Al-Qurtubi - Al-Qalam : 42
یَوْمَ یُكْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّ یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَۙ
يَوْمَ يُكْشَفُ : جس دن کھول دیاجائے گا عَنْ سَاقٍ : پنڈلی سے وَّيُدْعَوْنَ : اور وہ بلائے جائیں گے اِلَى السُّجُوْدِ : طرف سجدوں کے فَلَا يَسْتَطِيْعُوْنَ : تو وہ استطاعت نہ رکھتے ہوں گے
جس دن پنڈلی سے کپڑا اٹھا دیا جائیگا اور کفار سجدے کے لئے ہلائے جائیں کے تو سجدہ نہ کرسکیں گے
یوم یکشف عن ساق یہ جائز ہے کہ یوم میں عامل فلیاتوا ہو۔ انہیں چاہئے کہ اپنے شریک بلا لیں جس روز پنڈلی سے کپڑا اٹھایا جائے گا تاکہ شرکاء ان کے حق میں سفارش کریں۔ یہ بھی جائز ہے کہ ایک فعل مضمر کے ساتھ یوم کو صنب دی جائے تقدیر کلام یہ ہوگی اذکر یوم یکشف عن ساق اس صورت میں صدقین پر عطف ہوگا پہلی تقدیر کی صورت میں اس پر وقف نہیں ہوگا، اسے یوم نکشف بھی پڑھا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس نے یوم تکشف عن ساق پڑھا ہے اس صورت میں فعل معروف ہوگا۔ تکشف الشدۃ او لقیامۃ عن ساقھا جس طرح عربوں کا قول ہے شمرت الحرب عن ساقھا جنگ نے پنڈلی سے پردہ ہٹا لیا یعنی جنگ سخت ہوگئی۔ شاعر نے کہا : فتی الحرب ان عضت بہ احلرب عضھا و ان شمرت عن ساقھا الحرب شمرا (3) وہ جنگجو ہے اگر جنگ اسے کاٹے تو وہ اسے کاٹتا ہے اور اگر جنگ پنڈلی سے پردہ ہٹالے تو وہ بھی پنڈلی سے پردہ ہٹا دیتا ہے۔ راجز نے کہا ، قد کشفت عن ساقھا فشدوا وجد الحرب بکم فجدوا (1) جنگ سخت ہوگئی پس تم بھی سخت ہو جائو جنگ نے تمہارے ساتھ سختی کی پس تم بھی سختی کرو۔ ایک اور شاعر نے کہا : کشفت لھم عن ساقھا وبدا من لاشتر الصراح (2) اس نے ان کے لئیپ نڈلی کو ظاہر کردیا اور واضح شرظاہر ہوگئی۔ حضرت ابن عباس، حضرت حسن بصری اور ابوالعالیہ نے یکشف مجہول کا صیغہ پڑھا ہے۔ یہ قرأت یکشف کے معنی کی طرف راجع ہے گویا فرمایا : یوم تکشف القیامۃ عن شدۃ اسے یوم تکشف بھی پڑھا گیا ہے اس وقت یہ اکشف سے مشتق ہوگا۔ یہ اس وقت بولتے ہیں جب وہ کشف میں داخل ہو۔ اسی سے یہ جملہ بولا جاتا ہے : اکشف الرجل فھو مکشف جب اس کا اوپر والا ہونٹ الٹ جائے۔ ابن مبارک نے ذکر کیا ہے کہ اسامہ بن زید نے عکرمہ سے وہ حضرت ابن عباس سے یوم یکشف عن ساق کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ جس روز کرب اور شدت عیاں ہوجائے گی (3) ابن جریج نے مجاہد سے یہ قول نقل کیا ہے : شدت امر۔ مجاہد نے کہا، قیامت کے روز یہ سب سے مشکل ساعت ہوگی (ر) ابوعبیدہ نے کہا، جب جنگ اور امر شدید ہوگا (5) ایک قول یہ کیا گیا ہے : امر اپنے اصل سے ظاہر ہوگا۔ اس میں اصل یہ ہے جو آدمی کسی ایسے امر میں واقع ہو جس میں اسے محنت و کاوش کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اپنی پنڈلی سے کپڑا اٹھا لیتا ہے۔ ساق اور کشف کا لفظ اس کے لئے بطور مجاز استعمال ہوتے ہیں۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، ساقی الشئی سے مراد اس کی اصل ہے جس پر اس کا انحصار ہوتا ہے جس طرح ساق شجر اور اسق انسان۔ مراد ہوگا جس روز معاملہ کی حقیقت کو ظاہر کردیا جائے گا تو امور کے حقائق اور ان کی اصل ظاہر ہوجائے گی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : جہنم کی اصلیت ظاہر کردی جائے گی۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے، عرش کی اصلیت کو ظاہر کردیا جائے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد موت کے وقت کا قریب آنا اور بدن کا کمزور ہونا یعنی مریض اپنی پنڈلی ننگی کرے گا تاکہ اپنا ضعف دیھ کے، موذن اس کو نماز کی دعوت دے گا تو اس کے لئے کھڑا ہونا اور نکلنا ممکن نہ ہوگا۔ جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے کہ ” اللہ تعالیٰ اپنی پنڈلی سے پردہ ہٹائے گا “ اللہ تعالیٰ اعضاء، ابعاض، پردہ ہٹانے اور پردہ ڈالنے سے برتر ہے اس صورت میں اس کا معنی ہوگا وہ عظیم امر کو ظاہر کرے گا۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : وہ اپنے نور سے پردہ ہٹائے گا۔ حضرت موسیٰ نے نبی کریم ﷺ سے روایت نقل کی ہے کہ عن ساق سے مراد ہے وہ عظیم نور سے پردہ ہٹائے گا تو لوگ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے۔ (6) ابولیث سمر قندی نے اپنی تفسیر میں روایت نقل کی ہے کہ خلیل بن احمد، ابن منیع سے وہ ہدبہ سے وہ حماد بن سلمہ سے وہ عدی بن زید سے وہ عمارہ قرشی سے وہ ابوبردہ سے وہ ابو موسیٰ سے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا (7):” جب قیامت کا دن ہوگا تو یہ قوم کے لئے اس چیز کا مثالی جنم بنایا جائے گا جس کی وہ دنیا میں عبادت کرتے تھے ہر قوم اس کے پیچھے چلی جائے گی جس کی وہ عبادت کیا کرتے تھے اہل توحید وہیں رہ جائیں گے ان سے کہا جائے گا : تم کس کا انتظار کر رہے ہو جبکہ لوگ جا چکے ہیں ؟ وہ کہیں گے : ہمارا ایک رب تھا جس کی دنیا میں ہم عبادت کرتے تھے ہم نے اسے دیکھا نہیں تھا فرمایا : جب تم اسے دیکھو گے تو اسے پہچان لو گے ؟ وہ عرض کریں گے : ہاں۔ انہیں کہا جائے گا : تم کیسے اسے پہچان لو گے جبکہ تم نے اسے دیکھا ہی نہیں ؟ وہ عرض کریں گے : اس کی مثل کوئی چیز نہیں۔ ان کے سامنے سے حجاب ہٹا دیا جائے گا تو وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے، تو اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائیں گے۔ کچھ لوگ رہ جائیں گے ان کی پشتیں گائے کے سینگوں کی طرح ہونگی وہ اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے وہ سجدہ کا ارادہ کریں گے تو اس کی طاقت نہ رکھیں گے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان، یوم یکشف عن ساق و یدعون الیسجود فلایستطیعون۔ کا یہی معنی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا : میرے بندوچ اپنے سروں کو اٹھا لو میں نے تمہارے ہر آدمی کے بدلے یہود و نصاریٰ میں ایک آدمی جہنم کے لئے بنا دیا ہے۔ “ ابوبردہ نے کہا، میں نے یہ حدیث حضرت عمر بن عبدالعزیز کو بیان فرمائی حضرت عمر نے فرمایا : اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ کیا تیرے باپ نے تجھے یہ حدیث بیان کی ہے ؟ ابوبردہ نے تین دفعہ قسم اٹھائی۔ حضرت عمر نے فرمایا : میں نے اہل توحید کے بارے میں کوئی حدیث نہیں سنی جو مجھے اس حدیث سے زیادہ محبوب ہو۔ قیس بن سکن نے کہا، حضرت عبداللہ بن مسعود نے حضرت عمر بن خطاب کے پاس یہ بیان کیا : جب قیامت کا دن ہوگا تو لوگ چالیس سال تک رب العالمین کے لئے کھڑے رہیں گے۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوں گی جو آسمان کی طرف اٹھی ہوں گی، وہ ننگے پائوں ہوں گے، ننگے بدن ہوں گے، پسینہ ان کے منہ تک پہنچ رہا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ ان سے نہ کلام رکے گا اور نہ نظر رحمت فرمائے گا پھر ایک منادی کرنے والا منادی کرے گا : اے لوگو ! کیا تمہارے اس رب کی جانب سے یہ عدل نہیں ہوگا جس نے تمہیں پیدا کیا، تمہاری تصویر بنائی، تمہیں موت عطا کی، تمہیں زندہ کیا پھر تم نے کسی اور چیز کی عبادت کی کہ ہر قوم کو اسی طرح جانے دے جس طرح وہ خود پھرے ہیں ؟ لوگ عرض کریں گے : ہاں۔ فرمایا : ہر قوم کے لئے اسے بلند کیا جائے گا جس کی وہ اللہ تعالیٰ کے سوا پوجا کیا کرتے تھے وہ اس کی اتباع کریں گے یہاں تک کہ انہیں جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ مسلمان اور منافق وہاں ہی کھڑے رہیں گے۔ انہیں کہا جائے گا : کیا تم اسے پہچانتے ہوڈ وہ کہیں گے : اگر اس نے ہمیں پہچان کرائی تو ہم پہچان لیں گے۔ اس موقع پر ساق (عظیم نور) سے پر دہ ہٹایا جائے گا تو جو بھی اخلاص کے ساتھ عبادت کیا کرتا تھا تو وہ سجدہ ریز ہوجائے گا منفاق اسی طر رہیں گے وہ اس کی طاقت نہ رکھیں گے گویا ان کی پشتوں میں ایسی صلاخیں ہیں جن پر گوشت بھونا جاتا ہے، انہیں جہنم کی طرف لے جایا جائے گا اور سجدہ کرنے والے جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ اللہ تعالیٰ کے فرمان، ویدعون الی السجود فلایستطیعون۔ سے یہی مراد ہے۔ خاشعۃ ابصارھم ان کی آنکھیں ذلیل اور جھکی ہوں گی۔ اسے حال ہونے کی وجہ سے نصب دی گی ہے۔ ترھقھم ذلتۃ ان پر ذلت چھائی ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مومنین اپنے سر اوپر اٹھائیں گے جبکہ ان کے چہرے برف سے بھی زیادہ سفید ہوں گے منافقوں اور کافروں کے چہرے سیاہ ہونگے یہاں تک کہ وہ تارکول سے زیادہ سیاہ ہوں گے۔ (1) میں کہتا ہوں : حضرت ابو موسیٰ اور حضرت ابن مسعود کی احادیث کے معنی صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری کی حدیث اور دسوری احادیث سے ثابت ہیں۔ وقد کانوا یدعون الی السجود وھم سلمون۔ انہیں دنیا میں سجدہ کی دعوت دی جاتی تھی جبکہ وہ صحت مند تھے۔ ابراہیم تیمی نے کہا : اذان اور اقامت کے ساتھ انہیں دعوت دی جاتی تھی تو وہ اس کا انکار کردیتے تھے۔ سعید بن جبیر نے کہا، حی علی الفلاح کی ندا سنتے تھے تو وہ اس کا جواب نہ دیتے تھے (2) کعب الاحبار نے کہا، اللہ کی قسمچ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جو جماعت سے پیچھے رہ جاتے ہیں (3) ایک قول یہ کیا گیا ہے، مراد ہے شرع میں جس امر کا انہیں مکلف بنایا گیا ہے اس سے پیھچے رہ جاتے ہیں۔ معنی قریب قریب ہے۔ سورة بقرۃ میں نماز با جماعت کے بارے میں گفتگو گزر چکی ہے۔ ربیع بن خیثمہ کو فالج کی تکلیف ہوئی تو دو آدمیوں کے سہارے انہیں مسجد کی طرف لے جایا جاتا تھا کہا گیا : اے بایزید ! کاش آپ گھر میں ہی نماز پڑھ لیتے آپ کے لئے رخصت تھی۔ فرمایا، جس نے حی علی الفلاح کی آواز سنی تو اس پر لازم ہے کہ وہ لبیک کہے اگرچہ گھٹنوں کے بل چل کر جانا پڑے۔ حضرت سعید بن مسیب سے کہا گیا : طارق تھے قتل کرنا چاہتا ہے اس لئے چھپ جا فرمایا : کیا ایسی جگہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ مجھ پر قدرت نہیں رکھے گا ؟ ان سے کہا گیا : اپنے گھر میں بیٹھ رہو۔ فرمایا : میں حی علی الفلاح کی آواز سنوں اور اس پر لبیک نہ کہوں ؟
Top