Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Baqara : 49
وَ اِذْ نَجَّیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ یُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ
وَاِذْ
: اور جب
نَجَّيْنَاكُمْ
: ہم نے تمہیں رہائی دی
مِنْ
: سے
آلِ فِرْعَوْنَ
: آل فرعون
يَسُوْمُوْنَكُمْ
: وہ تمہیں دکھ دیتے تھے
سُوْءَ
: برا
الْعَذَابِ
: عذاب
يُذَبِّحُوْنَ
: وہ ذبح کرتے تھے
اَبْنَآءَكُمْ
: تمہارے بیٹے
وَيَسْتَحْيُوْنَ
: اور زندہ چھوڑ دیتے تھے
نِسَآءَكُمْ
: تمہاری عورتیں
وَفِیْ ذَٰلِكُمْ
: اور اس میں
بَلَاءٌ
: آزمائش
مِنْ
: سے
رَبِّكُمْ
: تمہارا رب
عَظِیْمٌ
: بڑی
اور (ہمارے ان احسانات کو یاد کرو) جب ہم نے تم کو قوم فرعون سے مخلصی بخشی وہ (لوگ) تم کو بڑا دکھ دیتے تھے۔ تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر ڈالتے تھے اور بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور اس میں تمہارے پروردگار کی طرف سے بڑی (سخت) آزمائش تھی
آیت
49
اس آیت میں تیرہ مسائل ہیں۔ مسئلہ نمبر
1
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : واذ نجینکم من ال فرعون، اذ حالت نصب میں ہے۔ اس کا اذ کروا نعمتی پر عطف ہے۔ یہ اور بعد والی آیات میں بنی اسرائیل کو وہ بعض نعمتیں یاد دلا نا ہے جو ان پر تھیں۔ یعنی تم میری نعمت کو یاد کرو کہ میں نے تمہیں دشمن سے نجات دی اور تم میں انبیاء بنائے۔ یہ خطاب موجودہ لوگوں کو ہے اور مرادان کے آباء ہیں۔ جیسا کہ فرمایا : انا لما طغا الماء حملنکم فی الجاریۃ۔ (الحاقہ) (یعنی ہم نے تمہارے آباء کو کشتی میں سوار کیا) بعض علماء نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : نجینکم کیونکہ آباء کی نجات، موجودہ لوگوں کی نجات کا سبب تھی اور نجینکم کا معنی ہے ہم نے تمہیں زمین کی اونچی جگہ پر ڈالا، یہ اصل ہے پھر ہر کامیاب ہونے والے کو ناجی کہا گیا۔ پس ناجی وہ ہوتا ہے جو تنگی سے خوشحالی کی طرف نکلتا ہے اسے اذا نجیتکم بھی پڑھا گیا ہے۔ مسئلہ نمبر
2
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : من ال فرعون، ال فرعون سے مراد اس کی قوم، اس کے متبعین اور اس کے دین کے پیروکار ہیں۔ اسی طرح آل رسول جو نبی کریم ﷺ کے دین، آپ کی ملت پر تھے کسی زمانہ میں بھی ہوں، خواہ ان کا نسبی تعلق ہو یا نہ ہو، اور جو آپ کے دین اور ملت پر نہ ہو وہ آپ کے اہل اور آل سے نہیں ہے اگرچہ اس کا نسبی اور قربت کا تعلق موجود بھی ہو۔ رافضیوں کا قول اس کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں : آل رسول فقط حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین ؓ ہیں۔ ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے : واغرقنا ال فرعون (البقرہ :
50
