Tafseer-e-Mazhari - At-Tawba : 26
ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا وَ عَذَّبَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا١ؕ وَ ذٰلِكَ جَزَآءُ الْكٰفِرِیْنَ
ثُمَّ : پھر اَنْزَلَ : نازل کی اللّٰهُ : اللہ سَكِيْنَتَهٗ : اپنی تسکین عَلٰي : پر رَسُوْلِهٖ : اپنے رسول وَعَلَي : اور پر الْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کی وَاَنْزَلَ : اور اتارے اس نے جُنُوْدًا : لشکر لَّمْ تَرَوْهَا : وہ تم نے نہ دیکھے وَعَذَّبَ : اور عذاب دیا الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) وَذٰلِكَ : اور یہی جَزَآءُ : سزا الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
پھر خدا نے اپنے پیغمبر پر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی (اور تمہاری مدد کو فرشتوں کے) لشکر جو تمہیں نظر نہیں آتے تھے (آسمان سے) اُتارے اور کافروں کو عذاب دیا۔ اور کفر کرنے والوں کی یہی سزا ہے
ثم انزل اللہ سکینتہ علی رسولہ وعلی المؤمنین اس کے بعد اللہ نے رسول (کے قلب) پر اور مؤمنوں (کے دلوں) پر تسلی نازل فرمائی۔ سکینہ سے مراد ہے اللہ کی رحمت جس کی وجہ سے لوگ جم گئے اور محفوظ رہے۔ المؤمنین سے مراد وہ مسلمان ہیں جو شکست کھا کر تتر بتر ہوگئے تھے۔ رسول کا ذکر اس وجہ سے کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی کی برکت اور آپ کے وسیلہ سے ہی شکست پانے والوں پر اللہ کی رحمت نازل ہوئی تھی اور چونکہ رسول ﷺ اور مؤمنین کے احوال الگ الگ تھے ‘ اسلئے عَلٰی کو بھی الگ الگ دو بار ذکر کیا۔ بعض کے نزدیک المؤمنین سے مراد وہ مسلمان ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ثابت قدم رہے ‘ بھاگے نہ تھے۔ بیہقی نے دلائل میں اور طبرانی و حاکم و ابونعیم نے حضرت ابن مسعود کی روایت سے بیان کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ نے فرمایا : حنین کے دن میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا۔ جب لوگ حضور ﷺ کو چھوڑ کر بھاگ پڑے تو میں اسّی مہاجرین وانصار کے ساتھ ثابت قدم رہا۔ تقریباً اسّی قدم ہم بھی اپنے قدموں کے بل ہٹے تھے مگر ہم نے دشمن کو پیٹھ نہیں دی تھی۔ انہی اسّی آدمیوں پر سکینہ کا نزول ہوا تھا۔ حضرت ابن عقبہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ دونوں رکابوں میں پاؤں ڈالے خچر پر کھڑے ہوگئے اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے : اے اللہ ! میں تجھے واسطہ دیتا ہوں اس وعدہ کا جو تو نے مجھ سے کیا تھا ‘ اے اللہ ! ان کو ہم پر غالب نہ ہونا چاہئے۔ پھر حضرت عباس سے فرمایا : عباس ! پکارو : اے گروہ انصار ! اے کیکر کے درخت (کے نیچے بیعت کرنے) والو ! اے سورة بقرہ والو ! حضرت عباس بلند آواز آدمی تھے ‘ آپ کا بیان ہے کہ میں نے اونچی آواز میں ندا کی : انصار کہاں ہیں ؟ کیکر کے درخت (کے نیچے بیعت کرنے) والے کہاں ہیں ؟ سورة بقرہ والے کہاں ہیں ؟ جونہی انصار نے میری آواز سنی ‘ خدا کی قسم ! وہ ایسے (رسول اللہ ﷺ کی طرف) مڑ کر آگئے جیسے مائیں اپنے بچوں کی طرف مڑ جاتی ہیں۔ عثمان بن ابی شیبہ کی روایت میں حسب صراحت بیہقی و بغوی آیا ہے کہ (رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :) عباس ! مہاجرین کو چیخ کر آواز دو جنہوں نے (حدیبیہ کے موقع پر) درخت کے نیچے بیعت کی تھی اور انصار کو پکارو جنہوں نے (مہاجرین اور رسول اللہ ﷺ کو) ٹھکانے دئیے اور مدد کی (میں نے آواز دی ‘ انصار فوراً لوٹ پڑے) اور کہنے لگے : ہم حاضر ہیں ‘ ہم حاضر ہیں۔ انصار کا رسول اللہ ﷺ کی طرف مڑ کر آنا بالکل ایسا تھا جس طرح اونٹ اپنی اولاد پر (پیار سے) جھک جاتا ہے۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ سواری سے اتر آئے۔ رسول اللہ ﷺ کی حفاظت کیلئے انصار کے نیزے مجھے کافروں کے برچھوں سے بھی زیادہ خوفناک معلوم ہونے لگے۔ ابو یعلی اور طبرانی نے قابل اعتماد سند کے ساتھ حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن ایک مٹھی سفید کنکریاں لے کر کافروں پر پھینک ماریں اور فرمایا : رب کعبہ کی قسم ! یہ شکست پا گئے۔ اس روز رسول اللہ ﷺ کے سامنے حضرت علی نے بڑی سخت جنگ کی۔ ابن سعد ‘ ابن ابی شیبہ ‘ ابو داؤد اور بغوی وغیرہ نے بروایت ابو عبدالرحمن یزید فہری (جن کا نام کرز تھا) ایک طویل حدیث کے ذیل میں بیان کیا کہ مسلمان پشت دے کر بھاگ پڑے۔ جیسا اللہ نے فرمایا ہے ‘ اس وقت رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے : لوگو ! میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ پھر گھوڑے سے اتر کر نرغہ میں گھس گئے اور جو شخص حضور ﷺ سے زیادہ قریب تھا ‘ اس نے مجھ سے بیان کیا کہ آپ نے ایک لپ مٹی لے کر دشمنوں کے چہروں کی طرف پھینکی اور فرمایا : چہرے بگڑ گئے۔ یعلی بن عطاء کا بیان ہے کہ جو لوگ رسول اللہ ﷺ کے مقابل تھے ‘ ان کی اولاد نے مجھ سے بیان کیا کہ ہمارے باپ کہتے تھے کہ ہم میں سے ہر ایک کی آنکھیں اور منہ خاک سے بھر گئے اور آسمان کی طرف سے ہم نے ایک ایسی جھنجھناہٹ سنی جیسے کسی طشت میں لوہے کے گرنے سے ہوتی ہے۔ غرض اس طرح اللہ نے ان کو شکست دے دی۔ وانزل جنودا لم تروھا اور اللہ نے ایسے لشکر اتارے جو تمہیں دکھائی نہیں دیتے تھے۔ ابن ابی حاتم نے سدی کبیر کا قول نقل کیا ہے کہ وہ لشکر ملائکہ کا تھا۔ حضرت سعید بن جبیر نے بیان کیا کہ حنین کے دن اللہ نے اپنے رسول ﷺ کی امداد پانچ ہزار نشان زدہ فرشتوں کو بھیج کر کی تھی۔ ابن اسحاق ‘ ابن المنذر ‘ ابن مردویہ ‘ ابو نعیم اور بیہقی نے حضرت جبیر بن مطعم کا بیان نقل کیا ہے کہ دشمنوں کی شکست سے پہلے جب لوگ لڑ رہے تھے ‘ میں نے ایک سیاہ چادر آسمان کی طرف سے آتی دیکھی تھی جو آکر لوگوں کے سامنے گرگئی۔ میں نے دیکھا کہ (اس چادر کے اندر سے) سیاہ چیونٹیاں اتنی برآمد ہوئیں کہ وادی بھر گئی ‘ پھر مجھے خیال ہوا کہ شاید یہ ملائکہ ہیں۔ پس میرے دیکھتے دیکھتے دشمنوں کو فوراً شکست ہوگئی۔ محمد بن عمر نے بروایت یحییٰ بن عبد اللہ بیان کیا ہے کہ مشائخ انصار کہتے تھے : ہم نے اس روز سیاہ چادروں کی طرح تہہ بر تہہ آسمان سے گرتی ہوئی کوئی چیز دیکھی۔ دیکھتے کیا ہیں کہ بکثرت چیونٹیاں یکدم (وادی میں) پھیل گئیں ‘ ہم ان کو اپنے کپڑوں سے جھاڑنے لگے۔ اس کے بعد فوراً اللہ کی مدد سے ہم فتحیاب ہوگئے۔ مسدد نے مسند میں اور بیہقی و ابن عساکر نے ام برثن کے آزاد کردہ غلام عبدالرحمن کا بیان نقل کیا ہے ‘ عبدالرحمن کا بیان ہے کہ مجھ سے ایک شخص جو جنگ حنین میں بحالت شرک موجود تھا ‘ کہتا تھا کہ جب ہمارا مقابلہ صحابہ سے ہوا تو وہ اتنی دیر بھی مقابلہ پر نہ ٹھہرے جتنی دیر میں بکری دوھی جاتی ہے۔ وہ منہ پھیر کر بھاگے ‘ ہم پیچھے سے ان کو کھدیڑتے چلے۔ اچانک خچر پر سوار ایک شخص مقابلہ پر آیا ‘ دیکھا تو وہ رسول اللہ ﷺ تھے۔ دوسری روایت میں آیا ہے کہ ہمارے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان کچھ گورے گورے خوبصورت لوگ حائل نظر آئے جنہوں نے ہم سے کہا : چہرے بگڑ گئے ‘ لوٹ جاؤ۔ ہم فوراً لوٹ پڑے۔ انہوں نے ہماری مشکیں کس لیں (گرفتار کرلیا) اور یہ وہی تھے۔ ابن مردویہ ‘ بیہقی اور ابن عساکر نے بیان کیا کہ حضرت شیبہ بن عثمان حجبی نے کہا : میں حنین کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکلا تھا۔ اسلئے نہیں نکلا تھا کہ میں مسلمان ہوگیا تھا بلکہ اس لئے نکلا تھا کہ ہوازن کا قریش پر غالب آنا مجھے پسند نہیں تھا۔ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ میدان میں کھڑا ہی تھا (کہ ابلق گھوڑوں پر کچھ سوار مجھے دکھائی دئیے اور) میں نے کہا : یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے ابلق گھوڑے نظر آ رہے ہیں۔ فرمایا : شیبہ ! یہ تو صرف کافر کو نظر آتے ہیں۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینہ پر مارا اور فرمایا : اے اللہ ! شیبہ کو ہدایت کر۔ خدا کی قسم ! ایسا تین بار کیا۔ خدا کی قسم ! دوسری بار ہی آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینہ سے نہیں اٹھایا تھا کہ مجھے آپ کی ذات سب مخلوق سے زیادہ پیاری محسوس ہونے لگی۔ غرض مسلمانوں کا مقابلہ ہوا ‘ جو لوگ شہید ہونا تھے ‘ شہید ہوگئے۔ پھر رسول اللہ ﷺ آگے بڑھے۔ حضرت عمر (خچر کی) لگام پکڑے ہوئے تھے اور حضرت عباس رکاب پکڑے ہوئے تھے۔ حضرت عباس نے اونچی آواز سے ندا کی : مہاجر کہاں ہیں ؟ سورة بقرہ والے کہاں ہیں ؟ رسول اللہ ﷺ یہ ہیں۔ فوراً مسلمان آگئے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے : میں نبی ہوں اس میں کوئی جھوٹ نہیں ‘ میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ اس کے بعد مسلمانوں نے تلواروں سے کافروں کا مقابلہ کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اب تنور گرم ہوا (لڑائی گھمسان کی اب ہوئی) ۔ محمد بن عمر نے مالک بن اوس بن حدثان کا قول نقل کیا ہے ‘ مالک نے کہا : مجھ سے میرے قبیلہ کے چند آدمی جو اس روز شریک جنگ تھے ‘ کہہ رہے تھے کہ اس روز کنکریاں جو رسول اللہ ﷺ نے (کافروں کی طرف) پھینکی تھیں ‘ ان کی وجہ سے کوئی آدمی ایسا نہ بچا جس کی آنکھوں میں مٹی نہ پڑی ہو اور ہم کو اپنے سینوں کے اندر ایک ایسی اضطرابی لہر محسوس ہونے لگی جیسے طشت میں پتھر گرنے سے پیدا ہوجاتی ہے۔ اس دھڑکن میں سکون ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ ہم نے اس روز کچھ گورے رنگ کے آدمی دیکھے جو آسمان و زمین کے درمیان ابلق گھوڑوں پر سوار تھے اور ان کے سروں پر سرخ عمامے تھے جن کے پلے انہوں نے شانوں کے درمیان لٹکا رکھے تھے ‘ ان کے دستے دستے (الگ الگ) تھے۔ ہم کو ان کے رعب کی وجہ سے غور کر کے دیکھنے کی طاقت ہی نہیں تھی۔ وعذاب الذین کفروا وذلک جزاء الکافرین۔ اور کافروں کو اللہ نے عذاب دیا اور کافروں کی یہی سزا ہے۔ ابن ابی حاتم نے (عذاب کی تشریح میں) سدی کبیر کا قول نقل کیا ہے : یعنی ان کو تلوار سے قتل کرایا۔ بزار نے قابل اعتماد سند کے ساتھ حضرت انس کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن فرمایا : ان کو خوب کاٹ ڈالو۔ حضور ﷺ نے یہ فرماتے وقت اپنے ہاتھ سے حلق کی طرف اشارہ کیا۔ بیہقی نے عبد اللہ بن حارث کی روایت سے حضرت حارث کا بیان نقل کیا ہے کہ حنین کے دن اہل طائف میں سے اتنے ہی آدمی مارے گئے جتنے بدر کے دن مارے گئے تھے یعنی ستر۔ حنین میں بمقام اوطاس ام ایمن کے بیٹے حضرت ایمن اور حضرت سراقہ بن حارث اور حضرت یتیم بن ثعلبہ اور حضرت یزید بن زمعہ اور حضرت ابو عامر اشعری شہید ہوگئے۔ محمد بن عمر نے حضرت محمد بن عبد اللہ بن صعصعہ کی روایت سے بیان کیا کہ حضرت سعد بن عبادہ نے چیخ کر تین بار خزرج کو پکارا اور حضرت اسید بن حضیر نے تین مرتبہ اوس کو آواز دی۔ دونوں قبیلے نداء سنتے ہی ہر طرف سے لوٹ پڑے جیسے شہید کی مکھیاں اپنے سردار (یعسوب) کی طرف لوٹتی ہیں۔ اہل مغازی نے لکھا ہے : پھر مسلمانوں نے مشرکوں پر حملہ کردیا اور اتنا قتل کیا کہ قتل کرتے کرتے تیزی سے ان کے بچوں اور عورتوں (کی حد) تک پہنچ گئے۔ یہ اطلاع رسول اللہ ﷺ کو پہنچ گئی تو فرمایا : لوگ کیوں قتل کرتے کرتے بچوں تک پہنچ گئے ؟ خوب سنو لو ! بچوں کو قتل نہ کیا جائے۔ حضرت اسید بن حضیر نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! یہ تو مشرکوں کے بچے ہیں۔ فرمایا : تم میں سے اچھے آدمی کیا مشرکوں کی اولاد نہیں ہیں ؟ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے (اور فطرت پر رہتا ہے) جب تک کہ اس کی زبان کھلے ‘ پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا عیسائی بنا دیتے ہیں۔ محمد بن عمر کا بیان ہے کہ مشائخ ثقیف کہتے تھے : ہم خیال کر رہے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے تعاقب میں ہیں یہاں تک کہ ہم میں سے جو لوگ طائف کے قلعہ میں گھس بھی جاتے تھے ‘ وہ بھی یہی گمان کرتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ ان کے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔ شکست کا رعب ان پر ایسا پڑا تھا۔ اللہ نے اپنے دشمنوں کو ہر طرف سے شکست دے دی اور مسلمانوں نے ان کا تعاقب کیا ‘ قتل بھی کیا اور ان کے بچوں ‘ عورتوں کو گرفتار بھی کیا۔ مالک بن عوف اور اس کی قوم کے کچھ سردار بھاگ کر طائف کے قلعہ میں پناہ گیر ہوگئے۔ ابن اسحاق اور محمد بن عمر وغیرہ کا بیان ہے کہ شکست کھانے کے بعد مالک بن عوف اور کچھ ہوازن کے آدمی طائف میں آگئے اور کچھ لوگوں نے اوطاس میں ہی لشکر گاہ بنا لی اور کچھ نخلہ کی طرف چلے گئے اور جو لوگ گھاٹیوں میں چلے گئے ‘ ان کا پیچھا نہیں کیا گیا اور ربیعہ بن رفیع سلمی نے درید بن الصمہ کو قتل کردیا۔ بغوی کا بیان ہے کہ جب مشرک شکست کھا کر ‘ پیٹھ دکھا کر بھاگے تو (اوطاس پہنچے ‘ وہاں ان کے بیوی بچے اور مویشی تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک اشعری آدمی کو جس کا نام ابو عامر تھا ‘ لشکر کا کمانڈر بنا کر اوطاس کو بھیجا ‘ وہاں اس فوج کی مشرکوں سے لڑائی ہوئی۔ درید بن الصمہ مارا گیا ‘ مشرکوں کو شکست ہوگئی۔ مسلمانوں نے ان کے بیوی بچوں کو قید کرلیا۔ مالک بن عوف نضری بھاگ کر طائف چلا گیا اور وہاں قلعہ بند ہوگیا اور اس کے جانور اور اہل و عیال گرفتار ہوگئے۔ مسلمانوں کا امیر ابو عامر بھی شہید ہوگیا۔ اہل مکہ نے جب دیکھا کہ اللہ نے اپنے رسول کو فتحیاب اور اپنے دین کو غالب کردیا تو ان میں سے بکثرت آدمی مسلمان ہوگئے۔ مال غنیمت جو جمع کیا گیا ‘ رسول اللہ ﷺ نے اس کو جعرانہ لے جانے کا حکم دیا۔ حکم کی تعمیل کی گئی یہاں تک کہ طائف کے محاصرہ سے فارغ ہو کر خود حضور ﷺ بھی جعرانہ آگئے۔ ابن سعد اور مؤلف العیون نے لکھا ہے کہ قیدی چھ ہزار ‘ اونٹ چوبیس ہزار اور بھیڑ بکریاں چالیس ہزار سے زائد تھیں اور چار ہزار اوقیہ چاندی تھی۔ عبدالرزاق نے حضرت سعید بن مسیب کی روایت سے لکھا ہے کہ اس روز چھ ہزار عورتیں اور لڑکے قید کئے گئے اور ابو سفیان بن حرب کو مال غنیمت کا نگراں مقرر کیا گیا۔ بلاذری نے کہا : بدیل بن ورقاء خزاعی کو ‘ اور ابن اسحاق نے کہا : مسعود بن عمر غفاری کو نگران غنیمت مقرر کیا گیا تھا اور خود رسول اللہ ﷺ نے فوجی چھاؤنی ڈال دی۔ ثقیف کے لوگ اپنے قلعہ پر چڑھ کر قلعہ بند ہوگئے۔ یہ قلعہ عرب کے سارے قلعوں میں بےنظیر تھا۔ قلعہ کے اوپر انہوں نے سو تیر انداز مقرر کر دئیے جنہوں نے دور والوں پر تیر برسانے شروع کر دئیے اور جو لوگ قلعہ کے قریب پہنچ گئے تھے ‘ ان پر وہ آگ میں تپائی ہوئی ‘ چنگاریاں برساتی ہوئی لوہے کی چھریاں پھینکتے تھے۔ اتنی کثرت سے انہوں نے تیر برسائے کہ معلوم ہوتا کہ ایک ٹڈی دل ہے۔ بہت مسلمان زخمی ہوئے اور بارہ آدمی شہید ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ اس جگہ پر چڑھ گئے جہاں بنی ثقیف نے مسلمان ہونے کے بعد مسجد بنا دی ہے۔ عمرو بن امیہ ثقفی نے جو آخر میں مسلمان ہوگیا تھا ‘ اپنی جماعت سے کہا : اگر محمد ﷺ میدان میں نکل کر دو بدو جنگ کی دعوت دیں تو کوئی (کسی مسلمان سے دو بدو) لڑنے کیلئے باہر نہ نکلے۔ جب تک وہ یہاں پڑے رہیں ‘ پڑا رہنے دو ۔ چناچہ حضرت خالد بن ولید نے جب میدان میں نکل کر اپنے حریف کو طلب کیا تو کسی نے اوپر سے جھانکا بھی نہیں۔ آپ نے پھر دعوت دی ‘ تب بھی کوئی نہیں اترا بلکہ عبد یالیل نے کہا : کوئی تمہارے مقابلہ پر نہیں اترے گا ‘ ہم قلعہ کے اندر ہی رہیں گے۔ ہم نے برسوں کیلئے کھانے پینے کی چیزیں رکھ چھوڑی ہیں ‘ جب یہ راشن ختم ہوجائے گا اور تم اس وقت تک یہاں پڑے رہو گے تو ہم سب کے سب نکل کر تلواروں سے تمہارا مقابلہ آخر دم تک کریں گے۔ الحاصل رسول اللہ ﷺ تیروں سے ان کا مقابلہ کرتے رہے اور وہ بھی قلعہ کے اوپر سے تیر پھینکتے رہے ‘ کوئی باہر نکل کر نہیں آیا۔ بنی ثقیف کے تیروں سے بہت لوگ زخمی ہوئے اور ایک جماعت شہید بھی ہوگئی۔ ابن اسحاق اور محمد بن عمر کا بیان ہے کہ مشائخ کہتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اعلان کیا : جو غلام قلعہ سے اتر کر ہمارے پاس آجائے گا ‘ وہ آزاد ہے۔ چناچہ دس سے کچھ زائد لوگ قلعہ سے نکل کر آگئے اور رسول اللہ ﷺ نے ان کو آزاد کردیا۔ محمد بن عمر کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ سے مشورہ کیا تو حضرت سلمان فارسی نے عرض کیا : میری رائے میں گوپھن نصب کر کے قلعہ پر پتھر برسائے جائیں۔ دور اسلام میں (مسلمانوں کی طرف سے) یہ پہلی گوپھن لگائی گئی جس سے پتھر پھینکے گئے۔ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا کہ ان کے انگور کی ٹٹیاں اور کھجور کے درخت کاٹ دئیے جائیں۔ آپ نے ہر مسلمان کو مامور کردیا کہ پانچ درخت (کھجور کے) اور پانچ بیلیں (انگور کی) قطع کردے۔ مسلمانوں نے بےدریغ بکثرت درخت کاٹنے شروع کر دئیے۔ بنی ثقیف نے پکار کر کہا : تم ہمارا مال کس وجہ سے کاٹتے ہو ؟ اگر تم ہم پر غلبہ پالو گے تو یہ مال تمہارا ہوجائے گا ‘ ورنہ اس کو اللہ اور قرابت کا لحاظ کر کے چھوڑ دو ۔ حضور ﷺ نے فرمایا : میں اس کو اللہ اور قرابت کا لحاظ کر کے چھوڑے دیتا ہوں۔ ابن اسحاق کا بیان ہے : مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر سے فرمایا : میں نے خواب میں دیکھا کہ مکھن سے بھرا ہوا ایک بڑا پیالہ مجھے ہدیہ میں پیش کیا گیا۔ ایک مرغ نے اس کو دیکھ لیا اور پیالہ میں جو کچھ تھا ‘ اس کو گرا دیا۔ حضرت ابوبکر نے عرض کیا : میرے خیال میں آج آپ وہ چیز نہیں پاسکتے جو آپ کو مطلوب ہے (یعنی طائف کا قلعہ فتح نہ ہوگا) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اور میں (بھی) یہ نہیں سمجھتا۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت میں آیا ہے کہ جب طائف کے محاصرہ کو 15 دن گذر گئے تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت نوفل بن معاویہ دئلی سے مشورہ کیا اور فرمایا : نوفل ! اس جگہ ٹھہرنے کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟ نوفل نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! لومڑی بھٹ کے اندر ہے ‘ اگر آپ یہاں پڑے رہیں گے تو (کبھی نہ کبھی اس کو) پکڑ لیں گے اور اگر چھوڑ دیں گے تو یہ لومڑی آپ کو ضرر نہ پہنچا سکے گی۔ بقول شجال ‘ حضرت عمر و حضرت ابن عمر نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ ﷺ نے طائف کا محاصرہ کرلیا اور کچھ حاصل نہ ہوا تو فرمایا : انشاء اللہ ہم کل لوٹ جائیں گے۔ صحابہ کو یہ بات شاق ہوئی اور کہنے لگے : آپ یونہی جا رہے ہیں ‘ ہم فتح حاصل کر بھی نہ سکے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : (اچھا) کل صبح کو نکلنا۔ چناچہ دوسرے دن صبح کو صحابہ نکلے اور سخت جنگ کی اور خوب زخمی ہوئے (مگر قلعہ فتح نہ ہوا) حضور ﷺ نے فرمایا : انشاء اللہ کل صبح ہم لوٹ جائیں گے۔ اب یہ بات لوگوں کو پسند آئی۔ حضور ﷺ یہ دیکھ کر ہنس دئیے۔ صالحی نے ذکر کیا ہے کہ طائف میں بارہ مسلمان شہید ہوئے۔ حضرت عروہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا : (کل) اونٹ چرنے کیلئے نہ چھوڑے جائیں۔ صبح ہوئی تو آپ نے اور صحابہ نے کوچ کردیا اور لوٹنے کیلئے سوار ہوگئے تو دعاء کی : اے اللہ ! ان کو ہدایت کر دے اور ہم کو ان کی مشقت سے بچا لے (یعنی ان کے دلوں میں ایمان ڈال دے تاکہ ہم پر یہ حملہ نہ کریں اور ہم ان پر لشکر کشی نہ کریں) ۔ ترمذی نے حضرت جابر کی روایت سے لکھا ہے اور اس کو حسن کہا ہے کہ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ﷺ ! ثقیف کے تیروں نے ہم کو جلا ڈالا ‘ آپ ان کیلئے بددعا کر دیجئے۔ حضور ﷺ نے دعاء کی : اے اللہ ! ثقیف کو ہدایت کر اور ان کو ایماندار بنا کرلے آ۔ ابن اسحاق کی ایک روایت میں آیا ہے کہ طائف کا محاصرہ تیس رات یا اس کے قریب قریب رہا۔ دوسری روایت میں بیس رات سے کچھ اوپر مدت محاصرہ بتائی ہے۔ بعض نے بیس دن کہا ہے۔ بعض کے نزدیک دس دن سے کچھ زیادہ محاصرہ رہا۔ ابن حزم نے کہا : یہی بلاشک صحیح ہے۔ امام احمد و مسلم نے حضرت انس کی روایت سے لکھا ہے کہ مسلمانوں نے چالیس دن طائف کا محاصرہ رکھا۔ ہدایہ میں اس روایت کو غریب کہا ہے۔ بغوی نے لکھا ہے : مہینہ کے جتنے دن باقی تھے ‘ اتنے روز محاصرہ رکھا ‘ یعنی شوال کے مہینہ کے جو دن باقی تھے ‘ ان میں محاصرہ جاری رہا۔ جب ماہ ذیعقدہ آگیا تو چونکہ یہ مہینہ حرمت کا تھا (اس میں جنگ وجدال حرام تھا) اسلئے محاصرہ اٹھا کر لوٹ آئے۔ میں کہتا ہوں : یہی بات ابن حزم کے قول کے موافق ہے۔ بعض لوگ قائل ہیں کہ ماہہائے حرام میں قتال کرنا جو پہلے حرام تھا ‘ وہ (اس آیت سے) منسوخ کردیا گیا ‘ مگر اس آیت میں حرمت ذیعقدہ کو منسوخ کرنے پر کوئی دلالت نہیں۔ وہاں اگر ایک ماہ یا اس سے زائد مدت محاصرہ قرار دی جائے تو ضرور ماہ ذیعقدہ میں قتال کا ثبوت ہوجائے گا۔ پھر یہاں سے رسول اللہ ﷺ جعرانہ کو تشریف لے گئے اور وہاں سے عمرہ کا احرام باندھا۔
Top