Ruh-ul-Quran - Yunus : 3
اِنَّ رَبَّكُمُ اللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّةِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ١ؕ مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اِذْنِهٖ١ؕ ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُ١ؕ اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ : بیشک رَبَّكُمُ : تمہارا رب اللّٰهُ : اللہ الَّذِيْ : وہ جس نے خَلَقَ : پیدا کیا السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضَ : اور زمین فِيْ : میں سِتَّةِ : چھ اَيَّامٍ : دن ثُمَّ : پھر اسْتَوٰى : قائم ہوا عَلَي الْعَرْشِ : عرش پر يُدَبِّرُ : تدبیر کرتا ہے الْاَمْرَ : کام مَا : نہیں مِنْ : کوئی شَفِيْعٍ : سفارشی اِلَّا : مگر مِنْۢ بَعْدِ : بعد اِذْنِهٖ : اس کی اجازت ذٰلِكُمُ : وہ ہے اللّٰهُ : اللہ رَبُّكُمْ : تمہارا رب فَاعْبُدُوْهُ : پس اس کی بندگی کرو اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ : سو کیا تم دھیان نہیں کرتے
بیشک تمہارا رب وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا فرمایا، پھر وہ عرش پر متمکن ہوا۔ وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ اس کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کرنے والا نہیں۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے، پس تم اسی کی بندگی کرو۔ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے۔
اِنّ َربَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُالْاَمْرَط مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْ م بَعْدِ اِذْنِہٖ ط ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ ط اَفَلاَ تَذَکَّرُوْنَ ۔ (یونس : 3) (بےشک تمہارا رب وہی اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو 6 دنوں میں پیدا فرمایا، پھر وہ عرش پر متمکن ہوا۔ وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ اس کے ہاں اس کی اجازت کے بغیر کوئی سفارش کرنے والا نہیں۔ یہی اللہ تمہارا رب ہے، پس تم اسی کی بندگی کرو۔ کیا تم غور و فکر نہیں کرتے۔ ) گزشتہ آیت میں پروردگار نے آنحضرت ﷺ کی بعثت کا مقصد یہ بیان فرمایا ہے کہ آپ لوگوں کو انذار کریں اور جو ایمان لے آئیں انھیں بشارت دیں۔ پیش نظر آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کے فریضہ منصبی کی دلیل دی جارہی ہے جس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بےسبب نہیں بھیجا اور یہ آخری رسول بھی یونہی نہیں چلے آئے بلکہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے جس کے انجام دینے کے لیے اللہ کے نبی اور رسول آتے رہے ہیں اور اسی کے لیے خاتم النبیین ﷺ تشریف لائے ہیں۔ اس حقیقت کو بیان کرنے سے پہلے تمہیدی طور پر دو باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ تمہید 1 قرآن و سنت سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ انسانی زندگی کی اچھائی اور برائی اور اس کے حسن و قبح کا دارومدار انسانی افکار میں ان خیالات اور تصورات پر ہے جو دلوں میں ایسی جگہ بنا لیتے ہیں کہ وہ نکالے بھی نہیں نکلتے۔ یعنی وہ انمٹ تصورات اور ناقابل تغیرخیالات جو انسان کو وراثت میں ملتے ہیں یا معاشرہ اس کے سپرد کرتا ہے یا تعلیم و تربیت سے دلوں میں راسخ ہوجاتے ہیں یا ہر آدمی کا اپنا مطالعہ بعض خیالات کو دل میں پیوست کردیتا ہے۔ چناچہ یہی تصورات اور خیالات ہر انسان کی زندگی میں حکمرانی کرتے ہیں۔ وہ جب تک ان خیالات کے زیراثر رہتا ہے اسی طرح کے اعمال اس سے ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر یوں سمجھئے کہ ایک شخص روڈ ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں سڑک پر بےہوش پڑا ہے اور زخموں سے بری طرح گھائل ہے۔ اچانک ایک آدمی وہاں پہنچتا ہے، اس کی نازک حالت دیکھ کر اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے اس کی جیب ٹٹولتا ہے۔ اس میں جو کچھ ہاتھ آتا ہے نکال لیتا ہے، پھر اس کی کلائی دیکھتا ہے اور اس کی گھڑی اتار لیتا ہے، پھر دائیں بائیں نظر ڈالتا ہے۔ جب مطمئن ہوجاتا ہے کسی نے اسے نہیں دیکھا تو وہ وہاں سے غائب ہوجاتا ہے۔ ایک دوسرا شخص آتا ہے۔ وہ بھی اس کو بےہوش دیکھ کر اس کی طرف سرسری سا متوجہ ہوتا ہے، ایک نگاہ غلط انداز ڈالتا ہے اور اپنی راہ لیتا ہے۔ اس کے بعد ایک تیسرا شخص وہاں پہنچتا ہے۔ جیسے ہی اس کی نظر اس زخمی پر پڑتی ہے تو وہ اس کی تشویشناک حالت دیکھ کر پریشان ہوجاتا ہے۔ سب سے پہلے اس کی نبض ٹٹولتا ہے، پھر دل کی حرکت جاننے کی کوشش کرتا ہے، جب دیکھتا ہے کہ نبض بھی چل رہی ہے اور دل بھی حرکت میں ہے تو فوراً اسے اٹھا کر کندھے پر ڈالتا ہے یا اپنی گاڑی میں لٹاتا ہے اور سب سے قریب کسی کلینک پر لے کر اسے پہنچتا ہے تاکہ اسے فرسٹ ایڈ دی جائے اور اس کی جان بچائی جاسکے۔ غور فرمایئے کہ ان تین آدمیوں کے رکنے کا سبب زخمی کا سرِراہ بےہوشی کی حالت میں پڑا ہونا ہے۔ سبب کی یکسانی میں تینوں برابر ہیں لیکن اعمال تینوں کے الگ الگ اور جدا جدا ہیں۔ ایک نے اس کی بےہوشی سے فائدہ اٹھایا اور اس کی جیب میں جو کچھ تھا لے کر چلتا بنا۔ دوسرے نے نگاہ ضرور ڈالی لیکن کوئی اثر قبول نہیں کیا اور اپنا وقت ضائع کیے بغیر چلا گیا۔ تیسرے آدمی نے جب اس کی بگڑتی ہوئی حالت دیکھی تو فوراً اس کی نبض اور دل کی کیفیت جاننے کی کوشش کی تاکہ معلوم ہو کہ وہ زندہ ہے یا مرگیا۔ چناچہ جب اسے یقین ہوگیا کہ زخمی زندہ ہے تو اب اس نے اسے بچانے کے لیے اپنی تمام مساعی صرف کرڈالیں۔ سوال یہ ہے کہ سبب ایک ہونے کے باوجود تینوں کے اعمال مختلف کیوں ہیں ؟ آپ اگر غور کریں تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ جس آدمی کے دل و دماغ میں برے خیالات بسے ہوئے تھے اور اس کے اندر ایک چور بیٹھا تھا، اس نے بجائے اس کے زخموں سے متاثر ہونے کے اس کی جیب صاف کی۔ دوسرا شخص جس کے دل میں انسانیت کا درد تو کجا کوئی ہمدردی بھی ناپید تھی۔ اس نے جب زخمی کو بےہوش حالت میں دیکھا تو اس نے کوئی تاثر لیے بغیر یہ خیال کیا کہ یہاں سڑک کے کنارے جانور مرتے ہی رہتے ہیں، یہ بھی ایک جاندار ہی ہے اس لیے اس نے ایک سرسری نظر ڈالی اور وہاں سے رفوچکر ہوگیا۔ تیسرا آدمی جس کے دل میں انسانیت کا درد اور غمگساری کا جذبہ تھا وہ تڑپ کر اپنی سواری سے نکلا اور اس زخمی کی جان بچانے کے لیے اپنے تمام وسائل جھونک دیئے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کس طرح انسانوں کے اعمال پہلے سے دلوں میں بیٹھے ہوئے خیالات کے تابع ہوتے ہیں۔ اسی لیے اقبال نے کہا : دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو اندازِ آفاقی یہ انمٹ نقوش اور پختہ خیالات جو انسانی زندگی پر حکمرانی کرتے ہیں شریعت کی زبان میں انھیں عقائد کہا جاتا ہے۔ چونکہ عقائد کے زیراثر اعمال کی تشکیل ہوتی ہے اس لیے قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ نے انسانی تربیت کے لیے سب سے پہلے عقائد کی اصلاح کی طرف توجہ دی۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عرب کا وہ معاشرہ جس کا بگاڑ انتہا کو پہنچ چکا تھا، جس کی کوئی کَل بھی سیدھی نہ تھی، جس میں ڈھونڈے سے بھی کوئی اچھائی نظر نہ آتی تھی، انسانیت سے کوسوں دور اور بہیمیت سے ملتی جلتی زندگی اس معاشرے کی زندگی بن چکی تھی۔ قانون کا تصور انھیں چھو کر بھی نہیں گزرا تھا۔ خواہشات کی پیروی ان کا مقصود زندگی بن چکا تھا لیکن آنحضرت ﷺ کی تعلیم و تربیت کے نتیجے میں جب ان کے بنیادی خیالات یعنی عقائد میں انقلاب آیا تو دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں ایک ایسا انسانی معاشرہ، ایک ایسی امت تیار ہوئی جس کی نظیر نہ تاریخ میں پہلے موجود تھی نہ آج تک موجود ہے۔ چناچہ اسی تشخیص کے تحت اس آیت ِ کریمہ میں سب سے پہلے عقائد کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔ 2 دوسری بات اس سلسلے میں قابل ذکر یہ ہے کہ بحث عقائد کی ہو یا کسی اور صنف علم کی۔ قرآن کریم کا انداز یہ ہے کہ وہ اپنی بات کے اثبات کے لیے جب دلیل پیش کرتا ہے تو مقدمات کو ترتیب اس طرح دیتا ہے کہ سب سے پہلے مقدمہ اولیٰ کے طور پر اس بات کا ذکر کرتا ہے جو جانبین کے نزدیک مسلّم ہو یعنی دونوں اسے تسلیم کرتے ہوں تاکہ اس کو بنیاد بنا کر بات کو آگے بڑھایا جاسکے۔ یہ وہ حکیمانہ اسلوب ہے جس سے کسی بھی بات کو سمجھانا اور منوانا آسان ہوجاتا ہے۔ مثلاً یہاں فرمایا گیا ہے کہ تمہارا رب وہ ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، جو تمہارا خالق ہے، جو لوح و قلم اور عرش کرسی کی تخلیق کرنے والا ہے اور تم اسے تسلیم کرتے ہو کہ کائنات کا خالق اور ہمارا خالق یقینا اللہ ہے، اس کے سوا کوئی اور نہیں، پھر تم ایک بات کا جواب دو کہ اگر واقعی تمہارا بھی اور کائنات کا بھی خالق اللہ ہی ہے تو پھر تمہارا اور کائنات کا رب کسے ہونا چاہیے ؟ اس سے بڑھ کر ستم ظریفی اور کیا ہوگی کہ پیدا تو تمہیں اللہ نے کیا، تمہارا آبائواجداد کو بھی اسی نے پیدا کیا، تمہارے لیے زمین سے غذا اسی نے پیدا کی، تمہارے لیے روشنی کا سامان کرنے کے لیے سورج اور چاند کو اس نے پیدا کیا، تمہاری اولاد کو بھی وہی پیدا کرتا ہے، تو پھر کیا یہ بات قرین قیاس ہے کہ پیدا تو اللہ کرے اور ربوبیت کا منصب کسی اور کو دے دیا جائے۔ یہ ایک ایسی حماقت ہے جسے کوئی بھی عقل مند آدمی بقائمی ہوش و حواس تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتا اور نہ وہ یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ جب کائنات کا خالق ایک اللہ ہے تو تمہیں اولاد دینے میں دوسروں کا دخل کیسے ہوسکتا ہے۔ وہ تخلیق کے کسی عمل میں بھی کسی اور کی شرکت کیسے گوارہ کرسکتا ہے اور مزید یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ کائنات کی تخلیق اس طرح وجود میں نہیں آئی کہ اللہ نے ایک ہی وقت میں تمام کائنات کو پیدا فرما دیا بلکہ ایک تدریج کے ساتھ تخلیق کا عمل مکمل ہوا۔ وہ اگر چاہتا تو کلمہ کُن کے ذریعے سے ساری کائنات کو ایک لمحے میں وجود میں لے آتا لیکن اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ مختلف ادوار میں کائنات کو وجود دیا جائے۔ اس لیے اس آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے 6 دنوں میں زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا۔ سوال یہ ہے کہ 6 دنوں سے مراد کیا ہے ؟ اس لیے کہ انسانوں میں طلوع آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک کے وقت کو ایک دن کہتے ہیں لیکن کائنات کے پیدا ہونے سے پہلے اس دن کے وجود کا تصور کیسے ہوسکتا ہے کیونکہ اس وقت نہ سورج تھا نہ زمین۔ اس لیے معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس سے مراد ہمارا دن نہیں بلکہ اس سے مراد کوئی بھی وقت ہے جس کے دورانیے کا علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ قرآن کریم نے اپنا ایک دن ایک ہزار سال کا قرار دیا ہے۔ اگر وہ دن مراد لیں تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کائنات کی تخلیق 6 ہزار سال میں مکمل ہوئی اور یہ بھی ممکن ہے کہ دن سے مراد دور ہو۔ اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ 6 ادوار میں کائنات کی تخلیق عمل میں آئی۔ کوئی سی بھی صورت ہو یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب انسان کتم عدم تھا۔ ابھی وقت کی تخلیق بھی نہیں ہوئی تھی، تصور کو وجود تک نہیں ملا تھا تو ایسے زمانے کی باتوں کو ہم اپنی عقل کے ترازو میں اگر تول کر کوئی تعبیر دینا چاہیں تو یہ سراسر اپنے ساتھ زیادتی ہوگی۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ اسے متشابہات میں شامل سمجھ کر اس کا یقین رکھیں لیکن اس بات کو تسلیم کریں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی ذات ابدی نہیں۔ مادہ قدیم نہیں وہ مخلوق اور حادث ہے۔ اس کا وجود بھی اور اس میں پیدا ہونے والی تبدیلیاں بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ظہور ہیں۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ اللہ نے یکبارگی کائنات کو پیدا کرکے چھوڑ نہیں دیا کہ اب وہ جیسے چاہے حرکت کرتی رہے اور اس میں جو تبدیلیاں ممکن ہوں آتی رہیں اور جو شکلیں بن سکتی ہوں بنتی رہیں۔ اللہ علت العلل بن کر کائنات کے کسی گوشے میں خاموش بیٹھا ہے۔ اس لیے یہاں فرمایا گیا ہے کہ اس نے زمین اور آسمانوں کو 6 دنوں میں تخلیق فرمایا اور پھر عرش حکومت پر متمکن ہوا تاکہ دنیا کے معاملات کی تدبیر کرے اور انتظام چلائے۔ اگر وہ صرف خالق ہوتا اور تخت سلطنت پر اور کوئی متمکن ہوتا یا تخت سلطنت خالی رہتا تو یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ اس نے کائنات کو پیدا ضرور کیا لیکن اس پہیئے کو حرکت دے کر آپ کہیں خاموشی کی چادر اوڑھ کر لیٹ گیا حالانکہ اس کی شان تو یہ ہے کہ اس نے ہر چیز کو تخلیق فرمایا پھر اس کی زمام کار سنبھالی، پھر ہر مخلوق کے انتظام کو سیدھا کیا۔ چناچہ آج بھی اس کائنات کا ایک ایک ادارہ اس کے احکام سے بندھا ہوا ہے۔ اس کائنات کی کوئی حرکت اس کے حکم کے بغیر نہیں ہوتی۔ وہ برابر تدبیر امور میں لگا ہوا ہے۔ وہ خود فرماتا ہے کہ صحرا میں کوئی پتہ بھی گرتا ہے تو وہ جانتا ہے، کوئی دانہ پھوٹتا ہے تو اس کے علم میں ہوتا ہے۔ جس طرح وہ انسانی اعمال کی نگرانی کرتا ہے۔ اسی طرح وہ کائناتی نظام کو بھی اپنے حکم سے چلاتا ہے۔ اس نظام سلطنت کی مضبوطی کا عالم یہ ہے کہ کائنات کا کوئی کرہ اپنی مرضی سے کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا۔ مخلوقات میں سورج ایک بہت بڑی مخلوق ہے اور اس کی توانائیوں کی کوئی انتہا نہیں۔ بایں ہمہ قانون کے سامنے اس کی بےبسی کا عالم یہ ہے کہ سورة یٰسین میں ارشاد فرمایا گیا ہے ” لاَالشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَوَلاَالَّیْلُ سَابِقُ الْنَّھَارِ ط “ سورج کی مجال نہیں کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے۔ ہر کرہ اپنے مدار میں گھوم رہا ہے۔ ہر مخلوق اس کے حکم کی پابند ہے۔ جس طرح سورج اور چاند اس کے حکم کے تابع ہیں۔ اسی طرح کائنات کے تمام کرے تمام ثوابت اور سیارے اسی کے احکام کی اطاعت کررہے ہیں۔ اسی طرح زمین کی حرکتیں بھی اسی کے تابع ہیں۔ زمین میں زلزلے کائناتی فورسز کی مرضی سے نہیں آتے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کائناتی فورسز اپنا کام کرتی ہیں۔ سمندر میں جواربھاٹا، دریائوں کی طغیانی، پہاڑوں کا لاوا اگلنا، بادل کا کڑکنا اور بجلی کا کوندنا، ایک ایک چیز اللہ تعالیٰ کے احکام سے بندھی ہوئی ہے۔ اسی طرح اس کا ایک اخلاقی نظام بھی ہے۔ قوموں کا عروج وزوال اسی کے فیصلوں کا پابند ہے۔ جس قوم پر بھی عذاب آیا، اس کی مرضی سے آیا۔ بعض برخودغلط لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو قومیں تباہی کا شکار ہوئیں وہ زمین کے کسی تغیر کے نتیجہ میں ہوئیں حالانکہ قرآن کریم نے واضح طور پر فرمایا کہ ہم نے جسے بھی پکڑا اسے اس کے گناہوں کی پاداش میں پکڑا اور اسے کسی کائناتی قوت نے نہیں بلکہ ہم نے پکڑا۔ بعض قوموں کو پہلے وارننگ دی گئی کہ تین دنوں کے بعد تمہارا خاتمہ کردیا جائے گا۔ چناچہ جب انھوں نے اس کی پروا نہ کی تو تین دن کے بعد اللہ تعالیٰ کا عذاب آگیا۔ یہ تین دن کی وارننگ اور پھر اس کے مطابق عذاب آنا کیا یہ زمینی قوتوں کی طرف سے تھا۔ یہ وہ تدبیر اور عمل ہے جس کا اظہار پوری کائنات میں ہورہا ہے اور یہ نظام اس قدر مضبوط اور اس قدر بےلچک ہے کہ کسی شفاعت کرنے والے کی مجال نہیں کہ وہ سفارش کرسکے۔ بادشاہوں کے یہاں بھی امراء اور وزراء کی سفارشیں چلتی ہیں، بعض دفعہ فیصلے تبدیل کرا دیئے جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے یہاں کوئی سفارش کی جرأت نہیں کرسکے گا۔ (البتہ آخرت میں شفاعت کا مضمون وہ ایک الگ چیز ہے جس کی بحث اپنے مقام پر آئے گی) ذرا غور کیجیے کہ جب تمہارا خالق ومالک اللہ تعالیٰ ہے، وجود دینے والا وہ ہے، رزق وہ عطا کرتا ہے، زندگی کی ہر ضرورت وہ پوری کرتا ہے اور کائنات کا نظام وہ چلا رہا ہے اور اس نے کائنات کو وجود مختلف ادوار میں نہایت حکمت کے ساتھ عطا کیا ہے اور اس کی حکومت کسی اور کے سپرد نہیں بلکہ وہ خود انجام دیتا ہے۔ اس پوری صورتحال کو سامنے رکھ کر یہ بتایئے کہ کیا رب اس کے سوا کوئی اور ہوگا ؟ رب وہ ہوتا ہے جو مخلوق کو پالتا ہے، وہی اس کا حاکم حقیقی ہوتا ہے اور وہی اس کا مالک اور آقا ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر حماقت کی بات اور کیا ہوگی کہ خلق کوئی کرے اور مالک اور آقا کوئی اور ہو۔ زندگی کی ضروریات کوئی اور مہیا کرے اور فرماروائی کوئی اور کرے۔ نظام سلطنت وہ چلائے، دل و دماغ کو رعنائیاں وہ عطا کرے اور صلاحیتوں سے وہ نوازے اور غلامی کسی اور کی جائے۔ ان فطری اور عقلی مقدمات کے ذریعے عربوں کی بےدینی اور مشرکانہ زندگی کو غلط ثابت کرنے کے بعد ارشاد فرمایا گیا ہے۔ ذَالِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہٗ یہ ہے اللہ تعالیٰ جو تمہارا پروردگار ہے، پس تم اسی کی عبادت کرو۔ جس طرح ربوبیت میں فرمانروائی، حاکمیت اور آقائی کے مفاہیم شامل ہیں۔ اسی طرح بندگی و عبودیت میں بھی یہ تینوں مضامین شامل ہیں کہ تم غلامی کرو تو صرف اس اللہ کی جو تمہارا رب ہے۔ احکام پر چلو تو اس خدا کے جس نے تمہیں پیدا کیا اور آقائی تسلیم کرو اس مالک کی جس نے تمہیں زندگی عطا کی ہے لیکن یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ جسے تم خالق مانتے اور شب و روز جس کا رزق کھاتے ہو اور جس کی دی ہوئی نعمتوں سے متمتع ہوتے ہو اسی کے ساتھ دوسروں کو شریک کرتے ہو، اس کی بندگی کرنے کی بجائے دوسروں کی بندگی بجا لاتے ہو، اسے آقا سمجھنے کی بجائے دوسروں کی آقائی کے سامنے سر جھکاتے ہو۔ دنیا میں ایسا احمق شاید ہی کوئی ہوگا کہ وہ تنخواہ کسی سے لے اور ڈیوٹی کسی کی انجام دے۔ زندگی کی تمام نعمتیں کسی اور سے حاصل کرے اور اطاعت اور غلامی کسی اور کی کرے۔ اگر دنیا میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ مشہور کہاوت ہے کہ جس کا کھایا جاتا ہے اسی کا گایا جاتا ہے۔ تو تم بھی جس کا کھاتے ہو، اسی کے حقوق ادا کرنے کی کوشش کرو۔ اسی بات کو ایک اور جگہ پروردگار نے فرمایا الالہ الخلق والامر خبردارجس کے لیے پیدا کرنا ہے اسی کے لیے حکم دینا بھی ہے۔ یعنی جو پیدا کرتا ہے حکم دینا بھی اسی کا حق ہے۔ اَفَلاَ تَذَکَّرُوْن کیا تم ان سامنے کی باتوں اور جانی پہچانی حقیقتوں سے نصیحت حاصل نہیں کرتے ہو۔
Top