Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - An-Nahl : 90
اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآئِ ذِی الْقُرْبٰى وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ١ۚ یَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ
اِنَّ
: بیشک
اللّٰهَ
: اللہ
يَاْمُرُ
: حکم دیتا ہے
بِالْعَدْلِ
: عدل کا
وَالْاِحْسَانِ
: اور احسان
وَاِيْتَآئِ
: اور دینا
ذِي الْقُرْبٰى
: رشتہ دار
وَيَنْهٰى
: اور منع کرتا ہے
عَنِ
: سے
الْفَحْشَآءِ
: بےحیائی
وَالْمُنْكَرِ
: اور ناشائستہ
وَالْبَغْيِ
: اور سرکشی
يَعِظُكُمْ
: تمہیں نصیحت کرتا ہے
لَعَلَّكُمْ
: تاکہ تم
تَذَكَّرُوْنَ
: دھیان کرو
(بیشک اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور اہل قرابت کو دیتے رہنے کا اور روکتا ہے بےحیائی، برائی اور سرکشی سے۔ تو وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔
اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ ۔ (سورۃ النحل : 90) (بیشک اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے عدل کا، احسان کا اور اہل قرابت کو دیتے رہنے کا اور روکتا ہے بےحیائی، برائی اور سرکشی سے۔ تو وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم نصیحت قبول کرو۔ ) سابقہ آیات سے ربط ہم جانتے ہیں کہ سورة النحل مکی سورت ہے اور مکی سورتوں کا اصل موضوع عقائد کی اصلاح ہے۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام مکی سورتوں میں توحید، رسالت اور آخرت پر مختلف اسالیب سے اس طرح زور دیا جاتا ہے کہ وہ دل و دماغ میں اترنے لگتے ہیں اور پھر مشرکین کی جانب سے اعتراضات کیے جاتے ہیں یا سوالات اٹھائے جاتے ہیں تو ان کا جواب دیا جاتا ہے۔ چناچہ اس سورت میں بھی انہی موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ البتہ گزشتہ رکوع کے آخر میں قریش مکہ کو ایک چونکا دینے والی بات کہی گئی ہے۔ وہ یہ کہ قیامت کے دن جب تمام امتوں کا فیصلہ کیا جارہا ہوگا تو فیصلے کا دارومدار اس بات پر آکر ٹھہرے گا کہ جو رسول ( علیہ السلام) ان امتوں کی طرف بھیجے گئے تھے، انھیں گواہی کے لیے بلایا جائے تاکہ معلوم ہو کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام اپنی امتوں تک پہنچایا تھا یا نہیں، پھر اسی گواہی پر امتیں اپنے انجام کو پہنچ جائیں گی۔ چناچہ قریش مکہ سے یہ کہا گیا کہ تمہارے فیصلے کے لیے نبی کریم ﷺ کو بطور گواہ اٹھایا جائے گا اور آپ ﷺ سے پوچھا جائے گا کہ کیا آپ ﷺ نے تبلیغ و دعوت کا حق ادا کیا۔ ادائے امانت میں کوئی کمی تو نہیں چھوڑی اور اپنی خیرخواہی میں کوئی دقیقہ چھوٹنے تو نہیں پایا۔ چناچہ جب آپ ﷺ پوری طرح گواہی دے چکیں گے تو تب اللہ تعالیٰ تمہیں جہنم میں بھیجنے کا حکم دے گا۔ سوچ لو، کہ آج جس کی بات تمہیں سننا گوارا نہیں اور جس کے لیے تم نے مکہ کی سرزمین کو ایذارسانی کی بھٹی میں تبدیل کردیا ہے۔ قیامت کے دن اسی پیغمبر کی گواہی پر تمہارے فیصلے کا دارومدار ہے اور مزید یہ بھی فرمایا کہ پیغمبر جو دعوت لے کے آتا ہے اس کی سند اور اس کی تفصیل کے طور پر اللہ تعالیٰ ان پر کتابیں بھی اتارتا ہے۔ چناچہ آنحضرت ﷺ پر ایک ایسی کتاب اتاری گئی ہے جس میں ہر دینی ضرورت کا بیان اور زندگی کے ہر شعبے میں ہدایت کا سامان اور اس کے نتیجے میں ایمان لانے والوں کے لیے رحمت اور بشارت بنا کے بھیجی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہ سمجھا جائے کہ جب یہ آیت اتری ہے تو قرآن کریم کامل شکل میں نازل ہوچکا تھا کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن کی تکمیل تو 23 سالوں میں ہوئی ہے جس کے ساتھ ہی آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ کی بھی تکمیل ہوگئی۔ البتہ اس وقت قرآن کریم مکی زندگی کی ضرورتوں کے مطابق نازل ہوچکا تھا اور عقائد کی ایک ایک ضرورت کو پورا کیا جارہا تھا۔ انفرادی اور اجتماعی خیالات میں جہاں جہاں دراڑیں پڑ سکتی ہیں ان کے بارے میں بھی ہدایات دی جارہی تھیں بلکہ میں یہ عرض کروں گا کہ اگرچہ مکی سورتوں میں ہمیں احکام نظر نہیں آتے۔ البتہ جہاں تک مکارمِ اخلاق کا تعلق ہے اس کا نزول تو نزول وحی کے فوراً بعد شروع ہوگیا تھا۔ چناچہ ہجرتِ حبشہ کے موقع پر حضرت جعفر طیار ( رض) نے جو نجاشی کے سامنے تقریر کی ہے اس میں بتایا ہے کہ حضور ﷺ ہمیں مکارمِ اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں۔ آپ ﷺ اجتماعی زندگی کا قانون تو انھیں نہیں دے رہے تھے کہ ابھی ریاست قائم نہیں ہوئی تھی۔ حتیٰ کہ اسلامی معاشرہ بھی وجود میں نہیں آیا تھا۔ لیکن افرادِ انسانی کے طور اطوار کی درستی کے لیے جس اخلاقی تعلیم کی ضرورت تھی اور دماغوں اور دلوں کے تزکیہ کے لیے جن آداب کی ضرورت تھی وہ یقینا مہیا کیے جارہے تھے۔ قرآن کریم کی اس ترتیب اور اس اسلوب کو اگر سامنے رکھا جائے تو پھر یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں رہتا کہ پیش نظر آیت کریمہ میں جن اخلاقی اقدار کا ذکر کیا جارہا ہے اس کا ربط سابقہ آیات سے کیا ہے۔ اور مزید یہ بتلانا بھی مقصود ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آخری رسول ﷺ آخری دین کی جس دعوت کو تمہارے سامنے پیش کررہا ہے وہ محض چند اصول اور نظریات کا نام نہیں بلکہ وہ ایک ایسی تربیت گاہ ہے جس میں ہر بات واضح کی جاتی ہے کہ ان اصولوں کی بنیاد پر تیار ہونے والا انسان، انسانی معاشرہ اور اسلامی ریاست کو چلانے والے افراد کس مزاج، کن عادات اور کونسی کی خوبیوں کا مرقع ہیں تاکہ اس سے تمہیں اندازہ کرنے میں آسانی ہو کہ انسانوں کے جس معاشرے میں آپ رہ رہے ہیں اور جس میں سوائے نفرتوں کے کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی اس معاشرے میں اور اس معاشرے میں جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے اس کے بنیادی اخلاق اس آیت میں بیان کیے گئے ہیں۔ ان دونوں معاشروں میں آخر کیا فرق ہے ؟ اس آیت کی اہمیت آیتِ کریمہ میں تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے کہ اور تین باتوں سے روکا گیا ہے، لیکن اخلاقی ستاروں کی اس کہکشاں پر جتنا آدمی غور کرتا ہے، حیرت میں ڈوبتا چلا جاتا ہے کہ جن بنیادی اخلاقیات کا حکم دیا گیا ہے وہ تمام اخلاق کی اساس معلوم ہوتے ہیں اور جن باتوں سے روکا گیا ہے وہ تمام منکرات کی جڑ معلوم ہوتے ہیں۔ اسلام کا تمام تر اخلاقی نظام انھیں اوامرو نواہی سے پھوٹتا ہے۔ اور پھر یہ کہ جس اعجاز اور جامعیت کے ساتھ ان 6 باتوں کو بیان فرمایا گیا ہے وہ بجائے خود حیران کردینے والی بات ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے زمانے کے بڑے بڑے کافر جو اپنی فصاحت و بلاغت میں عرب بھر میں سند کی حیثیت رکھتے تھے، جب ان میں سے کسی کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی تو وہ حیران اور گنگ ہو کر رہ گیا۔ حضرت عکرمہ ( رض) کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے یہ آیت ولید بن مغیرہ کو پڑھ کر سنائی تو اس نے کہا یَااِبْنَ اَخِیْ اَعِدْ ، میرے بھتیجے ایک بار پھر پڑھ کر سنائو۔ آپ ﷺ نے پھر اسے پڑھا، تو وہ کٹر دشمن ہونے کے باوجود کہنے لگا واللہ ان لہ لحلاوۃ وان علیہ لطلاوۃ وان اصلہ لمورق واعلاہ لمثمروماہو بقول بشربخدا یہ تو بڑی شیریں ہے، اس کا ظاہر بڑا رنگین ہے، اس کا تنا پتوں والا ہے اور اس کی شاخیں پھلوں سے لدی ہیں، بخدا یہ کسی بشر کا کلام نہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) نے فرمایا، یہ قرآن کی جامع ترین آیت ہے۔ اس میں ہر وہ اچھی چیز مذکور ہے جس پر عمل کرنا ضروری ہے۔ اسی طرح ہر وہ بری چیز موجود ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔ اب ہم اس آیت میں مذکور اوصاف میں سے ایک ایک وصف کو ذکر کرتے ہیں۔ عدل کا مفہوم 1 سب سے پہلے جس بات کا حکم دیا گیا ہے، وہ ہے عدل۔ اس کا مفہوم سمجھنے میں بعض دفعہ کوتاہی کی جاتی ہے۔ عام طور پر اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے، انصاف اور برابری۔ پھر اسی سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے کہ انصاف کا معنی ہوتا ہے، لین دین میں نصف نصف کردینا۔ اس معنی سے یہ مفہوم اخذ کیا گیا ہے کہ دو آدمی ہوں یا دو گروہ، ان کے درمیان حقوق کی تقسیم نصف نصف کی بنیاد پر ہونی چاہیے حالانکہ ہر عقل رکھنے والا آدمی جانتا ہے کہ حقوق ہمیشہ نصف نصف کی بنیاد پر تقسیم نہیں ہوتے۔ اگر اس اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو زندگی کے بیشتر شعبے فساد کا شکار ہوجائیں۔ اسی طرح اس سے یہ بات بھی اخذ کی گئی ہے کہ عدل کا معنی ہے مساویانہ تقسیمِ حقوق، حالانکہ یہ بات بھی سراسر فطرت کیخلاف ہے۔ مثلاً والدین اور اساتذہ کے درمیان معاشرتی اور اخلاقی مساوات، اسی طرح اعلیٰ درجے کی خدمات سرانجام دینے والوں اور کم تر درجے کی خدمت ادا کرنیوالوں کے درمیان معاوضوں کی مساوات کو کون مبنی برحق کہہ سکتا ہے۔ اس لیے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ عدل کا مفہوم نہ انصاف ہے اور نہ برابری بلکہ عدل دو مستقل حقیقتوں سے مرکب ہے۔ ایک یہ کہ لوگوں کے درمیان حقوق میں توازن اور تناسب قائم ہو اور دوسرا یہ کہ ہر ایک کو اس کا حق بےلاگ طریقے سے دیا جائے۔ قرآن کریم اس بات کا حکم دیتا ہے کہ ہر شخص کو اس کے اخلاقی، معاشرتی، معاشی، قانونی اور سیاسی و تمدنی حقوق پوری ایمانداری کے ساتھ ادا کیے جائیں۔ اسلامی تاریخ میں مسلمانوں نے اس حوالے سے ایسی روشن مثالیں چھوڑی ہیں جس پر بجا طور پر مسلمان فخر کرسکتے ہیں۔ اسلامی شریعت نے جس طرح انسانوں میں حقوق کی تقسیم کی ہے اور حقوق میں جو توازن اور تناسب ملحوظ رکھا ہے، جدید دنیا آج تک اس کا صحیح ادراک نہیں کرسکی۔ اور پھر جس بےلاگ طریقے سے اسلامی عدالتیں عام انسانوں کو عدل مہیا کرتی رہی ہیں، وہ بجائے خود مسلمانوں کے لیے بہت بڑا سرمایہ ہے۔ آج کون سا ملک ہے جس میں حکمرانوں کو عموماً عدالتوں میں حاضری سے مستثنیٰ نہ رکھا گیا ہو اور کتنے ملک ہیں جہاں غریب کے دعوے پر کسی امیر یا حکمران کو سمن جاری کیے جاتے ہیں۔ اب تو اندھیر نگری کا عالم یہ ہے کہ بڑی قومیں جو دنیا کو اپنے طریقے سے چلانا چاہتی ہیں انھوں نے اپنے لیے زبردستی کچھ حقوق خاص کرلیے ہیں۔ جس ملک کے وسائلِ دولت پر چاہیں قبضہ کرلیں۔ اگر کوئی قوم مدافعت کے لیے کھڑی ہوجائے تو ان کا خون خاک کا رزق بنادیا جاتا ہے۔ آج مسلمان ہونا سب سے بڑا جرم کہلاتا ہے جبکہ مسلمانوں نے عدل کے ہر راستے میں ایسی ہر تقسیم کو مٹا ڈالا تھا۔ حضرت عمرفاروق ( رض) کی عدالت میں ایک یہودی نے حضرت علی ( رض) کے خلاف کیس کیا۔ حضرت علی ( رض) نے اس بات پر ناگواری کا اظہار کیا کہ امیرالمومنین ( رض) نے مجھے تو کنیت سے پکارا اور یہودی کا نام لے کر۔ اس سے یقینا یہودی کو یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے کہ اسلام شاید یہودی کو عدالتی معاملے میں مسلمان کے برابر نہیں سمجھتا۔ اگر آپ ( رض) نے مجھے کنیت سے پکارا تھا تو اسے بھی کنیت سے پکارنا چاہیے تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ( رح) نے ترکستان کے گورنر کو حکم دیا کہ تم نے چونکہ اسلامی احکام کے مطابق یہ علاقہ فتح نہیں کیا اور غیرمسلموں کے سامنے باقاعدہ اسلام پیش نہیں کیا گیا، اس لیے جتنا علاقہ فتح ہوچکا ہے وہ سب خالی کردیا جائے۔ چناچہ اس حکم کی تعمیل کی گئی۔ ازسرِنو مسلمانوں نے اس علاقے کے غیرمسلموں کے سامنے اسلام پیش کیا اور یہ صاف صاف کہا کہ اگر تم اسلام قبول کرلیتے ہو تو تم ہمارے بھائی ہو اور یہ ریاست تمہارے پاس رہے گی۔ بصورت دیگر ہم تم پر چڑھائی کریں گے اور پھر جو تلوار فیصلہ کرے گی، اس پر عمل ہوگا۔ اس طرح کے عدل کے واقعات مسلمانوں کے علاوہ دنیا کی تاریخ میں تلاش نہیں کیے جاسکتے۔ احسان کا مفہوم 2 دوسری چیز جس کا حکم دیا گیا ہے، وہ احسان ہے۔ احسان کا معنی ہے، کسی چیز کو بہتر سے بہتر صورت دینا، خوبصورت سے خوبصورت تر بنانا، خوب تر کی تلاش میں ہمیشہ مدارج ہوتے ہیں۔ آخری درجے تک کسی بھی چیز کو پہنچانے کی کوشش کرنا، یہ احسان ہے۔ عدل تو صرف حقوق میں توازن اور تناسب کو کہتے ہیں، لیکن اس سے آگے بڑھ کر حقوق کی ادائیگی میں حسن پیدا کرنا، دوسرے کے جذبات کا زیادہ سے زیادہ لحاظ کرنا، خیرخواہی اور مروت کے جذبات کو حقوق کا لازمی حصہ بنادینا اور معاملات کی دنیا میں فیاضی اور حُسنِ سلوک کو لازمی ٹھہرانا یہ سب احسان کے اجزا ہیں۔ اسلام نے زندگی کے تمام شعبوں میں جو آسودگی پیدا کی ہے اس کا اصل حسن احسان سے پیدا کیا ہے اور صحابہ ( رض) نے اس کے لیے نہایت درخشاں مثالیں بھی چھوڑی ہیں۔ مثلاً عبادت کے حوالے سے جب آپ ﷺ سے پوچھا گیا کہ احسان کیا ہے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ احسان یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو کہ گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، اور اگر یہ نہ ہوسکے تو یہ تو واقعہ ہے کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ عبادت کی آخری حد ایک انسان کے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتی ہے کہ وہ عبادت کرتا ہوا خدا کو دیکھے اور یا اس بات پر یقین رکھے کہ خدا اسے دیکھ رہا ہے۔ معاملات کی دنیا کا احسان کیا ہے اور معاملات میں حسن کس چیز سے پیدا ہوتا ہے۔ سیدنا حضرت حسن ( رض) کے یہاں مہمان آئے ہوئے تھے اور ان کا غلام دسترخوان پر مہمانوں کے لیے کھانا چن رہا تھا۔ حضرت حسن ( رض) تشریف فرما تھے۔ نہ جانے اس کا پائوں کس طرح الجھا کہ اس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا گرم شوربے کا پیالہ اچھلا اور حضرت حسن ( رض) کی کمر پر آکر گرا۔ شوربے کی حدت سے یقینا ناقابلِ بیان تکلیف ہوئی ہوگی۔ آپ ( رض) نے نہایت غصے سے اس کی طرف دیکھا، وہ غلام بھی خاندانِ نبوت میں پلا ہوا نوجوان تھا۔ اس نے فوراً ایک آیت کا ایک جملہ پڑھا وَالْکَاظِمِیْنَ الْغِیْظَ کہ جو متقی لوگ ہیں، ان کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ غصہ پی جایا کرتے ہیں۔ حضرت حسن ( رض) نے فوراً نگاہیں جھکا لیں۔ اس نے دوسراجملہ پڑھا وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِاور وہ لوگوں کو معاف کردیا کرتے ہیں۔ آپ ( رض) نے فوراً فرمایا کہ جا میں نے تجھے معاف کیا۔ غلام نے دیکھا کہ لوہا گرم ہے بس ایک اور چوٹ لگانے کی ضرورت ہے۔ اس نے آیت کا آخری جملہ پڑھا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَاور اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ آپ ( رض) نے فرمایا کہ جا میں نے تجھے آزاد کیا۔ ہزارہا روپے قیمت رکھنے والا غلام ایک لمحے میں آزاد ہوگیا۔ یہ ہے معاملات کی دنیا کا احسان، کہ خطا کرنے والا نوازا جارہا ہے، صرف اس لیے کہ ایسا کرنے سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ سے ہمیں ایک اور حیرت انگیز مثال ملتی ہے۔ آپ ﷺ نے یہودی سے جَو کی ایک مقدار قرض لی اور واپسی کا وقت مقرر ہوگیا۔ یہودی واپسی کے وقت سے بہت پہلے مطالبے کے لیے آپہنچا۔ آپ ﷺ نے صرف اتنا فرمایا کہ ابھی تو ادائیگی کا وقت نہیں آیا، لیکن وہ اپنے مطالبے پر اڑا رہا، حتیٰ کہ اس نے بدتمیزی شروع کردی۔ لیکن آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا، سر جھکا کے بیٹھے رہے۔ صحابہ ( رض) بھی دم بخود دیکھ رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ کوئی جواب نہیں دے رہے ہیں اور ہمارا ازخود بولنا کہیں گستاخی نہ سمجھا جائے۔ وہ ظالم اس سے اور دلیر ہوا اور یہاں تک کہہ گزرا کہ تم جو آل عبدالمطلب ہو، تم تو سدا کے نادہند ہو، تم قرض لینا جانتے ہو لیکن تمہیں واپسی کی فکر نہیں ہوتی۔ اس پر حضرت عمرفاروق ( رض) ضبط نہ کر پائے، آپ ( رض) نے اس یہودی کا گریبان پکڑ لیا اور نہایت برہمی سے اس کو ڈانٹا۔ اب آنحضرت ﷺ نے سر اٹھایا، بجائے یہودی کو کچھ کہنے کے حضرت عمر فاروق ( رض) کو سختی سے کہا کہ اسے چھوڑ دو ۔ تم نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہے، تمہیں چاہیے تھا کہ اسے بھی سمجھاتے اور مجھے بھی سمجھاتے کہ آپ ﷺ نے اگر قرض لیا تھا تو آپ کو ادائیگی کی فکر کرنی چاہیے تھی۔ تم نے جو سختی کی ہے اب اس کا تدارک اس طرح ہوسکتا ہے کہ جتنا غلہ ہم نے اس سے قرض لیا ہے، اس کا ایک چوتھائی اسے زائد ادا کرو۔ اصل غلہ قرض کا بدلہ ہوگا اور زائد احسان ہوگا۔ یہودی وہاں سے اٹھا کسی چشمے پر غسل کیا اور واپس آکر کہنے لگا کہ محمد ﷺ مجھے کلمہ پڑھائو، میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ میں کتاب کا عالم ہوں، ہماری کتاب میں نبی ﷺ آخرالزماں کی جو علامتیں لکھی گئی ہیں، وہ سب میں آپ ﷺ میں اب تک دیکھ چکا تھا، صرف ایک علامت باقی تھی کہ نبی ﷺ آخرالزماں کا حلم اور بردباری گستاخیاں کرنے والوں کو شکست دے دے گی۔ آج میں نے یہ علامت بھی دیکھ لی۔ اس لیے مسلمان ہوتا ہوں۔ مثالیں بہت ہیں سمجھنے کے لیے یہ بھی کافی ہیں۔ اس سے اندازہ کرلینا مشکل نہیں رہتا کہ ادائے حقوق کے علاوہ معاشرے کو خوبصورت بنانے اور افرادِ معاشرہ میں محبت اور آشتی کے پھول اگانے کے لیے ضروری ہے کہ عدل کے ساتھ ساتھ احسان پر بھی عمل کیا جائے۔ اہلِ قرابت کو دینے کا حکم 3 اس آیت کریمہ میں تیسری جس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ غریب اہل قرابت کی مدد کرنے کا ہے۔ قرآن کریم کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک انسانی اصلاح کا دارومدار دو باتوں کی اصلاح پر ہے۔ ایک تو یہ کہ انسان کا تعلق اپنے اللہ تعالیٰ سے درست ہوجائے۔ اس کا سر اس کے آستانے کے سوا کسی اور آستانے پر نہ جھکے۔ وہ اس کی ذات وصفات پر ایسا یقین رکھے کہ اس کا دل صرف اسی کی محبت سے معمور ہو، وہ اسی کے خوف سے لرزے، اسی کا تقویٰ اختیار کرے، اسی پر بھروسہ رکھے اور اپنی ہر ضرورت کے لیے اسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور اسی کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق زندگی گزارے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ انسان کا انسان سے تعلق درست ہو۔ وہ دوسرے انسان کے بارے میں اسی ہمدردی اور فکرمندی کے ساتھ سوچے جیسے اپنی ذات کے بارے میں سوچتا ہے۔ انسانی رشتوں کی عظمت کا لحاظ کرے اور قدرت نے مختلف ذمہ داریوں کے حوالے سے انسانوں میں جو واحدے (یونٹ) قائم کیے ہیں ان کی پاسداری کرے۔ انسانوں میں سب سے پہلا واحدہ آدمی کا اپنا گھر ہے جس میں اس کے بیوی بچے اور اس کے والدین ہیں یہ حقیقی اور مکمل طور پر اس واحدے کے تمام افراد کی ضرورتوں کا ذمہ دار ہے۔ اس کے بعد دوسرا واحدہ اہل قرابت کا ہے۔ ان میں مختلف درجات ہیں جو شخص قرابت کے اعتبار سے قریب ہے وہ ذمہ داری کے اعتبار سے بھی قریب ہے۔ اور جو قرابت کے اعتبار سے دور ہے، وہ ذمہ داری کے اعتبار سے بھی دور ہے۔ ماں باپ اور بیوی بچوں کے بعد سب سے پہلا تعلق اہل قرابت کا ہے، اس لیے انھیں دوسرے واحدے کا درجہ دیا گیا ہے اور ان کی ذمہ داریوں کو پہلے واحدے کے بعد سب سے اہم تر قرار دے کر یہاں اس کا حکم دیا گیا ہے۔ اہل قرابت کے تعلق ہی کو صلہ رحمی کہتے ہیں اور اس کی تاکید جس طرح قرآن و سنت میں کی گئی ہے وہ قرآن و سنت کے ہر طالب علم پر پوری طرح عیاں ہے۔ آنحضرت ﷺ نے یہاں تک فرمایا لایدخل الجنۃ قاطع ” قطع رحمی کرنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ “ اور مزید یہ بات کہ اہل قرابت کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے ہوئے صرف نصیحت پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ یہ تاکید فرمائی کہ ہر صاحب استطاعت شخص اپنے مال پر صرف اپنی ذات اور اپنے بچوں ہی کے حقوق نہ سمجھے بلکہ اپنے رشتہ داروں کے حقوق بھی تسلیم کرے۔ ہر خوشحال آدمی اس بات کا پابند ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں میں برابر نظر رکھے کہ ان میں کوئی شخص بنیادی ضروریات سے تہی دامن تو نہیں۔ اس کے نزدیک یہ بات انتہائی ناپسندیدہ ہے کہ خوشحال افراد تو عیش و عشرت کی زندگی گزاریں اور غریب اہل قرابت نان شبینہ کے بھی محتاج ہوں۔ قرابت داری چونکہ ایک واحدہ ہے، اس لیے اس واحدے کی ہر کڑی دوسری کڑیوں سے پیوست رہنی چاہیے اور کہیں بھی شکست و ریخت کا عمل سب کے لیے فکرمندی کا باعث ہونا چاہیے۔ اسلامی احکام کی روح کو دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ خاندان کے غریب افراد کو سنبھالا دینا، خاندان کے خوشحال افراد کی ذمہ داری ہے۔ اسلامی حکومت اس بات کی ذمہ دار ٹھہرائی گئی ہے کہ وہ مسلمان معاشرے کے عناصرِ ترکیبی پر نظر رکھے اور ہر عنصر کو اپنے حقوق ادا کرنے کا پابند بنائے۔ اسلام میں جس طرح میراث میں صرف بیوی بچوں اور والدین ہی کو شامل نہیں کیا بلکہ ذوی الارحام کو بھی شامل فرمایا ہے۔ اسی طرح ذوی الارحام کی ذمہ داریاں بھی ان پر ڈالی ہیں۔ خلفائے راشدین نے آنحضرت ﷺ کے ایسے ہی ارشادات سے ان ذمہ داریوں کو سمجھا اور اس کے مطابق فیصلے فرمائے۔ حضرت عمرفاروق ( رض) نے ایک یتیم بچے کے چچازاد بھائیوں کو مجبور کیا کہ وہ اس کی پرورش کے ذمہ دار بنیں۔ اور ایک دوسرے یتیم کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے آپ ( رض) نے فرمایا کہ اگر اس کا کوئی بعید ترین رشتہ دار بھی موجود ہوتا تو میں اس پر اس کی پرورش لازم کردیتا۔ غور فرمائیے، جس معاشرے میں عدل کی کارفرمائی ہو اور کسی حق تلفی اور حق شکنی کو برداشت نہ کیا جاتاہو بلکہ معاشرے کا ہر فرد آگے بڑھ کر اس طرح دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی فکر میں ہو کہ جس سے ایثار کی روح جھلکتی دکھائی دیتی ہو، اور احسان کا جذبہ مہکتا ہو اور تمام افرادِ معاشرہ اپنے اہل قرابت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوں اور ہر غم اور خوشی میں چھوٹے بڑے برابر ایک ہی جذبہ سے شریک ہوتے ہوں تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ اس معاشرے میں محبت اور آشتی کے کیسے پھول کھلتے ہوں گے۔ اور کس قدر خوشحالی، آسودگی اور اطمینان کی گھٹا ان کے سروں پر سایہ کناں رہتی ہوگی۔ فحشآئکا مفہوم اوپر کی تین بھلائیوں کے مقابلے میں تین بُرائیوں سے روکا گیا ہے۔ یعنی تین باتوں کا حکم دیا گیا ہے، جس سے اسلامی معاشرہ جنت بن سکتا ہے۔ اور تین باتوں سے روکا گیا ہے، جن سے رکنے میں اسلامی معاشرے کے لیے عافیت کی ضمانت دی جاسکتی ہے۔ ان تین میں سے پہلی بُرائی فحشآء ہے۔ کل قبیح من قول و فعلہر وہ کام اور ہر وہ بات جو قبیح ہو اسے فحشآئکہتے ہیں۔ اس کا اطلاق تمام بےہودہ اور شرمناک افعال پر ہوتا ہے یا یوں کہہ لیجئے کہ ہر وہ بُرائی جو اپنی ذات میں نہایت قبیح ہو اسے فحش یا فحشآئکہتے ہیں۔ مثلاً بخل، زنا، برہنگی، عریانی، عمل قوم لوط، محرمات سے نکاح کرنا، چوری، شراب نوشی، بھیک مانگنا، گالیاں بکنا اور بدکلامی کرنا وغیرہ۔ اسی طرح علی الاعلان برے کام کرنا اور بُرائیوں کا پھیلانا بھی فحش ہے۔ مثلاً جھوٹا پروپیگنڈا، تہمت تراشی، پوشیدہ جرائم کی تشہیر، بدکاریوں پر ابھارنے والے افسانے اور ڈرامے اور فلم اور عریاں تصاویر، عورتوں کا بن سنور کر منظرعام پر آنا، علی الاعلان مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط ہونا اور سٹیج پر عورتوں کا ناچنا اور تھرکنا اور نازوانداز کی نمائش کرنا وغیرہ۔ (تفہیم القرآن) قومیں جب زوال کا شکار ہوتی ہیں تو ان کے زوال کی انتہا یہ ہوتی ہے کہ ان میں سے کچھ لوگ بےحیائی کے کاموں پر اس قدر دلیر ہوجاتے ہیں کہ انھیں نہ اللہ تعالیٰ کا خوف رہتا ہے اور نہ بندوں سے حیا رہتی ہے بلکہ وہ اپنی بےحیائی پر اتراتے اور اسے اپنی ترقی کی علامت سمجھتے ہیں۔ حضرت علی ( رض) کا مشہور قول ہے کہ ہماری عید اس دن ہوتی ہے جس دن ہم گناہ کے ہر تصور سے محفوظ ر ہیں، لیکن ان لوگوں کے لیے وہ گھڑی، وہ وقت، وہ دن اور وہ رات انتہائی اذیت ناک ہوتی ہے جب ان کے سفلی جذبات کی تسکین کا سامان نہیں ہوتا۔ اور بیشتر لوگ وہ ہوتے ہیں جنھیں حیا اور بےحیائی اور نیکی اور بُرائی کی علامت بھول جاتی ہے۔ اور ان کے اندر سے یہ احساس مرجاتا ہے کہ ان دونوں میں کوئی فرق ہے بھی یا نہیں۔ وہ گناہ کو صواب اور صواب کو گناہ سمجھتے ہیں۔ انھیں اچھائی سے خوشی نہیں ہوتی اور بُرائی سے افسوس نہیں ہوتا۔ ان کے اندر ایک نیا معدہ اور نیا دل وجود میں آتا ہے جس سے ان کی ساری زندگی متأثر ہوتی ہے۔ آج جب ہم اپنی اجتماعی اور ملکی زندگی کو دیکھتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ہم زوال کی تکمیل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کل تک جو چیز گناہ تھی اور شریف گھرانوں میں جس کا تصور بھی داخل نہیں ہوسکتا تھا، آج وہ ہر گھر کی زینت بن چکا ہے۔ بےحیائی ہماری خواب گاہوں تک پہنچ گئی ہے۔ مردوزن کا اختلاط اب بُرائی نہیں فیشن بن گیا ہے۔ والی اللہ المشتکیٰ ۔ منکر کا مفہوم دوسری چیز جس سے منع کیا گیا ہے وہ منکر ہے۔ منکر کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ معروف کا ضد ہے۔ معروف ان تمام اچھی باتوں کو کہتے ہیں جس کا ہر اچھی سوسائٹی میں چلن ہو۔ اور عقل سلیم جس کے صحیح ہونے پر ناطق ہو۔ وہ مزاج جو شریعت کے سانچے میں ڈھلا ہو وہ اسے قبول کرنے سے انکار نہ کرے۔ اس کے مقابلے میں منکر وہ ہوگا جو کسی اچھی سوسائٹی کا چلن نہ بن سکے، جسے عقل سلیم قبول کرنے سے انکار کرے۔ اور شریعت کے سانچے میں ڈھلا ہوا مزاج اس سے کراہت محسوس کرے۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ منکر وہ ہے جسے تمام سابقہ شریعتوں نے ناپسند کیا اور یا ماانکرہ الشرع بالنہی عنہ جس چیز کو شریعت اسلامی نے ناپسند بھی کیا ہو اور اس سے روکا بھی ہو۔ اس میں وہ تمام مکروہ چیزیں آجاتی ہیں جن سے آنحضرت ﷺ نے روکا یا آپ ﷺ نے انھیں ناپسند فرمایا۔ چاہے آپ ﷺ کی ناپسندیدگی نص صریح سے ثابت ہو یا دلالت و اقتضا سے۔ بغی کا مفہوم تیسری چیز جس سے روکا گیا ہے، وہ ہے بغی۔ جس کے معنی سرکشی، تعدی، اپنی حد سے تجاوز کرنا اور دوسرے کے حقوق پر دست درازی کرنا۔ کبھی تو ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی طاقت اور اپنے زور واثر سے ناجائز فائدہ اٹھا کر دوسروں کو دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایسی صورت میں اس کا تعلق حقوق العباد سے ہوگا۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی حدود کو نہیں پہچانتا اور اپنی بندگی کی حد کو پھلانگتا ہوا الوہیت کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے۔ اور شرعی احکام کی پابندی کی بجائے اپنے احکام چلانے کی کوشش کرتا ہے یا ہَوائے نفس کو اپنا معبود بنا لیتا ہے۔ یہ تمام سرکشی کی صورتیں ہیں جس سے بندگی کا تصور پامال ہوجاتا ہے۔
Top