Tadabbur-e-Quran - Faatir : 12
وَ مَا یَسْتَوِی الْبَحْرٰنِ١ۖۗ هٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ سَآئِغٌ شَرَابُهٗ وَ هٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ١ؕ وَ مِنْ كُلٍّ تَاْكُلُوْنَ لَحْمًا طَرِیًّا وَّ تَسْتَخْرِجُوْنَ حِلْیَةً تَلْبَسُوْنَهَا١ۚ وَ تَرَى الْفُلْكَ فِیْهِ مَوَاخِرَ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَمَا يَسْتَوِي : اور برابر نہیں الْبَحْرٰنِ ڰ : دونوں دریا ھٰذَا : یہ عَذْبٌ فُرَاتٌ : شیریں پیاس بجھانے والا سَآئِغٌ شَرَابُهٗ : آسان اس کا پینا وَھٰذَا : اور یہ مِلْحٌ اُجَاجٌ ۭ : شور تلخ وَمِنْ كُلٍّ : اور ہر ایک سے تَاْكُلُوْنَ : تم کھاتے ہو لَحْمًا : گوشت طَرِيًّا : تازہ وَّتَسْتَخْرِجُوْنَ : اور تم نکالتے ہو حِلْيَةً : زیور تَلْبَسُوْنَهَا ۚ : جس کو پہنتے ہو تم وَتَرَى : اور تو دیکھتا ہے الْفُلْكَ : کشتیاں فِيْهِ : اس میں مَوَاخِرَ : چیرتی ہیں پانی کو لِتَبْتَغُوْا : تاکہ تم تلاش کرو مِنْ فَضْلِهٖ : اس کے فضل سے (روزی) وَلَعَلَّكُمْ : اور تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : تم شکر کرو
اور دونوں دریا یکساں نہیں ہیں۔ ایک شیریں، پیاس بجھانے والا، پینے کے لئے خوشگوار ہے اور ایک کھاری کڑوا ہے۔ اور تم دونوں سے تازہ گوشت کھاتے اور زینت کی چیز نکالتے ہو جس کو پہنتے ہو۔ اور تم دیکھتے ہو کشتیوں کو اس میں پھاڑتی ہوئی چلتی ہیں تاکہ تم اس کے فضل کے طالب بنو اور تاکل تم شکر گزار بنو۔
آیت 12۔ 13 یہ ایک دوسرے پہلو سے شرک اور شرکاء کی تردید فرمائی گئی۔ اس کائنات میں اضداد کا جو تصادم ہے یہ بھی شرک کے نہایت اہم عوامل میں سے ہے۔ قرآن نے مختلف پہلوئوں سے اس کی تردید فرمائی ہے اور ہم اس کی وضاحت کرتے آرہے ہیں۔ یہاں بھی اسی کی طرف اشارہ ہے کہ دنیا میں اضداد کا وجود اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس کے اندر مختلف ارادے کارفرما ہیں اس لئے کہ اس کے اضداد ظاہری تضاد کے ساتھ ساتھ نہایت گہری سازگاری بھی پائی جاتی ہے جس سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ کوئی بالاتر اور ہمہ گیر وہمہ جہت قوت قاہرہ ان تمام اضداد پر حاوی ہے جو ان کو اپنی حکمت کے تحت اس کائنات کی مجموعی بہبود کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ ’ وما یستوی بالبحران۔ الایۃ ‘۔ یعنی دیکھو، دو سمندر ہیں اور دونوں اپنی ظاہری خصوصیات وصفات میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک کا پانی شیریں، پیاس بجھانے والا اور خوشگوار ہے، دوسرے کا کھاری، کڑوا۔ یہ دونوں آپس میں ٹکراتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوتا کہ کھاری سمندر میٹھے سمندر پر غالب ہو کر اس کو کھاری بنادے یا شیریں سمندر کھاری کے مزاج کو بدل دے بلکہ ایک بالاتر قوت نے ان دونوں کو ٹکرانے کے باوجود ان کے حدود کا پابند کر رکھا ہے۔ سورة رحمان میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔ مرض البحرین یلتقیان بینھما برزخ لا یبغیان (الرحمان : 19۔ 20) (اس نے چھوڑے دو دریا، دونوں باہم دگر ٹکراتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان ایک اوٹ ہوتی ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے)۔ پھر یہ دیکھو کہ کس طرح یہ اپنے تضاد و اختلاف کے باوجود اپنے سے بالاتر مقصد کی خدمت بجا لاتے ہیں کہ تم دونوں ہی سے اپنے لمبے لمبے بحری سفروں میں جہاں تازہ گوشت حاصل کرنا ناممکن ہوتا، ان سے تازہ گوشت حاصل کرلیتے ہو اور غذا کے ساتھ اپنی زینت کے لئے ان سے قیمتی موتی بھی نکالتے ہو۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ ہی تمہارے لئے اس طرح مسخر ہیں کہ تمہارے جہازات ان کے سینے پر سے موجوں کو پھاڑتے ہوئے چلتے ہیں تاکہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کا سفر کرکے تم اللہ کے رزق و فضل کے طالب بنو اور اس کے شکر گزار رہو۔ مطلب یہ ہے کہ اس کائنات کے ظاہری تضاد میں گم ہو کے نہ رہ جائے بلکہ ان ضداد کے باہمی تو افق پر بھی نگاہ ڈالو تو یہ حقیقت روشن ہوجائے گی کہ ایک ہی خدائے قادر وقیوم نے اس دنیا کو وجود بخشا ہے اور اسی نے اپنی قدرت و حکمت سے اس کے تمام اجزائے مختلفہ کو انسان کی خدمت میں لگا رکھا ہے تاکہ انسان اپنے پروردگار کا شکر گزار رہے۔ ’ یولج الیل فیالنھار الایہ۔ یہ اسی حقیقت کی طرف ایک دوسری مثال سے توہج دلائی ہے۔ کہ یہی حال تمہارے سامنے روز آنے والے رات اور روز ظاہر ہونے والے دن کا بھی ہے۔ وہ بھی بظاہر ضدین کی نسبت رکھتے ہیں لیکن ان کے درمیان بالکل زوجین کا توافق پایا جاتا ہے۔ دونوں ہی اس دنیا کے بقا اور تمہاری راحت و معشیت کے لئے ضروری ہیں۔ یہی حال سورج اور چاند کا بھی ہے۔ نادانوں نے ان کو معبود بنا کر پوجا حالانکہ وہ اپنے وجود سے شہادت دیتے ہیں کہ خدا نے ان کو اپنی خلق کی خدمت کے لئے مسخر کر رکھا ہے۔ چناچہ دونوں اپنے معین نظام اوقات کے ساتھ برابر تمہاری خدمت میں سرگرم رہتے ہیں۔ ’ ذلکم اللہ ربکم لہ الملک۔ ‘ یہ خلاصہ ہے اوپر کی ساری بحث کا یہی اللہ، جس کی یہ شانیں، قدرتیں اور حکمتیں دیکھتے ہو، تمہارا رب ہے اور اسی کے قبضہ قدرت میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔ ’ والذین تدعون من دونہ ما یملکون من قطمیز۔ ’ قطمیر ‘ اس باریک غلاف کو کہتے ہیں جو کھجور کی گٹھلی کے اوپر ہوتا ہے۔ یہ وہی بات منفی اسلوب سے فرمائی کہ رہے وہ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے اور پوجتے ہو تو وہ اس دنیا کے خلق و تدبیر میں ذرہ برابر بھی دخل نہیں رکھتے۔
Top