Al-Qurtubi - Aal-i-Imraan : 9
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ مَا هُمْ بِمُؤْمِنِیْنَۘ
وَمِنَ : اور سے النَّاسِ : لوگ مَنْ : جو يَقُولُ : کہتے ہیں آمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللہِ : اللہ پر وَ بالْيَوْمِ : اور دن پر الْآخِرِ : آخرت وَ مَا هُمْ : اور نہیں وہ بِمُؤْمِنِينَ : ایمان لانے والے
اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں حالانکہ وہ ایمان نہیں رکھتے
آیت نمبر 8 اس آیت میں سات مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: ابن جریج نے مجاہد سے روایت کیا ہے، فرمایا : سورة بقرہ میں مومنین کے بارے چار آیات نازل ہوئیں، دو آیات کافروں کے بارے نازل ہوئیں اور تیرہ آیات منافقین کے بارے نازل ہوئیں۔ اسباط نے سدی سے ومن الناس کے تحت روایت کیا ہے، فرمایا : اس سے مراد منافقین ہیں۔ علماء صوفیاء نے فرمایا : الناس اسم جنس ہے اور اسم جنس کے ساتھ اولیاء کو مخاطب نہیں کیا جاتا ہے۔ مسئلہ نمبر 2: لفظ الناس کے بارے میں نحویوں کا اختلاف ہے۔ بعض نے فرمایا : یہ اسماء جموع میں سے ایک اسم ہے یہ بغیر لفظ کے انسان اور انسانۃ کی جمع ہے اس کی تصغیر نویس ہے۔ الناس، النوس سے مشتق ہے جس کا معنی حرکت ہے۔ کہا جاتا ہے : ناس ینوس یعنی حرکت کرنا۔ اسی سے ام زرع کی حدیث ہے اناس من حلی اذنی (1) ۔ (زیورات سے میرے کانوں کو حرکت دی) بعض نے فرمایا : اس کی اصل نسی سے ہے۔ ناس کا اصل نسی ہے قلب ہوا ہے۔ پس نیس بن گیا یا مفتوح ما قبل فتح کی وجہ سے الف سے بدل گئی ہے پھر الف، لام داخل ہوا ہے، بعض نے فرمایا : اس کی اصل الناس ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : نسی آدم عھد اللہ فسمی انساناً ۔ (آدم (علیہ السلام) اللہ کا عہد بھول گئے تو انہیں انسان کیا گیا) ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : آدم (علیہ السلام) بھول گئے تو ان کی اولاد بھی بھولی (2) ۔ قرآن میں ہے : ولقد عھدنا الی ادم من قبل فنسی (طہٰ :115) اس صورت میں ہمزہ زائدہ ہوگا۔ شاعر نے کہا : لا تنسین تلک العھود فانما سمیت انسانا لانک ناسی ان عہود کو مت بھول، تیرے بھولنے کی وجہ سے تجھے انسان کہا گیا ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : فان نسیت عھوداً منک سالغۃ فاغفر فادل ناس اول الناس اگر تو سابقہ عہود بھول گیا ہے تو توبہ کر۔ پہلا بھولنے والا پہلا انسان تھا۔ بعض علماء نے فرمایا : حضرت آدم کو انسان کہا گیا کیونکہ وہ حضرت حوا سے انس رکھتے تھے۔ بعض نے فرمایا : اپنے رب سے انس رکھتے تھے، اس صورت میں ہمزہ اصل ہوگا شاعر نے کہا : وما سمی الانسان الا لانسہ ولا القلب الا انہ یتقلب انسان کو انسان اس کے انس کی وجہ سے کہا جاتا ہے اور قلب کو قلب اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ پھرتا رہتا ہے۔ مسئلہ نمبر 3: اللہ تعالیٰ نے مومنین کا پہلے ذکر فرمایا۔ ان کے شرف اور ان کی فضیلت کی وجہ سے ان سے آغاز فرمایا۔ ان کے مقابلہ میں پھر کافرین کا ذکر کیا کیونکہ کفر اور ایمان دو طرفیں ہیں۔ پھر ان کے بعد منافقین کا ذکر فرمایا اور انہیں کافروں کے ساتھ ملایا کیونکہ ان میں بھی ایمان نہیں پایا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وماھم بمؤمنین۔ اس آیت میں کر امیہ فرقہ کا رد ہے جنہوں نے کہا کہ ایمان زبان کے اقرار کا نام ہے اگرچہ دل میں اعتقاد نہ بھی ہو اور اس قول سے حجت پکڑی ہے : فاثابھم اللہ بما قالوا (مائدہ :85) (تو عطا فرمائے اللہ نے بعوض اس قول کے جو وہ کہتے ہیں) اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا جو انہوں نے کہا اور دل میں تصدیق رکھی اور اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔ “ مجھے لوگوں سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے حتیٰ کہ وہ کہیں لا الہ الا اللہ۔ جب وہ کہہ دیں گے تو انہوں نے مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال محفوظ کر لئے ” (1) ۔ یہ کر امیہ کی عقل کا قصور اور فکر کا جمود ہے۔ قرآن و حدیث میں قول اور اعتقاد کے ساتھ عمل کا جو بیان ہے اس میں غوروفکر کے ترک کی وجہ سے ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : “ ایمان دل کی معرفت، زبان کے قول اور ارکان کے عمل کا نام ہے ” (2) ۔ اس حدیث کو ابن ماجہ نے اپنی سنن میں ذکر کیا ہے۔ محمد بن کرام سبحستانی اور اس کے ساتھیوں کا جو نظریہ ہے وہ نفاق ہے اور عین شقاق ہے۔ ہم خذلان اور برے اعتقاد سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 4: ہمارے علماء نے فرمایا : مومن کی دو قسمیں ہیں : ایک وہ مومن جس سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے اور اس سے پیار کرتا ہے اور ایک وہ مومن جس سے اللہ تعالیٰ نہ محبت کرتا ہے نہ اس سے پیار کرتا ہے بلکہ اس سے بغض رکھتا ہے اور اس سے دشمنی کرتا ہے، پس ہر وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ ایمان قبول کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے محبت و پیار کرتا ہے اور اس سے راضی ہوتا ہے اور ہر وہ شخص جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ یہ کفر اختیار کرے گا تو اللہ اس سے بغض رکھتا ہے، اس سے ناراض ہوتا ہے اور اس سے دشمنی رکھتا ہے اس کے موجودہ ایمان کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے کفر اور گمراہی کی وجہ سے جس کے ساتھ وہ موافقت کرے گا۔ اسی طرح کافر کی بھی دو قسمیں ہیں : ایک کافر وہ جس کو اللہ تعالیٰ یقیناً عذاب دے گا اور ایک کافر وہ جس کو عذاب نہیں دے گا۔ وہ کافر جسے عذاب دیا جائے گا وہ ایسا کافر ہے جو کفر سے آخر تک موافقت کرے گا۔ پس اس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوتا ہے اس سے دشمنی کرتا ہے اور وہ کافر جس کو عذاب نہیں دیا جائے گا وہ ایسا کافر ہے جو بالآخر ایمان سے موافقت کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر ناراض نہیں ہوتا اور اس سے بغض نہیں رکھتا، بلکہ اس سے محبت و پیار کرتا ہے، اس کے موجودہ کفر کی وجہ سے نہیں بلکہ اس ایمان کی وجہ سے جس سے بالآخر وہ موافقت کرے گا۔ پس مطلق قول کرنا جائز نہیں۔ مسئلہ نمبر 5: مومن ثواب کا مستحق ہوتا ہے اور کافر عذاب کا مستحق ہوتا ہے بلکہ اس کی موافات (ایمان پر خاتمہ) اس پر لگانا واجب ہے۔ اسی وجہ سے ہم نے کہا : اللہ تعالیٰ حضرت عمر سے اس وقت بھی راضی تھا جب بتوں کی عبادت کرتے تھے اور اسے ثواب دینے اور اس کے جنت میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس لئے نہیں کہ وہ بتوں کی عبادت کرتے تھے بلکہ اس ایمان کی وجہ سے بالآخر جس سے انہوں نے موافقت کرلی تھی اور اللہ تعالیٰ ابلیس پر ناراض تھا اس کی عبادت کی حالت میں بھی اس کے اس کفر کی وجہ سے بالآخر جس کے ساتھ اس نے موافقت کرنی تھی۔ قدریہ فرقہ والے اس مسئلہ میں مخالفت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ ابلیس پر اس کی عبادت کے وقت داخل نہیں تھا اور عمر کی بتوں کی عبادت کے وقت عمر سے راضی نہیں تھا۔ یہ قول فاسد ہے۔ جب ثابت ہے کہ ابلیس۔۔۔۔ کفر سے موافقت کرنی تھی اللہ اسے جاننے والا ہے اور عمر نے جس ایمان کی موافقت کرنی تھی اسے بھی جاننے والا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ ابلیس پر اللہ تعالیٰ ناراض تھا اور عمر پر راضی تھا اس پر امت کا اجماع دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرنے والا نہیں جس کے متعلق وہ جانتا ہے کہ وہ دوزخی ہے بلکہ اس سے ناراض ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرنے والا ہوتا ہے جس کے متعلق اسے معلوم ہے کہ وہ جنتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :“ ایمان (کا ثواب و کمال) خاتمہ پر ہے ” (1) ۔ اسی لئے صوفیاء وعلماء کہتے ہیں : ایمان وہ نہیں جس کے ساتھ بندہ قولاً اور فعلاً مزین ہے بلکہ ایمان ازل کے سوابق میں سعادت کا جاری ہوتا ہے۔ رہا اس کا ہیاکل میں ظہور تو وہ کبھی عارضی ہوتا ہے اور کبھی حقیقۃً ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ ثابت ہے جس طرح کہ صحیح مسلم وغیرہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے، فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں بتایا جو سچے ہیں (اور) آپ سے سچ کہا گیا ہے، کہ تم میں کسی ایک کی تخلیق کو اس کی ماں کے بطن میں چالیس دن میں جمع کیا جاتا ہے پھر وہ اتنی مدت میں جما ہوا خون رہتا ہے پھر اتنی مدت میں گوشت کا ٹکڑا رہتا ہے پھر اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ بھیجتا ہے وہ اس میں روح پھونکتا ہے اور اس فرشتے کو چار کلمات کا حکم دیا جاتا ہے (یعنی) اس کا رزق، اس کی عمر، اس کا عمل اور اس کا بدبخت یا سعید ہونا لکھنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں کہ تم میں سے کوئی جنتیوں والے عمل کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ جنت اور اس کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔ پس اس پر نوشتہ تقدیر غالب آجاتا ہے۔ وہ دوزخیوں والا عمل کرتا ہے اور دوزخ میں داخل ہوجاتا ہے تم میں سے کوئی دوزخیوں والے اعمال کرتا رہتا ہے حتیٰ کہ اس کے اور دوزخ کے درمیان صرف ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتا ہے اس پر نوشتہ تقدیر غالب آتا ہے وہ جنتیوں والا عمل کرتا ہے اور جنت میں داخل ہوجاتا ہے (2) ۔ مسئلہ نمبر 6: امام حافظ ابو محمد عبد الغنی بن سعید مصری نے محمد بن سعید شامی کی حدیث الزندقہ کے بارے میں نقل کی ہے۔ محمد بن سعید سے مراد محمد بن ابی قیس ہے، انہوں نے سلیمان بن موسیٰ سے روایت کی ہے یہ سلیمان اشدق ہے، سلیمان نے حضرت مجاہد بن جبیر سے انہوں نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے، فرمایا : ہمیں ابو رزین عقیلی نے بتایا، فرمایا : مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں اور تو اے ابا رزین ! ایسے دودھ سے ہیں جس کا ذائقہ نہیں بدلا۔ ابو رزین نے کہا : میں نے عرض کی : اللہ تعالیٰ مردے کیسے زندہ کرے گا ؟ فرمایا : کیا تو کبھی بنجرز میں سے نہیں گزرا پھر تو سرسبز زمین سے نہیں گزرا پھر تو بنجرز میں سے نہیں گزرا پھر تو سرسبز سے نہیں گزرا ؟ میں نے عرض کی : کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا : بالکل اسی طرح نشور ہوگا۔ ابو رزین نے کہا : میں نے عرض کی : میں کیسے جان لوں کہ مومن ہوں ؟ فرمایا : کوئی اس امت کا فرد نہیں ہے جس نے کوئی نیک عمل کیا پھر اس نے جان لیا کہ یہ نیک عمل ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی بہتر جزا عطا کرنے والا ہے یا اس نے برا عمل کیا پھر اس نے جانا کہ یہ برا عمل ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی سزا دینے والا ہے یا اسے معاف کرنے والا ہے، مگر بندہ مومن کی یہ شان ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ حدیث اگرچہ ایسی ہے کہ اس کی سند قوی نہیں ہے۔ اگر اس کا معنی صحیح بھی ہو تو پھر بھی حضرت ابن مسعود کی حدیث کے مخالفت نہیں ہے کیونکہ وہ خاتمہ پر موقوف ہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : اعمال کا دارومدار خاتمہ پر ہے (1) ۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ فی الحال مومن ہے۔ واللہ اعلم۔ مسئلہ نمبر 7 : علماء لغت نے فرمایا : منافق کو منافق اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ ایسی بات کا اظہار کرتا ہے جس کے مخالف وہ دل میں چھپائے ہوئے ہوتا ہے، اس کی تشبیہ جنگلی چوہا ہے اس کی ایک بل ہوتی ہے اسے نافقاء کہا جاتا ہے اور ایک اور اس کی بل ہوتی ہے جسے القاصعاء کہا جاتا ہے وہ زمین کو کریدتا رہتا ہے حتیٰ کہ وہ زمین کے ظاہر تک یعنی معمولی سی مٹی تک پہنچ جاتا ہے۔ جب اسے کوئی خطرہ لاحق ہوتا ہے تو وہ اس مٹی کو دور کرتا ہے اور اپنی بل سے نکل جاتا ہے، اس کی بل کے ظاہر پر مٹی ہوتی ہے اور اس کے اندر سوراخ ہوتا ہے۔ اسی طرح منافق اس کا ظاہر ایمان ہوتا ہے اور باطن کوئی اور۔ یہ معنی پہلے گزر چکا ہے۔
Top