Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 11
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّ١ۚ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ١ؕ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ١ۚ وَ مَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے لَا يَسْخَرْ : نہ مذاق اڑائے قَوْمٌ : ایک گروہ مِّنْ قَوْمٍ : (دوسرے) گروہ کا عَسٰٓى : کیا عجب اَنْ يَّكُوْنُوْا : کہ وہ ہوں خَيْرًا مِّنْهُمْ : بہتر ان سے وَلَا نِسَآءٌ : اور نہ عورتیں مِّنْ نِّسَآءٍ : عورتوں سے ، کا عَسٰٓى : کیا عجب اَنْ يَّكُنَّ : کہ وہ ہوں خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۚ : بہتر ان سے وَلَا تَلْمِزُوْٓا : اور نہ عیب لگاؤ اَنْفُسَكُمْ : باہم (ایکدوسرے) وَلَا تَنَابَزُوْا : اور باہم نہ چڑاؤ بِالْاَلْقَابِ ۭ : بُرے القاب سے بِئْسَ الِاسْمُ : بُرا نام الْفُسُوْقُ : گناہ بَعْدَ الْاِيْمَانِ ۚ : ایمان کے بعد وَمَنْ : اور جو ، جس لَّمْ يَتُبْ : توبہ نہ کی (باز نہ آیا) فَاُولٰٓئِكَ : تو یہی لوگ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ : وہ ظالم (جمع)
مومنو ! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا برا نام (رکھو) ایمان لانے کے بعد برا نام رکھنا گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں
اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: یعنی وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان سے بہتر ہوں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے اعتقاد اور باطنی طور پر اطاعت شعار ہونے میں بہتر ہوں۔ سحر کا یہ معنی استہزاء ہے اس کا باب ہے، ابو زید نے یہ بیان کیا ہے یہ سب سے روی لغت ہے، اخفش نے کہا : سب نے کہا : یہ کہا جاتا ہے اس کا اسم سخریہ اور سخری ہے دونوں کے ساتھ اسے پڑھا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (الزخرف 32) فلاں سخرہ وہ عمل میں مذاق کرتا ہے یہ کہا جاتا ہے یعنی اس کے ساتھ مذاق کیا جاتا ہے سخرہ لوگ اس کے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔ مسئلہ نمبر 2: اس کے سبب نزول میں اختلاف ہے حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : یہ آیت حضرت ثابت بن قیس بن شماس کے حق میں نازل ہوئی ان کے کان میں گرانی تھی جب صحابہ نبی کریم ﷺ کی مجلس کی طرف سبقت کرتے جب وہ مجلس میں آتے تو صحابہ ان کی جگہ کھلی کردیتے یہاں تک کہ وہ آپ کے پہلو میں بیٹھ جاتے تاکہ جو رسول اللہ ﷺ ارشاد فرمائیں اس کو سن لیں ایک دن وہ آئے جبکہ نماز فجر کی ایک رکعت ہو چیک تھی جب نبی کریم ﷺ فارغ ہوئے تو آپ ﷺ کے حابہ اپنی اپنی جگہ بیٹھ چکے تھے ہر ایک آدمی نے اپنے آپ کو اپنی جگہ روک لیا اور اسی کے ساتھ چمٹ گئے۔ کوئی کسی کے لئے جگہ نہیں چھوڑ رہا تھا یہاں تک کہ جو آدمی جگہ نہ پاتا وہ کھڑا ہوجاتا جب حضرت ثابت نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے لوگوں کی گردنوں کو پھانگا اور کہتے : کھل جائو، لوگوں نے آپ کے لئے جگہ کھلی کردی یہاں تک کہ وہ نبی کریم ﷺ تک جا پہنچے جبکہ ان کے دریمان اور نبی کریم ﷺ کے دریمان ایک آدمی تھا حضرت ثابت نے کہا : جگہ دو ۔ اس آدمی نے آپ سے کہا : آپ نے جگہ پالی ہے یہیں بیٹھ جائیے۔ حضرت ثابت اس کے پیچھے غصہ کی حالت میں بیٹھ گئے پھر کہا : یہ کون ہے ؟ لوگوں نے بتایا : فلاں ہے۔ حضرت ثابت نے کہا فلان کا بیٹا، اسے عاردلانا چاہتے تھے یعنی دور جاہلیت کی جو اس کی ماں تھی اس آدمی کو بڑی حیا آئی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ضحاک نے کہا : یہ بنو تمیم کے وفد کے بارے میں آیت نازل ہوئی جن کا ذکر سورة کے آغاز میں گزر چکا ہے انہوں نے فقراء صحابہ کا مذاق اڑایا جس طرح حضرت عمارخ حضرت خباب، حضرت ابن فہیرہ، حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت سلیمان اور حضرت سالم جو ابو حذیفہ کے غلام تھے یہ بات انہوں نے اس وقت کی جب انہوں نے ان کے برے حال کو دیکھا تو ان میں سے جو لوگ ایمان لائے تھے ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی (1) ۔ مجاہد نے کہا : مراد غنی کا فقیر سے مذاق کرنا، ابن زید نے کہا : اللہ تعالیٰ نے جس کے گناہ پوشیدہ رکھے وہ اس آدمی کا مذاق نہ اڑھائے جس کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نے ظاہر کردیا ہو ممکن ہے کہ اس کے گناہوں کا دنیا میں ظاہر ہونا آخرت میں اس کے لئے بہتر ہو۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ آیت عکرمہ بن ابی جہل کے حق میں نازل ہوئی جب وہ مدینہ طیبہ میں مسلمان کی حیثیت سے آیا مسلمانوں نے جب اسے دیکھا تو کہا : اس امت کے فرعوں کا بیٹا، عکرمہ نے اس کی شکایت نبی کریم ﷺ سے کی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ کوئی آدمی اس پر مذاق کی جرأت نہ کرے جو اس کے سامنے آئے جبکہ اس کا حال پراگند ہو اس کے بدن میں کوئی عیب ہو یا وہ زیادہ اچھی طرح گفتگو نہ کرسکتا ہو ممکن ہے ضمیر کے اعتبار سے زیادہ مخلص اور دل کے اعتبار سے زیادہ صاف ہو اس آدمی کی بنسبت جو اس کی صفت کے مخالف ہے وہ اپنی جان پر ظلم کرے گا کہ وہ اس آدمی کو حقیر سمجھ رہا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عزت دی ہے اور اس کے ساتھ مذاق کر رہا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے عظیم قراردیا ہے سلف صالحین نے اس امر سے بچنے میں حد درجہ مبالغہ سے کام لیا ان میں عمرو بن شرجیل کا قول ہے اگر میں کسی آدمی کو دیکھوں کہ وہ بکری کے بچے کو بکری کا دودھ پلا رہا ہے تو میں اس پر ہنس پڑوں تو مجے ڈر ہے کہ میں وہ کام کروں گا جو اس نے کیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے مروی ہے : آزمائش بات پر ہی منحصر ہے اگر میں کتے کا مذاق اڑائو تو مجھے ڈر ہے کہ میں کتنا بنا دیا جائوں قوم کا لفظ مذکرین کے لئے خاص ہے : زہیر نے کہا : میں نہیں جانتا ممکن ہے میں جان جائو کیا آل حصن مرد ہیں یا عورتیں ہیں۔ انہیں قوم کا نام دیا گیا ہے کیونکہ وہ مصائب میں داعی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ قائم کی جمع ہے پھر ہر جماعت میں اس کو استعمال کیا جانے ولا اگرچہ وہ کھڑے نہ ہوں قوم میں عورتیں مجاز داخل ہوجاتی ہیں سورة بقرہ میں اس کی وضاحت پہلے گزر چکی ہے۔ مسئلہ نمبر 3: عورتوں کا خصوصی ذکر کیا کیونکہ ان سے مذاق اکثر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (نوح 1) یہ سب کو شامل ہے مفسرین نے کہا : یہ نبی کریم ﷺ کی دو بیویوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے حضرت ام سلمہ ؓ سے استہزاء کیا تھا آپ نے اپنی دونوں ڈھاکوں کو ایک سفید کپڑے سے باندھ رکھا تھا اور اس کی دونوں طرفوں کو پیچھے لٹکا دیا تھا وہ اسے گھسیٹ رہی تھیں حضرت عائشہ نے حضرت حفصہ سے فرمایا : اسے دیکھو یہ اپنے پیچھے کیا گھسیٹ رہی ہے گویا وہ کتے کی زبان ہے۔ یہ ان دونوں کا مذاق تھا۔ حضرت انس اور ابن زید نے کہا ا : یہ نبی کریم ﷺ کی ازواج کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے حضرت امہ سلمہ کو چھوٹے قد کا ہونے کی وجہ سے عار دلائی تھی (1) ایک قول یہ کیا گیا ہے کہ یہ حضرت صدیقہ کے حق میں نازل ہوئی انہوں نے اپنے ہاتھ سے حضرت ام سلمہ ؓ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ اے اللے کے نبی : وہ چھوٹے قد کی ہے۔ عکرمہ نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ حضرت صفیہ بنت حیی بن اخطب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں عرض کی : رسول اللہ ﷺ عورتیں مجھے عار دلاتی ہیں وہ مجھے کہتی ہیں اے یہودن جو دو یہودیوں کی بیٹی ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : تو نے یہ کیوں نہیں کہا ‘ میرا جد حضرت ہارون (علیہ السلام) اور میرے چچا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور میرے خاوند حضرت محمد ﷺ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو نازل فرمایا۔ مسئلہ نمبر 4: صحیح ترمذی میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے سامنے ایک آدمی کی نقل کی فرمایا، مجھے یہ بات خوش نہیں کرتی کہ میں کسی کی نقل کروں جبکہ میرے لئے یہ ہے “ کہاں میں نے نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ کہ حضرت صفیہ چھوٹے قد کی عورت ہے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کیا فرمایا : تو نے ایسی بات کی ہے اگر اسے سمندر میں ملایا جائے تو وہ متغیر ہوجائے “ (2) بخاری میں حضرت عبداللہ بن زمعہ سے روایت مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ” تم میں سے کوئی ایک اونٹ و مارنے کی طرح کیوں اپنی بیوی کو مارتا ہے پھر اسے گلے لگاتا ہے “ صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ تمہاری صورتیں اور تمہارے احوال کو نہیں دیکھتا بلکہ وہ تمہارے دل اور اعمال دیکھتا ہے۔ “ (3) یہ عظیم حدیث ہے اس پر یہ حکم مرتب ہوتا ہے کہ کسی کے عیب کی وجہ سے وہ قطع تعلق نہ کرے وہ اس کی اطاعت کے اعمال دیکھے ممکن ہے جو اعمال ظاہرہ کی مخالفت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ایک مذموم وصف کو جانتا ہو جس کے ساتھ وہ اعمال صحیح نہ رہتے ہوں ممکن ہے جس میں ہم کوئی نافرمانی اور کوتاہی دیکھیں اللہ تعالیٰ اس کے دل میں ایسا وصف محمود جانتا ہو جس کے باعث اس کے گناہ بخش دے اعمال ظنی نشانیاں ہیں یہ قطعی ادلہ نہیں جس کے اعمال دیکھیں اس کی تعظیم میں علونہ کریں جس کے برے اعمال دیکھیں اس کی تحقیر میں نہ جایا جائے اس میں غورو فکر کیجئے کیونکہ دقیق نظر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی توفیق دینے والا ہے۔ اس میں تین مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1: لمز کا معنی عیب ہے سورة براۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے (توبہ 58) میں یہ بحث گزر چکی ہے طبری نے کہا : لمز ہاتھ، آنکھ زبان اور اشارہ سے ہو سکتا ہے اور ہمزصرف زبان سے ہوتا ہے یہ آیت اللہ تعالیٰ کے فرمان (النسائ 29) کی مثل ہے یعنی تم میں سے بعض بعض کو قتل نہ کریں کیونکہ مومنین ایک نفس کی طرح ہیں گویا بھائی کو قتل کرنے والا اپنے آپ کو قتل کرنے والا جس طرح مومنین ایک نفس کی طرح ہیں گویا بھائی کو قتل کرنے والا اپنے ٓپ کو قتل کرنے والا ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (النور 61) یعنی تم میں سے بعض بعض کو سلام کرتے ہیں معنی ہے تم میں سے بعض بعض کو عیب نہ لگائیں۔ حضرت ابن عباس، مجاہد، قتادہ، اور سعید بن جبیر نے کہا : تم میں سے بعض بعض پر طعن نہ کریں ضحاک نے کہا : تم میں سے بعض بعض پر طعن نہ کریں اسے لاتلمزون بھی پڑھا گیا ہے انفسکم کے قول میں یہ تنبیہ موجود ہے کہ دانش مند آدمی اپنے آپ پر عیب نہیں لگایا اس لئے کسی غیر پر بھی عیب نہیں لگانا چاہیے کیوند کہ غیر بھی اس کی ذات کی طرح ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : سب مومون ایک جسم کی ماند ہیں اگر اس میں سے ایک عضو کو بیماری لگتی ہے تو سارا جسم اس کے لئے بیداری اور بخار کے ساتھ ایک دوسرے کو بلا لیتا ہے۔ بکر بن عبداللہ مزنی نے کہا : اگر تو یہ ارادہ کرتا ہے کہ تو ہمت سے عیوب کو دیکھے تو بہت زیادہ عیب لگانے والے غور کر کیونکہ لوگوں پر وہی عیب لگاتا ہے جو اس کے عیوب سے زائد ہوتا ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی ایک اپنے بھائی میں تنکا دیکھ لیتا ہے اور اپنی آنکھ میں شہیتر کو چھوڑ دیتا ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے : انسان کی سعادت مندی اس میں ہے کہ دوسروں کے عیوب میں مشغول ہونے کے بجائے اپنے عیوب میں مشغول ہوجائے : شاعر نے کہا : انسان اگر عقلمند ہو تو اس کا تقویٰ اسے گولوں کے عیوب سے غافل کردے گا جس طرح ایک مریض ہوتا ہے اس کا درد اسے تمام لوگوں کے درد سے غافل کردیتا ہے۔ ایک اور شاعر نے کہا : جن عیوب کو لوگوں نے چھپا رکھا ہے تو انہیں ظاہر نہ کرو ورنہ اللہ تعالیٰ تیرے عیوب کو ظاہر کردے گا جب ان کا ذکر ہو تو ان کی اچھائیوں کا ذکر کر اور جو عیعب تجھے میں ہے وہ عیب کسی پر نہ لگا۔ مسئلہ نمبر 2: کا معنی ہے اس کی جمع انباز ہے نبز مصدر ہے تو اس کا باب یوں ظاہر کرتا ہے یعنی اسے لقب دیا فلاں بچوں کو لقب دیتا ہے کثرت کو ظاہر کرنے کے لئے اسے مشدد پڑھا جاتا ہے یہ بھی جائز ہے برے لقب کو کہتے ہیں ان میں سے بعض نے بعض کو لقب دیا۔ ترمذی میں ابو جبیرہ بن ضحاک سے مروی ہے کہا : ہم میں سے ایک آدمی کے دو یا تین نام ہوا کرتے تھے ان میں سے کسی ایک نام سے اسے پکارا جاتا (1) ممکن تھا کہ وہ ناپسند کرتے تو یہ آیت نازل ہوئی کہا : یہ حدیث حسن ہے۔ ابو جبیرہ نے کہا : وہی اخوثابت بن ضحاک بن خلیفہ انصاری ہے، ابو زید بن سعید بن ربیع صاحب ہر وی ثقہ ہے مصنف ابی دائود میں ان سے یہ روایت مروی ہے کہ یہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی کہا : رسول اللہ ﷺ تشریف لائے ہم میں سے کوئی ایسا آدمی نہ تھا مگر اس کے دو یا تین نام تھے۔ رسول اللہ ﷺ اسے فرمایا کرتے : اے فلاں وہ عرض کرتے یا رسول اللہ ﷺ رک جائیے اور وہ اس نام سے ناراض ہوجاتا تو یہ آیت نازل ہوئی (2) ایک قول ہے۔ دوسرا قول ہے : حضرت حسن بصری اور مجاہد نے کہا کہ اسلام لانے کے بعد آدمی کو کفر کے ساتھ عار دلائی جاتی کہا جاتا : اے یہودی اے نصرانی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ قتادہ اور ابو العالیہ اور عکرمہ سے مروی ہے قتادہ نے کہا : اس سے مراد اے فاسق، اے منافق، یہ مجاہد اور حضرت حسن بصری کا قول ہے یعنی یہ کتنی بری بات ہے کہ آدمی کا یہ نام ذکر کیا جائے اے زانی، اے کافر، جبکہ وہ اسلام قبول کرچکا ہے اور توبہ کرچکا ہے یہ ابن زید کا قول ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے جس نے اپنے بھائی کا لقب ذکر کیا یا اس کے ساتھ مذاق کیا تو ایسا کرنے والا فاسق ہوتا ہے حدیث صحیح میں ہے کہ جس نے اپنے بھائی کے بارے میں کہا اے کافر : تو یہ قول کسی ایک کی طرف لوٹے گا اگر اسی طرح ہوا جس طرح اس نے ذکر کیا ہے تو ٹھیک ورنہ وہ قول کہنے والا کی طرف لوٹ آئے گا ‘ جس نے وہ عمل کیا جس سے اللہ تعالیٰ نے معن کیا تھا یعنی مذاق، عیب لگانا تو ایسا کرنے والا فاسق ہوگا یہ جائز نہیں روایت بیان کی گئی ہے کہ حضرت ابو ذر نبی کریم ﷺ کے پاس تھے ایک آدمی نے ان سے جھگڑا کیا تو حضرت ابو ذر نے اسے کہا : اے یہودیہ کے بیٹے : نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تو یہاں سرخ اور سیاہ نہیں دیکھتا تو اس سے افضل نہیں “ یعنی تو تقوی کے ساتھ اس سے افضل نہیں تو یہ آیت نازل ہوئی : وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ ۔ حضرت ابن عباس ؓ نے کہا … کا مطلب ہے کہ آدمی نے برے اعمال کئے ہوں پھر وہ توبہ کرلے تو اللہ تعالیٰ نے اسے سابقہ گناہوں پر عار دلانے سے منع کیا ہے اس پر یہ امر دلالت کرتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جس نے کسی مومن کو اس گناہ کی وجہ سے عار دلائی جس سے اس نے توبہ کی ہوئی ہے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ کرم پر لے لیا ہے کہ اسے آزمائش میں ڈالے اور اسے دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا کرے۔ “ مسئلہ نمبر 3: جس کا استعمال غالب ہوتا ہے اور وہ اس سے مستثنی ہے جس طرح کا نا، کبڑا جس میں اس کا اپنا کوئی عمل دخل نہ ہو امت نے ایسا قول کرنے کی اجازت دی ہے اور اہل ملت نے اس پر اتفاق کیا ہے ابن عربی نے کہا : اللہ کی قسم یہ چیز ان کی کتب میں ہے جس سے میں راضی نہیں وہ گفتگو صالح جزرہ کے بارے میں ہے کیونکہ اس نے خزرہ میں تصحیف کی تھی تو اسی کے ساتھ اس کا لقب رکھ دیا گیا اس طرح ان کا محمد بن سلیمان خضری کے بارے میں قول ہے مطین کیونکہ وہ مٹی میں گر پڑے تھے اسی کی مثل اور بھی اقوال ہیں جو متاخرین میں غالب آئے میں دین کے معاملہ میں اسے جائز نہیں سمجھتا۔ موسیٰ بن علی بن رباح مصری کہا کرتے تھے میں کسی آدمی کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ میرے باپ کا نام اسم مصغر کی صورت میں بنائے ان کے نام میں غالب عین کلمہ کا ضمہ تھا جو قاعدہ اس تمام بحث کو ضبط کرتا ہے وہ یہ ہے کہ ہر وہ قول جسے انسان ناپسند کرے جب اسے اس کے ساتھ ندا کی جائے تو اذیت دینے کی وجہ سے اس کا استعمال جائز نہیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ میں کہتا ہوں اسی معنی میں بخاری نے جامع صحیح میں کتاب الادب کا ایک باب باندھا ہے۔ کہا نبی کریم : نے ارشاد فرمایا : عبداللہ بن خویزمنداد نے کہا : یہ آیت اس چیز کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہے کہ انسان کو ایسا لقب نہ دیا جائے جسے وہ ناپسند کرتا ہے اور جسے وہ پسند کرتا ہے وہ لقب اسے دینا جائز ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت عمر کو فاروق، حضرت ابوبکر کو صدیق، حضرت عثمان کو ذوالنورین، حضرت خزیمہ کو ذوشہاتیں، کسی کو ذوشمالین اور کسی کو ذویدین وغیرہ کا لقب دیا۔ زمحشری نے کہا : نبی کریم ﷺ سے مروی ہے (1) ایک مومن کا دوسرے مومن پر یہ حق ہے کہ اسے وہ نام دے جو اسے سب سے زیادہ محبوب ہو، اسی وجہ سے کنیت سنت اور ادب حسن میں سے ہے حضرت عمر ؓ نے کہا : کنتیں عام کرو کیونکہ یہ آگاہ کرنے والی ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق کا لقب عتیق اور صدیق تھا حضرت عمر کا لقب فاروق تھا حضرت حمزہ کا لقب اسد اللہ حضرت خالد کا لقب سیف اللہ دور جاہلیت اور دور اسلام میں کم ہی ایسا مشہور شخص ہوگا جس کا کوئی لقب نہ ہو عرب و عجم کی تمام قوموں میں ہمیشہ سے اچھے لقب ان کی گفتگو وں اور مکاتیب میں جاری ہیں کسی نے انکار نہیں کیا۔ ماوردی نے کہا : جہاں تک مستحب اور مستحسن القاب کا تعلق ہے۔ (2) تو وہ مکروہ نہیں رسول اللہ ﷺ نے کئی صحابہ کے ایسے اوصاف بیان کئے ہیں جو ان کے نمایاں لقب بن گئے۔ میں کہتا ہوں : جس کا ظاہر ناپسندیدہ ہو جب اس کے ساتھ صفت بیان کرنے کا ارادہ کیا ہو عیب کا ارادہ نہ ہو تو یہ اکثر ہوتا ہے حضرت عبداللہ بن مالک سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو کہہ رہا تھا جمین طویل، سلیمان اعمشن، حمید اعرج، مروان اصغر، فرمایا : جب تو اس کی صفت کا ارادہ کرے اس کے عیب کا ارادہ نہ کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن سرجس سے مروی ہے : کہا : میں نے گنجے یعنی حضرت عمر ؓ کو دیکھا جو حجراسود کا بوسہ لے رہے تھے۔ ایک روایت میں اصلایلیح کے الفاظ ہیں۔ یعنی جو ایسے القاب ذکر کرنے سے توبہ تائب نہ ہوا جس سے مسلمان اذیت محسوس کرتے ہیں وہ ان معن کی گئی چیزوں کو اپنا کر اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں۔
Top