Ruh-ul-Quran - Hud : 50
وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًا١ؕ قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ١ؕ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا مُفْتَرُوْنَ
وَاِلٰي : اور طرف عَادٍ : قوم عاد اَخَاهُمْ : ان کے بھائی هُوْدًا : ہود قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم اعْبُدُوا : تم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ مَا لَكُمْ : تمہارا نہیں مِّنْ اِلٰهٍ : کوئی معبود غَيْرُهٗ : اس کے سوا اِنْ : نہیں اَنْتُمْ : تم اِلَّا : مگر (صرف) مُفْتَرُوْنَ : جھوٹ باندھتے ہو
اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ آپ (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم ! اس اللہ کی عبادت کرو، نہیں ہے تمہارا کوئی معبود اس کے سوا، نہیں ہو تم مگر افترا پرداز۔
وَاِلٰی عَادٍ اَخَاھُمْ ھُوْدًا ط قَالَ یٰـقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ط اِنْ اَنْتُمْ اِلاَّمُفْتَرُوْنَ ۔ (سورۃ ہود : 50) (اور ہم نے عاد کی طرف ان کے بھائی ہود کو بھیجا۔ آپ (علیہ السلام) نے کہا اے میری قوم ! اس اللہ کی عبادت کرو، نہیں ہے تمہارا کوئی معبود اس کے سوا، نہیں ہو تم مگر افترا پرداز۔ ) حضرت ہود (علیہ السلام) قوم عاد کی طرف مبعوث ہوگئے۔ یہ قوم جزیرہ عرب میں جانی پہچانی تھی۔ یہ اپنے کسی جدِاعلیٰ عاد کی طرف منسوب تھی۔ ان کا وطن حضرموت اور یمن کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ سورة الاعراف میں ہم ان کی تاریخ کے ضروری عنوانات پر گفتگو کرچکے ہیں۔ یہاں ان کا تذکرہ صرف اس لیے کیا جارہا ہے تاکہ مشرکینِ مکہ کو بتایا جائے کہ جس طرح تم ایک قوم ہو، تمہارے پاس ایک طاقت ہے، تمہاری ایک افرادی قوت ہے، تم ایک وسیع سرزمین پر آباد ہو اور اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف تمہاری ہدایت کے لیے ایک رسول بھیجا ہے۔ اسی طرح قوم عاد بھی ایک بڑی افرادی قوت کی مالک قوم تھی۔ وہ ملک کے اہم ترین حصے پر آباد تھی۔ وہ اپنی قوت، صنعت اور بعض فنی کمالات میں تم سے بہت زیادہ ترقی یافتہ تھے لیکن جب ان کا بگاڑ انتہاء کو پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی ہدایت کے لیے حضرت ہود (علیہ السلام) کو مبعوث فرمایا۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے ان کے سامنے وہی دعوت پیش کی جو آنحضرت ﷺ تمہارے سامنے پیش کررہے ہیں اور انھوں نے وہی رویہ اختیار کیا اور اسی طرح مخالفتوں پر کمر باندھی جو رویہ تم اختیار کرچکے ہو۔ حضرت ہود (علیہ السلام) نے آنحضرت ﷺ کی طرح اپنی ہمت سے بڑھ کر ان کی اصلاح و ہدایت کے لیے کوششیں کیں لیکن جب قوم نے مکمل طور پر ان پر ایمان لانے سے انکار کردیا تو بالآخر اللہ تعالیٰ کا عذاب ان پر ٹوٹا۔ تم بھی قوم عاد کے راستے پر بڑھتے جارہے ہو۔ اللہ کے آخری رسول ﷺ اپنی تمام تر مساعی تمہاری ہدایت کے لیے بروئے کار لا رہے ہیں لیکن تم کسی طرح بھی راہ راست اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہو۔ قوم عاد کی تاریخ تمہارے لیے ایک آئینہ ہے جس میں تم اپنا انجام دیکھ سکتے ہو اور ساتھ ہی ساتھ نبی کریم ﷺ کو تسلی بھی دی جارہی ہے کہ آپ ﷺ ان لوگوں کی مخالفتوں سے دل چھوٹا نہ کریں۔ آپ ﷺ کا ہر قدم کامیابی و کامرانی کی طرف بڑھ رہا ہے اور ان لوگوں نے اگر آپ ﷺ کی دعوت کو قبول نہ کیا تو ان کا انجام نہایت اندوہناک ہوگا۔ دعوت کی پہلی ضرورت اجنبیت کے احساس کا خاتمہ ہے گفتگو کے آغاز میں سب سے پہلے وہ بات فرمائی گئی ہے جو کسی قوم کی ہدایت اور تعلیم و تربیت کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب بھی کسی رسول کو کسی قوم کی طرف مبعوث فرمایا ہے تو اس کی سب سے پہلی ضرورت یہ رہی ہے کہ اس کے اور اس کی قوم کے درمیان اجنبیت کی کوئی ایسی دیوار حائل نہ رہے جس سے افہام و تفہیم اور ابلاغ و تبلیغ میں رکاوٹ پیدا ہو۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ آدمی اس شخص کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرتا ہے اور اس سے اکتساب فیض کی کوشش کرتا ہے جس کی شخصیت سے وہ پوری طرح آگاہ ہو اور اس کی بات سمجھنے پر پوری طرح قادر ہو۔ کوئی معلم یا مربی اگر اجنبیت کے پردوں میں لپٹا ہوا ہو اس کی ذات، اس کا خاندان، اس کا ماحول اور اس کی شخصیت کے ضروری اوصاف پردہ اخفاء میں ہوں۔ اسی طرح اس کی زبان شاگرد اور مخاطب کی زبان سے اجنبی ہو۔ وہ جو کہے اسے شاگرد نہ سمجھے اور جو شاگرد پوچھے وہ استاد کے پلے نہ پڑے تو تعلم و تربیت کا کوئی مرحلہ بھی طے نہیں ہوسکتا۔ زبان کی یکسانی استاد اور شاگرد کے درمیان تعلیم و تربیت کا پہلا زینہ ہے اور استاد اور مربی کی شخصیت سے بہت حد تک آگاہی جو اس کی ذات پر اعتماد پیدا کرسکے دوسرا زینہ ہے اور ان دونوں زینوں کے مہیا ہوجانے کے بعد ہی کسب و اکتساب اور تعلیم و تعلم کے مراحل طے ہوسکتے ہیں۔ چناچہ خالق فطرت سے بڑھ کر ان حقائق کو جاننے والا اور کون ہوسکتا ہے ؟ اس نے ہر رسول بھیجنے سے پہلے ان بنیادی ضرورتوں کا لحاظ فرمایا اور اجنبیت اور بیگانگی کو ممکن حد تک ختم کرنے کا انتظام فرمایا۔ چناچہ اس نے جب بھی کسی قوم میں رسول بھیجا ہے تو ایسی ذات عزیز کو بھیجا ہے جس کا اپنی قوم کے ساتھ اخوت کا رشتہ تھا۔ وہ اسی قوم کا ایک فرد تھا۔ انھیں کے اعلیٰ خاندان میں جنم لینے والا، انھیں کا بھائی بند، انھیں میں زندگی گزارنے والا، انھیں میں رہ کر کاروبار کرنے والا، انھیں میں سے کسی کا داماد اور انھیں میں سے کسی سے مختلف نسبتیں رکھنے والا۔ چناچہ ایسی محترم شخصیت جس نے بچپن سے لے کر ڈھلتی عمر تک تمام ادوار اپنی قوم میں گزارے ہوں اور وہ اپنی قوم کی بولی بولتا ہو۔ انھیں کی روایات کا پاسدار اور انھیں کی قومی خصوصیات کا حامل ہو۔ جب وہ اچانک ایک دن اٹھ کر یہ کہتا ہے کہ میں اللہ کی طرف سے رسول ہو کر آیا ہوں تاکہ تمہیں آنے والے خطرات سے آگاہ کروں اور تمہارا اللہ سے ٹوٹا ہوا رشتہ جوڑ دوں تو وہ قوم اسے یہ نہیں کہہ سکتی کہ تم جس زبان میں بات کرتے ہو ہمیں تمہاری بات سمجھ میں نہیں آتی اور تم جن مکارم اخلاق کی طرف دعوت دیتے ہو اور جن انسانی قدروں کا احیاء چاہتے ہو وہ ہمیں تمہارے اندر تو دکھائی نہیں دیتیں۔ وہ زبان کی یکسانی کی وجہ سے اس کی بات کو پوری طرح سمجھتے ہیں اور اس کی زندگی سے پوری طرح آگاہ ہونے کے باعث اس پر بےسروپا الزامات کی دھول اڑانے سے عاجز رہتے ہیں اور اگر کوئی غیرذمہ دار شخص اس قسم کی بات کرتا بھی ہے تو خود انھیں میں سے کئی لوگ اسے جھٹلانے کے لیے موجود ہوتے ہیں۔ چناچہ حضرت ہود (علیہ السلام) بھی اپنی قوم کے لیے ایک جانی پہچانی شخصیت تھے۔ انھیں کی زبان بولتے تھے اور انھیں کے معروفات کے نمائندہ تھے اور ان سے اخوت کے رشتے میں منسلک تھے۔ زبان کی یکسانی چونکہ تبلیغ کی جان ہے اس لیے قرآن کریم نے ایک اور جگہ اسے کھول کر بیان فرمایا ہے۔ ارشاد ہے : وَمَا اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّابِلِسَاْنِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَھُمْ (ہم نے کسی قوم کی طرف رسول نہیں بھیجا، مگر اس کی زبان میں تاکہ وہ انھیں سمجھا سکے اور بیان کرسکے۔ ) پیغمبر کی دعوت پیشِ نظر آیت کے دوسرے جملے میں حضرت ہود (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے وہ دعوت پیش کی ہے جس کے لیے آپ کو مبعوث فرمایا گیا تھا کہ لوگو ! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ یہی وہ دعوت ہے جو ہر پیغمبر اپنی قوم کی طرف لے کر آیا۔ اسی سورت کے آغاز میں بھی نبی کریم ﷺ کی طرف سے انھیں الفاظ میں آپ کی دعوت پیش کی گئی ہے۔ قرآن کریم نے جتنے انبیاء کرام کا تذکرہ کیا ہے ان سب کی دعوت کا عنوان یہی جملہ رہا ہے اور اس جملے میں جو کچھ کہا گیا ہے تمام انبیاء کرام زندگی بھراسی کی تفصیلات بیان کرتے رہے ہیں کیونکہ انسان کا اصل مسئلہ یہ ہے اور اسی سے بیخبر ی یا انکار اس کی زندگی کے ہر طرح کے بگاڑ کا سبب ہے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ وہ کون سی ذات ہے جو میری بندگی کا استحقاق رکھتی ہے۔ مجھے اپنے دل کی آبادی کے لیے کس سے محبت کرنی چاہیے، کون ہے جو میرے دل کے بھیدوں سے واقف ہے اور میری تنہائیاں بھی میری جلوتوں کی طرح اس کے سامنے آشکارہ ہیں۔ وہ کون ہے جو خود ہر طرح کی احتیاج سے پاک ہے لیکن تمام دنیا کا حاجت روا ہے۔ وہ کون ہے جس کی قوتیں اور قدرتیں بےپناہ ہیں جس کا سہارا ہر سہارے سے بےنیاز کردیتا ہے۔ وہ کون ہے جس کا علم و دانش ہر طرح کی نارسائی سے پاک ہے۔ وہ کون ہے جو انسانی فطرت سے بتمام و کمال آگاہ ہے۔ اس لیے جب بھی وہ فیصلہ کرتا ہے تو انسانی فطرت کی ضرورتوں کے مطابق کرتا ہے۔ وہ کون ذات ہے جس نے جس طرح تمام مخلوقات کے رزق کی کفالت اپنے ذمہ لے رکھی ہے۔ اسی طرح اس نے انسانوں کی ہدایت بھی اپنے ذمہ لے رکھی ہے کیونکہ دنیا بھی اسی کی ہے اور آخرت بھی اسی کی ہے۔ وہ جس طرح دنیوی ضرورتوں کا کفیل ہے اسی طرح اخروی ضرورتوں کی رہنمائی اور خوشنودیٔ حق کے طریقوں کی ہدایت بھی اس نے اپنی ذمہ داری ٹھہرائی ہے۔ وہ ایک اللہ کے سوا اور کوئی نہیں۔ وہی رسول بھیجتا ہے اور وہی کتابیں نازل کرتا ہے اور وہ سب کچھ اس لیے کرتا ہے کہ وہ پوری کائنات کا اِلٰہ ہے۔ اِلٰہ جس طرح معبود، مسجود اور مطلوب ہوتا ہے اسی طرح وہ حاکم حقیقی بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ کائنات کا رب بھی ہوتا ہے۔ اس کی ربوبیت کا فیضان ہے کہ جس طرح ہماری غذائی ضرورتیں پوری ہوتی ہیں اسی طرح احساسات کی آسودگی، عقل و خرد کی بالیدگی اور دل کی سرمستگی اور وارفتگی کا سامان بھی اسی بارگاہ سے میسر آتا ہے۔ اس ذات کی بندگی اور غلامی کو چھوڑ کر کسی اور آستانے پر جھکنا اور کسی اور سے رہنمائی لینا، کسی اور کو غیرمشروط طور پر قانون سازی کا حق دینا اور مطاع مطلق ماننا انسان کو کسی طرح زیب نہیں دیتا۔ اللہ کے رسول انسانوں کی اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے آتے ہیں۔ وہ ان کے اسی الجھی ہوئی گتھی کی عقدہ کشائی کرتے ہیں۔ وہ انسان کو اس کے حقیقی مقام و مرتبہ پر اس طرح فائز کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے آستانے کے سوا اسے ہر آستانے سے بےنیاز کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے سہارے کے سوا ہر سہارا اس کے لیے بےمعنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ انسانوں نے اتنی واضح اور بدیہی حقیقت کو نظرانداز کرکے ہمیشہ اللہ کے شریک بنائے۔ اس کی صفات میں نہ جانے کس کس کو شریک کیا۔ جن قوتوں کو اللہ نے اس کی خدمت پر لگایا تھا اور جن کی حیثیت اس کے چاکروں کی تھی یہ انھیں کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ چناچہ ایسے بےبصیرت لوگوں کو خطاب کرکے فرمایا جارہا ہے کہ تم نے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا کر افترا پردازی کا جرم کیا ہے۔ تم نے صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرا کر شرک کے جرم کا ہی ارتکاب نہیں کیا بلکہ تم نے اس جرم کی اللہ کی طرف نسبت کرکے ایک ایسا جھوٹ باندھا ہے جس کی نزاکتوں کا خیال کرکے انسان شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے۔
Top