملت پر نہ ہو وہ آپ کے اہل اور آل سے نہیں ہے اگرچہ اس کا نسبی اور قربت کا تعلق موجود بھی ہو۔ رافضیوں کا قول اس کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں : آل رسول فقط حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین ؓ ہیں۔ ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : واغرقنا ال فرعون (البقرہ :50) اور یہ ارشاد ہے : ادخلوا ال فرعون اشد العذاب۔ (غافر) یعنی آل سے مراد اس کے دین کی آل ہیں جبکہ انہیں اس کے ساتھ بیٹا، بیٹی، چچا، بھائی اور عصبہ ہونے کا رشتہ نہ تھا اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو مومن، موحد نہیں وہ آل محمد ﷺ سے نہیں اگرچہ وہ آپ ﷺ کا قریبی بھی ہو۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ابو لہب اور ابو جہل آل نبی اور اہل نبی ﷺ میں سے نہیں تھے اگرچہ ان دونوں کا نبی کریم ﷺ سے رشتہ تھا۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوع (علیہ السلام) کے بیٹے کے بارے میں فرمایا : انہ لیس من اھلک انہ عملٌ غیر صالحٍ (ہود : 46) اور صحیح مسلم میں حضرت عمرو بن عاص سے مروی ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو بلند آواز سے یہ کہتے ہوئے سنا : خبردار ! آل ابی۔۔۔۔ یعنی فلان۔۔۔۔ میرے اولیاء نہیں ہیں میرا مددگار اللہ تعالیٰ اور نیک مومنین ہیں (1) ۔ ایک طائفہ نے کہا : آل سے مراد حضرت ﷺ کی ازواج مطہرات اور آپ کی اولاد ہے۔ کیونکہ حضرت ابو حمید کی حدیث میں ہے، لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس طرح کہو : اللھم صل علی محمد و علی ازواجہ وذریتہ کما صلیت علی ال ابراہیم وبارک علی محمد وعلی ازواجہ وذریتہ کما بارکت علی آل ابراھیم انک حمید مجید (2) ۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ اہل علم کے ایک گروہ نے کہا : اہل معلوم ہیں اور آل سے مراد متبعین ہیں۔ پہلا قول صحیح ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے اور حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی کی حدیث کی وجہ سے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کوئی قوم صدقہ لے کر آتی تو آپ ﷺ دعا فرماتے : اللھم صلی علیھم۔ میرا باپ صدقہ لے کر آیا تو یہ دعا دی اللھم صلی علی ال ابی اوفیٰ (3) ۔ مسئلہ نمبر 3: علمائے نحو کا اس میں اختلاف ہے کہ آل کو شہروں کی طرف مضاف کیا جائے گا یا نہیں۔ کسائی نے کہا : کہا جاتا ہے : آل فلان، آل فلانۃ، یہ نہیں کہا جاتا : ھو من ال حمص، اور نہ یہ کہا جاتا ہے : من ال المدینہ۔ اخفش نے کہا : رئیس اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے : جیسے آل محمد ﷺ ۔ آل فرعون۔ کیونکہ فرعون گمراہی میں ان کا رئیس تھا۔ اخفش نے کہا : ہم نے شہروں کے بارے میں سنا، وہ کہتے ہیں : اھل المدینہ، آل المدینہ۔ مسئلہ نمبر 4: نحویوں کا اختلاف ہے کہ آل کو ضمیر کی طرف مضاف کیا جائے گا یا نہیں۔ نحاس، زبیدی اور کسائی نے اس سے منع کیا ہے۔ پس صرف یہ کہا جائے گا : اللھم صل علی محمدٍ وآل محمدٍ ﷺ والہ نہیں کہا جائے گا۔ درست یہ ہے کہ یہ کہا جائے گا : اھلہ۔ علماء کے ایک طائفہ کا خیال ہے کہ آلہ کہا جائے گا ان علماء میں سے ابن السید بھی ہے اور یہ قول صحیح ہے کیونکہ سماع صحیح اس کی تائید کرتا ہے۔ عبد المطلب کے قول میں ہے : لا ھم ان العبد یم نع رحلہ فامنع حلالک وانصر علی آل الصلیہ بو عابدیہ الیوم آلک ان اشعار میں آل کو ضمیر کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ ندبہ نے کہا تھا : أنا الفارس الحامی حقیقۃ والدی وآلی کما تحمی حقیقۃ آلکا میں شہسوار ہوں اپنے والد کی عزت وجان کی حفاظت کرنے والا ہوں اور اپنی آل کی حفاظت کرنے والا ہوں جس طرح تمہاری آل کی عزت وجان کی حفاظت کرنے والا ہوں۔ مسئلہ نمبر 5: آل کی اصل میں علمائے نحو کا اختلاف ہے۔ نحاس نے کہا : اس کی اصل اھل ہے پھر ھاء کو الف سے بدلا گیا۔ اگر تو اس کی تصغیر بنائے گا تو اس کو اصل کی طرف لوٹائے گا۔ تو کہے گا : اھیل۔ مہدوی نے کہا : اس کی اصل اول ہے۔ بعض نے فرمایا : اصل اھل تھا ھاء کو ہمزہ سے قلب کیا گیا پھر ہمزہ کو الف سے بدلا گیا۔ اس کی جمع آلون ہے، اس کی تصغیر اویل ہے جیسا کہ نسائی نے بیان کیا ہے دوسرے لوگوں نے اھیل حکایت کیا ہے ہم نے نحاس سے یہ ذکر کیا ہے۔ ابو الحسن بن کیسان نے کہا : جب تو الا کی جمع بنائے گا تو کہے گا آلون اور جب تو الا کی جمع بنائے گا جس کا معنی سراب ہے تو تو کہے گا آوال، جیسے مال کی جمع اموال ہے۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فرعون بعض علماء نے فرمایا : اس بادشاہ کا نام ہی فرعون تھا۔ بعض نے فرمایا : عمالقہ کے بادشاہوں میں سے ہر بادشاہ کا اسم فرعون تھا۔ جیسے فارس کے بادشاہ کا لقب کسریٰ ہوتا ہے روم کے بادشاہ کا اسم قیصر ہوتا ہے حبشہ کے بادشاہ کا اسم نجاشی ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کے فرعون کا اسم قابوس تھا۔ اہل کتاب کے قول کے مطابق وہب نے کہا : اس کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا اس کی کنیت ابو مرہ تھی۔ وہ بنی عملیق بن لاوذ بن ارم بن سام بن نوح (علیہ السلام) سے تھا۔ سہیلی نے کہا : ہر شخص جو قبطیوں اور مصر کا والی بنا وہ فرعون کہلاتا تھا۔ فرعون اہل اصطخر میں سے فارسی تھا۔ مسعودی نے کہا : فرعون کی عربی میں تفسیر معروف نہیں۔ جو ہری نے کہا : فرعون، ولید بن معصب بادشاہ مصر کا لقب ہے۔ ہر سرکش فرعون ہے، العتاۃ، فراعنہ، قد تفرعن، وھو ذو فرعنہ، یعنی سازشی اور انکاری۔ حدیث پاک میں ہے : اخذنا فرعون ھذہ الامۃ ہم نے اس امت کے فرعون کو پکڑا۔ اس آیت میں فرعون حالت جری میں ہے لیکن عجمہ ہونے کی وجہ سے غیر منصرف ہے۔ مسئلہ نمبر 7: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یسومونکم بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے : وہ تمہیں چکھاتے ہیں۔ تم پر عذاب کو لازم کرتے ہیں، ابو عبیدہ نے کہا : وہ تمہیں مستحق قرار دیتے ہیں، کہا جاتا ہے : سامہ خطۃ خسفٍ ۔ جب کسی ذلت کا مستحق قرار دیا جائے، اسی سے عمرو بن کلثوم کا قول ہے : اذا ما الملک سام الناس خسفاً ابینا ان نقر الخسف فینا جب بادشاہ نے لوگوں کو ذلیل کیا تو ہم نے اپنے اندر ذلت کے ٹھہرائے جانے کا انکار کیا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے تمہیں ہمیشہ دیتے ہیں۔ السوم کا معنی دوام بھی ہے۔ اسی سے سائمۃ الغنم ہے جو ہمیشہ چرنے والی ہوتی ہیں۔ اخفش نے کہا : یہ محل رفع میں ہے کیونکہ یہ نیا کلام ہے۔ اگر تو چاہے تو اسے حال کی حیثیت سے محل نصب میں کر دے۔ یعنی سائمین لکم۔ مسئلہ نمبر 8: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سوء العذاب۔ یہ یسومونکم کا مفعول ثانی ہے، اس کا معنی سخت عذاب ہے اور سوم العذاب کے معنی میں ہونا بھی جائز ہے اور اس کا سو ما سیئًا کے معنی میں نعت ہونا بھی جائز ہے۔ روایت ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو خدام اور اپنے ماتحت کردیا تھا اور ان میں اپنے کام تقسیم کر دئیے تھے۔ کچھ لوگ مکانات بناتے تھے، کچھ کھیتی باڑی کرتے تھے، کچھ خدمت کرتے تھے۔ اور فرعون کی قوم لشکر اور حکمران تھی اور بنی اسرائیل میں سے جس کا کوئی کام نہ تھا ان پر جزیہ لگایا گیا تھا اور یہی سوء العذاب سے مراد ہے۔ مسئلہ نمبر 9: یذبحون ابناء کم یہ یسو مونکم سے بدل ہونے کی بنا پر بغیر واو عطف کے ہے۔ جیسا سیبویہ نے کہا اور اس شعر سے استشہاد کیا ہے : متی تاتنا تلمم بنا فی دیارنا تجد حطبا جزلا وناراً تأججا جب ہمارے پاس آئے گا ہمارے شہروں میں اترے گا تو بہت زیادہ لکڑیاں روشن آگ پائے گی۔ فراء وغیرہ نے کہا : یذبحون بغیر واو کے یسومونکم کی تفسیر کے طور پر ہے جیسے تو کہتا ہے : اتانی القوم زید وعمرو۔ پس تفسیر کی بنا پر زید سے پہلے واو کی ضرورت نہیں۔ اس کی مثال یہ بھی ہے : ومن یفعل ذلک یلق اثاماً ۔ یضعف لہ العذاب (فرقان) اور سورة ابراہیم میں ویذبحون واو کے ساتھ ہے کیونکہ معنی یہ ہے کہ وہ تمہیں ذبح اور بغیر ذبح کے عذاب دیتے ہیں، پس یذبحون ابناء کم عذاب کی دوسری جنس ہے، ما قبل کی تفسیر نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : اس میں یہ احتمال ہے کہ اس میں واو زائدہ ہو۔ اس کی دلیل سورة بقرہ کی آیت ہے کبھی واو زائدہ بھی ہوتی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : فلما اجزنا ساحۃ الحی وانتحیٰ اس مصرعہ میں واو زائدہ ہے۔ مراد قد انتحیٰ ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : الی الملک القوم وابن الھمام ولیث الکتیبۃ فی المزدحم یہاں بھی الملک القرم، ابن الھمام، لیث الکتیبہ، سے ایک ہی مراد ہے۔ یہ اکثر ہوتا رہتا ہے۔ مسئلہ نمبر 10: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یذبحون اکثر قراء شد کے ساتھ پڑھتے ہیں کثرت کا معنی لینے کی بنا پر۔ ابن محیص نے یا کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ الذبح کا معنی الشق (چیرنا) ہے۔ الذبح سے مراد مذبوح (ذبح کیا گیا) ہے۔ الذباح، انگلیوں کی جڑوں میں پھٹن ہوجانا۔ ذبحت الدن میں نے مٹکے میں سوراخ کردیا۔ سعد الزابح ایک سعادت مند۔ المذابح۔ محاریب، المذابح، مذبح کی جمع۔ جب سیلاب آجائے اور زمین کو شق کر دے، تو جو شق بالشت بھر ہو اسے مذبح کہا جاتا ہے۔ فرعون بچوں کو ذبح کرتا تھا اور بچیوں کو باقی رکھتا تھا۔ بچیوں کو مال کے اعتبار سے نساء کے نام سے تعبیر فرمایا ہے۔ ایک جماعت نے کہا : یذبحون ابناء کم یعنی مردوں کو ذبح کرتے ہیں انہیں بیٹے کہا گیا جب وہ اسی طرح تھے۔ انباء سے مراد مرد لینے والوں نے نساء کم سے دلیل پکڑی ہے، پہلا قول اصح ہے کیونکہ یہ ظاہر ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 11: اللہ تعالیٰ نے فعل کو آل فرعون کی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ وہ فرعون کے حکم سے یہ کرتے تھے، چونکہ یہ کام ان کے سپرد تھا، اس لئے فعل کی نسبت ان کی طرف کی۔ نیز اس لئے تاکہ معلوم ہوجائے کہ کام کرنے والا اپنے کام کی وجہ سے مؤاخذہ کا حقدار ہوگا۔ طبری نے کہا : یہ ارشاد تقاضا کرتا ہے کہ جس کو کسی ظالم نے کسی کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اس نے اسے قتل کردیا تو اس سے مؤاخذہ ہوگا۔ میں کہتا ہوں : علماء کے اس مسئلہ میں تین اقوال ہیں : دونوں کو قتل کیا جائے گا۔ ظالم حکم دینے کی وجہ سے اور مامور قتل کرنے کی وجہ سے۔ نخعی نے اسی طرح کہا ہے۔ امام شافعی اور امام مالک کا قول بھی یہی ہے مگر قدرے تفصیل کے ساتھ۔ امام شافعی نے فرمایا : جب سلطان کسی کو دوسرے شخص کو قتل کا حکم دے جبکہ مامور (جس کو حکم دیا گیا) جانتا ہو کہ اس نے اسے ظلماً قتل کرنے کا حکم دیا ہے، مامور اور امام دونوں پر قصاص ہوگا جیسے دونوں اکٹھا قتل کرنے والے ہوتے ہیں۔ اگر امام، مامور کو اس کے قتل پر مجبور کرے اور وہ جانتا ہو کہ وہ اسے ظلماً قتل کروا رہا ہے تو صرف امام پر قصاص ہوگا اور مامور کے بارے میں دو قول ہیں : ایک یہ کہ اس پر قصاص ہوگا اور دوسرا یہ کہ اس پر قصاص نہ ہوگا اور اس پر نصف دیت ہوگی۔ یہ ابن منذر نے بیان کیا ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : مامور کی یا تو یہ کیفیت ہوگی کہ اس پر آمر کی اطاعت لازم ہوگی اور وہ امام کے شر سے خوفزدہ ہوگا جیسے سلطان اور سردار اپنے غلام کے لئے۔ پس اس صورت میں قصاص دونوں کو لازم ہوگا یا ایسا ہوگا کہ اس پر حکم دینے والے کی اطاعت لازم نہ ہوگی، تو اس صورت میں صرف قتل کرنے والے کو قتل کیا جائے گا حکم دینے والے کو نہیں جیسے باپ اپنے بیٹے کو یا استاد کسی لڑکے کو یا کاریگر اپنے شاگرد کو حکم دے جب کہ وہ بالغ ہو۔ اگر وہ بالغ نہ ہو تو قتل حکم دینے والے پر ہوگا اور بچے کی عاقلہ پر نصف دیت ہوگی۔ ابن نافع نے کہا : مالک کو قتل نہیں کیا جائے گا جب وہ اپنے غلام کو کسی انسان کے قتل کا حکم دے اگرچہ وہ غلام عجمی بھی ہو۔ ابن حبیب نے کہا : میں ابن القاسم کے قول کے مطابق کہتا ہوں کہ دونوں کو قتل کیا جائے گا۔ اگر ایسے شخص نے حکم دیا جس کی مخالفت میں مامور پر کوئی خوف نہیں ہے تو وہ اکراہ (مجبور کرنے) کے ساتھ لاحق نہیں ہوگا بلکہ مامور کو قتل کیا جائے گا آمر کو نہیں اور آمر کو سزا دی جائے گی اور قید کیا جائے گا۔ امام احمد نے اس سردار کے بارے میں فرمایا جو اپنے غلام کو حکم دیتا ہے کہ وہ کسی کو قتل کرے، تو سردار کو قتل کیا جائے گا۔ یہ قول حضرت علی ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : غلام کو قید میں رکھا جائے گا۔ امام احمد نے فرمایا : غلام کو قید کیا جائے گا اور اسے مارا جائے گا اور ادب سکھایا جائے گا۔ ثوری نے کہا : سردار کو تعزیر لگائی جائے گی۔ حکم اور حماد نے کہا : غلام کو قتل کیا جائے گا۔ قتادہ نے کہا : دونوں کو قتل کیا جائے گا۔ امام شافعی نے فرمایا : اگر غلام فصیح تھا، سمجھدار تھا تو اسے قتل کیا جائے گا اور مالک کو سزا دی جائے گی اگر غلام عجمی تھا تو سردار پر قصاص ہوگا۔ سلیمان بن موسیٰ نے کہا : آمر کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے پھر اسے سزا دی جائے گی اور اسے قید کیا جائے گا۔ یہ ودسرا قول ہے۔ مامور کو قتل کیا جائے گا کیونکہ اس نے قتل کا فعل کیا ہے۔ اسی طرح عطا، حکم، حماد، شافعی، احمد اور اسحاق نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو کسی کو دوسرے شخص کا حکم دیتا ہے۔ یہ ابن منذر نے ذکر کیا ہے۔ امام زفر نے کہا : ان میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کیا جائے گا۔ یہ تیسرا قول ہے۔ ابو المعالی نے “ البرہان ” میں بیان فرمایا ہے : ان کا خیال ہے کہ آمر اور مباشران میں سے کوئی قصاص میں مستقل نہیں ہے اسی وجہ سے ان کے نزدیک کسی کو بھی قتل نہیں کیا جائے گا۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 12: جمہور نے یذبحون مبالغہ کے لئے شد کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابن محیص نے یذبحون تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ پہلا اولیٰ ہے کیونکہ ذبح میں تکرار تھا۔ فرعون نے خواب میں دیکھا کہ ایک آگ بیت المقدس سے نکلی ہے اور اس نے مصر کے گھروں کو جلادیا ہے۔ اس کے خواب کی یہ تعبیر بتائی گئی کہ بنی اسرائیل سے ایک بچہ بڑا ہوگا، اس کے ہاتھوں فرعون کا ملک تباہ ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں جو قریب المعنی ہے۔ مسئلہ نمبر 13: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وفی ذلکم یہ تمام امور کی طرف اشارہ ہے کیونکہ وہ خبر ہے وہ مفرد حاضر کی طرح ہے یعنی ان کے اس فعل میں تمہارے لئے آزمائش وامتحان ہے۔ بلاءٌ اس سے مراد نعمت ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ولیبلی المؤمنین منہ بلاءٌ حسناً (انفال : 17) (تا کہ احسان فرمائے مومنوں پر اپنی جناب سے بہترین احسان) ابو الہیثم نے کہا : بلا کبھی اچھی ہوتی ہے کبھی بری۔ اس کا اصل معنی المحنۃ، (آزمانا) ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اچھے عمل کے ساتھ آزماتا ہے تاکہ وہ اس کے شکر کا امتحان لے۔ کبھی کسی ناپسندیدہ مصیبت سے آزماتا ہے تاکہ اس کے صبر کا امتحان لے۔ بعض علماء نے فرمایا : اچھائی کے لئے بلاءٌ اور برائی کے لئے بلاء یہ ہر وی نے حکایت کیا ہے۔ ایک قوم نے فرمایا : ذلکم کا اشارہ نجات دینے کی طرف ہے تو اس صورت میں بلا خیر میں ہوگا، یعنی تمہیں نجات دینا تم پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ جمہور علماء نے کہا : اشارہ ذبح وغیرہ کی طرف ہے اور البلاء یہاں شر کے معنی میں ہے۔ معنی یہ ہے : ذبح میں مکروہ اور امتحان ہے۔ ابن کیسان نے کہا : خیر کے لئے فعل ابلاہ اللہ وبلاہ استعمال ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا : جزی اللہ بالاحسان ما فعلا بکم وابلاھما خیر البلاء الذی یبلو اس شعر میں شاعر نے دونوں لغتوں کو جمع کیا ہے۔ اکثر خیر کے لئے ابلیتہ اور شر کے لئے بلوتہ اور آزمائش کے لئے ابتلیتہ وبلوتہ استعمال ہوتا ہے۔ یہ نحاس نے کہا ہے۔
Top