) اور یہ ارشاد ہے : ادخلوا ال فرعون اشد العذاب۔ (غافر) یعنی آل سے مراد اس کے دین کی آل ہیں جبکہ انہیں اس کے ساتھ بیٹا، بیٹی، چچا، بھائی اور عصبہ ہونے کا رشتہ نہ تھا اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو مومن، موحد نہیں وہ آل محمد ﷺ سے نہیں اگرچہ وہ آپ ﷺ کا قریبی بھی ہو۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ ابو لہب اور ابو جہل آل نبی اور اہل نبی ﷺ میں سے نہیں تھے اگرچہ ان دونوں کا نبی کریم ﷺ سے رشتہ تھا۔ اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوع (علیہ السلام) کے بیٹے کے بارے میں فرمایا : انہ لیس من اھلک انہ عملٌ غیر صالحٍ (ہود :
46
) اور صحیح مسلم میں حضرت عمرو بن عاص سے مروی ہے، فرمایا : میں نے رسول اللہ ﷺ کو بلند آواز سے یہ کہتے ہوئے سنا : خبردار ! آل ابی۔۔۔۔ یعنی فلان۔۔۔۔ میرے اولیاء نہیں ہیں میرا مددگار اللہ تعالیٰ اور نیک مومنین ہیں (
1
) ۔ ایک طائفہ نے کہا : آل سے مراد حضرت ﷺ کی ازواج مطہرات اور آپ کی اولاد ہے۔ کیونکہ حضرت ابو حمید کی حدیث میں ہے، لوگوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ﷺ ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اس طرح کہو : اللھم صل علی محمد و علی ازواجہ وذریتہ کما صلیت علی ال ابراہیم وبارک علی محمد وعلی ازواجہ وذریتہ کما بارکت علی آل ابراھیم انک حمید مجید (
2
) ۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ اہل علم کے ایک گروہ نے کہا : اہل معلوم ہیں اور آل سے مراد متبعین ہیں۔ پہلا قول صحیح ہے جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے اور حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی کی حدیث کی وجہ سے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس جب کوئی قوم صدقہ لے کر آتی تو آپ ﷺ دعا فرماتے : اللھم صلی علیھم۔ میرا باپ صدقہ لے کر آیا تو یہ دعا دی اللھم صلی علی ال ابی اوفیٰ (
3
) ۔ مسئلہ نمبر
3
: علمائے نحو کا اس میں اختلاف ہے کہ آل کو شہروں کی طرف مضاف کیا جائے گا یا نہیں۔ کسائی نے کہا : کہا جاتا ہے : آل فلان، آل فلانۃ، یہ نہیں کہا جاتا : ھو من ال حمص، اور نہ یہ کہا جاتا ہے : من ال المدینہ۔ اخفش نے کہا : رئیس اعظم کے بارے میں کہا جاتا ہے : جیسے آل محمد ﷺ ۔ آل فرعون۔ کیونکہ فرعون گمراہی میں ان کا رئیس تھا۔ اخفش نے کہا : ہم نے شہروں کے بارے میں سنا، وہ کہتے ہیں : اھل المدینہ، آل المدینہ۔ مسئلہ نمبر
4
: نحویوں کا اختلاف ہے کہ آل کو ضمیر کی طرف مضاف کیا جائے گا یا نہیں۔ نحاس، زبیدی اور کسائی نے اس سے منع کیا ہے۔ پس صرف یہ کہا جائے گا : اللھم صل علی محمدٍ وآل محمدٍ ﷺ والہ نہیں کہا جائے گا۔ درست یہ ہے کہ یہ کہا جائے گا : اھلہ۔ علماء کے ایک طائفہ کا خیال ہے کہ آلہ کہا جائے گا ان علماء میں سے ابن السید بھی ہے اور یہ قول صحیح ہے کیونکہ سماع صحیح اس کی تائید کرتا ہے۔ عبد المطلب کے قول میں ہے : لا ھم ان العبد یم نع رحلہ فامنع حلالک وانصر علی آل الصلیہ بو عابدیہ الیوم آلک ان اشعار میں آل کو ضمیر کی طرف مضاف کیا گیا ہے۔ ندبہ نے کہا تھا : أنا الفارس الحامی حقیقۃ والدی وآلی کما تحمی حقیقۃ آلکا میں شہسوار ہوں اپنے والد کی عزت وجان کی حفاظت کرنے والا ہوں اور اپنی آل کی حفاظت کرنے والا ہوں جس طرح تمہاری آل کی عزت وجان کی حفاظت کرنے والا ہوں۔ مسئلہ نمبر
