Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 10
اِذْ جَآءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا
اِذْ : جب جَآءُوْكُمْ : وہ تم پر آئے مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر وَمِنْ اَسْفَلَ : اور نیچے سے مِنْكُمْ : تمہارے وَاِذْ : اور جب زَاغَتِ الْاَبْصَارُ : کج ہوئیں (چندھیا گئیں) آنکھیں وَبَلَغَتِ : اور پہنچ گئے الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الْحَنَاجِرَ : گلے وَتَظُنُّوْنَ : اور تم گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں الظُّنُوْنَا : بہت سے گمان
جب وہ تمہارے اوپر اور نیچے کی طرف سے تم پر چڑھ آئے اور جب آنکھیں پھر گئیں اور دل (مارے دہشت کے) گلوں تک پہنچ گئے اور تم خدا کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے
آیت اذ جاء وکم من فوقکم ومن اسفل منکم، اذ محل نصب میں ہے اس سے پہلے اذکر فعل محذوف ہے اسی طرح آیت واذ قالت طائفۃ منھم ( الاحزاب : 13) آیت من فوقکم وادی کے اوپر والے حصہ سے یہ مشرق کی جانب اس کا بالائی حصہ ہے۔ اس جانب سے مالک بن نصر، عیینہ بن حصن اہل نجد سے اور طلیحہ بن خویلد اسدی بنو اسد کے ساتھ گیا تھا۔ آیت ومن اسفل منکم وادی کے زیریں علاقہ سے جو مغرب کی جانب تھا، اس جانب سے ابو سفیان بن حر ب اہل مکہ کے سردار کی حیثیت سے، یزید بن جحش قریش کے سردار کی حیثیت سے آیا۔ ابو اعور اسلمی، اس کے ساتھ حیی بن اخطب یہودی بنی قریظہ کے یہودیوں کے ساتھ ان کے ساتھ عامر بن طفیل تھا یہ خندق کی جانب سے آئے تھے۔ آیت واذ زاغت الابصار جب آنکھیں پتھرا گئیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جب آنکھیں جھک گئیں۔ خوف کی زیادتی کی وجہ سے دہشت زدہ ہو کر وہ دشمن کی طرف ہی متوجہ تھیں۔ آیت وبلغت القلوب الحناجر وہ سینوں میں اپنی جگہوں سے زائل ہوگئے تھے یہاں تک کہ حلقوم تک پہنچ گئے تھے۔ حناجرواحد حنجرہ ہے (1) ۔ اگر حلقوم اس سے تنگ نہ ہوتا تو دل باہر نکل جاتے ؛ یہ قتادہ کا قول ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ عربوں کے مذہب کے مطابق مبالغہ کے معنی میں ہے اور کا د مضمر ہے کہا : اذاما غضبناغضبۃ مضریۃ ھتکناحجاب الشمساو قطرت دما ” جب ہم مضر غصہ میں ہوتے ہیں تو ہم سورج کے حجاب کو تارتار کردیتے ہیں قریب ہوتا ہے کہ وہ خون گرانے لگے “۔ یہ کا دت تقطر کے معنی میں ہے۔ یہ جملہ بولا جاتا ہے : پھیپھڑا خوف کے وقت پھول جاتا ہے اور دل اوپر کو اٹھ جاتا ہے یہاں تک کہ قریب ہوتا ہے کہ وہ حلقوم تک جاپہنچے۔ اسی وجہ سے بزدل کے بارے میں کہا جاتا ہے : انتفخ سحرہ اس کا پھیپھڑا پھول گیا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ خوف کی زیادتی میں ضرب المثل ہے کہ دل حلقوم تک پہنچ گئے، اگرچہ وہ اپنی جگہ سے نہیں ہلتا کیونکہ زندگی باقی ہے ؛ یہ معنی عکرمہ نے بیان کیا ہے۔ (2) ۔ حماد بن زید، ایوب سے وہ عکرمہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہا : خوف انتہا کو پہنچ گیا۔ زیادہ ظاہر بات یہ ہے اس سے مراد اضطراب قلب اور اس کا شدید دھڑکنا ہے، گویا وہ شدید اضطراب کی وجہ سے حلقوم تک پہنچ گیا۔ حنجرہ اور حنجور (نون کی زیادتی کے ساتھ) سے مراد حلق کی ایک جانب ہے۔ آیت وتظنون باللہ الظنوناحضرت حسن بصری نے کہا : منافقوں نے گمان کیا کہ مسلمانوں کو جڑ سے اکھیڑ دیا جائے گا اور مومن امید رکھتے تھے کہ ان کی مدد کی جائے گی (1) ۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ مومنوں کو خطاب ہے یعنی تم نے کہا : حضرت محمد ﷺ اور آپ کے صحابہ ہلاک ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان : آیت الظنونا، الرسول اور السبیلا کی قراءت میں قراء نے اختلاف کیا ہے۔ نافع اور ابن عامر نے وقف اور وصل دونوں صورتوں میں الف کو ثابت رکھا ہے۔ ابو عمرو اور کسائی سے یہ مروی ہے وہ مصحف، مصحف عثمان اور تمام شہروں میں جو مصاحف ہیں ان کے خط سے تمسک کرتے تھے۔ ابو عبید نے اسے اپنایا مگر کہا : قاری کو نہیں چاہیے کہ اس کے بعد بھی قراءت کرے بلکہ ان پر وقف کرے۔ انہوں نے کہا : کیونکہ عرب اشعار کے قوافی اور ان کے مصرعوں میں اسی طرح کرتے ہیں۔ کہا : نحنجلینا القرحالقوافلاتستثفر الاواخر الاوائلا محل استدلال القوافلا اور الاوائلا ہے۔ ابور عمرو، حجدری، یعقوب اور حمزہ نے وصل اور وقف میں اس کے خلاف کے ساتھ قراءت کی ہے۔ علماء نے کہا : یہ خط میں زائد ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : آیت ولا او ضعوا خللکم (التوبہ : 47) میں الف زائد کیا جاتا ہے وہ یوں ہے ولا او ضعوا انہوں نے اسے اسی طرح لکھا اس کے علاوہ بھی امثلہ ہیں، جہاں تک شعر کا تعلق ہے تو ضرورت کا محل ہے، کیونکہ اس کا معاملہ اس سے مختلف ہے کیونکہ یہ فصیح ترین لغت ہے اس میں کوئی ضرورت نہیں۔ ابن انباری نے کہا : جس نے الظنون، السبیل اور الرسول تینوں حروف کو الف کے بغیر پڑھا اور مصحف میں ان کا خط الف کے ساتھ ہے کیونکہ اطعنا میں الف اور الرسول، الظنون اور السبیل کے شروع میں جو داخل ہے یہ اس الف کو کفایت کرجاتا ہے جو اس کے آخر میں ہے۔ جس طرح ابو جاد کا الف ہواز (2) کے الف سے کفایت کرجاتا ہے۔ اس میں ایک اور دلیل ہے الف فتحہ کے قائم مقام ہے اور اس کے قائم مقام ہے جسے اس وقت حرکت کے سہارا کے لیے لاحق کیا جاتا ہے جو اس سے پہلے ہو اس میں نیت سقوط کی ہوتی ہے۔ جب اس پر عمل کیا جائے تو الف فتحہ کے ساتھ ایک شی کی طرح ہوجائیں گے۔ وقف ان دونوں کے سقوط کو واجب کرے گا اور اس چیز میں عامل ہوگا کہ خط میں الف کی صورت بولنے میں اس کی حیثیت کو ثابت نہیں کرے گی۔ یہ اس الف کی طرح ہوجائے گی جو ساحران، فاطرالسموات والارض، واعدنا موسیٰ اور ان کے مشابہ الفاظ میں ہے۔ جس سے الف کو خط میں حذف کردیا جاتا ہے جب کہ وہ بولنے میں موجود ہوتا ہے جب کہ وہ لکھنے میں ساقط ہوتا ہے۔ اس میں ایک تیسری دلیل بھی ہے۔ یہ اس آدمی کی لغت پر لکھا گیا ہے جو یہ کہتا ہے : لقیت الرجلا اور اس کی لغت پر پڑھا گیا ہے جو کہتا ہے : لقیت الرجل یعنی الف کے بغیر۔ احمد بن یحیی، اہل لغت کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہیں کہ وہ عربوں سے روایت کرتے ہیں : قام الرجلووائو کے ساتھ مررت برجلی یاء کے ساتھ وقف اور وصل دونوں صورتوں میں روایت کیا ہے۔ لقیت الرجلا دونوں حالتوں میں الف کے ساتھ روایت کیا۔ شاعر نے کہا : اسائلۃ عمیرۃ عن ابیھا خلال الجش تعترف الرکابا کیا عمیرۃ اپنے باپ کے بارے لشکر کے درمیان پوچھتی ہے وہ سواروں کو پہچانتی ہے۔ الرکابا میں الف کو ثابت رکھا اس لغت پر بنا کی ہے۔ ایک اور نے کہا : اذا الجوزاء اردفت الثریاظننت بال فاطمۃ الظنونا جب جوزاء ثریا کے پیچھے ہوا تو میں نے آل فاطمہ کے بارے میں گمانات کیے۔ محل استدلال الظنونا ہے یہ بنی نافع کی لغت کے اعتبار سے ہے۔ ابن کثیر، ابن محیصن اور کسائی نے نصف میں الف ثابت رکھتے ہوئے اور وصل میں حذف کرتے ہوئے قراءت کی ہے۔ ابن انباری نے کہا : جس نے الف کے بغیر وصل کیا اور الف کے ساتھ وقف کیا تو اس کے لیے جائز ہے کہ استدلال کرے کہ سکتہ کے وقت وہ الف کا محتاج تھا مقصد فتحہ کی بقاء پر حرص ہے۔ اور الف اس فتحہ کا سہارا بنتا ہے اور اسے قوت بہم پہنچاتا ہے۔
Top