Al-Qurtubi - At-Tawba : 26
ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر اَنْزَلَ : نازل کی اللّٰهُ : اللہ سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسکین عَلٰي : پر رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول وَعَلَي : اور پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کی وَاَنْزَلَ : اور اتارے اس نے جُنُوْدًا : لشکر لَّمْ تَرَوْهَا : وہ تم نے نہ دیکھے وَعَذَّبَ : اور عذاب دیا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) وَذٰلِكَ : اور یہی جَزَآءُ : سزا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
پھر خدا نے اپنے پیغمبر ﷺ پر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور (تمہاری مدد کو فرشتوں کے) لشکر جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے (آسمان سے) اتارے اور کافروں کو عذاب دیا۔ اور کفر کرنے والوں کی یہی سزا ہے۔
مسئلہ نمبر . جب رسول اللہ ﷺ نے جعرانہ کے مقام پر حنین کے مال غنیمت تقسیم فرمائے، تو ہوازن کا ایک وفد اسلام کا اظہار کرتے ہوئے، اپنے اوپر عطف و مہربانی چاہتے ہوئے اور اپنے اوپر احسان کرنے کی خواہش اور طلب لے کر حاضر ہوا اور انہوں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! ﷺ بیشک آپ سارے لوگوں سے بہتر اور لوگوں سے بڑھ کر نیکو کار ہیں۔ تحقیق آپ نے ہماری اولاد ہماری عورتیں اور ہماری اموال لے لیے ہیں۔ تو آپ ﷺ نے انہیں فرمایا : ” بلا شبہ میں تمہارے بارے میں غورو فکر کرتا رہاحالان کہ تقسیم واقع ہوچکی ہے اور میرے پاس وہ ہیں جنہیں تم دیکھ رہے ہو اور بیشک قول وہی ہے جو زیادہ سچا ہو پس تم اپنی اولاد یا اپنے مالوں میں سے ایک کو اختیار کرو “۔ تو انہوں نت عرض کی : ہم کسی شے کو بھی اولاد کے برابر قرار نہیں دیتے۔ پھر آپ ﷺ خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے اور فرمایا :” یہ لوگ مسلمان ہو کر ہمارے پاس آئے ہیں اور ہم نے انہیں اختیا ردے دیا ہے اور انہوں نے اولاد کے برابر کسی کو نہیں قرار دیا پس تم ان کی اولاد واپس لو ٹانے پر راضی ہو جائو پس جو میرے اور بنی عبدالمطلب اور بنی ہاشم کے حصہ میں ہیں تو وہ ان کے لیے ہیں “ (یعنی میں انہیں واپس لوٹا تا ہوں) تو یہ سن کر مہاجرین و انصار نے کہا : جو ہمارے حصہ میں ہیں وہ رسول اللہ ﷺ کے سپرد ہیں۔ اور اقرع بن حابس اور عینیہ بن حصن نے اپنی قوم کے ساتھ اس سے انکار کردیا کہ وہ انہیں اس میں سے کوئی شے واپس لو ٹائیں جوان کے حصہ میں ہے اور اسی طرح عباس بن مرداس سلمی نے بھی انکار کردیا وہ انہیں اس میں سے کوئی شے واپس لوٹائیں جو ان کے حصہ میں ہے اور اسی طرح عباس بن مراد سلمی نے بھی انکار کردیا اور اس کی خواہش بھی تھی کہ اس کی قوم اس کے ساتھ اسی طرح تعاون کرے گی جیسا کہ اقرع اور عینیہ کے ساتھ ان کی قوم نے تعاون کیا، لیکن بنوسلیم نے انکار کردیا اورر کہا : بلکہ جو کچھ ہمارے لیے ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے ہے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس کسی نے تم میں سے اس کے بارے میں بخل کا اظہار کیا جو اس کے قبضے میں ہے تو ہم اس کا معاوضہ ادا کریں گے۔ پھر رسول اللہ نے انہیں ان کی عورتیں اور بچے واپس لوٹا دیئے۔ اور جو اپنا حصہ خوشی کے ساتھ چھورنے کو تیار نہ ہوئے انہیں اتنا عوض عطا فرمایا کہ وہ اس سے راضٰ ہوگئے (1) ۔ اور حضرت قتاوہ ؓ نے بیان فرمایا : ہمیں بتایا گیا کہ نبی مکرم ﷺ کی وہ دایہ جس نے آپ کو دودھ پلایا تھا وہ بنی اسد سے تھی، وہ جنین کے دن آپ کے پاس حاضر ہوئی اور حنین کے قیدیوں کے بارے آپ سے درخواست کی۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” بیشک میں صرف اسی کا مالک ہوں جو حصہ مجھے ان سے مل ہے البتہ تم کل صبح میرے پاس آئو اور مجھ سے اور میرے پاس موجود لوگوں سے یہ درخواست کرو تو جب میں اپنا حصہ تمہیں عطا کردوں گا تو لوگ بھی آپ کو دے دیں گے “۔ پس وہ دوسرے دن صبح حاضر ہوئی تو آپ ﷺ نے اس کے لیے اپنا کپڑا بچھایا اور اس پر انہیں بٹھایا۔ پھر انہوں نے اسے درخواست کی تو آپ ﷺ نے اسے اپنا حصہ عطا فرمادیا۔ تو جب لوگوں نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے حصص دے دیئے۔ حضرت سیعد بن مسیب ؓ کے قول کے مطابق ہوازن کے قیدیوں کی تعداد پورے چھ ہزار تھی۔ اور بعض نے کہا ہے : وہ چار ہزار تھی۔ ابو عمر (رح) نے بیان کیا ہے : ان میں حضور نبی مکرم ﷺ کی رضاعی بہن شیماء بھی تھی اور یہ حارث بن عبدالعزی جو کہ بنی سعد بن بکر سے تھا اور حضرت حلیمہ سعدیہ کی بیٹی تھی، پس رسول اللہ ﷺ نے اسے عزت و تکریم دی اور اسے بہت نوازا اور اس کے ساتھ احسان اور حسن سلوک کیا اور وہ انتہائی خوشی خوشی اپنے دین کے ساتھ اور اس مال کے ساتھ جو اللہ نے اسے عطا فرمایا اپنے شہرواپس لوٹ گئی۔ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے یوم اوطاس کو ایک عورت کو دیکھا وہ دوڑ رہی ہے اور چیخ و پکار کر رہی ہے اور اپنے اصحاب کو فرمایا : اطارحۃ ہذہ ولد ھا فی النار ؟ (کیا یہ اپنے بچوں کو آگ میں پھینک سکتی ہے ؟ ) صحابہ کرام نے عرض کی : نہیں۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” کیوں ؟ “۔ انہوں نے عرض کی : اپنی شفقت (اور پیار و محبت) کی وجہ سے۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا : کیوں ؟ “ اللہ ارحم بکم منھا ( اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ اس سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے ) ۔ اسی معنی میں مسلم نے اسے روایت کیا ہے۔ والحمد للہ۔
Top