Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Israa : 4
وَ قَضَیْنَاۤ اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ فِی الْكِتٰبِ لَتُفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَ لَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِیْرًا
وَقَضَيْنَآ
: اور صاف کہ دیا ہم نے
اِلٰى
: طرف۔ کو
بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ
: بنی اسرائیل
فِي الْكِتٰبِ
: کتاب
لَتُفْسِدُنَّ
: البتہ تم فساد کروگے ضرور
فِي
: میں
الْاَرْضِ
: زمین
مَرَّتَيْنِ
: دو مرتبہ
وَلَتَعْلُنَّ
: اور تم ضرور زور پکڑوگے
عُلُوًّا كَبِيْرًا
: بڑا زور
اور ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر متنبہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھائو گے۔
وَقَضَیْنَـآ اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ فِی الْکِتٰبِ لَتُـفْسِدُنَّ فِی الْاَرْضِ مَرَّتَیْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا کَبِیْرًا۔ فَاِذَا جَآئَ وَعْدُ اُوْلٰـھُمَا بَعَثْنَا عَلَیْکُمْ عِبَادًا لَّـنَـآ اُوْلِیْ بَاْسٍ شَدِیْدٍ فَجَاسُوْا خِلٰلَ الدِّیَارِ ط وَکَانَ وَعْدًا مَّفْعُوْلاً ۔ (سورۃ بنٓیْ اسرآئِ یل : 4۔ 5) (اور ہم نے اپنی کتاب میں بنی اسرائیل کو اس بات پر متنبہ کردیا تھا کہ تم دو مرتبہ زمین میں فسادِ عظیم برپا کرو گے اور بڑی سرکشی دکھائو گے۔ پھر جب ان میں سے پہلی سرکشی کا موقع آیا تو ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنی ایسے بندے اٹھائے جو نہایت زور آور تھے اور وہ تمہارے ملک میں گھس کر ہر طرف پھیل گئے، یہ ایک وعدہ تھا جسے پورا ہو کر ہی رہنا تھا۔ ( بنی اسرائیل کی تاریخ اور درس عبرت عربی زبان میں قَضَیْنَـآکے ساتھ جب اِلیٰ کا صلہ آتا ہے تو وہاں اس سے پہلے ابلغنا یا اس کے ہم معنی کوئی لفظ محذوف ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل کو اپنے اس فیصلے سے آگاہ کردیا تھا کہ جب تمہارے اندر فساد ایک خاص حد تک پہنچ جائے گا اور اس وقت کے انبیائے اکرام تمہیں وارننگ بھی دیں گے تو اس کے بعد تم پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ضرور آئے گا۔ اور یہ بات ہمارے علم میں ہے کہ ایسا دو دفعہ ہوگا جب تم اللہ تعالیٰ کے سامنے بغاوت اور سرکشی اختیار کرو گے۔ چناچہ جب ہم پہلے صحف آسمانی میں وہ تفصیلات پڑھتے ہیں جو بنی اسرائیل کے انبیائے اکرام نے ان پر تنقید کرتے ہوئے ذکر فرمائی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی قابل ذکر ایسی برائی نہیں تھی جو بنی اسرائیل میں پیدا نہ ہوچکی تھی۔ انھیں پڑھ کر جہاں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کے فساد کے نوعیت کیا تھی، وہیں ہمیں خود اپنا جائزہ لینے کا بھی موقع مل سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے معاملات سارے انسانوں اور تمام امتوں سے مستقل اصولوں پر مبنی ہیں ‘ اس کی کسی سے رشتہ داری نہیں ‘ جو امت بھی وہی رویہ اختیار کرے گی جس کی پاداش میں کسی امت پر عذاب آچکا تو پھر اسے عذاب سے بےفکر نہیں ہونا چاہیے۔ سب سے زیادہ زور تو اس بات پر دیا گیا ہے کہ دوسری قوموں کے ساتھ مل کر انھوں نے وہ تمام قسم کا شرک اختیار کرلیا جو دوسری قوموں میں پایا جاتا تھا۔ بت پرستی کی ‘ بعل پرستی کی ‘ عجل پرستی میں مبتلا ہوئے ‘ مختلف دیویوں کی پوجا کی اور ان کی پرستش ان کے لیے عبادت بن گئی۔ اور قدم قدم پر اللہ کے احکام سے سرکشی کا رویہ اختیار کیا۔ حقوق العباد کا احترام اٹھتا چلا گیا ‘ رشوت عام ہوگئی ‘ یتیموں اور بیوائوں کا مال کھانا ان کے لیے ایک محبوب مشغلہ بن گیا ‘ غریبوں کے لیے زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا ‘ شروع میں اللہ کی شریعت سے انحراف پیدا ہوا جو بڑھتے بڑھتے انکار تک جا پہنچا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عقیدے کی خرابی کے ساتھ ساتھ معاملات کی تمام خرابیاں ان کے اندر پیدا ہوگئیں ‘ ہوسِ زر نے مختلف طریقے ایجاد کیے اور زندگی کا بگاڑ بڑھتا چلا گیا ‘ بدکاری اور عیاشی ان میں عام ہوگئی ‘ بےحیائی ثقافت کا حصہ بن گئی ‘ دوسری قوموں کی تہذیب انکے یہاں عزیز ہوگئی اور اس کی نقل اتارنا فیشن بن گیا۔ ان کے معاشی معاملات میں سود کو رفتہ رفتہ اہمیت ملتی چلی گئی ‘ جب کہ سود ان پر حرام کیا گیا تھا۔ اس پر انبیائِ کرام نے بار بار انھیں ٹوکا ‘ جھنجھوڑا ‘ لیکن انھیں جب بھی موقع ملا انھوں نے انبیا کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہ کیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا بنیادی جرم جس کا ذکر آسمانی کتابیں کرتی ہیں وہ اللہ کی شریعت کی نافرمانی ‘ اللہ کے احکام کو توڑنا ‘ پیغمبروں سے دشمنی ‘ انھیں قتل تک کرنے کی کوشش کرنا ‘ کمزوروں پر ظلم اور عیاشی اور بدکاری تھی۔ اور ہوس زر کو زندگی کا مقصد بنا کر تمام حرام ذرائع کا اختیار کرنا تھا۔ ان بد اعمالیوں کے باعث ان پر اللہ کا عذاب ٹوٹا۔ یہاں رک کر ذرا غور کر لیجیے کہیں یہ ساری خرابیاں اس امت میں تو در نہیں آئیں۔ پہلی دفعہ جب ان پر اللہ کے عذاب کا کوڑا برسا تو وہ آشوریوں اور اہل بابل کی طرف سے آنے والی وہ تباہی تھی جس نے انھیں کھیل کھیل کر کے رکھ دیا۔ اس سے پہلے کہ ہم نہایت اختصار سے اس کی کچھ تفصیل عرض کریں، یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم نے بنی اسرائیل کی طرف سے جس فساد کے برپا کرنے اور پھر اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے عذاب کا جو ذکر فرمایا ہے، بائبل کے مجموعہ کتب مقدسہ میں آج بھی اس کی تفصیلات موجود ہیں۔ صاف صاف بتایا گیا ہے کہ تم پر یہ تباہی آنے والی ہے لیکن قومیں جب بگڑتی ہیں تو وہ اپنے خیرخواہوں کی بات پر بھی کان دھرنا پسند نہیں کرتیں۔ اس سلسلے میں عبارتیں نقل کرنا تو بہت طوالت کا باعث ہوگا البتہ ہم حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔ پہلے فساد پر سب سے پہلے تنبیہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے کی۔ زبور، باب 106، آیات 24۔ 41، پھر جب یہ فسادِ عظیم رونما ہوگیا تو اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی خبر حضرت یسعیانبی نے اپنے صحیفے میں مندرجہ ذیل ابواب میں دی۔ باب 1، آیت 4۔ 5… باب 1، آیت 21۔ 24… باب 2، آیت 6۔ 8… باب 3، آیت 16۔ 26، اسی طرح اور بہت سے ابواب میں یہ تنبیہات ملتی ہیں۔ پیغمبر ( علیہ السلام) نہایت دلسوزی سے اپنی قوم کی بداعمالیوں کا نہ صرف نوحہ پڑھتے ہیں بلکہ انھیں برے انجام سے ڈراتے بھی ہیں، لیکن ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ پھر عین وقت پر حزقی ایل نبی اٹھے اور انھوں نے یروشلم کو خطاب کرتے ہوئے کہا ” اے شہر تو اپنے اندر خونریزی کرتا ہے تاکہ تیرا وقت آجائے اور تو اپنے لیے بت بناتا ہے تاکہ تجھے ناپاک کریں۔ دیکھ اسرائیل کے امراء سب کے سب جو تجھ میں ہیں مقدور بھر خونریزی پر مستعد تھے۔ تیرے اندر انھوں نے ماں باپ کو حقیر جانا، تیرے اندر انھوں نے پردیسیوں پر ظلم کیا، تیرے اندر انھوں نے یتیموں اور حیوانوں پر ستم کیا، تو نے میری پاک چیزوں کو ناپاک جانا اور میرے سبتوں کو ناپاک کیا، تیرے اندر وہ ہیں جو چغل خوری کرکے خون کرواتے ہیں، تیرے اندر وہ ہیں جو بتوں کی قربانی سے کھاتے ہیں، تیرے اندر وہ ہیں جو فسق و فجور کرتے ہیں، تیرے اندر وہ بھی ہیں جنھوں نے اپنے رب کی حرم شکنی کی، تجھ میں انھوں نے اس عورت سے جو ناپاکی کی حالت میں تھی مباشرت کی، کسی نے دوسرے کی بیوی سے بدکاری کی، کسی نے اپنی بہو سے بدذاتی کی، کسی نے اپنے بہن، اپنے باپ کی بیٹی کو تیرے اندر رسوا کیا، تیرے اندر انھوں نے خونریزی کے لیے رشوت خواری کی، تو نے بیاج اور سود کیا اور ظلم کرکے اپنے پڑوسی کو لوٹا، مجھے فراموش کیا، کیا تیرے ہاتھوں میں زور ہوگا، جب میں تیرا معاملہ فیصل کروں گا… ہاں میں تجھ کو قوموں میں تتربتر کروں گا اور تیری گندگی تجھ میں سے نابود کردوں گا اور تو قوموں کے سامنے اپنے آپ میں ناپاک ٹھہرے گا اور معلوم کرے گا کہ میں خداوند ہوں۔ (باب 22، آیت 3۔ 16) یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کو پہلے فسادِ عظیم کے موقع پر کی گئیں۔ پھر دوسرے فسادِ عظیم اور اس کے ہولناک نتائج پر حضرت مسیح (علیہ السلام) نے ان کو خبردار کیا۔ متی باب 23 میں حضرت مسیح کا ایک مفصل خطبہ درج ہے، وہ اپنی قوم کے شدید اخلاقی زوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں۔ ” اے یروشلم ! اے یروشلم ! تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے، کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کرلیتی ہے، اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں، مگر تو نے نہ چاہا۔ دیکھو تمہارا گھر، تمہارے لیے ویران چھوڑا جاتا ہے۔ (آیت 37۔ 38) پھر جب رومی حکومت کے اہلکار حضرت مسیح (علیہ السلام) کو صلیب دینے کے لیے لے جارہے تھے اور لوگوں کی ایک بھیڑ جن میں عورتیں بھی تھیں روتی پیٹتی ان کے پیچھے جارہی تھیں تو انھوں نے آخری خطاب کرتے ہوئے مجموعہ سے فرمایا : اے یروشلم کی بیٹیو ! میرے لیے نہ روئو بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لیے روئو، کیونکہ دیکھو، وہ دن آتے ہیں جب کہیں گے کہ مبارک ہیں بانجھیں اور وہ پیٹ جو نہ جنے اور چھاتیاں جنھوں نے دودھ نہ پلایا، اس وقت تو پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چھپالو۔ (لوقا، باب 23 آیت 28۔ 30) اب ہم اشوریوں اور اہل بابل کی طرف سے آنے والی تباہی کی کچھ تفصیلات عرض کرتے ہیں۔ تورات میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ذریعہ کے سے بنی اسرائیل کو ہدایات دی گئی تھیں اور انھیں صاف صاف کہا گیا تھا کہ تم فلسطین فتح کرنے کے بعد دوسرے قوموں کے ساتھ رہنے ‘ بسنے اور ان کی اخلاقی و اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے پرہیز کرنا۔ لیکن بنی سرائیل جب فلسطین میں داخل ہوئے تو وہ اس ہدایت کو بھول گئے انھوں نے کوئی اپنی متحدہ سلطنت قائم نہ کی۔ وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا تھے اور ان کے ہر قبیلے نے اس بات کو پسند کیا کہ مفتوحہ علاقے کا ایک حصہ لے کر الگ ہوجائیں۔ اس تفرقے کی وجہ سے ان کا کوئی قبیلہ بھی اتنا طاقتور نہ بن سکا کہ اپنے علاقے کو مشرکین سے پوری طرح پاک کردیتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان قوموں کے ذریعے سے ان کے اندر شرک داخل ہوگیا اور اس کے ساتھ بتدریج دوسری اخلاقی گندگیاں راہ پانے لگیں۔ دوسری خرابی یہ پیدا ہوئی کہ جن قوموں کی شہری ریاستیں انھوں نے چھوڑ دی تھیں اور انھوں نے اور فلسطنیوں نے جن کا پورا علاقہ غیر مغلوب رہ گیا تھا ‘ بنی اسرائیل کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کرلیا اور پے در پے حملے کر کے فلسطین کے بڑے حصے سے ان کو بیدخل کردیا حتیٰ کہ ان سے تابوتِ سکینہ بھی چھین کے لے گئے۔ آخر کار بنی اسرائیل کو ایک فرمانروا کے تحت اپنی ایک متحدہ سلطنت قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی اور ان کی درخواست پر حضرت سموئیل نبی نے 1020 قبل مسیح میں طالوت کو ان کا بادشاہ بنایا ( سورة بقرہ میں اس کی تفصیل موجود ہے) اس متحدہ سلطنت کے تین فرمانروا ہوئے۔ طالوت ‘ حضرت دائود (علیہ السلام) اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) ۔ ان فرمانروائوں نے اس کام کو مکمل کیا جسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نامکمل چھوڑ دیا تھا۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد بنی اسرائیل پر دنیا پرستی کا پھر شدید غلبہ ہوا اور انہوں نے آپس میں لڑ کردو الگ الگ سلطنتیں قائم کرلیں۔ شمالی فلسطین اور شرق اردن میں سلطنتِ اسرائیل ‘ جس کا پایہ تخت آخر کار سامریہ قرار پایا۔ اور جنوبی فلسطین اور ادوم کے علاقے میں سلطنت یہودیہ جس کا پایہ تخت یروشلم رہا۔ ان دونوں سلطنتوں میں سخت رقابت اور کشمکش اول روز سے شروع ہوگئی اور آخر تک رہی۔ ان میں سے اسرائیل ریاست کے فرمانروا اور باشندے ہمسایہ قوموں کے مشرکانہ عقائد اور اخلاقی فساد سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متأثر ہوئے۔ حضرت الیاس اور حضرت یسع (علیہم السلام) نے اس سیلاب کو روکنے کی انتہائی کوشش کی مگر یہ قوم جس تنزل کی طرف جا رہی تھی اس سے باز نہ آئی۔ آخر کار اللہ کا غضب اشوریوں کی شکل میں دولت اسرائیل کی طرف متوجہ ہوا اور نویں صدی قبل مسیح سے فلسطین پر اشوری فاتحین کے مسلسل حملے شروع ہوگئے۔ اس پر مختلف انبیائِ کرام نے بار بار اپنی قوم کو متحد ہونے اور اپنی اصلاح کرنے پر اکسایا اور تبلیغ و دعوت کا حق ادا کیا ‘ مگر جس غفلت کے نشے میں وہ سرشار تھے وہ تنبیہہ کی ترشی سے اور زیادہ تیز ہوگیا۔ یہاں تک کہ عاموس نبی کو شاہ اسرائیل نے ملک سے نکل جانے اور نبوت بند کردینے کا نوٹس دے دیا۔ اس کے بعد کوئی زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ خدا کا عذاب اسرائیلی سلطنت اور اس کی باشندوں پر ٹوٹ پڑا۔ 721 قبل مسیح میں اشور کے سخت گیر فرمانروا سارگون نے سامریہ کو فتح کر کے دولت اسرائیل کا خاتمہ کردیا۔ ہزارہا اسرائیلی تہِ تیخ کیے گئے 27 ہزار سے زیادہ با اثر اسرائیلیوں کو ملک سے نکال کر اشوری سلطنت کے مشرقی اضلاع میں تتربتر کردیا گیا۔ اور دوسرے علاقوں سے لا کر غیر قوموں کو اسرائیل کے علاقے میں بسایا گیا۔ جن کے درمیان رہ بس کر بچا کھچا اسرائیلی عنصر بھی اپنی قومی تہذیب سے روز بروز بیگانہ ہوتا چلا گیا۔ بنی اسرائیل کی دوسری ریاست جو یہودیہ کے نام سے جنوبی فلسطین میں قائم ہوئی ‘ وہ بھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے بعد بہت جلدی شرک اور بدا خلاقی میں مبتلا ہوگئی۔ مگر نسبتاً اس کا اعتقادی اور اخلاقی زوال دولت اسرائیل کی بہ نسبت سست رفتار تھا۔ اس لیے اس کو مہلت بھی زیادہ دی گئی۔ آخر کار 598 قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم سمیت پوری دولت اسرائیل کو مسخر کرلیا اور یہودیہ کا بادشاہ اس کے پاس قیدی بن کر رہا۔ یہودیوں کی بد اعمالیوں کا اسلسلہ اس پر بھی ختم نہ ہوا۔ آخر 587 قبل مسیح میں بخت نصر نے ایک سخت حملہ کر کے یہودیہ کے تمام بڑے چھوٹے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو اس طرح پیوندِ خاک کیا گیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ کھڑی نہ رہی۔ یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو ان کے علاقے سے نکال کر ملک ملک میں تتر بتر کردیا گیا اور جو یہودی اپنے علاقے میں رہ گئے وہ بھی ہمسایہ قوموں کے ہاتھوں بری طرح پامال ہو کر رہ گئے۔ یہ تھا وہ پہلا فساد اور پہلا عذاب جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔
Top