Al-Qurtubi - Al-Muminoon : 33
وَ قَالَ الْمَلَاُ مِنْ قَوْمِهِ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِلِقَآءِ الْاٰخِرَةِ وَ اَتْرَفْنٰهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۙ مَا هٰذَاۤ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ١ۙ یَاْكُلُ مِمَّا تَاْكُلُوْنَ مِنْهُ وَ یَشْرَبُ مِمَّا تَشْرَبُوْنَ۪ۙ
وَقَالَ : اور کہا الْمَلَاُ : سرداروں مِنْ قَوْمِهِ : اس کی قوم کے الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے كَفَرُوْا : کفر کیا وَكَذَّبُوْا : اور جھٹلایا بِلِقَآءِ : حاضری کو الْاٰخِرَةِ : آخرت وَاَتْرَفْنٰهُمْ : اور ہم نے انہیں عیش دیا فِي : میں الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی مَا ھٰذَآ : یہ نہیں اِلَّا : مگر بَشَرٌ : ایک بشر مِّثْلُكُمْ : تمہیں جیسا يَاْكُلُ : وہ کھاتا ہے مِمَّا : اس سے جو تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو مِنْهُ : اس سے وَيَشْرَبُ : اور پیتا ہے مِمَّا : اس سے جو تَشْرَبُوْنَ : تم پیتے ہو
تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے اور آخرت کے آنے کو جھوٹا سمجھتے تھے اور دنیا کی زندگی میں ہم نے ان کو آسودگی دے رکھی تھی کہنے لگے کہ یہ تو تم ہی جیسا آدمی ہے جس قسم کا کھانا تم کھاتے ہو اسی طرح کا یہ بھی کھاتا ہے اور (پانی) جو تم پیتے ہو اسی قسم کا یہ بھی پیتا ہے
آیت نمبر 33-35 اللہ کا ارشاد ہے : وقال الملا۔ الملاء سے مراد اشراف، قائدین اور رئو وساء ہیں۔ من قومہ الذین کفرو وکذبو بلقاء الاخرۃ مراد دوبارہ اٹھنا اور حساب ہے۔ واترفنھم فی الحیوۃ الدنیا ہم نے ان پر دنیا کی نعمتوں میں وسعت کردی حتیٰ کہ وہ اکڑ گئے اور اپنی خوشحالی کیوجہ سے کہنے لگے۔ ما ھذا الا بشر مثلکم یا کل مما تاکلون منہ ویشرب مما تشربون۔ من حذف ہے یعنی مما تشربون منہ۔ یہ بصریوں کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ ان کے نزدیک حذف کی احتیاج نہیں ہے۔ کیونکہ ماجب مصدر یہ ہو تو ضمیر عائد کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر تو ما کو بمعنی الذی بنائے گا تو مفعول کو حذف کرے گا من کے اضمار کی پھر بھی ضرورت نہیں۔ ولئن اطعتم بشرا مثلکم انکم اذا لخسرون۔ یعنی تم اپنے بتوں کو چھوڑ کر اور اس کی اتباع کرکے خسارہ میں ہونگے اسے تم پر کوئی فضیلت نہیں ہے۔ ایعدکم انکم اذا متم وکنتم ترابا وعظاما انکم مخرجون۔ یعنی مرنے کے بعد تم قبور سے اٹھائے جائو گے۔ پہلا ان محل نصب میں ہے کیونکہ اس پر یعدکم واقع ہے اور دوسرا اناس سے بدل ہے۔ یہ سیبویہ کا مذہب ہے مطلب یہ ہے کہ کیا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے کہ تم نکالے جائو گے جب تم مرجائوگے۔ فراء نے کہا : حضرت عبد اللہ کی قرأت میں یہ تھا ایعدکم اذا متم وکنتم ترابا وعظاما انکم مخرجون۔ یہ تیرے اس قول کی مانند ہے کہ دوسرا ان تاکید کے لئے مکرر لایا گیا ہے جب کلام لمبی ہوجائے تو اس کا تکرار اچھا ہوتا ہے۔ اخفش نے کہا : اس کا مطلب ہے کیا وہ تم سے وعدہ کرتا ہے کہ جب تم مرجائو گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائو گے وہ پھر تمہیں نکالے گا ؟ پس دوسرا ان فعل مضمر کی وجہ سے محل رفع میں ہے جیسے تو کہتا ہے : الیوم القتال معنی ہے آج جنگ ہوگی۔ ابو اسحاق نے کہا : ایعدکم انکم اذا متم وکنتم ترابا وعظاما انکم مخرجون۔ بھی جائز ہے کیونکہ ایعدکم کا معنی ہے کیا وہ کہتا ہے کہ تم الخ
Top