Al-Qurtubi - Al-An'aam : 24
اُنْظُرْ كَیْفَ كَذَبُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ ضَلَّ عَنْهُمْ مَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ
اُنْظُرْ : تم دیکھو كَيْفَ : کیسے كَذَبُوْا : انہوں نے جھوٹ باندھا عَلٰٓي : پر اَنْفُسِهِمْ : اپنی جانوں وَ : اور ضَلَّ : کھوئی گئیں عَنْهُمْ : ان سے مَّا : جو كَانُوْا يَفْتَرُوْنَ : وہ باتیں بناتے تھے
دیکھو انہوں نے اپنے اوپر کیسا جھوٹ بولا اور کو کچھ یہ افتراء کیا کرتے تھے سب ان سے جاتا رہا۔
آیت نمبر 24 :۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آیت : انظرکیف کذبوا علی انفسھم مشرکوں کا اپنا قول انہیں جھٹلائے گا کہ بتوں کی عبادت انہیں اللہ تعالیٰ کا قرب عطا کرے گی، بلکہ انہوں نے یہ گمان کیا اور ان کا گمان غلط تھا ان سے معذرت قبول کرنے کا باعث نہیں تھا اور ان سے جھوٹکا اسم زائل نہیں ہوتا اور منافقوں کا عذر باطل کے ساتھ جھوٹ بولنا ہے اور ان کا انکار ان کا انفاق ہے۔ آیت : وضل عنھم ما کانوا یفترون یعنی دیکھو کی سے ان کا افراء لاھیٔ ہوگیا اور اپنے خداؤں سے شفاعت کا گمان کیسے باطل ہوگیا ؟ بعض علماء نے فرمایا : آیت : وضل عنھم ما کانوا یفترون کا مطلب ہے جو وہ غیر اللہ کی عبادت کرتے تھے وہ ان سے جدا ہوگیا اور انہیں کسی چیز نے فائدہ نہیں دیا، حسن سے مروی ہے اس کا معنی ہے ان کی دہشت کی وجہ سے ان کا افراء ان سے جدا ہوجائے گا اور ان کی عقول کے ڈھول کی وجہ ایسا ہوگا۔ انظر کے ارشاد سے مراد عبرت کی نظر سے دیکھنا ہے، پھر کہا گیا : کذبوا بمعنی یکذبون ہے، مستقبل کو ماضی سے تعبیر کیا گیا۔ اور آخرت میں ان کا جھوت بولنا بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ دہشت، حیرت اور ذہول کی حالت میں ہوں گے۔ بعض علماء نے کہا : آخرت میں ان سے جھوٹ واقع ہوناجائز نہیں، کیونکہ دنیا میں جو کچھ ہوا اس کا دار جزا ہے۔ اکثر اہل نظر کا یہی نظریہ ہے۔ یہ دنیا میں ہے۔ آیت : واللہ ربنا ما کنا مشرکین کا معنی اس مفہوم پر یہ ہوگا کہ ہم اپنے خیال میں مشرک نہ تھے اور آخرت میں جھوت بولنے کے جواز پر آیت : ولایکتمون اللہ حدیثا (النسائ : 42) سے اعتراض وارد ہوتا ہے یہاں کوئی معارضہ اور تناقص نہیں ہے کیونکہ ولایکتمون اللہ حدیثا بعض مقامات پر ہوگا جب ان پر ان کی زبانیں، ہاتھ، پاؤں ان کے اعمال کے متعلق گواہی دیں گے اور اعضاء کی شہادت سے پہلے بعض مقامات پر جھوٹ بولیں گے، جیسا پہلے گزر چکا ہے۔ سعید بن جبیر نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں فرمایا : آیت : واللہ ربنا ما کنا مشرکین وہ عذر پیش کریں گے اور ھلف اٹھائیں گے۔ اسی طرح ابن نجیح اور قتادہ نے کہا ہے : مجاہد سے مروی ہے انہوں نے کہا : جب وہ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے کے علاوہ سب گناہ معاف کردیئے گئے ہیں اور لوگ آگ سے نکالے گئے ہیں تو وہ کہیں گے : اللہ کی قسم ! ہم شرک کرنے والے نہ تھے۔ بعض علماء نے فرمایا : آیت : واللہ ربنا ما کنا مشرکین یعنی ہم جان لیا کہ پتھر نہ نفع دیتے ہیں نہ نقصان دیتے ہیں۔ یہ اگرچہ قول صحیح ہے، انہوں نے سچ بولا اور چھپایا نہیں لیکن ان کا عذر قبول نہ ہوگا کیونکہ معائد کافر ہے اور غیر معذور ہے پھر آیت : ثم لم تکن فنتھم میں پانچ قرائتیں ہیں۔ ہمزہ اور کسائی نے یکن کو یا کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور فتنتھم کو یکن کی خبر کی وجہ سے منصوب پڑھا ہے۔ لاان قالوا، یکن کا اسم ہے یعنی الاقولھم کے مفہوم میں ہے۔ یہ قراءت واضح ہے۔ اہل مدینہ اور ابوعمرو نے تکن تا کے ساتھ اور فتنتھم کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے۔ الا ان قالوا یعنی الا مقالتھم۔ حضرت ابی اور ابن مسعود نے ثم لم تکن کی بجائے و ما کان فتنتھم الا ان قالوا پڑھا ہے۔ ابن عمرو عاصم نے حفص کی روایت سے اور اعمش سے مفضل کی روایت سے۔ حسن اور قتادہ وغیرہ ہم نے ثم لم تکن کو تا کے ساتھ اور فتنتھم کو رفع کے ساتھ پڑھا ہے اور الا ان قالوا کو کبر بنایا ہے۔ یہ چار قرائتیں ہیں۔ پانچویں قراءت ثم لم یکن (یاء کے ساتھ) اور فتنتھم رفع کے ساتھ پڑھا گیا ہے۔ فتنہ کو مذکر کیا گیا ہے، کیونکہ وہ الفتون کے معنی میں ہے۔ اس کی مثال آیت : فمن جاءہ موعظت من ربہ فانتھی (البقرہ : 275) یہاں بھی جاء فعل مذکر ذکر کیا گیا ہے، حالانکہ فاعل موعظت ہے۔ واللہ واؤ قسم کے لیے ہے ربنا اسم جلالت کی صفت یا بدل ہے اور جنہوں نے ربنا کو نصب کے ساتھ پڑھا ہے وہ ندا کی بنا پر ہے یعنی یاربنا۔ یہ عمدہ قراءت ہے، کیونکہ اس میں عجز اور تضرع کا مفہوم ہے مگر اس میں قسم اور جواب قسم کے درمیان منادی کے ساتھ فاصلہ کیا گیا ہے۔
Top