Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 26
ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ
ثُمَّ
: پھر
اَنْزَلَ
: نازل کی
اللّٰهُ
: اللہ
سَكِيْنَتَهٗ
: اپنی تسکین
عَلٰي
: پر
رَسُوْلِهٖ
: اپنے رسول
وَعَلَي
: اور پر
الْمُؤْمِنِيْنَ
: مومنوں کی
وَاَنْزَلَ
: اور اتارے اس نے
جُنُوْدًا
: لشکر
لَّمْ تَرَوْهَا
: وہ تم نے نہ دیکھے
وَعَذَّبَ
: اور عذاب دیا
الَّذِيْنَ كَفَرُوْا
: وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر)
وَذٰلِكَ
: اور یہی
جَزَآءُ
: سزا
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
پھر خدا نے اپنے پیغمبر پر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی (اور تمہاری مدد کو فرشتوں کے) لشکر جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے (آسمان سے) اُتارے اور کافروں کو عذاب دیا۔ اور کفر کرنے والوں کی یہی سزا ہے
ثم انزل اللہ سکینتہ علی رسولہ وعلی المؤمنین اس کے بعد اللہ نے رسول (کے قلب) پر اور مؤمنوں (کے دلوں) پر تسلی نازل فرمائی۔ سکینہ سے مراد ہے اللہ کی رحمت جس کی وجہ سے لوگ جم گئے اور محفوظ رہے۔ المؤمنین سے مراد وہ مسلمان ہیں جو شکست کھا کر تتر بتر ہوگئے تھے۔ رسول کا ذکر اس وجہ سے کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی کی برکت اور آپ کے وسیلہ سے ہی شکست پانے والوں پر اللہ کی رحمت نازل ہوئی تھی اور چونکہ رسول ﷺ اور مؤمنین کے احوال الگ الگ تھے ‘ اسلئے عَلٰی کو بھی الگ الگ دو بار ذکر کیا۔ بعض کے نزدیک المؤمنین سے مراد وہ مسلمان ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے ‘ بھاگے نہ تھے۔ بیہقی نے دلائل میں اور طبرانی و حاکم و ابونعیم نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ نے فرمایا : حنین کے دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ جب لوگ حضور ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ پڑے تو میں اسّی مہاجرین وانصار کے ساتھ ثابت قدم رہا۔ تقریباً اسّی قدم ہم بھی اپنے قدموں کے بل ہٹے تھے مگر ہم نے دشمن کو پیٹھ نہیں دی تھی۔ انہی اسّی آدمیوں پر سکینہ کا نزول ہوا تھا۔ حضرت ابن عقبہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ دونوں رکابوں میں پاؤں ڈالے خچر پر کھڑے ہوگئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے : اے اللہ ! میں تجھے واسطہ دیتا ہوں اس وعدہ کا جو تو نے مجھ سے کیا تھا ‘ اے اللہ ! ان کو ہم پر غالب نہ ہونا چاہئے۔ پھر حضرت عباس سے فرمایا : عباس ! پکارو : اے گروہ انصار ! اے کیکر کے درخت (کے نیچے بیعت کرنے) والو ! اے سورة بقرہ والو ! حضرت عباس بلند آواز آدمی تھے ‘ آپ کا بیان ہے کہ میں نے اونچی آواز میں ندا کی : انصار کہاں ہیں ؟ کیکر کے درخت (کے نیچے بیعت کرنے) والے کہاں ہیں ؟ سورة بقرہ والے کہاں ہیں ؟ جونہی انصار نے میری آواز سنی ‘ خدا کی قسم ! وہ ایسے (رسول اللہ ﷺ کی طرف) مڑ کر آگئے جیسے مائیں اپنے بچوں کی طرف مڑ جاتی ہیں۔ عثمان بن ابی شیبہ کی روایت میں حسب صراحت بیہقی و بغوی آیا ہے کہ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :) عباس ! مہاجرین کو چیخ کر آواز دو جنہوں نے (حدیبیہ کے موقع پر) درخت کے نیچے بیعت کی تھی اور انصار کو پکارو جنہوں نے (مہاجرین اور رسول اللہ ﷺ کو) ٹھکانے دئیے اور مدد کی (میں نے آواز دی ‘ انصار فوراً لوٹ پڑے) اور کہنے لگے : ہم حاضر ہیں ‘ ہم حاضر ہیں۔ انصار کا رسول اللہ ﷺ کی طرف مڑ کر آنا بالکل ایسا تھا جس طرح اونٹ اپنی اولاد پر (پیار سے) جھک جاتا ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سواری سے اتر آئے۔ رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کیلئے انصار کے نیزے مجھے کافروں کے برچھوں سے بھی زیادہ خوفناک معلوم ہونے لگے۔ ابو یعلی اور طبرانی نے قابل اعتماد سند کے ساتھ حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن ایک مٹھی سفید کنکریاں لے کر کافروں پر پھینک ماریں اور فرمایا : رب کعبہ کی قسم ! یہ شکست پا گئے۔ اس روز رسول اللہ ﷺ کے سامنے حضرت علی نے بڑی سخت جنگ کی۔ ابن سعد ‘ ابن ابی شیبہ ‘ ابو داؤد اور بغوی وغیرہ نے بروایت ابو عبدالرحمن یزید فہری (جن کا نام کرز تھا) ایک طویل حدیث کے ذیل میں بیان کیا کہ مسلمان پشت دے کر بھاگ پڑے۔ جیسا اللہ نے فرمایا ہے ‘ اس وقت رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے : لوگو ! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر گھوڑے سے اتر کر نرغہ میں گھس گئے اور جو شخص حضور ﷺ سے زیادہ قریب تھا ‘ اس نے مجھ سے بیان کیا کہ آپ نے ایک لپ مٹی لے کر دشمنوں کے چہروں کی طرف پھینکی اور فرمایا : چہرے بگڑ گئے۔ یعلی بن عطاء کا بیان ہے کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے مقابل تھے ‘ ان کی اولاد نے مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے باپ کہتے تھے کہ ہم میں سے ہر ایک کی آنکھیں اور منہ خاک سے بھر گئے اور آسمان کی طرف سے ہم نے ایک ایسی جھنجھناہٹ سنی جیسے کسی طشت میں لوہے کے گرنے سے ہوتی ہے۔ غرض اس طرح اللہ نے ان کو شکست دے دی۔ وانزل جنودا لم تروھا اور اللہ نے ایسے لشکر اتارے جو تمہیں دکھائی نہیں دیتے تھے۔ ابن ابی حاتم نے سدی کبیر کا قول نقل کیا ہے کہ وہ لشکر ملائکہ کا تھا۔ حضرت سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ حنین کے دن اللہ نے اپنے رسول ﷺ کی امداد پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں کو بھیج کر کی تھی۔ ابن اسحاق ‘ ابن المنذر ‘ ابن مردویہ ‘ ابو نعیم اور بیہقی نے حضرت جبیر بن مطعم کا بیان نقل کیا ہے کہ دشمنوں کی شکست سے پہلے جب لوگ لڑ رہے تھے ‘ میں نے ایک سیاہ چادر آسمان کی طرف سے آتی دیکھی تھی جو آکر لوگوں کے سامنے گرگئی۔ میں نے دیکھا کہ (اس چادر کے اندر سے) سیاہ چیونٹیاں اتنی برآمد ہوئیں کہ وادی بھر گئی ‘ پھر مجھے خیال ہوا کہ شاید یہ ملائکہ ہیں۔ پس میرے دیکھتے دیکھتے دشمنوں کو فوراً شکست ہوگئی۔ محمد بن عمر نے بروایت یحییٰ بن عبد اللہ بیان کیا ہے کہ مشائخ انصار کہتے تھے : ہم نے اس روز سیاہ چادروں کی طرح تہہ بر تہہ آسمان سے گرتی ہوئی کوئی چیز دیکھی۔ دیکھتے کیا ہیں کہ بکثرت چیونٹیاں یکدم (وادی میں) پھیل گئیں ‘ ہم ان کو اپنے کپڑوں سے جھاڑنے لگے۔ اس کے بعد فوراً اللہ کی مدد سے ہم فتحیاب ہوگئے۔ مسدد نے مسند میں اور بیہقی و ابن عساکر نے ام برثن کے آزاد کردہ غلام عبدالرحمن کا بیان نقل کیا ہے ‘ عبدالرحمن کا بیان ہے کہ مجھ سے ایک شخص جو جنگ حنین میں بحالت شرک موجود تھا ‘ کہتا تھا کہ جب ہمارا مقابلہ صحابہ سے ہوا تو وہ اتنی دیر بھی مقابلہ پر نہ ٹھہرے جتنی دیر میں بکری دوھی جاتی ہے۔ وہ منہ پھیر کر بھاگے ‘ ہم پیچھے سے ان کو کھدیڑتے چلے۔ اچانک خچر پر سوار ایک شخص مقابلہ پر آیا ‘ دیکھا تو وہ رسول اللہ ﷺ تھے۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ ہمارے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان کچھ گورے گورے خوبصورت لوگ حائل نظر آئے جنہوں نے ہم سے کہا : چہرے بگڑ گئے ‘ لوٹ جاؤ۔ ہم فوراً لوٹ پڑے۔ انہوں نے ہماری مشکیں کس لیں (گرفتار کرلیا) اور یہ وہی تھے۔ ابن مردویہ ‘ بیہقی اور ابن عساکر نے بیان کیا کہ حضرت شیبہ بن عثمان حجبی نے کہا : میں حنین کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلا تھا۔ اسلئے نہیں نکلا تھا کہ میں مسلمان ہوگیا تھا بلکہ اس لئے نکلا تھا کہ ہوازن کا قریش پر غالب آنا مجھے پسند نہیں تھا۔ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ میدان میں کھڑا ہی تھا (کہ ابلق گھوڑوں پر کچھ سوار مجھے دکھائی دئیے اور) میں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے ابلق گھوڑے نظر آ رہے ہیں۔ فرمایا : شیبہ ! یہ تو صرف کافر کو نظر آتے ہیں۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینہ پر مارا اور فرمایا : اے اللہ ! شیبہ کو ہدایت کر۔ خدا کی قسم ! ایسا تین بار کیا۔ خدا کی قسم ! دوسری بار ہی آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینہ سے نہیں اٹھایا تھا کہ مجھے آپ کی ذات سب مخلوق سے زیادہ پیاری محسوس ہونے لگی۔ غرض مسلمانوں کا مقابلہ ہوا ‘ جو لوگ شہید ہونا تھے ‘ شہید ہوگئے۔ پھر رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے۔ حضرت عمر (خچر کی) لگام پکڑے ہوئے تھے اور حضرت عباس رکاب پکڑے ہوئے تھے۔ حضرت عباس نے اونچی آواز سے ندا کی : مہاجر کہاں ہیں ؟ سورة بقرہ والے کہاں ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ یہ ہیں۔ فوراً مسلمان آگئے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے : میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں ‘ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ اس کے بعد مسلمانوں نے تلواروں سے کافروں کا مقابلہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اب تنور گرم ہوا (لڑائی گھمسان کی اب ہوئی) ۔ محمد بن عمر نے مالک بن اوس بن حدثان کا قول نقل کیا ہے ‘ مالک نے کہا : مجھ سے میرے قبیلہ کے چند آدمی جو اس روز شریک جنگ تھے ‘ کہہ رہے تھے کہ اس روز کنکریاں جو رسول اللہ ﷺ نے (کافروں کی طرف) پھینکی تھیں ‘ ان کی وجہ سے کوئی آدمی ایسا نہ بچا جس کی آنکھوں میں مٹی نہ پڑی ہو اور ہم کو اپنے سینوں کے اندر ایک ایسی اضطرابی لہر محسوس ہونے لگی جیسے طشت میں پتھر گرنے سے پیدا ہوجاتی ہے۔ اس دھڑکن میں سکون ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ ہم نے اس روز کچھ گورے رنگ کے آدمی دیکھے جو آسمان و زمین کے درمیان ابلق گھوڑوں پر سوار تھے اور ان کے سروں پر سرخ عمامے تھے جن کے پلے انہوں نے شانوں کے درمیان لٹکا رکھے تھے ‘ ان کے دستے دستے (الگ الگ) تھے۔ ہم کو ان کے رعب کی وجہ سے غور کر کے دیکھنے کی طاقت ہی نہیں تھی۔ وعذاب الذین کفروا وذلک جزاء الکافرین۔ اور کافروں کو اللہ نے عذاب دیا اور کافروں کی یہی سزا ہے۔ ابن ابی حاتم نے (عذاب کی تشریح میں) سدی کبیر کا قول نقل کیا ہے : یعنی ان کو تلوار سے قتل کرایا۔ بزار نے قابل اعتماد سند کے ساتھ حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن فرمایا : ان کو خوب کاٹ ڈالو۔ حضور ﷺ نے یہ فرماتے وقت اپنے ہاتھ سے حلق کی طرف اشارہ کیا۔ بیہقی نے عبد اللہ بن حارث کی روایت سے حضرت حارث کا بیان نقل کیا ہے کہ حنین کے دن اہل طائف میں سے اتنے ہی آدمی مارے گئے جتنے بدر کے دن مارے گئے تھے یعنی ستر۔ حنین میں بمقام اوطاس ام ایمن کے بیٹے حضرت ایمن اور حضرت سراقہ بن حارث اور حضرت یتیم بن ثعلبہ اور حضرت یزید بن زمعہ اور حضرت ابو عامر اشعری شہید ہوگئے۔ محمد بن عمر نے حضرت محمد بن عبد اللہ بن صعصعہ کی روایت سے بیان کیا کہ حضرت سعد بن عبادہ نے چیخ کر تین بار خزرج کو پکارا اور حضرت اسید بن حضیر نے تین مرتبہ اوس کو آواز دی۔ دونوں قبیلے نداء سنتے ہی ہر طرف سے لوٹ پڑے جیسے شہید کی مکھیاں اپنے سردار (یعسوب) کی طرف لوٹتی ہیں۔ اہل مغازی نے لکھا ہے : پھر مسلمانوں نے مشرکوں پر حملہ کردیا اور اتنا قتل کیا کہ قتل کرتے کرتے تیزی سے ان کے بچوں اور عورتوں (کی حد) تک پہنچ گئے۔ یہ اطلاع رسول اللہ ﷺ کو پہنچ گئی تو فرمایا : لوگ کیوں قتل کرتے کرتے بچوں تک پہنچ گئے ؟ خوب سنو لو ! بچوں کو قتل نہ کیا جائے۔ حضرت اسید بن حضیر نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! یہ تو مشرکوں کے بچے ہیں۔ فرمایا : تم میں سے اچھے آدمی کیا مشرکوں کی اولاد نہیں ہیں ؟ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے (اور فطرت پر رہتا ہے) جب تک کہ اس کی زبان کھلے ‘ پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں۔ محمد بن عمر کا بیان ہے کہ مشائخ ثقیف کہتے تھے : ہم خیال کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے تعاقب میں ہیں یہاں تک کہ ہم میں سے جو لوگ طائف کے قلعہ میں گھس بھی جاتے تھے ‘ وہ بھی یہی گمان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔ شکست کا رعب ان پر ایسا پڑا تھا۔ اللہ نے اپنے دشمنوں کو ہر طرف سے شکست دے دی اور مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا ‘ قتل بھی کیا اور ان کے بچوں ‘ عورتوں کو گرفتار بھی کیا۔ مالک بن عوف اور اس کی قوم کے کچھ سردار بھاگ کر طائف کے قلعہ میں پناہ گیر ہوگئے۔ ابن اسحاق اور محمد بن عمر وغیرہ کا بیان ہے کہ شکست کھانے کے بعد مالک بن عوف اور کچھ ہوازن کے آدمی طائف میں آگئے اور کچھ لوگوں نے اوطاس میں ہی لشکر گاہ بنا لی اور کچھ نخلہ کی طرف چلے گئے اور جو لوگ گھاٹیوں میں چلے گئے ‘ ان کا پیچھا نہیں کیا گیا اور ربیعہ بن رفیع سلمی نے درید بن الصمہ کو قتل کردیا۔ بغوی کا بیان ہے کہ جب مشرک شکست کھا کر ‘ پیٹھ دکھا کر بھاگے تو (اوطاس پہنچے ‘ وہاں ان کے بیوی بچے اور مویشی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک اشعری آدمی کو جس کا نام ابو عامر تھا ‘ لشکر کا کمانڈر بنا کر اوطاس کو بھیجا ‘ وہاں اس فوج کی مشرکوں سے لڑائی ہوئی۔ درید بن الصمہ مارا گیا ‘ مشرکوں کو شکست ہوگئی۔ مسلمانوں نے ان کے بیوی بچوں کو قید کرلیا۔ مالک بن عوف نضری بھاگ کر طائف چلا گیا اور وہاں قلعہ بند ہوگیا اور اس کے جانور اور اہل و عیال گرفتار ہوگئے۔ مسلمانوں کا امیر ابو عامر بھی شہید ہوگیا۔ اہل مکہ نے جب دیکھا کہ اللہ نے اپنے رسول کو فتحیاب اور اپنے دین کو غالب کردیا تو ان میں سے بکثرت آدمی مسلمان ہوگئے۔ مال غنیمت جو جمع کیا گیا ‘ رسول اللہ ﷺ نے اس کو جعرانہ لے جانے کا حکم دیا۔ حکم کی تعمیل کی گئی یہاں تک کہ طائف کے محاصرہ سے فارغ ہو کر خود حضور ﷺ بھی جعرانہ آگئے۔ ابن سعد اور مؤلف العیون نے لکھا ہے کہ قیدی چھ ہزار ‘ اونٹ چوبیس ہزار اور بھیڑ بکریاں چالیس ہزار سے زائد تھیں اور چار ہزار اوقیہ چاندی تھی۔ عبدالرزاق نے حضرت سعید بن مسیب کی روایت سے لکھا ہے کہ اس روز چھ ہزار عورتیں اور لڑکے قید کئے گئے اور ابو سفیان بن حرب کو مال غنیمت کا نگراں مقرر کیا گیا۔ بلاذری نے کہا : بدیل بن ورقاء خزاعی کو ‘ اور ابن اسحاق نے کہا : مسعود بن عمر غفاری کو نگران غنیمت مقرر کیا گیا تھا اور خود رسول اللہ ﷺ نے فوجی چھاؤنی ڈال دی۔ ثقیف کے لوگ اپنے قلعہ پر چڑھ کر قلعہ بند ہوگئے۔ یہ قلعہ عرب کے سارے قلعوں میں بےنظیر تھا۔ قلعہ کے اوپر انہوں نے سو تیر انداز مقرر کر دئیے جنہوں نے دور والوں پر تیر برسانے شروع کر دئیے اور جو لوگ قلعہ کے قریب پہنچ گئے تھے ‘ ان پر وہ آگ میں تپائی ہوئی ‘ چنگاریاں برساتی ہوئی لوہے کی چھریاں پھینکتے تھے۔ اتنی کثرت سے انہوں نے تیر برسائے کہ معلوم ہوتا کہ ایک ٹڈی دل ہے۔ بہت مسلمان زخمی ہوئے اور بارہ آدمی شہید ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ اس جگہ پر چڑھ گئے جہاں بنی ثقیف نے مسلمان ہونے کے بعد مسجد بنا دی ہے۔ عمرو بن امیہ ثقفی نے جو آخر میں مسلمان ہوگیا تھا ‘ اپنی جماعت سے کہا : اگر محمد ﷺ میدان میں نکل کر دو بدو جنگ کی دعوت دیں تو کوئی (کسی مسلمان سے دو بدو) لڑنے کیلئے باہر نہ نکلے۔ جب تک وہ یہاں پڑے رہیں ‘ پڑا رہنے دو ۔ چناچہ حضرت خالد بن ولید نے جب میدان میں نکل کر اپنے حریف کو طلب کیا تو کسی نے اوپر سے جھانکا بھی نہیں۔ آپ نے پھر دعوت دی ‘ تب بھی کوئی نہیں اترا بلکہ عبد یالیل نے کہا : کوئی تمہارے مقابلہ پر نہیں اترے گا ‘ ہم قلعہ کے اندر ہی رہیں گے۔ ہم نے برسوں کیلئے کھانے پینے کی چیزیں رکھ چھوڑی ہیں ‘ جب یہ راشن ختم ہوجائے گا اور تم اس وقت تک یہاں پڑے رہو گے تو ہم سب کے سب نکل کر تلواروں سے تمہارا مقابلہ آخر دم تک کریں گے۔ الحاصل رسول اللہ ﷺ تیروں سے ان کا مقابلہ کرتے رہے اور وہ بھی قلعہ کے اوپر سے تیر پھینکتے رہے ‘ کوئی باہر نکل کر نہیں آیا۔ بنی ثقیف کے تیروں سے بہت لوگ زخمی ہوئے اور ایک جماعت شہید بھی ہوگئی۔ ابن اسحاق اور محمد بن عمر کا بیان ہے کہ مشائخ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اعلان کیا : جو غلام قلعہ سے اتر کر ہمارے پاس آجائے گا ‘ وہ آزاد ہے۔ چناچہ دس سے کچھ زائد لوگ قلعہ سے نکل کر آگئے اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو آزاد کردیا۔ محمد بن عمر کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے مشورہ کیا تو حضرت سلمان فارسی نے عرض کیا : میری رائے میں گوپھن نصب کر کے قلعہ پر پتھر برسائے جائیں۔ دور اسلام میں (مسلمانوں کی طرف سے) یہ پہلی گوپھن لگائی گئی جس سے پتھر پھینکے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ان کے انگور کی ٹٹیاں اور کھجور کے درخت کاٹ دئیے جائیں۔ آپ نے ہر مسلمان کو مامور کردیا کہ پانچ درخت (کھجور کے) اور پانچ بیلیں (انگور کی) قطع کردے۔ مسلمانوں نے بےدریغ بکثرت درخت کاٹنے شروع کر دئیے۔ بنی ثقیف نے پکار کر کہا : تم ہمارا مال کس وجہ سے کاٹتے ہو ؟ اگر تم ہم پر غلبہ پالو گے تو یہ مال تمہارا ہوجائے گا ‘ ورنہ اس کو اللہ اور قرابت کا لحاظ کر کے چھوڑ دو ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میں اس کو اللہ اور قرابت کا لحاظ کر کے چھوڑے دیتا ہوں۔ ابن اسحاق کا بیان ہے : مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ مکھن سے بھرا ہوا ایک بڑا پیالہ مجھے ہدیہ میں پیش کیا گیا۔ ایک مرغ نے اس کو دیکھ لیا اور پیالہ میں جو کچھ تھا ‘ اس کو گرا دیا۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا : میرے خیال میں آج آپ وہ چیز نہیں پاسکتے جو آپ کو مطلوب ہے (یعنی طائف کا قلعہ فتح نہ ہوگا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اور میں (بھی) یہ نہیں سمجھتا۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت میں آیا ہے کہ جب طائف کے محاصرہ کو 15 دن گذر گئے تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت نوفل بن معاویہ دئلی سے مشورہ کیا اور فرمایا : نوفل ! اس جگہ ٹھہرنے کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟ نوفل نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! لومڑی بھٹ کے اندر ہے ‘ اگر آپ یہاں پڑے رہیں گے تو (کبھی نہ کبھی اس کو) پکڑ لیں گے اور اگر چھوڑ دیں گے تو یہ لومڑی آپ کو ضرر نہ پہنچا سکے گی۔ بقول شجال ‘ حضرت عمر و حضرت ابن عمر نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے طائف کا محاصرہ کرلیا اور کچھ حاصل نہ ہوا تو فرمایا : انشاء اللہ ہم کل لوٹ جائیں گے۔ صحابہ کو یہ بات شاق ہوئی اور کہنے لگے : آپ یونہی جا رہے ہیں ‘ ہم فتح حاصل کر بھی نہ سکے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : (اچھا) کل صبح کو نکلنا۔ چناچہ دوسرے دن صبح کو صحابہ نکلے اور سخت جنگ کی اور خوب زخمی ہوئے (مگر قلعہ فتح نہ ہوا) حضور ﷺ نے فرمایا : انشاء اللہ کل صبح ہم لوٹ جائیں گے۔ اب یہ بات لوگوں کو پسند آئی۔ حضور ﷺ یہ دیکھ کر ہنس دئیے۔ صالحی نے ذکر کیا ہے کہ طائف میں بارہ مسلمان شہید ہوئے۔ حضرت عروہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا : (کل) اونٹ چرنے کیلئے نہ چھوڑے جائیں۔ صبح ہوئی تو آپ نے اور صحابہ نے کوچ کردیا اور لوٹنے کیلئے سوار ہوگئے تو دعاء کی : اے اللہ ! ان کو ہدایت کر دے اور ہم کو ان کی مشقت سے بچا لے (یعنی ان کے دلوں میں ایمان ڈال دے تاکہ ہم پر یہ حملہ نہ کریں اور ہم ان پر لشکر کشی نہ کریں) ۔ ترمذی نے حضرت جابر کی روایت سے لکھا ہے اور اس کو حسن کہا ہے کہ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ثقیف کے تیروں نے ہم کو جلا ڈالا ‘ آپ ان کیلئے بددعا کر دیجئے۔ حضور ﷺ نے دعاء کی : اے اللہ ! ثقیف کو ہدایت کر اور ان کو ایماندار بنا کرلے آ۔ ابن اسحاق کی ایک روایت میں آیا ہے کہ طائف کا محاصرہ تیس رات یا اس کے قریب قریب رہا۔ دوسری روایت میں بیس رات سے کچھ اوپر مدت محاصرہ بتائی ہے۔ بعض نے بیس دن کہا ہے۔ بعض کے نزدیک دس دن سے کچھ زیادہ محاصرہ رہا۔ ابن حزم نے کہا : یہی بلاشک صحیح ہے۔ امام احمد و مسلم نے حضرت انس کی روایت سے لکھا ہے کہ مسلمانوں نے چالیس دن طائف کا محاصرہ رکھا۔ ہدایہ میں اس روایت کو غریب کہا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : مہینہ کے جتنے دن باقی تھے ‘ اتنے روز محاصرہ رکھا ‘ یعنی شوال کے مہینہ کے جو دن باقی تھے ‘ ان میں محاصرہ جاری رہا۔ جب ماہ ذیعقدہ آگیا تو چونکہ یہ مہینہ حرمت کا تھا (اس میں جنگ وجدال حرام تھا) اسلئے محاصرہ اٹھا کر لوٹ آئے۔ میں کہتا ہوں : یہی بات ابن حزم کے قول کے موافق ہے۔ بعض لوگ قائل ہیں کہ ماہہائے حرام میں قتال کرنا جو پہلے حرام تھا ‘ وہ (اس آیت سے) منسوخ کردیا گیا ‘ مگر اس آیت میں حرمت ذیعقدہ کو منسوخ کرنے پر کوئی دلالت نہیں۔ وہاں اگر ایک ماہ یا اس سے زائد مدت محاصرہ قرار دی جائے تو ضرور ماہ ذیعقدہ میں قتال کا ثبوت ہوجائے گا۔ پھر یہاں سے رسول اللہ ﷺ جعرانہ کو تشریف لے گئے اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا۔
Top