5
: آل کی اصل میں علمائے نحو کا اختلاف ہے۔ نحاس نے کہا : اس کی اصل اھل ہے پھر ھاء کو الف سے بدلا گیا۔ اگر تو اس کی تصغیر بنائے گا تو اس کو اصل کی طرف لوٹائے گا۔ تو کہے گا : اھیل۔ مہدوی نے کہا : اس کی اصل اول ہے۔ بعض نے فرمایا : اصل اھل تھا ھاء کو ہمزہ سے قلب کیا گیا پھر ہمزہ کو الف سے بدلا گیا۔ اس کی جمع آلون ہے، اس کی تصغیر اویل ہے جیسا کہ نسائی نے بیان کیا ہے دوسرے لوگوں نے اھیل حکایت کیا ہے ہم نے نحاس سے یہ ذکر کیا ہے۔ ابو الحسن بن کیسان نے کہا : جب تو الا کی جمع بنائے گا تو کہے گا آلون اور جب تو الا کی جمع بنائے گا جس کا معنی سراب ہے تو تو کہے گا آوال، جیسے مال کی جمع اموال ہے۔ مسئلہ نمبر
6
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فرعون بعض علماء نے فرمایا : اس بادشاہ کا نام ہی فرعون تھا۔ بعض نے فرمایا : عمالقہ کے بادشاہوں میں سے ہر بادشاہ کا اسم فرعون تھا۔ جیسے فارس کے بادشاہ کا لقب کسریٰ ہوتا ہے روم کے بادشاہ کا اسم قیصر ہوتا ہے حبشہ کے بادشاہ کا اسم نجاشی ہوتا ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ کے فرعون کا اسم قابوس تھا۔ اہل کتاب کے قول کے مطابق وہب نے کہا : اس کا نام ولید بن مصعب بن ریان تھا اس کی کنیت ابو مرہ تھی۔ وہ بنی عملیق بن لاوذ بن ارم بن سام بن نوح (علیہ السلام) سے تھا۔ سہیلی نے کہا : ہر شخص جو قبطیوں اور مصر کا والی بنا وہ فرعون کہلاتا تھا۔ فرعون اہل اصطخر میں سے فارسی تھا۔ مسعودی نے کہا : فرعون کی عربی میں تفسیر معروف نہیں۔ جو ہری نے کہا : فرعون، ولید بن معصب بادشاہ مصر کا لقب ہے۔ ہر سرکش فرعون ہے، العتاۃ، فراعنہ، قد تفرعن، وھو ذو فرعنہ، یعنی سازشی اور انکاری۔ حدیث پاک میں ہے : اخذنا فرعون ھذہ الامۃ ہم نے اس امت کے فرعون کو پکڑا۔ اس آیت میں فرعون حالت جری میں ہے لیکن عجمہ ہونے کی وجہ سے غیر منصرف ہے۔ مسئلہ نمبر
7
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یسومونکم بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے : وہ تمہیں چکھاتے ہیں۔ تم پر عذاب کو لازم کرتے ہیں، ابو عبیدہ نے کہا : وہ تمہیں مستحق قرار دیتے ہیں، کہا جاتا ہے : سامہ خطۃ خسفٍ ۔ جب کسی ذلت کا مستحق قرار دیا جائے، اسی سے عمرو بن کلثوم کا قول ہے : اذا ما الملک سام الناس خسفاً ابینا ان نقر الخسف فینا جب بادشاہ نے لوگوں کو ذلیل کیا تو ہم نے اپنے اندر ذلت کے ٹھہرائے جانے کا انکار کیا۔ بعض علماء نے فرمایا : اس کا معنی ہے تمہیں ہمیشہ دیتے ہیں۔ السوم کا معنی دوام بھی ہے۔ اسی سے سائمۃ الغنم ہے جو ہمیشہ چرنے والی ہوتی ہیں۔ اخفش نے کہا : یہ محل رفع میں ہے کیونکہ یہ نیا کلام ہے۔ اگر تو چاہے تو اسے حال کی حیثیت سے محل نصب میں کر دے۔ یعنی سائمین لکم۔ مسئلہ نمبر
8
