Al-Qurtubi - Az-Zukhruf : 28
وَ جَعَلَهَا كَلِمَةًۢ بَاقِیَةً فِیْ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ
وَجَعَلَهَا : اور اس نے بنادیا اس کو كَلِمَةًۢ بَاقِيَةً : ایک بات باقی رہنے والی فِيْ : میں عَقِبِهٖ : اس کی اولاد میں۔ اس کے پیچھے لَعَلَّهُمْ : شاید کہ وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ لوٹ آئیں
اور یہی بات اپنی اولاد میں پیچھے چھوڑ گئے تاکہ وہ (خدا کی طرف) رجوع رہیں
وجعلھا کلمتہ باقیتہ فی عقبہ لعلھم یرجعون۔ ” اور آپ نے بنا دیا کلمہ توحید کو باقی رہنے والی بات اپنی اولاد میں تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں “۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ وجعلھا کلمتہ باقیتہ جعلھا میں ضمیر اللہ تعالیٰ کے فرمان : الا الذی فطرنی کی طرف لوٹ رہی ہے اور جعلھا میں ضمیر فاعل سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے مرادہو گا اللہ تعالیٰ نے اس کلمہ اور گفتگو کو آپ کے خاندان میں باقی رہنے والا بنا دیا تو وہ آپ کی اولاد اور اولاد کی اولاد ہے یعنی وہ ورثہ در ورثہ غیر اللہ کی عبادت سے براءت کا اظہار کرتے رہے اور انہوں نے اس معاملہ میں ایک دوسرے کو وصیت کی۔ عقب اسے کہتے ہیں جو بعد میں آتا ہے۔ سدی نے کہا : اس سے مراد حضرت محمد ﷺ کی اولاد ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : فی عقبہ سے مراد ہے فی خلفہ کے بعد آنے والوں میں کلام میں (1) ۔ تقدیم و تاخیر ہے تقدیر کلام یوں ہوگی فانہ سیھدین لعلھم یرجعون وجعلھا کلمتہ باقیۃ فی عقبہ یعنی انہیں بات کہی ممکن ہے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے پلٹ آتے۔ مجاہد اور قتادہ نے کہا ؛ کلمہ سے مراد لا الہ الا اللہ ہے (2) ۔ قتادہ نے کہا : یہ ان کی اولاد میں ہمیشہ ایسے افراد ہونگے جو قیامت تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے رہیں گے (3) ۔ ضحاک نے کہا : کلمہ سے مراد ہے لا تعبدوا الا اللہ (ہود : 26) (4) عکرمہ نے کہا : اس سے مراد اسلام ہے (5) کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ھو سمکم المسلمین من قبل (الحج : 78) قرظی نے کہا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے بیٹوں کو جو وصیت کی جو یہ تھی یبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین (بقرہ : 132) اسے ان کی اولاد میں باقی رہنے والا کلمہ بنا دیا ہے۔ ابن زید نے کہا : کلمہ سے مراد اللہ تعالیٰ کا فرمان : اسلمت لرب العلمین۔ (البقرہ) ہے اور یوں پڑھا ھو سمکم المسلمین من قبل (الحج : 78) ایک قول یہ کیا گیا ہے : کلمہ سے مراد نبوت ہے۔ ابن عربی نے کہا : نبوت حضرت ابرہیم (علیہ السلام) کی اولاد میں باقی رہے گی۔ توحید ان میں اصل ہے اور غیر اس کی تبع میں ہیں۔ مسئلہ نمبر 2۔ ابن عربی نے کہا : نسلوں میں وہ کلمہ باقی رہا جو کئی زبانوں تک قائم رہا آپ کی دو دعائیں تھیں جو قبول ہوئیں : (1) انی جا علک للناس اماما قال و من ذریتی قال لا ینال عھدی الظلمین۔ (البقرۃ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے عرض کی : ٹھیک ہے مگر ان میں سے جو ظالم ہوا اس کے لیے کوئی عہد نہیں (2) واجنبنی وبنی ان نعبد الا صنام۔ (ابرہیم) ایک قول یہ کیا گیا ہے : پہلی دعا یہ تھی واجعل لی لسان صدق فی الاخرین۔ (الشعرائ) ہر امت نے آپ کی تعظیم کی وہ آپ کی اولاد میں سے تھے یا غیروں میں سے تھے جو ان لوگوں میں سے تھے جو حضرت سام یا حضرت نوح علیہ اسلام میں آپ کے ساتھ جمع ہوئے تھے۔ مسئلہ نمبر 3۔ ابن عربی نے کہا : یہاں عقب کا ذکر معنی میں ملا ہوا ہے یہ ان چیزوں میں سے ہیں جو احکام میں داخل ہیں اور ان پر عمریٰ (عمر بھر کے لیے کسی کو کوئی چیز نفع اٹھانے کے لیے دینا) محبوس کرنے کے احکام مرتب ہوتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ایما رجل اعمرعمری لہ و لعقبہ یعنی وہ چیز عطا کی گئی جس نے وہ چیزدی ہے اس کی طرف وہ نہ لوٹے گی کیونکہ اس نے ایسے انداز میں چیز دی ہے جس میں میراث جاری ہوتی ہے یہ گیارہ الفاظ میں وارد ہوتا ہے۔ 1۔ دلد، جب اسے مطلق ذکر کیا جائے تو اس سے مراد وہ شخص ہے جو مرد اور اس کی بیوی سے پایا جائے وہ مرد ہوں یا عورتیں ہوں لغت اور شرع کے اعتبار سے صرف مذکر کی اولاد مراد ہوگی اسی وجہ سے میراث معین بچے پر واقع ہوتی ہے اور معین کی مذکر اولاد پر واقع ہوتی ہے عورتوں کی اولاد پر واقع نہیں ہوتی کیونکہ وہ دوسری قوم سے بھی ہو سکتے ہیں اسی وجہ سے وہ اس لفظ کے ساتھ قید میں داخل نہ ہو نگے امام مالک کے مجموعہ اور اس کے علاوہ کتابوں میں موجود ہے۔ میں کہتا ہوں : یہ امام مالک کا مذہب ہے اور آپ کے تمام متقد میں ساتھیوں کا بھی یہی نقطہ نظر ہے اس اجماع پر ان کی دلیل یہ ہے کہ بچیوں کی اولاد کے لیے کوئی ورثہ نہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : یوصیکم اللہ فی اولاد کم (النسا : 11) علماء کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ بچیوں کی اولاد بھی اولاد کے لفظ اور اعقاب میں داخل ہے وہ بھی احب اس میں داخل ہوگی مجس کہتا ہے : جست علی ولدی اوعلی عقبی ؛ یہ ابو عمر بن عبدالبر اور دوسرے علماء کا نقطہ نظر ہے انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے استدلال کیا ہے حرمت علیکم امھتکم و بنتکم (النسائ : 23) انہوں نے کہا : جب اللہ تعالیٰ نے بیٹیوں کو حرام کیا تو اجماع سے بیٹی کی بیٹی بھی حرام کردی گئی تو اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ یہ بیٹی ہے اس لیے ضروری ہوگیا کہ یہ نواسی بھی اس کے باپ کے حبس میں داخل ہو جب وہ اپنی اولاد اور عقب پر کوئی چیز محبوس کرتا ہے۔ یہ بحث سورة الانعام میں مفصل گذر چکی ہے۔ 2۔ دوسرا لفظ بنون ہے اگر کوئی آدمی یہ کہتا ہے : یہ میرے بیٹے کے لیے وقف ہے، تو یہ حکم معین بچے سے تجاوز نہ کرے گا اور نہ ہی اس سے متعدد افراد مراد لیے جائیں گے اگر اس نے ولدی کا لفظ استعمال کیا تو وہ اس سے متجاوز ہوگا اور اولاد میں سے ہر فرد کے لیے حکم ثابت ہوگا اگر اس نے بنی کا لفظ ذکر کیا تو اس میں مذکر اور مونث سب شامل ہونگے، امام مالک نے فرمایا : جس نے اپنے بیٹوں اور اپنے بیٹوں کے بیٹوں پر صدقہ کیا تو اس کی اپنی بیٹیاں اور پوتیاں سب اس میں شامل ہوں گی۔ عیسیٰ بن قاسم سے روایت نقل کی ہے اس آدمی کے بارے کہ جس نے اپنی بیٹوں کے لیے کوئی چیز خاص کی تو اس کی نواسیاں بھی اس کی صلبی بیٹیوں کے ساتھ ہونگی جس پر امام مالک کے ساتھیوں کی ایک جماعت متفق ہے کہ بیٹیوں کی اولاد بنیں (بیٹوں) میں داخل نہ ہوگی۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت حسن ؓ کے بارے میں فرمایا جو آپ ﷺ کا نواسہ تھا : ” میرا یہ بیٹا سید ہے ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتوں کے درمیان مصالحت کرائے “ ہم نے کہا : اس میں مجاز کا قاعدہ جاری ہوا ہے، سرور دو عالم ﷺ نے ان کی شرافت اور عظمت کی طرف اشارہ کیا ہے کیا تو نہیں دیکھتا کہ نواسے کے بیٹا ہونے سے نفی کرنا بھی جائز ہے۔ ایک آدمی نواسے کے بارے میں کہہ سکتا ہے لیس بابنی۔ میرا بیٹا نہیں۔ اگر یہاں حقیقی معنی مراد ہوتا تو اس کی نفی کرنا جائزنہ ہوتا، کیونکہ حقائق کی مسمیات سے نفی کرنا جائز نہیں ہوتی (1) ۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ بچوں کو باپ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے ماں کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا، اسی وجہ سے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے بارے میں فرمایا : وہ ہاشمی ہیں ہلالی نہیں، اگرچہ ان کی ماں ہلالی تھی۔ میں کہتا ہوں : یہ استدلال صحیح نہیں بلکہ لغت کے اعتبار سے وہ ولد (بچہ) ہے اور حقیقی معنی مراد ہے کیونکہ اس میں ولادت کا معنی پایا جاتا ہے کیونکہ اہل علم نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ نواسی بھی حرام ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : حرمت علیکم امھتکم و بنتکم (النسائ : 23) اللہ تعالیٰ کا فرمان : ومن ذریتہ داود و سلیمن و ایوب و یوسف و موسیٰ و ھرون و و کذلک نجزی المحسنین۔ وزکریا ویحی و عیسیٰ و الیاس کل من الصلحین۔ (الانعام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی ذریت میں شامل کیا جبکہ وہ ان کی بیٹی کی اولاد میں سے تھے جس کی وضاحت پہلے ہوچکی ہے اگر یہ سوال کیا جائے کہ شاعر نے کہا : بنونا بنو ابنائنا وبناتنا بنوھن أبناء الرجال الاباعد ہمارے بیٹے ہمارے بیٹوں کے بیٹے ہیں اور ہماری بیٹیوں کے بیٹے بعیدی مردوں کے یٹے ہیں۔ انہیں کہا جائے گا : اس میں ان کے لئے کوئی دلیل نہیں کیونکہ اس کے قول کا معنی ہے اس کے بیٹوں کی مذکر اولاد وہ افراد ہیں جن کا حکم وراثت اور نسب میں اس کے اپنے بیٹوں جیسا ہے اس کے نواسوں کا حکم اس معاملہ میں بیٹیوں کے حکم جیسا نہیں کیونکہ وہ غیر منسوب ہوتے ہیں تو یہ بتایا کہ حکم میں مختلف ہیں جبکہ نام میں اکٹھے ہیں۔ بچیوں کی اولاد سے ولد کے اسم کی نفی نہیں جائیگی کیونکہ وہ ابن سے بعض اوقات ایک آدمی اولاد کے بارے میں کہتا ہے : لیس ھربابنی وہ میرا بیٹا نہیں کیونکہ وہ میری اطاعت نہیں کرتا اور نہ ہی میرے حق کا خیال کرتا ہے وہ اس کے لئے ولد کے اسم کی نفی نہیں کرتا وہ اس سے حکم کی نفی کا ارادہ کرتا ہے۔ جس نے اس شعر سے یہ استدلال کیا ہے کہ بیٹی کی اولاد کو ولد نہیں کہتے تو اس نے معنی کو فاسد کردیا اور اس کے فائدہ کو باطل کردیا اور قائل کے قول کی ایسی تاویل کی جو دسرت نہیں کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ عربی زبان میں بیٹے کی اولاد کو ابن کہا جائے اور بیٹی کی اولاد کو ابن نہ کہا جائے اس کی وجہ یہ ہے کہ ولادت کا معنی جس سے ولد کا اسم مشتق ہے اس میں واضح اور قوی ہے کیونکہ بیٹی کی اولاد ولادت کے حقیقی معنی کی وجہ سے اس کی اولاد ہے اور بیٹے کی اولاد اس کی اولاد ہے کیونکہ یہ ولادت کا سبب بنا ہے۔ امام مالک نے بیٹیوں کی اولاد کو اس حصہ سے خارج نہیں کیا جب وہ کوئی چیز اپنی اولاد کے لئے مختص کرتا ہے کہ ولد کا اسم لغت میں ان پر واقع نہیں ہوتا آپ نے ان کو وراثت کے احکام پر قیاس کرتے ہوئے خارج کیا ہے۔ یہ بحث سورة انعام میں گذر چکی ہے۔ الحمد اللہ۔ 3۔ ذریۃ۔ یہ لفظ ذراً اللہ الخلق سے ماخوذ ہے اس میں بیٹیوں کی اولاد داخل ہوگی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ومن ذریتہ دائود سلیمن و ایوب ویوسف و موسیٰ و ہھرون و کذلک نجزی المحسنین۔ وزکریا ویحیی و عیسیٰ (الانعام) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ماں کی جانب سے ان کی اولاد میں سے تھے ذریۃ کے لفظ کی تحقیق سورة بقرہ اور سورة انعام میں گذر چکی ہے یہاں اس کے اعادہ کی کوئی ضرورت نہیں۔ 4۔ عقب۔ لغت میں اس کا معنی ہے کوئی شے جب کسی شے کے بعد ہو وہ اس کی جنس سے ہو یا اس کی جنس سے نہ ہو (1) یہ جملہ کہا جاتا ہے : اعقب اللہ بخیر یعنی اللہ تعالیٰ نے سختی کے بعد خوشحلای دی۔ اعقب الشیب لسواد۔ سیاہ بالوں کے بعد سفید بال آئے۔ عقب یعقب عقوبا و عقبا اسی وجہ سے انسان کی اولاد کو اس کی عقب کہتے ہیں معقاب من النساء وہ عورت جو مئونث کے بعد مذکر جنے اسی طرح ہمیشہ سلسلہ رہے۔ عقبل الرجل۔ اس کی اولاد اور اولاد کی اولاد جو اس کے بعد رہے۔ عاقبۃ سے مراد اولاد ہوتی ہے۔ یعقوب نے کہا : قرآن حکیم میں ہے وجعلھا کلمۃ باقیۃ فی عقبہ ایک قول یہ کیا گیا ہے : بلکہ تمام وارث عقب ہیں۔ عاقبہ سے مراد اولاد ہے اسی وجہ سے مجاہد نے یہاں تفسیر بیان کی ہے۔ ابن زید نے کہا، یہاں سے اس سے مراد ذریت ہے۔ ابن شہاب نے کہا : اس سے مراد بچے اور بچے کی اولاد ہے۔ دوسرے علماء نے وہ کہا جو سدی سے مروی ہے صحاح میں ہے : عقب ایزی کو کہتے ہیں یہ مئونث ہے عقب الرجل سے مراد اولاد اور اولاد کی اولاد ہے۔ اس میں دو لغتیں ہیں عقب اور عقب۔ یہ بھی مونث ہے۔ اخفش سے مروی ہے، عقب فلاں مکان ابیہ عاقبۃ یعنی فلاں اپنے باپ کا نئاب بنا یہ اسم ہے جو مصدر کے معنی میں ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے لیس لوقعتھا کاذبۃ۔ (الواقعہ) علماء کے نزدیک عقب اور ولد کے لفظ میں کوئی فرق نہیں۔ ذریۃ اور نسل میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : دونوں ولد اور عقب کے قائم مقام ہیں۔ امام مالک کے مذہب کے مطابق بیٹیوں کی اولاد اس میں داخل نہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا : وہ سب ان دونوں میں داخل ہیں۔ ذریۃ کے بارے میں گفتگہ یہاں اور سورة الانعام میں گذر چکی ہے۔ -5 نسلی ہمارے علماء کے نزدیک یہ ولدی اور ولد ولدی کے قول کی طرح ہے (1) اس میں بیٹیوں کی اولاد داخل ہے ان کا داخل ہونا ضروری ہے کیونکہ نسل کا معنی نکلنا ہے بچیوں کی اولاد ایک اعتبار سے نلکی ہے ولم یقترن بہ مایخصہ کما اقترن بقولہ عقبی ماتنا سلوا۔ اس کے ساتھ وہ مقترن نہیں ہوگا جو اسے خاص کرے جس طرح نسلی عقبی کے ساتھ مقترن ہے۔ ہمارے بعض علماء نے کہا : نسل، ولد اور عقب کے معنی میں ہے اس میں بیٹیوں کی اولاد داخل نہیں مگر اس صورت میں کہ صدقہ وقف کرنے والا یہ کہے نسلی و نسسل نسلی جس طرح وہ یہ کہے : عقبی و عقب عقبی مگر جب وہ یہ کہے ولدی یا کہے عقبی تو اس میں بیٹیاں داخل نہ ہوں گی۔ -6 آل وہی اہل ہیں۔ یہ ساتواں لفظ ہے ابن قاسم نے کہا : یہ دونوں (آل اور اہل) برابر ہیں اس سے مراد عصبات، بھائی، بیٹیاں اور پھوپھیاں ہیں اس میں خالائیں داخلی نہیں اس کا اصل معنی اجتماع ہے یہ جملہ کہا اجتا ہے : مکان آھل جب اس میں جماعت ہو یہ عصبہ کے ساتھ ہوتا ہے اور جو عورتوں کی جانب سے قرابت میں داخل ہوتا ہے عصبہ اس سے مشتق ہوتا ہے یہ اہل سے خاص ہے حدیث افک میں ہے یا رسول اللہ اھلک ولائعلم الاخیرا یا رسول اللہ ! ﷺ ہم آپ کے اہل کے بارے میں بھلائی کا ہی علم رکھتے ہیں مراد حضرت عائشہ ہیں لیکن زوجہ آل میں داخل نہیں اس پر اجماع ہے اگرچہ یہی تاھل کی اصل ہے کیونکہ اس کا ثبوت یقینی نہیں کیونکہ اس کا ربط بعض اوقات تبدیل ہوجاتا ہے اور طلاق کے ذریعے ختم ہوجاتا ہے۔ امام مالک نے کہا، آل محمد سے مراد ہر متقی ہے۔ یہ تعبیر اس باب سے متعقل ہے آپ نے یہ ارادہ کیا ہے کہ ایمان قربات سے خاص ہے اس پر دعوت مشتمل ہوتی ہے اور آپ نے رحمت کا ارادہ کیا ہے۔ ابو اسحاق تو سی نے کہا، اہل میں ہر وہ فرد داخل ہوتا ہے جو والدین کی جانب سے ہو۔ اس نے اشتقاق کو پورا حق دیا اور عرف اور استعمال سے غفلت کا اظہار کیا۔ یہ معانی حقیقت پر مبین ہیں یا ایسے عرف پر جو اطلاق کے وقت مستعمل ہونے پر مبنی ہیں یہ دو لفظ ہیں۔ -8 قرابۃ اس میں چار اقولا ہیں : (1) امام مالک نے محمد عبن عبدوس کی کتاب میں کہا : اس سے مراد قریب ترین پھر قریب ترین ہیں، یہ اجتہاد کے قاعدہ کی بنا پر ہے اس میں بیٹیوں اور خالائوں کی اولاد شامل نہیں (2) باپ اور ماں کی جانب سے قریبی اس میں داخل ہیں، یہ علی بن زیاد نے کہا (3) اشہب نے کہا : مردوں اور عورتوں کی جانب سے ہر ذی رحم اس میں شامل ہے۔ (4) ابن کنانہ نے کہا : اس میں چچے، پھوپھیاں، خالو، خالائیں اور بھانجیاں داخل ہیں۔ حضرت ابن عباس نے قل لا اسئلکم علیہ اجراً الا المودۃ فی القربی (الشوری : 23) کی تفسیر میں کہا : مگر یہ کہ تم اس رشتہ کو جوڑ دو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔ کہا : قریش کا کوئی خانوادہ نہیں تھا مگر اس کے اور نبی کریم ﷺ کے درمیان رشتہ داری تھی۔ یہ قول اسے جامع ہے۔ -9 العشیرہ۔ اسے حدیث صحیح جامع ہے اللہ تعالیٰ نے جب وانذر عشیرتک الاقربین۔ (الشعرائ) کو نازل کیا تو نبی کریم ﷺ نیق ریش کے خاندانوں کو دعوت دی جس طرح اس کا ذکر پہلے گذر چکا ہے وہ قریبی خاندان تھے۔ باقی مطلق عشیرہ کا قول پہلے گذر چکا ہے۔ -10 قوم۔ اسے عصبات میں خصوصاً مردوں پر بولا جاتا ہے عوتریں اس میں شامل نہیں قوم مردوں اور عورتوں دونوں کو جامع ہے اگرچہ شاعر نے کہا : وما ادری وسوف اخال ادریا اقوم آل حصن ام نساء لیکن یہ ارادہ کیا کہ جب آدمی مدد کے لئے اپنی قوم کو بلاتا ہے تو مرد مراد لیتا ہے اور جب حرمت کے لئے انہیں بلاتا ہے تو اس میں مرد اور عورتیں سب شامل ہوتی ہیں صفت اسے عام کرتی ہے اور قرینہ اسے خاص کرتا ہے۔ -11 موالی۔ امام مالک نے کہا، اس میں اس کے اپنے موالی کے ساتھ اس کے باپ اور بیٹے کے مولای بھی داخل ہتے ہیں۔ ابن وہب نے کہا، اس میں موالی کی اولاد بھی شامل ہوتی ہے۔ ابن عربی نے کہا، خلاصہ کلام یہ ہے اس میں ہر وہ فرد داخل ہوگا جو ولاء کی وجہ سے وارث بنتا ہے۔ کہا : یہ کلام کی فصول اور اصول ہیں جو قرآن کے ظاہر اور اس سنت کے ساتھ مرتبط ہیں جو قرآن کی وضاحت کرنے والی ہے، اس کی جزئیات کتاب المسائل میں ہیں۔
Top