Al-Qurtubi - Faatir : 12
وَ مَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ١ۖۗ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآئِغٌ شَرَابُهٗ وَ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ١ؕ وَ مِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا١ۚ وَ تَرَى الْفُلْكَ فِیْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَمَا يَسْتَوِي : اور برابر نہیں الْبَحْرٰنِ ڰ : دونوں دریا ھٰذَا : یہ عَذْبٌ فُرَاتٌ : شیریں پیاس بجھانے والا سَآئِغٌ شَرَابُهٗ : آسان اس کا پینا وَھٰذَا : اور یہ مِلْحٌ اُجَاجٌ ۭ : شور تلخ وَمِنْ كُلٍّ : اور ہر ایک سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو لَحْمًا : گوشت طَرِيًّا : تازہ وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ : اور تم نکالتے ہو حِلْيَةً : زیور تَلْبَسُوْنَهَا ۚ : جس کو پہنتے ہو تم وَتَرَى : اور تو دیکھتا ہے الْفُلْكَ : کشتیاں فِيْهِ : اس میں مَوَاخِرَ : چیرتی ہیں پانی کو لِتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو مِنْ فَضْلِهٖ : اس کے فضل سے (روزی) وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : تم شکر کرو
اور دونوں دریا مل کر یکساں نہیں ہوجاتے یہ تو میٹھا ہے پیاس بجھانے والا جس کا پانی خوشگوار ہے اور یہ کھاری ہے کڑوا اور سب سے تم تازہ گوشت کھاتے ہو اور زیور نکالتے ہو جسے پہنتے ہو اور تم دریا میں کشتیوں کو دیکھتے ہو کہ (پانی کو) پھاڑتی چلی آتی ہے تاکہ تم اسکے فضل سے (معاش) تلاش کرو اور تاکہ تم شکر کرو
اس کے چار مسائل ہیں : مسلہ نمبر 1 ۔ حضرت ابن عباس نے کہا : فرات کا معنی میٹھا ہے اور اجاج کا معنی کڑوا ہے۔ طلحہ نے قراءت کی آیت : ہذاملح اجاج میم پر فتحہ اور لام کے نیچے کسرہ ہے الف نہیں ہے۔ جہاں تک ملح کا تعلق ہے وہ وہ ہوتا ہے جس میں نمک ڈالا جاتا ہے عیسٰی اور ابن ابی اسحاق نے۔ آیت : سیغ شرابہ قراءت کی ہے جس طرح سید اور میت ہے۔ آیت : ومن کل تا کلون لحما طریا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ : گوشت (مچھلی) ان دونوں سے حاصل ہوتا ہے۔ اس بارے میں گفتگو سورة النحل میں گزر چکی ہے۔ مسلہ نمبر 2 ۔ آیت : وتستخر جون حلیۃ تلبسو نھا ابو اسحاق کا مذہب یہ ہے کہ زیور نمکین سمندر سے نکالا جاتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : ان دونوں سے نکالا جاتا ہے کیونکہ یہ دونوں ملے ہوتے ہیں۔ ایک اور نے کہا : وہ سپیاں جن میں موتی وغیرہ ہوتے ہیں وہ ایسی جگہ سے نکالے جاتے ہیں جہاں میٹھا اور کھاری پانی اکھٹا ہوتا ہے جس طرح چشمے یہ ان دونوں سے نکالا جاتا ہے کیونکہ سمندر میں میٹھے چشمے ہوتے ہیں جب یہ ملتے ہیں تو موتی نکلتے ہیں ایک قول یہ کیا گیا ہے : بارش سے محمد بن یزید نے چوتھا قول کیا ہے : موتی یہ صرف نمکین سمندر سے نکالے جاتے ہیں۔ نحاس نے کہا : یہ ان میں سے سب سے اچھا قول ہے کیونکہ وہ دونوں سمندر ملتے ہیں لیکن وہ جمع ہوئے پھر ان میں سے ایک کے بارے میں خبر دی جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ آیت : ومن رحمتہ جعل لکم الیل وانھار لتسکنوافیہ ولتبتغوامن فضلہ (القصص :73) اور جس طرح تو کہتا ہے : لورایت الحسن والحجاج لرا یت خیراشرا جس طرح تو کہتا ہے : لورایت الا صمع وسیبویہ لملات یدک لغۃ ونحوا اگر تو اصمعی اور سیبو یہ کو دیکھتا تو تیرا ہاتھ لغت اور نحو سے بھر جاتا۔ اس کا معنی معروف ہے۔ یہ کلام بہت ہی فصیح ہے۔ اسی طرح ہے آیت : و من کل تاکلون لحما طریاو تستخرجون وحلیۃ تلبسو نھا پہلے میں دونوں اکھٹے ہیں اور دوسرے میں نمکین سمندر منفرد ہے۔ مسلہ نمبر 3 ۔ آیت : تلبسونھا اس پر دلیل ہے کہ ہر شے کا لباس اس کے مناسب ہوتا ہے انگوٹھی انگلی میں ڈالی جاتی ہے، کنگن بازو میں ڈالا جاتا ہے، ہار گردن میں ڈالا جاتا ہے، پازیب پائوں میں ڈالا جاتا ہے۔ بخاری شریف اور مسلم شریف میں ابن سیرین سے مروی ہے کہ میں نے عبیدا سے کہا : ریشم کا بستر بنانا اس کے پہننے کی طرح ہے ؟ انہوں نے کہا : ہاں۔ صحاح میں حضرت انس ؓ سے مروی ہے : فقہت علی حصیر لنا قد اسود من طول مالبس۔ (1) ( صحیح بخاری۔۔۔۔۔۔۔۔ جلد 1، صفحہ 55) محل استدا لال مالبس ہے میں اپنی ایسی چٹائی پر کھٹرا ہوا جو طویل وقت تک استعمال کرنے سے سیاہ ہوگئی تھی۔ مسلہ نمبر 4 ۔ آیت : وتری الفلک فیہ مواخر نحاس نے کہا : یہاں نمکین سمندر مراد ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو ارشاد ہوتا : فیھا، قد محرت انسفینۃ تمحر جب وہ پانی کو پھاڑے۔ سورة النحل میں یہ بحث گزر چکی ہے۔ آیت : لتبتغو امن فضلہ مجاہد نے کہا : دور دراز ملکوں کی تجارت کشتیوں کے ذریعے تھوڑی مدت میں ہوئی، جس طرح سورة بقرہ میں بحث گزر چکی ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے فضلہ سے مراد جو زیور نکالا جاتا ہے اور جو اس کی مچھلیاں شکار کی جاتی ہے۔ آیت : لعلکم تشکرون اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں فضل سے نوزا اس پر تم شکر بجا لائو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جا اس نے تمہیں خوف سے نجات عطا فرمائی (2) ( تفسیر الماوردی، جلد 4، صفحہ 467 ) ۔
Top