بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Al-Qurtubi - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے پیغمبر خدا سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا بیشک خدا جاننے والا اور حکمت والا ہے
آیت یایھا النبی اتق اللہ ای کے کلمہ کو ملایا گیا کیونکہ منادی مفرد ہے اور تنبیہ اسی کا لازم ہے لفظ النبی نحویوں کے نزدیک اس کی صفت ہے مگر اخفش کے نزدیک صفت نہیں، کیونکہ وہ کہتا ہے : یہ ای کا صلہ ہے۔ مکی نے کہا : کلام عرب میں یہ معروف نہیں کہ اسم مفرد کسی شی کا صلہ ہو۔ نحاس نے کہا : اکثر نحویوں کے نزدیک یہ غلط ہے کیونکہ صلہ جملہ ہوا کرتا ہے۔ اس نے جو کہا اس کی صحت کے لئے یہ حیلہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ نعت لازم ہے اسے صلہ کا نام دیا گیا۔ کوئی نکرہ کی نعت کو صلہ کا نام دیتے ہیں۔ اکثر نحویوں کے نزدیک محل کا اعتبار کرتے ہوئے نصب دینا جائز نہیں۔ مازنی نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ اس نے اسے تیرے اس قول کی طرح بنایا ہے : یا زیدالظریف زید کے محل کا اعتبار کرتے ہوئے الظریف کو نصب دی۔ مکی نے کہا : یہ ایسی نعت ہے جس سے موصوف غنی ہوتا ہے اور ای کی نعت سے موصوف غنی نہیں ہوتا اس وجہ سے محل کا اعتبار کرتے ہوئے اسے نصب دینا جائز نہیں ہوتا۔ نیز یہ بھی ہے کہ ای کی نعت معنی میں منادی ہوا کرتی ہے اس وجہ سے اسے نصب دینا جائز نہیں۔ یہ روایت کی گئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جب مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کی آپ پسند کرتے تھے کہ یہودی اسلام قبول کرلیں۔ وہ بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع تھے۔ ان میں سے کچھ لوگوں نے نفاق کی صورت میں آپ کی اتباع کی۔ آپ کے ان ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آتے ان کے چھوٹے بڑے کی تعظیم کرتے جب ان میں سے کسی سے کوئی غلطی ہوجاتی تو آپ ان سے درگزر فرماتے، آپ ان کی باتیں سنتے، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ آیت ابو سفیان بن حرب، عکرمہ بن ابی جہل، ابو الاعور بن سفیان کے حق میں نازل ہوئی جس کا ذکر واحدی، قشیری، ثعلبی، ماوردی وغیرہ نے کیا۔ یہ غزوہ احد کے بعد رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول کے پاس آئے نبی کریم ﷺ نے انہیں امان دی تھی کہ وہ بات چیت کرلیں۔ ان کے ساتھ عبداللہ بن سعد بن ابی سرح اور طعمہ بن ابیرق بھی آیا۔ انہوں نے نبی کریم ﷺ سے عرض کی جب کہ آپ کے پاس حضرت عمر بن خطاب موجود تھے : ہمارے معبودوں لات، عزی اور مناۃ کا ذکر چھوڑدیں اور یہ کہ وہ جو ان کی عبادت کرے یہ ان کی شفاعت کریں گے اور ان کا دفاع کریں گے، ہم تجھے اور تیرے رب کو چھوڑتے ہیں۔ انہوں نے جو کچھ کہا وہ نبی کریم ﷺ پر بڑا شاق گزرا حضرت عمرؓ نے عرض کی : یارسول اللہ ﷺ مجھے ان کے قتل کی اجازت دیجئے، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” میں نے انہیں امان دی ہوئی ہے “ حضرت عمر ؓ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی لعنت اور غضب کے ساتھ نکل جائو۔ نبی کریم ﷺ نے انہیں مدینہ طیبہ سے نکال دیا، تو یہ آیت نازل ہوئی۔ آیت یا ایھا النبی اتق اللہ یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈریئے۔ آیت ولا تطع الکافرین اہل مکہ کے کافروں کی اطاعت نہ کیجئے۔ یہاں کافروں سے مراد ابو سفیان، ابو اعور اور عکرمہ ہیں۔ آیت والمنفقین اہل مدینہ کے منافق مراد عبداللہ بن ابی، طعمہ اور عبداللہ بن ابی سرح ہیں۔ ان تمام امور میں ان کی بات نہ مانیے جس سے آپ کو منع کیا گیا اور آپ ﷺ ان کی طرف مائل نہ ہوں۔ آیت ان اللہ کان علیما حکیما اللہ تعالیٰ ان کے کفر کو جانتا ہے اور ان کے ساتھ جو بھی معاملہ کرتا ہے اس میں حکیم ہے۔ زمحشری نے کہا : یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ ابو سفیان بن حرب، عکرمہ بن ابی جہل اور ابوالاعور اسلمی اس دور میں نبی کریم ﷺ کے پاس آئے جو باہم صلح کا دور تھا۔ ان کے ساتھ عبداللہ بن ابی، معتب بن قشیر اور جد بن قیس بھی حاضر ہوئے۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی : ہمارے معبودوں کا ذکر کرنا چھوڑ دیجئے۔ اور پھر ماقبل روایت کے ہم معنی روایت ذکر کی۔ آیت اس عہد و پیمان کو توڑنے کے بارے میں نازل ہوئی (1) ۔ آیت ولا تطع الکفرین مراد مکہ مکرمہ کے کافر ہیں۔ آیت والمنفقین مراد اہل مدینہ کے منافق ہیں۔ ان امور میں ان کی بات نہ مانیے جن کا انہوں نے مطالبہ کیا ہے۔ یہ روایت کی گئی ہے کہ اہل مکہ نے رسول اللہ ﷺ کے دعوت دی کہ وہ اپنا دین چھوڑدیں۔ وہ اپنے اموال کا ایک حصہ آپ کو دے دیں گے۔ شبیہ بن ربیعہ اپنی بیٹی کا رشتہ آپ کو دے دے گا۔ مدینہ کے منافقوں نے آپ کو ڈرایا اگر آپ ﷺ نے اپنے دین سے رجوع نہ کیا تو وہ آپ ﷺ کے قتل کردیں گے، تو یہ آیت نازل ہوئی (2) ۔ نحاس نے کہا : آیت ان اللہ کان علیما حکیما سے یہ دلیل ملتی ہے کہ آپ ﷺ ان کی طرف مائل تھے آپ ﷺ کا مقصود انہیں اسلام کی طرف دعوت دینا تھا، یعنی اگر اللہ تعالیٰ چاہتا کہ آپ کے ان کی طرف میلان میں کوئی منفعت ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے منع نہ کرتا کیونکہ وہ حکیم ہے، پھر یہ کہا گیا : خطاب آپ کو اور آپ کی امت کو ہے۔
Top