Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ : اور صاف کہ دیا ہم نے اِلٰى : طرف۔ کو بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل فِي الْكِتٰبِ : کتاب لَتُفْسِدُنَّ : البتہ تم فساد کروگے ضرور فِي : میں الْاَرْضِ : زمین مَرَّتَيْنِ : دو مرتبہ وَلَتَعْلُنَّ : اور تم ضرور زور پکڑوگے عُلُوًّا كَبِيْرًا : بڑا زور
اور ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر متنبہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھائو گے۔
وَقَضَیْنَـآ اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ فِی الْکِتٰبِ لَتُـفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا۔ فَاِذَا جَآئَ وَعْدُ اُوْلٰـھُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّـنَـآ اُوْلِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ ط وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 4۔ 5) (اور ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر متنبہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھائو گے۔ پھر جب ان میں سے پہلی سرکشی کا موقع آیا تو ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنی ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھس کر ہر طرف پھیل گئے، یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کر ہی رہنا تھا۔ ( بنی اسرائیل کی تاریخ اور درس عبرت عربی زبان میں قَضَیْنَـآکے ساتھ جب اِلیٰ کا صلہ آتا ہے تو وہاں اس سے پہلے ابلغنا یا اس کے ہم معنی کوئی لفظ محذوف ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو اپنے اس فیصلے سے آگاہ کردیا تھا کہ جب تمہارے اندر فساد ایک خاص حد تک پہنچ جائے گا اور اس وقت کے انبیائے اکرام تمہیں وارننگ بھی دیں گے تو اس کے بعد تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ضرور آئے گا۔ اور یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ ایسا دو دفعہ ہوگا جب تم اللہ تعالیٰ کے سامنے بغاوت اور سرکشی اختیار کرو گے۔ چناچہ جب ہم پہلے صحف آسمانی میں وہ تفصیلات پڑھتے ہیں جو بنی اسرائیل کے انبیائے اکرام نے ان پر تنقید کرتے ہوئے ذکر فرمائی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی قابل ذکر ایسی برائی نہیں تھی جو بنی اسرائیل میں پیدا نہ ہوچکی تھی۔ انھیں پڑھ کر جہاں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے فساد کے نوعیت کیا تھی، وہیں ہمیں خود اپنا جائزہ لینے کا بھی موقع مل سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے معاملات سارے انسانوں اور تمام امتوں سے مستقل اصولوں پر مبنی ہیں ‘ اس کی کسی سے رشتہ داری نہیں ‘ جو امت بھی وہی رویہ اختیار کرے گی جس کی پاداش میں کسی امت پر عذاب آچکا تو پھر اسے عذاب سے بےفکر نہیں ہونا چاہیے۔ سب سے زیادہ زور تو اس بات پر دیا گیا ہے کہ دوسری قوموں کے ساتھ مل کر انھوں نے وہ تمام قسم کا شرک اختیار کرلیا جو دوسری قوموں میں پایا جاتا تھا۔ بت پرستی کی ‘ بعل پرستی کی ‘ عجل پرستی میں مبتلا ہوئے ‘ مختلف دیویوں کی پوجا کی اور ان کی پرستش ان کے لیے عبادت بن گئی۔ اور قدم قدم پر اللہ کے احکام سے سرکشی کا رویہ اختیار کیا۔ حقوق العباد کا احترام اٹھتا چلا گیا ‘ رشوت عام ہوگئی ‘ یتیموں اور بیوائوں کا مال کھانا ان کے لیے ایک محبوب مشغلہ بن گیا ‘ غریبوں کے لیے زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا ‘ شروع میں اللہ کی شریعت سے انحراف پیدا ہوا جو بڑھتے بڑھتے انکار تک جا پہنچا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عقیدے کی خرابی کے ساتھ ساتھ معاملات کی تمام خرابیاں ان کے اندر پیدا ہوگئیں ‘ ہوسِ زر نے مختلف طریقے ایجاد کیے اور زندگی کا بگاڑ بڑھتا چلا گیا ‘ بدکاری اور عیاشی ان میں عام ہوگئی ‘ بےحیائی ثقافت کا حصہ بن گئی ‘ دوسری قوموں کی تہذیب انکے یہاں عزیز ہوگئی اور اس کی نقل اتارنا فیشن بن گیا۔ ان کے معاشی معاملات میں سود کو رفتہ رفتہ اہمیت ملتی چلی گئی ‘ جب کہ سود ان پر حرام کیا گیا تھا۔ اس پر انبیائِ کرام نے بار بار انھیں ٹوکا ‘ جھنجھوڑا ‘ لیکن انھیں جب بھی موقع ملا انھوں نے انبیا کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا بنیادی جرم جس کا ذکر آسمانی کتابیں کرتی ہیں وہ اللہ کی شریعت کی نافرمانی ‘ اللہ کے احکام کو توڑنا ‘ پیغمبروں سے دشمنی ‘ انھیں قتل تک کرنے کی کوشش کرنا ‘ کمزوروں پر ظلم اور عیاشی اور بدکاری تھی۔ اور ہوس زر کو زندگی کا مقصد بنا کر تمام حرام ذرائع کا اختیار کرنا تھا۔ ان بد اعمالیوں کے باعث ان پر اللہ کا عذاب ٹوٹا۔ یہاں رک کر ذرا غور کر لیجیے کہیں یہ ساری خرابیاں اس امت میں تو در نہیں آئیں۔ پہلی دفعہ جب ان پر اللہ کے عذاب کا کوڑا برسا تو وہ آشوریوں اور اہل بابل کی طرف سے آنے والی وہ تباہی تھی جس نے انھیں کھیل کھیل کر کے رکھ دیا۔ اس سے پہلے کہ ہم نہایت اختصار سے اس کی کچھ تفصیل عرض کریں، یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم نے بنی اسرائیل کی طرف سے جس فساد کے برپا کرنے اور پھر اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے عذاب کا جو ذکر فرمایا ہے، بائبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں آج بھی اس کی تفصیلات موجود ہیں۔ صاف صاف بتایا گیا ہے کہ تم پر یہ تباہی آنے والی ہے لیکن قومیں جب بگڑتی ہیں تو وہ اپنے خیرخواہوں کی بات پر بھی کان دھرنا پسند نہیں کرتیں۔ اس سلسلے میں عبارتیں نقل کرنا تو بہت طوالت کا باعث ہوگا البتہ ہم حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ پہلے فساد پر سب سے پہلے تنبیہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے کی۔ زبور، باب 106، آیات 24۔ 41، پھر جب یہ فسادِ عظیم رونما ہوگیا تو اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی خبر حضرت یسعیانبی نے اپنے صحیفے میں مندرجہ ذیل ابواب میں دی۔ باب 1، آیت 4۔ 5… باب 1، آیت 21۔ 24… باب 2، آیت 6۔ 8… باب 3، آیت 16۔ 26، اسی طرح اور بہت سے ابواب میں یہ تنبیہات ملتی ہیں۔ پیغمبر ( علیہ السلام) نہایت دلسوزی سے اپنی قوم کی بداعمالیوں کا نہ صرف نوحہ پڑھتے ہیں بلکہ انھیں برے انجام سے ڈراتے بھی ہیں، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ پھر عین وقت پر حزقی ایل نبی اٹھے اور انھوں نے یروشلم کو خطاب کرتے ہوئے کہا ” اے شہر تو اپنے اندر خونریزی کرتا ہے تاکہ تیرا وقت آجائے اور تو اپنے لیے بت بناتا ہے تاکہ تجھے ناپاک کریں۔ دیکھ اسرائیل کے امراء سب کے سب جو تجھ میں ہیں مقدور بھر خونریزی پر مستعد تھے۔ تیرے اندر انھوں نے ماں باپ کو حقیر جانا، تیرے اندر انھوں نے پردیسیوں پر ظلم کیا، تیرے اندر انھوں نے یتیموں اور حیوانوں پر ستم کیا، تو نے میری پاک چیزوں کو ناپاک جانا اور میرے سبتوں کو ناپاک کیا، تیرے اندر وہ ہیں جو چغل خوری کرکے خون کرواتے ہیں، تیرے اندر وہ ہیں جو بتوں کی قربانی سے کھاتے ہیں، تیرے اندر وہ ہیں جو فسق و فجور کرتے ہیں، تیرے اندر وہ بھی ہیں جنھوں نے اپنے رب کی حرم شکنی کی، تجھ میں انھوں نے اس عورت سے جو ناپاکی کی حالت میں تھی مباشرت