Tafseer-e-Usmani - At-Tawba : 26
ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر اَنْزَلَ : نازل کی اللّٰهُ : اللہ سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسکین عَلٰي : پر رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول وَعَلَي : اور پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کی وَاَنْزَلَ : اور اتارے اس نے جُنُوْدًا : لشکر لَّمْ تَرَوْهَا : وہ تم نے نہ دیکھے وَعَذَّبَ : اور عذاب دیا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) وَذٰلِكَ : اور یہی جَزَآءُ : سزا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
پھر اتاری اللہ نے اپنی طرف سے تسکین اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر اور اتاریں فوجیں کہ جن کو تم نے نہیں دیکھا اور عذاب دیا کافروں کو اور یہی سزا ہے منکروں کی2
2 پچھلی آیت میں تنبیہ کی گئی تھی کہ جہاد فی سبیل اللہ کے وقت مومنین کو کنبہ، برداری، اموال و املاک وغیرہ کسی چیز پر نظر نہ ہونی چاہیے، یہاں آگاہ فرمایا ہے کہ مجاہدین کو خود اپنی فوجی جمعیت و کثرت پر گھمنڈ نہ کرنا چاہیے۔ نصرت و کامیابی اکیلے خدا کی مدد سے ہے۔ جس کا تجربہ پیشتر بھی بہت سے میدانوں میں تم کرچکے ہو۔ بدر، قریظہ و نضیر اور حدیبیہ وغیرہ میں جو کچھ نتائج رونما ہوئے، وہ محض امداد الٰہی و تائید غیبی کا کرشمہ تھا۔ اور اب اخیر میں غزوہ حنین کا واقعہ تو ایسا صریح اور عجیب و غریب نشان آسمانی نصرت و امداد کا ہے جس کا اقرار سخت معاند دشمنوں تک کو کرنا پڑا ہے۔ فتح مکہ کے بعد فوراً آپ کو اطلاع ملی کہ ہوازن و ثقیف وغیرہ بہت سے قبائل عرب نے ایک لشکر جرار تیار کر کے بڑے ساز و سامان سے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ یہ خبر پاتے ہی آپ نے دس ہزار مہاجرین و انصار کی فوج گراں لے کر جو مکہ فتح کرنے کے لیے مدینہ سے ہمراہ آئی تھی، طائف کی طرف کوچ کردیا، دو ہزار طلقاء بھی جو فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوئے تھے، آپ کے ہمراہ تھے یہ پہلا موقع تھا کہ بارہ ہزار کی عظیم الشان جمعیت کیل کانٹے سے لیس ہو کر میدان میں نکلی۔ یہ منظر دیکھ کر بعض صحابہ سے نہ رہا گیا اور بےساختہ بول اٹھے کہ (جب ہم بہت تھوڑے تھے اس وقت ہمیشہ غالب رہے تو) آج ہماری اتنی بڑی تعداد کسی سے مغلوب ہونے والی نہیں۔ یہ جملہ مردان توحید کی زبان سے نکلنا " بارگاہ احدیت " میں ناپسند ہوا۔ ابھی مکہ سے تھوڑی دور نکلے تھے کہ دونوں لشکر مقابل ہوگئے۔ فریق مخالف کی جمعیت چار ہزار تھی جو سر کو کفن باندھ کر اور سب عورتوں، بچوں کو ساتھ لے کر ایک فیصلہ کن جنگ کے لیے پوری تیاری سے نکلے تھے اونٹ گھوڑے، مواشی اور گھروں کا کل اندوختہ کوڑی کوڑی کر کے اپنے ہمراہ لے آئے تھے۔ ہوازن کا قبیلہ تیر اندازی کے فن میں سارے عرب میں شہرت رکھتا تھا۔ اس کے بڑے ماہر تیر اندازوں کا دستہ وادی حنین کی پہاڑیوں میں گھات لگائے بیٹھا تھا۔ صحیحین میں براء بن عازب کی روایت ہے کہ پہلے معرکہ میں کفار کو ہزیمت ہوئی، وہ بہت سا مال چھوڑ کر پسپا ہوگئے یہ دیکھ کر مسلمان سپاہی غنیمت کی طرف جھک پڑے۔ اس وقت ہوازن کے تیر اندازوں نے گھات سے نکل کر ایک دم دھاوا بول دیا۔ آن واحد میں چاروں طرف سے اس قدر تیر برسائے کہ مسلمانوں کو قدم جمانا مشکل ہوگیا۔ اول طلقاء میں بھاگڑ پڑی۔ آخر سب کے پاؤں اکھڑ گئے، زمین باوجود فراخی کے تنگ ہوگئی کہ کہیں پناہ کی جگہ نہ ملتی تھی حضور پر نور ﷺ مع چند رفقاء کے دشمنوں کے نرغہ میں تھے۔ ابوبکر عمر عباس علی عبد اللہ بن مسعود وغیرہ ؓ تقریباً سو یا اسی صحابہ بلکہ بعض اہل سیر کی تصریح کے موافق کل دس نفوس قدسیہ (عشرہ کاملہ) میدان جنگ میں باقی رہ گئے جو پہاڑ سے زیادہ مستقیم نظر آتے تھے۔ یہ خاص موقع تھا جبکہ دنیا نے پیغمبرانہ صداقت و توکل اور معجزانہ شجاعت کا ایک محیر العقول نظارہ ان ظاہری آنکھوں سے دیکھا۔ آپ ﷺ سفید خچر پر سوار ہیں، عباس ایک رکاب اور ابو سفیان بن الحارث دوسری رکاب تھامے ہوئے ہیں۔ چار ہزار کا مسلح لشکر پورے جوش انتقام میں ٹوٹا پڑتا ہے، ہر چہار طرف سے تیروں کا مینہ برس رہا ہے۔ ساتھی منتشر ہوچکے ہیں۔ مگر رفیق اعلیٰ آپ کے ساتھ ہے، ربانی تائید اور آسمانی سکینہ کی غیر مرئی بارش آپ ﷺ کے گنے چنے رفیقوں پر ہو رہی ہے۔ جس کا اثرآخر کار بھاگنے والوں تک پہنچتا ہے۔ جدھر سے ہوازن و ثقیف کا سیلاب بڑھ رہا ہے آپ کی سواری کا منہ اس وقت بھی اسی طرف ہے۔ اور ادھر ہی آگے بڑھنے کے لیے خچر کو مہمیز کر رہے ہیں۔ دل سے خدا کی طرف لو لگی ہے، اور زبان پر نہایت استغناء و اطمینان کے ساتھ انا النبی لا کذب انا ابن عبدالمطلب جاری ہے۔ یعنی بیشک میں سچا پیغمبر ہوں اور عبدالمطلب کی اولاد ہوں۔ اسی حالت میں آپ ﷺ نے صحابہ کو آواز دی الی عباد اللہ الی انا رسول اللہ خدا کے بندو ! ادھر آؤ۔ یہاں آؤ کہ میں خدا کا رسول ہوں۔ پھر آپ ﷺ کی ہدایت کے موافق حضرت عباس نے (جو نہایت جیر الصوت تھے) اصحاب سمرہ کو پکارا جنہوں نے درخت کے نیچے حضور کے ہاتھ پر بیعت جہاد کی تھی۔ آواز کا کانوں میں پہنچنا تھا کہ بھاگنے والوں نے سواریوں کا رخ میدان جنگ کی طرف پھیر دیا۔ جس کے اونٹ نے رخ بدلنے میں دیر کی وہ گلے میں زرہ ڈال کر اونٹ سے کود پڑا اور سواری چھوڑ کر حضور ﷺ کی طرف لوٹا۔ اسی اثناء میں حضور ﷺ نے تھوڑی سی مٹی اور کنکریاں اٹھا کر لشکر پر پھینکیں جو خدا کی قدرت سے ہر کافر کے چہرے اور آنکھوں پر پڑی۔ ادھر حق تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کی فوجیں بھیج دیں جن کا نزول غیر مرئی طور پر مسلمانوں کی تقویت و ہمت افزائی اور کفار کی مرعوبیت کا سبب ہوا۔ پھر کیا تھا۔ کفار کنکریوں کے اثر سے آنکھیں ملتے رہے، جو مسلمان قریب تھے انہوں نے پلٹ کر حملہ کردیا آناً فاناً میں مطلع صاف ہوگیا۔ بہت سے بھاگے ہوئے مسلمان لوٹ کر حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچے تو دیکھا لڑائی ختم ہوچکی۔ ہزاروں قیدی آپ کے سامنے بندھے کھڑے ہیں اور مال غنیمت کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں فَسُبْحَانَ منْ بِیَدِہٖ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْ ءٍ اس طرح کافروں کو دنیا میں سزا دی گئی۔
Top