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سوء العذاب۔ یہ یسومونکم کا مفعول ثانی ہے، اس کا معنی سخت عذاب ہے اور سوم العذاب کے معنی میں ہونا بھی جائز ہے اور اس کا سو ما سیئًا کے معنی میں نعت ہونا بھی جائز ہے۔ روایت ہے کہ فرعون نے بنی اسرائیل کو خدام اور اپنے ماتحت کردیا تھا اور ان میں اپنے کام تقسیم کر دئیے تھے۔ کچھ لوگ مکانات بناتے تھے، کچھ کھیتی باڑی کرتے تھے، کچھ خدمت کرتے تھے۔ اور فرعون کی قوم لشکر اور حکمران تھی اور بنی اسرائیل میں سے جس کا کوئی کام نہ تھا ان پر جزیہ لگایا گیا تھا اور یہی سوء العذاب سے مراد ہے۔ مسئلہ نمبر
9
: یذبحون ابناء کم یہ یسو مونکم سے بدل ہونے کی بنا پر بغیر واو عطف کے ہے۔ جیسا سیبویہ نے کہا اور اس شعر سے استشہاد کیا ہے : متی تاتنا تلمم بنا فی دیارنا تجد حطبا جزلا وناراً تأججا جب ہمارے پاس آئے گا ہمارے شہروں میں اترے گا تو بہت زیادہ لکڑیاں روشن آگ پائے گی۔ فراء وغیرہ نے کہا : یذبحون بغیر واو کے یسومونکم کی تفسیر کے طور پر ہے جیسے تو کہتا ہے : اتانی القوم زید وعمرو۔ پس تفسیر کی بنا پر زید سے پہلے واو کی ضرورت نہیں۔ اس کی مثال یہ بھی ہے : ومن یفعل ذلک یلق اثاماً ۔ یضعف لہ العذاب (فرقان) اور سورة ابراہیم میں ویذبحون واو کے ساتھ ہے کیونکہ معنی یہ ہے کہ وہ تمہیں ذبح اور بغیر ذبح کے عذاب دیتے ہیں، پس یذبحون ابناء کم عذاب کی دوسری جنس ہے، ما قبل کی تفسیر نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں : اس میں یہ احتمال ہے کہ اس میں واو زائدہ ہو۔ اس کی دلیل سورة بقرہ کی آیت ہے کبھی واو زائدہ بھی ہوتی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا : فلما اجزنا ساحۃ الحی وانتحیٰ اس مصرعہ میں واو زائدہ ہے۔ مراد قد انتحیٰ ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : الی الملک القوم وابن الھمام ولیث الکتیبۃ فی المزدحم یہاں بھی الملک القرم، ابن الھمام، لیث الکتیبہ، سے ایک ہی مراد ہے۔ یہ اکثر ہوتا رہتا ہے۔ مسئلہ نمبر
10
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یذبحون اکثر قراء شد کے ساتھ پڑھتے ہیں کثرت کا معنی لینے کی بنا پر۔ ابن محیص نے یا کے فتحہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ الذبح کا معنی الشق (چیرنا) ہے۔ الذبح سے مراد مذبوح (ذبح کیا گیا) ہے۔ الذباح، انگلیوں کی جڑوں میں پھٹن ہوجانا۔ ذبحت الدن میں نے مٹکے میں سوراخ کردیا۔ سعد الزابح ایک سعادت مند۔ المذابح۔ محاریب، المذابح، مذبح کی جمع۔ جب سیلاب آجائے اور زمین کو شق کر دے، تو جو شق بالشت بھر ہو اسے مذبح کہا جاتا ہے۔ فرعون بچوں کو ذبح کرتا تھا اور بچیوں کو باقی رکھتا تھا۔ بچیوں کو مال کے اعتبار سے نساء کے نام سے تعبیر فرمایا ہے۔ ایک جماعت نے کہا : یذبحون ابناء کم یعنی مردوں کو ذبح کرتے ہیں انہیں بیٹے کہا گیا جب وہ اسی طرح تھے۔ انباء سے مراد مرد لینے والوں نے نساء کم سے دلیل پکڑی ہے، پہلا قول اصح ہے کیونکہ یہ ظاہر ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر
11
: اللہ تعالیٰ نے فعل کو آل فرعون کی طرف منسوب کیا ہے کیونکہ وہ فرعون کے حکم سے یہ کرتے تھے، چونکہ یہ کام ان کے سپرد تھا، اس لئے فعل کی نسبت ان کی طرف کی۔ نیز اس لئے تاکہ معلوم ہوجائے کہ کام کرنے والا اپنے کام کی وجہ سے مؤاخذہ کا حقدار ہوگا۔ طبری نے کہا : یہ ارشاد تقاضا کرتا ہے کہ جس کو کسی ظالم نے کسی کو قتل کرنے کا حکم دیا اور اس نے اسے قتل کردیا تو اس سے مؤاخذہ ہوگا۔ میں کہتا ہوں : علماء کے اس مسئلہ میں تین اقوال ہیں : دونوں کو قتل کیا جائے گا۔ ظالم حکم دینے کی وجہ سے اور مامور قتل کرنے کی وجہ سے۔ نخعی نے اسی طرح کہا ہے۔ امام شافعی اور امام مالک کا قول بھی یہی ہے مگر قدرے تفصیل کے ساتھ۔ امام شافعی نے فرمایا : جب سلطان کسی کو دوسرے شخص کو قتل کا حکم دے جبکہ مامور (جس کو حکم دیا گیا) جانتا ہو کہ اس نے اسے ظلماً قتل کرنے کا حکم دیا ہے، مامور اور امام دونوں پر قصاص ہوگا جیسے دونوں اکٹھا قتل کرنے والے ہوتے ہیں۔ اگر امام، مامور کو اس کے قتل پر مجبور کرے اور وہ جانتا ہو کہ وہ اسے ظلماً قتل کروا رہا ہے تو صرف امام پر قصاص ہوگا اور مامور کے بارے میں دو قول ہیں : ایک یہ کہ اس پر قصاص ہوگا اور دوسرا یہ کہ اس پر قصاص نہ ہوگا اور اس پر نصف دیت ہوگی۔ یہ ابن منذر نے بیان کیا ہے۔ ہمارے علماء نے فرمایا : مامور کی یا تو یہ کیفیت ہوگی کہ اس پر آمر کی اطاعت لازم ہوگی اور وہ امام کے شر سے خوفزدہ ہوگا جیسے سلطان اور سردار اپنے غلام کے لئے۔ پس اس صورت میں قصاص دونوں کو لازم ہوگا یا ایسا ہوگا کہ اس پر حکم دینے والے کی اطاعت لازم نہ ہوگی، تو اس صورت میں صرف قتل کرنے والے کو قتل کیا جائے گا حکم دینے والے کو نہیں جیسے باپ اپنے بیٹے کو یا استاد کسی لڑکے کو یا کاریگر اپنے شاگرد کو حکم دے جب کہ وہ بالغ ہو۔ اگر وہ بالغ نہ ہو تو قتل حکم دینے والے پر ہوگا اور بچے کی عاقلہ پر نصف دیت ہوگی۔ ابن نافع نے کہا : مالک کو قتل نہیں کیا جائے گا جب وہ اپنے غلام کو کسی انسان کے قتل کا حکم دے اگرچہ وہ غلام عجمی بھی ہو۔ ابن حبیب نے کہا : میں ابن القاسم کے قول کے مطابق کہتا ہوں کہ دونوں کو قتل کیا جائے گا۔ اگر ایسے شخص نے حکم دیا جس کی مخالفت میں مامور پر کوئی خوف نہیں ہے تو وہ اکراہ (مجبور کرنے) کے ساتھ لاحق نہیں ہوگا بلکہ مامور کو قتل کیا جائے گا آمر کو نہیں اور آمر کو سزا دی جائے گی اور قید کیا جائے گا۔ امام احمد نے اس سردار کے بارے میں فرمایا جو اپنے غلام کو حکم دیتا ہے کہ وہ کسی کو قتل کرے، تو سردار کو قتل کیا جائے گا۔ یہ قول حضرت علی ؓ اور حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا : غلام کو قید میں رکھا جائے گا۔ امام احمد نے فرمایا : غلام کو قید کیا جائے گا اور اسے مارا جائے گا اور ادب سکھایا جائے گا۔ ثوری نے کہا : سردار کو تعزیر لگائی جائے گی۔ حکم اور حماد نے کہا : غلام کو قتل کیا جائے گا۔ قتادہ نے کہا : دونوں کو قتل کیا جائے گا۔ امام شافعی نے فرمایا : اگر غلام فصیح تھا، سمجھدار تھا تو اسے قتل کیا جائے گا اور مالک کو سزا دی جائے گی اگر غلام عجمی تھا تو سردار پر قصاص ہوگا۔ سلیمان بن موسیٰ نے کہا : آمر کو قتل نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے پھر اسے سزا دی جائے گی اور اسے قید کیا جائے گا۔ یہ ودسرا قول ہے۔ مامور کو قتل کیا جائے گا کیونکہ اس نے قتل کا فعل کیا ہے۔ اسی طرح عطا، حکم، حماد، شافعی، احمد اور اسحاق نے اس شخص کے بارے میں فرمایا جو کسی کو دوسرے شخص کا حکم دیتا ہے۔ یہ ابن منذر نے ذکر کیا ہے۔ امام زفر نے کہا : ان میں سے کسی کو بھی قتل نہیں کیا جائے گا۔ یہ تیسرا قول ہے۔ ابو المعالی نے “ البرہان ” میں بیان فرمایا ہے : ان کا خیال ہے کہ آمر اور مباشران میں سے کوئی قصاص میں مستقل نہیں ہے اسی وجہ سے ان کے نزدیک کسی کو بھی قتل نہیں کیا جائے گا۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
12
: جمہور نے یذبحون مبالغہ کے لئے شد کے ساتھ پڑھا ہے۔ ابن محیص نے یذبحون تخفیف کے ساتھ پڑھا ہے۔ پہلا اولیٰ ہے کیونکہ ذبح میں تکرار تھا۔ فرعون نے خواب میں دیکھا کہ ایک آگ بیت المقدس سے نکلی ہے اور اس نے مصر کے گھروں کو جلادیا ہے۔ اس کے خواب کی یہ تعبیر بتائی گئی کہ بنی اسرائیل سے ایک بچہ بڑا ہوگا، اس کے ہاتھوں فرعون کا ملک تباہ ہوگا۔ اس کے علاوہ بھی اقوال ہیں جو قریب المعنی ہے۔ مسئلہ نمبر
13
: اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وفی ذلکم یہ تمام امور کی طرف اشارہ ہے کیونکہ وہ خبر ہے وہ مفرد حاضر کی طرح ہے یعنی ان کے اس فعل میں تمہارے لئے آزمائش وامتحان ہے۔ بلاءٌ اس سے مراد نعمت ہے۔ اسی سے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ولیبلی المؤمنین منہ بلاءٌ حسناً (انفال :
17
) (تا کہ احسان فرمائے مومنوں پر اپنی جناب سے بہترین احسان) ابو الہیثم نے کہا : بلا کبھی اچھی ہوتی ہے کبھی بری۔ اس کا اصل معنی المحنۃ، (آزمانا) ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو اچھے عمل کے ساتھ آزماتا ہے تاکہ وہ اس کے شکر کا امتحان لے۔ کبھی کسی ناپسندیدہ مصیبت سے آزماتا ہے تاکہ اس کے صبر کا امتحان لے۔ بعض علماء نے فرمایا : اچھائی کے لئے بلاءٌ اور برائی کے لئے بلاء یہ ہر وی نے حکایت کیا ہے۔ ایک قوم نے فرمایا : ذلکم کا اشارہ نجات دینے کی طرف ہے تو اس صورت میں بلا خیر میں ہوگا، یعنی تمہیں نجات دینا تم پر اللہ تعالیٰ کا انعام ہے۔ جمہور علماء نے کہا : اشارہ ذبح وغیرہ کی طرف ہے اور البلاء یہاں شر کے معنی میں ہے۔ معنی یہ ہے : ذبح میں مکروہ اور امتحان ہے۔ ابن کیسان نے کہا : خیر کے لئے فعل ابلاہ اللہ وبلاہ استعمال ہوتا ہے۔ شاعر نے کہا : جزی اللہ بالاحسان ما فعلا بکم وابلاھما خیر البلاء الذی یبلو اس شعر میں شاعر نے دونوں لغتوں کو جمع کیا ہے۔ اکثر خیر کے لئے ابلیتہ اور شر کے لئے بلوتہ اور آزمائش کے لئے ابتلیتہ وبلوتہ استعمال ہوتا ہے۔ یہ نحاس نے کہا ہے۔
Top