Al-Qurtubi - Al-Hujuraat : 12
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ١٘ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًا١ؕ اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ١ؕ وَ اتَّقُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : جو لوگ ایمان لائے اجْتَنِبُوْا : بچو كَثِيْرًا : بہت سے مِّنَ الظَّنِّ ۡ : (بد) گمانیوں اِنَّ بَعْضَ : بیشک بعض الظَّنِّ : بدگمانیاں اِثْمٌ : گناہ وَّلَا : اور نہ تَجَسَّسُوْا : ٹٹول میں رہا کرو ایک دوسرے کی وَلَا يَغْتَبْ : اور غیبت نہ کرو بَّعْضُكُمْ : تم میں سے (ایک) بَعْضًا ۭ : بعض (دوسرے) کی اَيُحِبُّ : کیا پسند کرتا ہے اَحَدُكُمْ : تم میں سے کوئی اَنْ يَّاْكُلَ : کہ وہ کھائے لَحْمَ اَخِيْهِ : اپنے بھائی کا گوشت مَيْتًا : مردہ کا فَكَرِهْتُمُوْهُ ۭ : تو اس سے تم گھن کروگے وَاتَّقُوا اللّٰهَ ۭ : اور اللہ سے ڈرو اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تَوَّابٌ : توبہ قبول کرنیوالا رَّحِيْمٌ : مہربان
اے اہل ایمان ! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے (تو غیبت نہ کرو) اور خدا کا ڈر رکھو بیشک خدا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے
اس میں دس مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1:۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یہ آیت ان دو مرد صحابہ بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے اپنی ساتھی کی غیبت کی تھی اس کی وجہ یہ بنی کہ نبی کریم ﷺ کا معمول مبارک یہ تھا جب آپ سفر کرتے تو ایک محتاج آدمی کو دو خوشحال آدمیوں کے ساتھ ملا دیتے وہ ان کی خدمت کرتا رسول اللہ ﷺ نے حضرت سلمان کو دو آدمیوں کے ساتھ ملایا، حضرت سلمان اپنے پڑائو کی طرف نکلے اور نیند غالب آگئے وہ سو گئے اور ان دونوں کے لئے کوئی چیز تیار نہ کی وہ دونوں آئے تو کھانا اور سالن نہ پایا دونوں نے کہا : جائو نبی کریم ﷺ سے ہمارے لئے کھانا اور سالن طلب کرو۔ وہ گئے نبی کریم ﷺ نے انہیں فرمایا :” اسامہ بن زید کے پاس جائو اسے کہو : اگر تیرے پاس زائد کھانا ہے تو تجھے دے دے “ حضرت اسامہ نبی کریم ﷺ کے خازن تھے حضرت سلمان فارسی اس کے پاس گئے حضرت اسامہ نے کہا : میرے پاس تو کچھ بھی نہیں حضرت سلمان واپس آئے اور ان دونوں کو یہ سب صورتحال بتائی دونوں نے کہا : اس کے پاس کھانا تو تھا لیکن اس نے بخل کیا ہے پھر دونوں نے حضرت سلمان فارسی کو صحابہ کی ایک جماعت کی طرف بھیجاتو انہوں نے ان کے ہاں بھی کوئی کھانہ نہ پایا دونوں نے کہ : اگر ہم اسے سمحیہ کے کنویں کی طرف بھجیں گے تو اس کا پانی بھی خشک ہوجائے گا پھر وہ چلے تاکہ دیکھیں کیا حضرت اسامہ کے پاس کچھ ہے نبی کریم ﷺ نے انہیں دیکھ لیا اور فرمایا : ” کیا وجہ ہے میں تمہارے مونہوں میں گوشت کی سبزی دیکھتا ہوں “ دونوں میں عرض کی : اے اللہ کے نبی : اللہ کی قسم آج ہم نے نہ گوشت کھایا ہے نہ کوئی اور چیز کھائی ہے فرمایا : لیکن تم دونوں نے ظلم کیا تم سلمان فارسی اور اسامہ کا گوشت کھاتے ہو “ تو یہ آیت نازل ہوئی (1) ثعلبی نے اسے ذکر کیا ہے یعنی تم اہل خیبر کے بارے میں برا گمان نہ کرو اگر ان کے ظاہر کے بارے میں جانتے ہو مسئلہ نمبر 2: صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ظن سے بچو بیشک ظن سب سے جھوٹی بات ہے ٹوہ میں نہ رہا کرو، جاسوسی نہ کیا کرو، باہم ایک دوسرے کیبھائو پر بھائو نہ لگایا کرو باہم حسد نہ کیا کرو، باہم بغض نہ رکھا کرو آپس میں دشمنی نہ رکھا کرو اے اللہ کے بندو : بھائی بھائی بن جائو، یہ الفاظ بخاری کے ہیں ہمارے علماء نے کہا : یہاں اور آیت میں ظن سے مراد تہمت ہے تخدیر اور نہی کا محل وہ تہمت ہے اس کا وہ عیب نہیں جو اسے ثابت کرتا ہے مثلاً کسی پر فاحشہ اور شراب نوشی کی تہمت لگائی جاسکتی ہے جو چیز اس کا تقاضا کرتی ہے وہ اس پر ظاہر نہیں ہوتی اس امر کی دلیل کہ یہاں ظن کا معنی تہمت ہے وہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے : اس کی وجہ یہ ہے کہ ابتداء میں اس کے دل میں تہمت کا خیال آتا ہے اور وہ اس خبرکیلئے جاسوسی کرتا ہے اور بحث و تحمیض کرتا ہے وہ توجہ سے دیکھتا ہے اور توجہ سے سنتا ہے تاکہ وہ امرثابت ہوجائے جو اس تہمت میں سے واقع ہوا ہے نبی کریم ﷺ نے اس سے منع کیا ہے اگر تو چاہے تو یہ کہہ دیے جو چیز گمانات کو ممتاز کرتی ہے کہ ان سے اجتناب ضروری ہے وہ یہ ہے کہ جس کی تو صحیح ملامت اور ظاہری سبب نہ پاتا ہو تو وہ حرام ہے اور اجتناب ضروری ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس آدمی کے بارے میں یہ گمان کیا جارہا ہے اس سے پردہ پوشی اور صالحیت دیکھی گئی ہو اور ظاہر میں امانت ہی دکھائی دیتی ہو اس کی بارے میں فساد اور خیانت کا گمان حرام ہے اس آدمی کا معاملہ مختلف ہے جو لوگوں میں اس انداز میں مشہورہو کہ شک و شبہ والے کام کرتا ہو اور اعلانیہ خبیث اعمال کا ارتکاب کرتا ہو نبی کریم ﷺ سے مروی ہے ’ اللہ تعالیٰ نے مسلمان کے خون اور اس کی عزت کو حرام قراردیا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے کہ وہ اس کے بارے میں (برا) گمان کرے “ 1 حسن سے مروی ہے : ہم ایسے زمانے میں تھے جس میں لوگوں کے بارے میں (برا) گمان حرام ہے اور تو آج ایسے زمانے میں ہے کہ تو عمل کر اور خاموش رہ اور لوگوں کے بارے میں جو چاہے گمان رکھ مسئلہ نمبر 3: ظن کی دو حالتیں ہیں ایک حالت ایسی ہے جو جانی پہچانی ہے اور دلائل کی صورتوں میں سے کسی صورت کے ساتھ قوی ہوجاتی ہے تو اس کیموافق حکم دینا جائز ہے شریعت کے اکثراحکام غلبہ ظن پر مبنی ہیں جس طرح قیاس اور خبر کے واحد وغیرہ دوسری حالت یہ ہے کہ دلالت کے بغیرنفس میں کوئی چیز واقع ہوجائے تو وہ اپنی ضد سے اولی نہ ہو یہی شک ہے اس کے مطابق حکم دینا جائز نہیں اس سے نہیں کی گئی ہے جس کا ذکرہم نے ابھی ابھی بیان کیا ہے۔ بدعتیوں کی ایک جماعت نے ظن کی بناء پر اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرنے اور اس پر عمل کرنے کے جواز کا انکار کیا ہے وہ دین میں اپنی رائے سے فیصلہ کرتے ہیں اور معقولات میں اپنا دعوی کرتے ہیں اس میں کوئی قاعدہ نہیں جس پر انحصار کیا جاسکے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سب کی ندمت نہیں کی بعض کی ندمت کی ہے بعض اوقات وہ حضرت ابوہریرہ ؓ کی حدیث سے استدلال کرتے ہیں ظن سے بچو اس میں کوئی دلیل نہیں کیونکہ شریعت میں ظن کی دو قسمیں ہیں اس میں سے محمود وہ ہے جس کے ساتھ ظن کرنے والے کا دین اور جس کے بارے میں گمان کیا جارہا ہے۔ جب اس تک پہنچے اس کا دین محفوظ رہتا ہے مذموم اس کے مدمقابل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : (النور 12) اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (الفتح) نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :” جب تم میں سے کوئی کسی بھائی کی تعریف کرے تو وہ کہے میں یہ گمان کرتا ہوں مھیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کی پاکی بیان نہیں کرتا “ فرمایا : جب تو یہ گمان کرے تو تحقیق کرلے جب حسد کرے تو تجاوز نہ کرے اور جب تو فاعل پکڑے تو کام کو جاری رکھ “ اسے ابودائود نے نقل کیا ہے۔ اکثرعلماء کی رائے یہ ہے کہ جس آدمی کا ظاہر اچھا ہو اس کے بارے میں برا گمان جائز نہیں جس کا ظاہرقبیح ہو اس کے بارے میں برا گمان رکھنے میں کوئی حرج نہیں یہ مہدوی نے کہا ہے : مسئلہ نمبر 4: ابورجاء اور حضرت حسن بصری نے اسے اختلاف کے ساتھ پڑھا ہے اور دوسرے علماء نے اسے ولاتحسو پڑھا ہے اس میں اختلاف ہے کیا دونوں کا معنی ایک ہے یا ان دونوں کے دو معنی ہیں ؟ اخفش نے کہا : ان میں سے ایک دوسرے سے بعید نہیں کیونکہ تحسس کا معنی ایسی چیز کے بارے میں بحث کرنا ہے جو تجھ سے پوشیدہ ہو اور تجس سے مردا خبروں کو طلب کرنا اور ان کے بارے میں بحث کرنا ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے : تجس کا معنی بحث کرنا اسی سے یہ لفظ ذکر کیا جاتا ہے رجل جاسوس جب وہ امور کی کرید کرتا ہو اور تحسس سے مراد انسان کا کسی حاسہ سے اس چیز کا ادراک کرنا دوسرا قول یہ ہے کہ ان میں فرق ہے تحسس کا معنی اپنے لئے تلاش کرنا اور تجسس کا معنی ہے کسی اور کا بھیجا ہوا یہ ثعلب کا قول ہے پہلا قول زیادہ معروف ہے جب تو ان کی چھان بین کرے اسی معنی میں جاسوس ہے آیت کا معنی ہے جو امر ظاہر ہو اسے لے لو اور مسلمانوں کے پوشیدہ امورکا تجسس نہ کر، یعنی تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا عیب تلاش نہ کرے یہاں تک کہ اس پر مطلع ہوجائے جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسے مخفی رکھا ہے۔ ابودائود کی کتاب میں حضرت معاویہ ؓ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا : اگر تو لوگوں کے پوشیدہ امور کا پیچھا کریگا تو تو انہیں فاسد کر دے گا (1) حضرت ابو درداء نے کہا : یہ ایسا کلمہ ہے جو حضرت معاویہ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اللہ تعالیٰ نے اس کے ذریعے اسے نفع دیا مقدام بن معدیکرب سے مروی ہے وہ حضرت ابو امامہ سے وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں فرمایا : امیرجب لوگوں میں شک کی تلاش کرے تو اس نے انہیں خراب کردیا (2) زید بن وہب سے مروی ہے کہ کوئی آدمی حضرت ابن مسعود کی خدمت میں حاضرہوا اور اس نے عرض کی یہ فلاں ہے، اس کی داڑھی شراب ٹپکاتی ہے حضرت عبداللہ نے کہا : ہمیں تجسس سے روک دیا گیا ہے لیکن اگر ہمارے لئے کوئی چیز ظاہر ہوگی تو ہم اس کو اپنائیں گے (3) ابوبرزہ اسلمی سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے وہ لوگو جو زبان سے ایمان لائے ہو اور ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوا مسلمانوں کی غیبت نہ کرو اور ان کی پوشیدہ باتوں کا پیچھا نہ کرو جو انسان ان کی پوشیدہ باتوں کا پیچھا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی پوشیدہ باتوں کا پیچھا کے گا اور اللہ تعالیٰ جس کی پوشیدہ بات کا پیچھا کرے گا اللہ تعالیٰ اسے اس کے گھر میں رسوا کردے گا (4) حضرت عبدالرحمن بن عوف نے کہا : ایک رات میں نے حضرت عمربن خطاب کے ساتھ مل کر پہرہ دیا کہ ایک گھر میں ہمارے لئے چراغ ظاہر ہوا دروازہ لوگوں پر کھلا ہوا تھا جن کی آوازیں بلند تھیں اور وہ فضول بات کررہے تھے حضرت عمر ؓ نے کہا : یہ گھرربیعہ بن امیہ بن خلف کا ہے وہ اس وقت شراب پی رہے ہیں تیری کیا رائے ہے میں نے کہا : میری رائے ہے ہم نے وہ کام کیا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع کیا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہم نے تجسس کیا ہے حضرت عمرواپس ہوگئے اور انہیں چھوڑ دیا ابو قلابہ نے کہا : حضرت عمربن خطاب ؓ کی خدمت میں بیان کیا گیا کہ ابومجنن ثقفی اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے گھر میں شراب پیتا ہے حضرت عمروہاں تشریف لے گئے یہاں تک کہ اس کے گھر میں داخل ہوئے اس کے پاس صرف ایک آدمی تھا ابومحجن نے کہا : یہ تیرے لئے حلال نہیں تھا اللہ تعالیٰ نے تجسس سے تجھے منع کیا ہے حضرت عمر وہاں سے نکلے اور اسے چھوڑ دیا زید بن اسلم نے کہا : حضرت عمرؓ اور حضرت عبدالرحمن ؓ پہرہ دینے کے لئے نکلے دونوں کے لئے آگ ظاہرہوئی دونوں نے اجازت طلب کی دروازہ کھولا گیا تو وہاں ایک مرد اور عورت تھی عورت گانا گا رہی تھی اور مرد کے ہاتھ پر پیالہ تھا حضرت عمر نے فرمایا : اے فلاں تو یہ کام کررہا ہے : اس نے عرض کی : اے امیرالمومنین آپ نے یہ کیا کیا ہے ؟ حضرت عمرنے پوچھا : یہ تیری کیا لگتی ہے ؟ عرض کیا میری بیوی ہے فرمایا اس پیالے میں کیا ہے جواب دیا میٹھا پانی حضرت عمر نے پوچھا تو کیا گا رہی تھی اس نے عرض کی پھر اس آدمی نے کہا : اے امیرالمومنین : ہمیں اس کا حکم نہیں دیا گیا اللہ تعالیٰ نے فرمایا : حضرت عمرنے فرمایا : تو نے سچ کہا میں کہتا ہوں : اس خبر سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ عورت مرد کی بیوی نہیں تھی کیونکہ حضرت عمر زنا کی اجازت دینے والے نہیں تھے اس عورت نے ایسے اشعارپڑھے جن میں خاوند کا ذکر تھا اس نے یہ اشعار اس کی عدم موجودگی میں کہے تھے اللہ تعالیٰ بہترجانتا ہے عمر بن دینارنے کہا : اہل مدینہ کے ایک آدمی کی بہن تھی وہ بیمار ہوگی وہ اس کی عیادت کرتا تھا وہ فوت ہوگئی اس نے اپنی بہن کو دفن کیا وہ خود اس کی قبر میں اترا اس کی آستین سے ایک تھیلا گرگیا جس میں دینار تھے اس نے اپنے خاندان کے کچھ افراد سے مدد لی انہوں نے اس کی قبر کو کھودا اور تھیلہ لے لیا پھر اس نے کہا : میں اسے کھولوں گا یہاں تک کہ میں دیکھوں گا کہ میری بہن کا انجام کیا ہوا اس نے اسے کھولا توقبر آگ سے بھڑک رہی تھی وہ اپنی ماں کے پاس آیا عرض کی : مجھے بتائو میری بہن کا عمل کیسا تھا ماں نے کہا تیری بہن مرچکی ہے اب اس کے عمل کے بارے میں سوال کا فائدہ وہ لگاتار سوال کرتا رہا۔ یہاں تک کہ ماں نے کہا : اس کا یہ عمل تھا کہ وہ نماز کو تاخیر سے پڑھتی جب لوگ سوجاتے توہ وہ لوگوں کے گھروں کی طرف اٹھتی اور اپنے کان ان کے دروازوں کے ساتھ لگاتی اور ان کے معاملات کے بارے میں تجسس کرتی اور ان کے راز ظاہر کردیتی اس مرد نے کہا : اس وجہ سے وہ ہلاک ہوئی مسئلہ نمبر 5: اللہ تعالیٰ نے غیبت سے منع کیا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ تو کسی انسان کا ان عیبوب کے ساتھ ذکر کرے جو اس میں ہیں اگر وہ کسی ایسے عیب کا ذکر کرتا ہے جو اس میں نہیں تو یہ بہتان ہوتا ہے صحیح مسلم میں اسی معنی کی حدیث موجود ہے حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے (1) جواب دیا اللہ اور اس کا رسول بہترجانتے ہیں فرمایا : تیرا اپنے بھائی کا ایسی چیز کیساتھ ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے، عرض کی گئی : بتائیے اگر وہ عیب میرے بھائی میں موجود ہو جو میں کہتا ہوں فرمایا : اگر اس میں وہ ہے جو کچھ تم کہتے ہو تو تو نے اس کی غیبت کی اگر وہ عیب اسمیں نہ ہو تو تو نے اس پر بہتان لگایا “ جملہ کہا جاتا ہے : جب اس میں واعہ ہو اس کا اسم غیبتۃ ہے اس سے مراد عدم موجودگی میں عیب کا ذکر کرنا ہے حضرت حسن بصری نے کہا : غیبت کی تین صورتیں ہیں سب کتاب اللہ میں ہیں غیبت، افک، بہتان (2) جہاں تک غیبت کا تعلق ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کے بارے میں وہ بات کرے جو اس میں ہو افک سے مراد تو اس کے بارے میں وہ کہے جو تجھ تک پہنچی ہو جہاں تک بہتان کا تعلق ہے تو اسکا مطلب ہے تو وہ بات کرے جو اس میں نہ ہو شعبہ سے مروی ہے کہ مجھے معاویہ بن قرہ نے کہا : اگر تیرے پاس سے کوئی ایسا آدمی گزرے جس کا ہاتھ کٹا ہوا ہو تو تو کہے : اس کا ہاتھ کٹا ہوا ہے تو یہ غیبت ہوگی شعبہ نے کہا میں نے اس کا ذکر ابواسحاق سے کیا تو اس نے کہا : اس نے سچ بولا ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ اسملمی ماعز نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اپنے بارے میں زنا کی گواہی دی رسول اللہ ﷺ نے اسے رجم کرن کا حکم دیا یا رسول اللہ ﷺ نے اپنے دو صحابہ کو سنا ایک دوسرے کو کہہ رہا تھا : اسے دیکھو اللہ تعالیٰ نے اس کا عمل پردہ میں رکھا تھا اس نے اپنے آپ کو نہ چھوڑا یہاں تک کہ ایک مردہ گدھے کے پاس سے گذرے جس کے پائوں سے رسی باندھی گئی تھی : فرمایا، اے فلاں فلاں : دونوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ﷺ ہم حاضر ہیں : فرمایا : ” اترو اور اس گدھے کا گوشت کھائو “ عرض کی : اے اللہ کے نبی : کون اسے کھاتا ہے فرمایا : ” تم نے اپنے بھائی کی عزت سے جو حاصل کیا ہے وہ اس کھانے سے زیادہ سخت ہے اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اور اس وقت جنت کی نہروں میں غوطہ لگا رہا ہے (3) ۔ مسئلہ نمبر 6: اللہ تعالیٰ نے غیبت کو مردارکھانے سے تشبیہ دی ہے کیونکہ میت نہیں جانتا کہ اس کا گوشت کس نے کھایا ہے جسطرح زندہ نہیں جانتا کہ کس نے اس کی غیبت کی ہے حضرت ابن عباس ؓ نے کہا : اللہ تعالیٰ نے یہ مثال غیبت کی بیان کی ہے کیونکہ مردار کا گوشت حرام اور ناپسندیدہ ہوتا ہے اسی طرح غیبت دین میں حرام اور نفوس میں قبیح ہوتی ہے قتادہ نے کہا : جس طرح تم میں سے کوئی ایک اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے رک جاتا ہے اسی طرح ضروری ہے کہ وہ زندہ کی غیبت سے رکے غیبت کی جگہگوشت کھانے کا لفظ استعمال کیا گیا کیونکہ عربوں کی یہ عادت عام تھی شاعر نے کہا ؎ : اگر وہ میرا گوشت کھائیں تو میں ان کے گوشت کو بڑھا دوں گا اگر وہ میری بزرگی کو ختم کرنا چاہیں تو میں ان کے لبے بزرگی بنا دوں گی نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو لوگوں کے گوشت کھاتا رہا (غیبت کرتا رہا) اس نے روزہ نہیں رکھا لوگوں کی غیبت کرنے کو ان کیگوشت کھانے سے تشبیہ دی ہے جس نے کسی مسلمان کا نقص بیان کیا یا اس کی عزت کو پامال کیا تو وہ اس کے زندہ حالت میں گوشت کھانے والے کی طرح ہے جس نے اس کی غیبت کی اور اس کے مردہ ہونے کی حالت میں گوشت کھاین کیطرح ہے ابو دائود کی کتاب میں حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جب مجھے معراج کرائی گئی میں ایک ایسی قوم کے پاس گزرا جس کے تانبے کے ناخن تھے وہ اپنے چہرے پر اور سینے نوچ رہے تھے میں نے پوچھا : اے جبریل : یہ کون لوگ ہیں : عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھایا کرتے تھے اور ان کی عزتوں سے کھیلا کرتے تھے (1) مستور سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس نے کسی مسلمان کا ایک لقمہ کھایا (غیبت کی) اللہ تعالیٰ جہنم میں اسی کی مثل اسے کھلائے گا اور جسے کسی مسلمان کا کپڑا پہنایا گیا اللہ تعالیٰ جہنم میں سے اس کی مثل اسے لباس عطا کریگا اور جو شہرت اور ریا کاری کے مقام پر کھڑا ہو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اسے شہرت اور ریاکاری کے مقام پر کھڑا کرے گا (2) نبی کریم ﷺ کا ارشاد پہلے گزر چکا ہے اے وہ جماعت جو اپنی زبان سے ایمان لائی ہے اور ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوا مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرو حضور ﷺ کا دو آدمیوں کو فرمانا : کیا وجہ ہے میں تمہارے مونہوں میں گوشت کی سبزی دیکھتا ہوں ابو قلابہ رقاشی نے کہا : میں نے ابو عاصم کو یہ کہتے ہوئے سنا جب سے میں نے غنیمت میں جو وبال ہے اسے پہچانا ہے میں نے کسی کی غیبت نہیں کی میمون بن سیاہ کسی غیبت کی نہیں کیا کرتے تھے اور نہ کسی کو چھوڑتے کہ ان کے ہاں کسی کی غیبت کرے آپ اسے منع کرتے اور اگر وہ رک جاتا تو ٹھیک ورنہ آپ اٹھ کھڑے ہوتے ثعلبی نے حضرت ابورہریرہ ؓ سے رایت نقل کی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس سے اٹھا تو صحابہ نے اس کے اٹھنے میں ضعف دیکھا انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ فلاں کتنا عاجز ہے فرمایا : تم اپنے بھائی کا گوشت کھایا ہے اور تم نے اس کی غیبت کی ہے (1) سفیان ثوری سے مروی ہے کہ کم سے کم غیبت یہ ہے کہ تو کہے یعنی وہ چھوٹا، بخیل اور سخت گھنگریالے بالوں والا ہے حضرت عمربن خطاب ؓ نے کہا : لوگوں کے ذکر سے بچو کیونکہ یہ ایک بیماری ہے تم پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا لازمی ہے کیونکہ وہ شفا ہے علی بن حسین ؓ نے ایک آدمی کو دوسرے آدمی کی غیبت کرتے ہوئے سنا : فرمایا : غیبت سے بچو کیونکہ یہ لوگوں کے کتوں کا سالن ہے ۔ عمرو بن عبید سے کہا گیا : فلاں نے آپ کی غیبت کی یہاں تک کہ ہم نے آپ پر رحم کیا اس پر رحم کرو ایک آدمی نے حضرت حسن بصری سے کہا کہ مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ آپ میری غیبت کرتے ہیں فرمایا : تیرا مقام و مرتبہ میرے ہاں اتنا نہیں میں اپنی نیکیوں کا فیصلہ تیرے حق میں کر دوں مسئلہ نمبر 7: ایک قوم کی یہ رائے ہے کہ غیبت صرف دیانتداری کے اعتبار سے ہوتی ہے یہ شکل و صورت اور حسب (اخلاق) میں نہیں ہوتی انہوں نے کہا : یہ اللہ تعالیٰ کا عمل ہے دوسرے علماء نے اس کے برعکس قول کیا ہے انہوں نے کہا : غیبت شکل و صورت اخلاق اور حسب ہوا میں ہوا کرتی ہے شکل صورت میں سب سے سخت ہوتی ہے کیونکہ جو کسی صنعت میں عیب لگاتا ہے وہ صانع میں عیب لگاتا ہے یہ سب اقوال مردود ہیں جہاں تک پہلے قول کا تعلق ہے حضرت عائشہ صدیقہ ﷺ کی حدیث اسے رد کرتی ہے جب آپ نے حضرت صفیہ کے بارے میں کہا وہ چھوٹے قد کی ہے : نبی کریم ﷺ نے اسے ارشاد فرمایا : تو نے غیبت کہی ہے اگر اسے سمندر میں ملایا جائے تو اس کی حالت بدل جائے اسے ابو دائود نے نقل کیا ہے امام ترمذی نے کہا اسے حدیث کے بارے میں کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے (2) اور جو روایت اس نے معنی میں ہوگی وہ پہلی روایات کے موافق ہوگی قدیمی علماء کی یہ رائے ہے کہ جب اس سے عیب کا ارادہ کیا جائے تو یہ غیبت ہوتی جہاں تک دوسرے قول کا تعلق ہے سب علماء کے نزدیک وہ بھی مردود ہے کیونکہ پہلے زمانہ کے علماء جو رسول اللہ ﷺ کے صحابہ اور ان کے بعد تابعین میں سے تھے ان کے نزدیک دین (دیانت) میں غیبت سے بڑھ کر کوئی غیبت نہ تھی کیونکہ دیانت میں عیب سب سے بڑا عیب ہے کیونکہ ہر مومن اس بات کو زیادہ پسند کرتا ہے کہ اس کی دین کے بارے میں کوئی بات ذکر کی جائے بنسبت اس کے جو اس کے بدن کے بارے میں میں بات کی جاتی ہے جس نے بھی یہ بات کی ہے اس کے رد کے لئے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد کافی ہے : جب تو اپنے بھائی کے بارے میں ایسی بات کرے جسے وہ ناپسند کرتا ہے تو تو نے اس کی غیبت کی الحدیث : جو آدمی یہ گمان کرے کہ یہ غیبت نہیں تو اس نے نبی کریم ﷺ کے ارشاد کو رد کیا ہے نبی کریم ﷺ کا عمومی ارشاد کافی ہے : تمہارے خون تمہارے اموال اور تمہاری عزتیں تم (میں ایک دوسرے پر) حرام ہیں یہ حکم دین و دنیا سب کو عام ہے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے جس آدمی نے اپنے بھائی کے ساتھ اس کی عزت یا مال میں ظلم کیا تو اس سے اس امر کو اپنے لئے حلال کرالے یعنی ازالہ کرلے خواہ معافی کی صورت میں ہو یا حق کی ادائیگی کے ساتھ ہو یہ امرکو عام ہے جس نے اس میں سے کسی چیز کو خاص کیا ہے اس نے نبی کریم ﷺ کا مقابلہ کیا۔ مسئلہ نمبر 8: اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ غیبت گناہ کبیرہ میں سے جس نے غیبت کی اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارہ گاہ میں توبہ کری کیا غیبت کرنے والے سے بدلہ لینا حلال ہوجاتا ہے اس میں اختلاف کیا گیا ہے ایک جماعت کا کہنا ہے اس سے بدلہ لینا حلال نہیں یہ ایسی خطا ہے جو اس کے اور اس کے رب کے درمیان ہے انہوں نے نے یہ استدلال کیا ہے اس نے دوسرے فرد کا مال نہیں لیا اور نہ ہی اس کے بدن کو ایسی تکلیف پہنچائی ہے جس وجہ سے بدن میں کوئی نقص واقع ہوا ہو یہ کوئی ایسا ظلم نہیں ہے جس کے باعث وہ اس کے لئے حلال ہوجائے وہ ظلم جس کی باعث بدل اور ظلم لازم ہوجاتا ہے وہ مال اور بدن کا نقصان ہے۔ ایک جماعت کا نقطہ نظر ہے یہ ظلم ہے اس کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی اس نے غیبت کی ہے وہ اس کے لئے بخشش طلب کرے انہوں نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو حضرت حسن بصری سے مروی ہے کہا : غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ جس کی اس نے غیبت کی ہے اس کے لئے بخشش کی طلب گارہو ایک اجماعت کا نقطہ نظر یہ ہے جس کی غیبت کی گئی اس کے لئے غیبت کرنے والے سے بدلہ لینا حلال ہے انہوں نے نبی کریم ﷺ کی حدیث سے استدلال کیا ہے جس کسی کی بھائی کے ہاں زیادتی ہو خواہ مال ہو یا عزت میں تو اس کو اس دن سے پہلے معاف کرا لے جہاں کوئی درہم اور دینار نہیں ہوتا اس روز اس کی نیکیاں لی جائیں گی اور اگر اس کی نیکیاں نہ ہوں گی تو جس کی غیبت کی گئی اس کی برائیاں لی جائیں گی اور غیبت کرنے والے کی برائیوں میں اضافہ کردیا جائے گا “ امام بخاری نے اسے نقل کیا ہے یہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی ہے رسول للہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس آدمی پر کسی بھائی نے عزت یا کسی اور چیز میں ظلم کیا ہو تو وہ آج ہی اسے حلال کرا لے اس دن سے پہلے جس روز کوئی دینار اور کوئی درہم نہ ہوگا اگر اس کا کوئی عمل صالح ہوگا تو ظلم کی مقدار کے مطابق اس سے عمل لے لیا جائے گا اگر اس کی نیکیاں نہ ہوں تو جس پر ظلم کیا گیا تھا اس کی برائیاں لے لی جائیں اور ظلم کرنے والے پر ڈال دی جائیں گی یہ احادیث آل عمران آیت 109 میں اللہ تعالیٰ کے فرمان : میں گزر چکی ہیں روایت بیان کی گئی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ کی حدیث ہے کہ ایک عورت حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئی جب وہ اٹھی تو ایک عورت نے کہا : اس کا دامن کتنا لمبا ہے ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا : تو نے اس کی غیبت کی ہے تو اس سے معافی مانگ۔ نبی کریم سے مروی آثار دلالت کرتے ہیں کہ یہ ظلم ہے جس نے غیبت کی ہے اس پر لازم ہے کہ انہیں معاف کرائے۔ جس نے یہ کہا کہ غیبت مال اور بدن میں ہوتی ہے، علماء نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ جو آدمی کسی پر تہمت لگاتا ہے تو اس کا اس آدمی پر ظلم ہے جس پر تہمت لگائی گئی، وہ اس کے بارے میں حد کا مطالبہ کرے گا یہاں تک کہ اس پر حد جاری ہوجائے۔ یہ بدن اور مال میں نہیں اس میں یہ دلیل موجود ہے کہ ظلم عزت بدن اور مال میں ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ نے تہمت لگانے والے کے بارے میں فرمایا : فاذ لم یاتوا بالشھداء فاولئک عند اللہ ھم الکذبون۔ (النور : 13) رسول اللہ نے ارشاد فرمایا : جس آدمی نے کسی مومن پر ایسا بہتان لگایا جو اس میں نہ تھا اللہ تعالیٰ اسے طینۃ خبال (دوزخیوں کے زخموں کی پیپ) میں قید کردے گا۔ یہ سب چیزیں مال اور بدن کے علاوہ میں ہیں۔ جس نے یہ کہا : یہ ظلم ہے اور ظلم کا کفارہ یہ ہے کہ وہ اس آدمی کے لیے بخشش طلب کرے جس کی اس نے غیبت کی تو اس نے الٹ بات کی کیونکہ اس نے اسکا نام ظلم رکھا پھر کہا : اس کا کفاریہ یہ ہے کہ وہ اس کے لیے بخشش طلب کرے کیونکہ مظلمہ کا لفظ مظلوم کے ساتھ بےانصافی کو ثابت کرتا ہے جب بےانصافی ثابت ہوگئی تو ظالم سے اس وقت تک زائل نہ ہوگی مگر یہ کہ مظلوم اس کے لیے اسے حلال نہ کردے۔ جہاں تک حضرت حسن بصری کے قول کا تعلق ہے تو وہ حجت نہیں، نبی کریم نے ارشاد فرمایا : من کا نت لہ عند اخیہ مظلمۃ فی عرض او مال فلیتحللھا منہ۔ جس آدمی کو کسی بھائی کے ہاں عزت اور مال میں ظلم ہو تو وہ اس سے اس کے بارے میں معافی لے لے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے : جو آدمی معافی چاہے اور وہ اسے معاف نہ کرے اس کی رائے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جو چیز حرام کردی ہے وہ اسے حلال نہ کرے۔ ان میں سے ایک سعید بن مسیب ہیں کہا : جس نے مجھ پر ظلم کیا میں اسے معاف نہیں کروں گا۔ ابن سیرین سے کہا گیا : اے ابا بکر یہ ایسا آدمی ہے جو تجھ سے یہ سوال کرتا ہے کہ تو اس کی وہ غلطی معاف کردے جو اس نے تیرے ساتھ کی ہے۔ آپ نے کہا : میں نے یہ چیز اس پر حرام نہ کی تھی کہ میں اسے اس پر حلال کروں۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر غیبت کو حرام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو چیز اس پر حرام کی ہے میں اسے کبھی بھی حلال نہیں کروں گا۔ یعنی معاف نہیں کروں گا۔ جبکہ نبی کریم کا ارشادمعاف کرنے پر دلالت کرتا ہے یہی دلیل ہے، معاف کردینا رحمت پر دلالت کرتا ہے یہ معافی کی صورت میں ہی ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : فمن عفا و اصلح فاجرہ علی اللہ۔ (الشوری : 40) مسئلہ نمبر 9: ایسا فاق جو اعلانیہ فسق کرتا ہے اس کے بارے میں غیبت کا یہ حکم نہیں کیونکہ حدیث طیبہ میں ہے : من القی جلباب العیاء فلا غیبۃ لہ۔ جو حیا کی چادر اتار پھینکے اس کی کوئی غیبت نہیں۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا اذکرو الفاجر مافیہ کی یحذرہ الناس، فاجر میں جو برائی ہے اس کا ذکر کرو تاکہ لوگ اس سے احتیاط کریں۔ غٰبت تو اس آدمی کے بارے میں ہے جو اپنی پردہ پوشی کرتا ہے حضرت حسن بصری سے مروی ہے : ثلاث لیست لھن حرمۃ تین افراد ایسے ہیں جن کی کوئی حرمت نہیں۔ خواہش نفس کی غلامی کرنے والا۔ فاسق معلن۔ ظالم حاکم۔ جب حجاج مرگیا تو حضرت حسن بصیر نے کہا : اے اللہ تو نے اسے موت عطا کی ہے ہم سے اس کی سنت کو ختم کردے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کے عیب کو ختم کردے کیونکہ وہ ہمارے پاس آیا جبکہ وہ رتوند کی بیماری والا اور کمزور نظر والا تھا، وہ اپنا ہاتھ چھوٹے پوروں کے ساتھ بڑھاتا اللہ کی قسم اللہ کی راہ میں اسے پسینہ نہیں آیا اور نہ اسے غبار پہنچا وہ اپنے بالوں کو کنگھی کرتا اور چال میں تکبر کا اظہار کرتا وہ منبر پر چڑھتا اور نیچے تب اترتا جب نماز کا وقت فوت ہوچکا ہوتا، نہ اللہ سے ڈرتا اور نہ لوگوں سے حیا کرتا اس کے اوپر اللہ اور اس کے زیر کمان ایک لاکھ یا زیادہ افراد تھے اسے یہ نہ کہتا : اے انسان نماز، پھر حسن بصری کہتے : ھیھات حال دون ذلک السیف والسوط۔ ربیح بن صبیح نے حضرت حسن بصری سے یہ روایت نقل کی ہے کہ بدعتی کی برائی کرنا کوئی غیبت نہیں، اس طرح تیرا قاضی کو یہ کہنا : جس سے تو اپنے حق کے بارے میں مدد لیتا ہے کہ تو اس سے اپنا حق لے لے جس نے تجھ پر ظلم کیا تو کہتا ہے : فلاں نے مجھ پر ظلم کیا ہے یا مجھ پر غضبناک ہوا ہے یا مجھ سے خیانت کی ہے یا مجھے مارا ہے یا مجھ پر تہمت لگائی ہے یا میرے ساتھ زیادتی کی ہے یہ کوئی غیبت نہیں۔ امت کے علماء اس پر متفق ہیں۔ نبی کریم نے اس بارے میں مجھے کہا : لصاحب الحق مقال۔ صاحب حق کو گفتگو کا حق ہے اور کہا : غنی کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے کہا : لی الواجد یحل عرضہ و عقوبتہ۔ جو آدمی قرضہ ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو اس کا ٹال مٹول کرنا اس کی عزت اور اس کو سزا دینے کو حلال کردیتا ہے اس کے بارے میں استفتاء بھی ہے جس طرح حضرت ہند نے نبی کریم سے پوچھا تھا کہ حضرت ابو سفیان ایک کنجوس آدمی ہے مجھے اتنا مال نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچے کے لیے کافی ہو میں اس کے بتائے بغیر مال لے سکتی ہوں ؟ نبی کریم نے ارشاد فرمایا : ہاں تو لے لے۔ اس نے بخل اور ظلم کا ذکر کیا جو اس کے اور اس کے بچے کے لیے ہو۔ رسول اللہ نے اسے غیبت کرنے والا شمار نہیں کیا کیونکہ حضور نے اس پر اس کی گفتگو کو تبدیل نہ کیا بلکہ حضور نے اسے فتوی کا جواب ارشاد فرمایا، اسی طرح اگر اس کی برائی کے ذکر میں فائدہ ہو جس طرح نبی کریم کا ارشاد ہے : اما معاویۃ فصعلوک لا مال لہ واما ابوجھم فلا یضع عصاہ عن عاتقہ۔ جہاں تک معاویہ کا تعلق ہے وہ کنگال ہے اس کے پاس کوئی مال نہیں اور جہاں تک ابو جہم کا تعلق ہے تو وہ بیوی پر سختی کرتا ہے یا لگا تار سفر پر رہتا ہے۔ یہ جائز ہے مقصد یہ تھا کہ فاطمہ بنت قیس ان کے بارے میں کسی دھوکہ میں نہ رہے۔ محاسبی نے یہ سب اقوال ذکر کیے ہیں۔ مسئلہ نمبر 10: میتا اسے میتا بھی پڑھا گیا ہے، یہ لحم سے حال ہے۔ یہ بھی جائز ہے کہ یہ اخ سے حال ہو اور منصوب ہو۔ جب اللہ نے اس امر کو بیان کیا کہ ان سب سے کوئی یہ پسند نہیں کرتا کہ اپنے مردار بھائی کا گوشت کھائے اس کے پیچھے اس ارشاد کا ذکر کیا فکرھتموہ اس میں دو توج ہیں ہیں۔ (1) تم مردار کو کھانا ناپسند کرتے ہو اسی طرح غیبت کرنا بھی تمہارے لیے مکروہ کردیا گیا ہے۔ مجاہد سے بھی یہی معنی مروی ہے۔ (2) تم یہ ناپسند کرو کہ لوگ تمہاری غیبت کریں تو لوگوں کی غٰبت کو تم بھی ناپسند کرو۔ فراء نے کہا : یعنی جب تم اسے ناپسند کرتے ہو تو ایسا نہ کرنا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : لفظ تو خبر کا ہے معنی امر کا ہے یعنی تم اسے ناپسند کرو واتقوا اللہ اس پر اس کا عطف ہے ایک قول یہ کیا گیا ہے : اس کا عطف اجتنبوا اور لا تجسسوا پر ہے۔
Top