کی، کسی نے دوسرے کی بیوی سے بدکاری کی، کسی نے اپنی بہو سے بدذاتی کی، کسی نے اپنے بہن، اپنے باپ کی بیٹی کو تیرے اندر رسوا کیا، تیرے اندر انھوں نے خونریزی کے لیے رشوت خواری کی، تو نے بیاج اور سود کیا اور ظلم کرکے اپنے پڑوسی کو لوٹا، مجھے فراموش کیا، کیا تیرے ہاتھوں میں زور ہوگا، جب میں تیرا معاملہ فیصل کروں گا… ہاں میں تجھ کو قوموں میں تتربتر کروں گا اور تیری گندگی تجھ میں سے نابود کردوں گا اور تو قوموں کے سامنے اپنے آپ میں ناپاک ٹھہرے گا اور معلوم کرے گا کہ میں خداوند ہوں۔ (باب 22، آیت 3۔ 16) یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کو پہلے فسادِ عظیم کے موقع پر کی گئیں۔ پھر دوسرے فسادِ عظیم اور اس کے ہولناک نتائج پر حضرت مسیح (علیہ السلام) نے ان کو خبردار کیا۔ متی باب 23 میں حضرت مسیح کا ایک مفصل خطبہ درج ہے، وہ اپنی قوم کے شدید اخلاقی زوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ ” اے یروشلم ! اے یروشلم ! تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے، کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کرلیتی ہے، اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں، مگر تو نے نہ چاہا۔ دیکھو تمہارا گھر، تمہارے لیے ویران چھوڑا جاتا ہے۔ (آیت 37۔ 38) پھر جب رومی حکومت کے اہلکار حضرت مسیح (علیہ السلام) کو صلیب دینے کے لیے لے جارہے تھے اور لوگوں کی ایک بھیڑ جن میں عورتیں بھی تھیں روتی پیٹتی ان کے پیچھے جارہی تھیں تو انھوں نے آخری خطاب کرتے ہوئے مجموعہ سے فرمایا : اے یروشلم کی بیٹیو ! میرے لیے نہ روئو بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے روئو، کیونکہ دیکھو، وہ دن آتے ہیں جب کہیں گے کہ مبارک ہیں بانجھیں اور وہ پیٹ جو نہ جنے اور چھاتیاں جنھوں نے دودھ نہ پلایا، اس وقت تو پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چھپالو۔ (لوقا، باب 23 آیت 28۔ 30) اب ہم اشوریوں اور اہل بابل کی طرف سے آنے والی تباہی کی کچھ تفصیلات عرض کرتے ہیں۔ تورات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ کے سے بنی اسرائیل کو ہدایات دی گئی تھیں اور انھیں صاف صاف کہا گیا تھا کہ تم فلسطین فتح کرنے کے بعد دوسرے قوموں کے ساتھ رہنے ‘ بسنے اور ان کی اخلاقی و اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے پرہیز کرنا۔ لیکن بنی سرائیل جب فلسطین میں داخل ہوئے تو وہ اس ہدایت کو بھول گئے انھوں نے کوئی اپنی متحدہ سلطنت قائم نہ کی۔ وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا تھے اور ان کے ہر قبیلے نے اس بات کو پسند کیا کہ مفتوحہ علاقے کا ایک حصہ لے کر الگ ہوجائیں۔ اس تفرقے کی وجہ سے ان کا کوئی قبیلہ بھی اتنا طاقتور نہ بن سکا کہ اپنے علاقے کو مشرکین سے پوری طرح پاک کردیتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان قوموں کے ذریعے سے ان کے اندر شرک داخل ہوگیا اور اس کے ساتھ بتدریج دوسری اخلاقی گندگیاں راہ پانے لگیں۔ دوسری خرابی یہ پیدا ہوئی کہ جن قوموں کی شہری ریاستیں انھوں نے چھوڑ دی تھیں اور انھوں نے اور فلسطنیوں نے جن کا پورا علاقہ غیر مغلوب رہ گیا تھا ‘ بنی اسرائیل کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کرلیا اور پے در پے حملے کر کے فلسطین کے بڑے حصے سے ان کو بیدخل کردیا حتیٰ کہ ان سے تابوتِ سکینہ بھی چھین کے لے گئے۔ آخر کار بنی اسرائیل کو ایک فرمانروا کے تحت اپنی ایک متحدہ سلطنت قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور ان کی درخواست پر حضرت سموئیل نبی نے 1020 قبل مسیح میں طالوت کو ان کا بادشاہ بنایا ( سورة بقرہ میں اس کی تفصیل موجود ہے) اس متحدہ سلطنت کے تین فرمانروا ہوئے۔ طالوت ‘ حضرت دائود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) ۔ ان فرمانروائوں نے اس کام کو مکمل کیا جسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نامکمل چھوڑ دیا تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل پر دنیا پرستی کا پھر شدید غلبہ ہوا اور انہوں نے آپس میں لڑ کردو الگ الگ سلطنتیں قائم کرلیں۔ شمالی فلسطین اور شرق اردن میں سلطنتِ اسرائیل ‘ جس کا پایہ تخت آخر کار سامریہ قرار پایا۔ اور جنوبی فلسطین اور ادوم کے علاقے میں سلطنت یہودیہ جس کا پایہ تخت یروشلم رہا۔ ان دونوں سلطنتوں میں سخت رقابت اور کشمکش اول روز سے شروع ہوگئی اور آخر تک رہی۔ ان میں سے اسرائیل ریاست کے فرمانروا اور باشندے ہمسایہ قوموں کے مشرکانہ عقائد اور اخلاقی فساد سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متأثر ہوئے۔ حضرت الیاس اور حضرت یسع (علیہم السلام) نے اس سیلاب کو روکنے کی انتہائی کوشش کی مگر یہ قوم جس تنزل کی طرف جا رہی تھی اس سے باز نہ آئی۔ آخر کار اللہ کا غضب اشوریوں کی شکل میں دولت اسرائیل کی طرف متوجہ ہوا اور نویں صدی قبل مسیح سے فلسطین پر اشوری فاتحین کے مسلسل حملے شروع ہوگئے۔ اس پر مختلف انبیائِ کرام نے بار بار اپنی قوم کو متحد ہونے اور اپنی اصلاح کرنے پر اکسایا اور تبلیغ و دعوت کا حق ادا کیا ‘ مگر جس غفلت کے نشے میں وہ سرشار تھے وہ تنبیہہ کی ترشی سے اور زیادہ تیز ہوگیا۔ یہاں تک کہ عاموس نبی کو شاہ اسرائیل نے ملک سے نکل جانے اور نبوت بند کردینے کا نوٹس دے دیا۔ اس کے بعد کوئی زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ خدا کا عذاب اسرائیلی سلطنت اور اس کی باشندوں پر ٹوٹ پڑا۔ 721 قبل مسیح میں اشور کے سخت گیر فرمانروا سارگون نے سامریہ کو فتح کر کے دولت اسرائیل کا خاتمہ کردیا۔ ہزارہا اسرائیلی تہِ تیخ کیے گئے 27 ہزار سے زیادہ با اثر اسرائیلیوں کو ملک سے نکال کر اشوری سلطنت کے مشرقی اضلاع میں تتربتر کردیا گیا۔ اور دوسرے علاقوں سے لا کر غیر قوموں کو اسرائیل کے علاقے میں بسایا گیا۔ جن کے درمیان رہ بس کر بچا کھچا اسرائیلی عنصر بھی اپنی قومی تہذیب سے روز بروز بیگانہ ہوتا چلا گیا۔ بنی اسرائیل کی دوسری ریاست جو یہودیہ کے نام سے جنوبی فلسطین میں قائم ہوئی ‘ وہ بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد بہت جلدی شرک اور بدا خلاقی میں مبتلا ہوگئی۔ مگر نسبتاً اس کا اعتقادی اور اخلاقی زوال دولت اسرائیل کی بہ نسبت سست رفتار تھا۔ اس لیے اس کو مہلت بھی زیادہ دی گئی۔ آخر کار 598 قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم سمیت پوری دولت اسرائیل کو مسخر کرلیا اور یہودیہ کا بادشاہ اس کے پاس قیدی بن کر رہا۔ یہودیوں کی بد اعمالیوں کا اسلسلہ اس پر بھی ختم نہ ہوا۔ آخر 587 قبل مسیح میں بخت نصر نے ایک سخت حملہ کر کے یہودیہ کے تمام بڑے چھوٹے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو اس طرح پیوندِ خاک کیا گیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ کھڑی نہ رہی۔ یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو ان کے علاقے سے نکال کر ملک ملک میں تتر بتر کردیا گیا اور جو یہودی اپنے علاقے میں رہ گئے وہ بھی ہمسایہ قوموں کے ہاتھوں بری طرح پامال ہو کر رہ گئے۔ یہ تھا وہ پہلا فساد اور پہلا عذاب جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔
Top