Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 109
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا
قُلْ : فرمادیں لَّوْ : اگر كَانَ : ہو الْبَحْرُ : سمندر مِدَادًا : روشنائی لِّكَلِمٰتِ : باتوں کے لیے رَبِّيْ : میرا رب لَنَفِدَ الْبَحْرُ : تو ختم ہوجائے سمندر قَبْلَ : پہلے اَنْ تَنْفَدَ : کہ ختم ہوں كَلِمٰتُ رَبِّيْ : میرے رب کی باتیں وَلَوْ : اور اگرچہ جِئْنَا : ہم لے آئیں بِمِثْلِهٖ : اس جیسا مَدَدًا : مدد کو
اے پیغمبر ﷺ کہہ دیجیے ! کہ اگر سمندر سیاہی بن جائے میرے رب کے کلمات کو لکھنے کے لیے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا دیں۔
قُُلْ لَّوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَالْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْجِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا۔ (الکہف : 109) (اے پیغمبر ﷺ کہہ دیجیے ! کہ اگر سمندر سیاہی بن جائے میرے رب کے کلمات کو لکھنے کے لیے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا دیں۔ ) نشانیاں طلب کرنے والوں کو جواب تمام گمراہ امتوں کی طرح مشرکینِ مکہ کی بھی سب سے بڑی گمراہی یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرنے اور نبی کریم ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے کے لیے عجیب و غریب معجزات اور نشانیاں طلب کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی ایسی نشانی دکھا دی جائے جس کا ظہور انسان کی قدرت میں نہ ہو تو پھر یہ سمجھ لیا جائے گا کہ واقعی اللہ تعالیٰ کا کوئی وجود بھی ہے اور وہ ہر طرح کی باتوں پر قادر ہے اور چونکہ یہ محیرالعقول نشانی نبی کریم ﷺ کے کہنے پر دکھائی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ ہیں۔ ان کی کوتاہی عقل پر توجہ دلاتے ہوئے یہ فرمایا گیا کہ تم اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کی کوئی ایک نشانی مانگتے ہو حالانکہ تمہارا اپنا وجود اور اس کائنات کا ایک ایک ذرہ اس کی قدرت و حکمت کی نشانیوں سے بھرپور ہے۔ اس کی قدرتوں اور حکمتوں کو اگر کوئی شخص شمار کرنا چاہے تو بطور مثال فرمایا کہ انھیں لکھنے کے لیے اگر سمندر کو سیاہی بنادیا جائے اور اس سیاہی میں قلم ڈبوڈبو کر لکھنا شروع کیا جائے تو لکھنے والی نسلیں تو ختم ہوں گی خود یہ سمندر بھی ختم ہوجائے گا اور ایک سمندر کا کیا کہنا اگر اور سمندر بھی اس کے ساتھ ملا دیئے جائیں تو ان کی سیاہی بھی اللہ تعالیٰ کے کلمات یعنی اس کی قدرتوں اور حکمتوں اور اس کی قدرت کے عجائبات کو شمار کرنے سے عاجز ہے۔ خود سمندروں سے اگر یہ کہا جائے کہ قدرت نے تمہارے اندر جو بیشمار مخلوقات اور حیرت انگیز چیزوں کے خزینے دفن کر رکھے ہیں تم ان کو ہی شمار کرکے دکھا دو تو وہ انھیں شمار کرنے سے بھی عاجز ہیں۔ ہم خشکی پر جس قدر مخلوقات کو دیکھتے ہیں جو حدوشمار سے باہر ہیں تو کہا جاتا ہے کہ سمندر کی مخلوقات اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ تو پھر جس طرح زمین کی مخلوقات کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اس زمین پر بیشمار نعمتیں پیدا کی گئی ہیں۔ قسم قسم کے جانور، رنگا رنگ نباتات، ہر آن بدلتے ہوئے موسم، اٹھتی ہوئی گھٹائیں، بیشمار رنگوں کے بادل، آسمان پر بننے والی قوس قزح، زمین پر اچھلنے والے چشمے، پارے کی طرح گرتی ہوئی آبشاریں، چاندی کی طرح بہتا ہوا پانی، تازہ بہ تازہ نکلتے ہوئے شگوفے، زمین پر پھیلی ہوئی بیلیں، لہلہاتی ہوئی فصلیں، پھولتی ہوئی سرسوں، مسکراتا ہوا زعفران زار، سونا اچھالتی ہوئی گندم کی فصل، مہکتے ہوئے گلستان، اودے اودے نیلے نیلے اور پیلے پیلے پیراہن پہنے ہوئے پھول اور پھر ہر پھول کا حیران کردینے والا رنگ اور ہر پنکھڑی پر کھلا ہوا دفترِ کردگار، درختوں کی خوشنما چھتریاں اور گھنے سائے اور پھلدار پودوں کے رسیلے پھل، اس کی قدرت کی کس کس نشانی کا ذکر کیا جائے۔ جن لوگوں نے خود انسان کو موضوع بنایا ہے انھوں نے انسان کی آنکھ کی تخلیق کو قدرت کا شاہکار لکھتے ہوئے ضخیم کتابیں لکھیں۔ اس کے چند انچ پر پھیلے ہوئے انگوٹھے کے حیرت انگیز خطوط کو ایسا عجوبہ قرار دیا ہے کہ ساری دنیا مل کر جس کی نظیر لانے سے قاصر ہے۔ انسان کے اندرکا پیچیدہ نظام آج تک اس کی ساری گتھیاں سلجھائی نہیں جاسکیں۔ حیوانوں میں سب سے بےڈول جانور اونٹ کہا جاتا ہے۔ اس کے جبڑے پر مصر میں تحقیق ہوئی ہے اور ابھی نامکمل تحقیق پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ لیبارٹری نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مکھی کے دونوں پروں میں قدرت نے حیرت انگیز طور پر زہر بھی رکھا ہے اور تریاق بھی۔ ایک پَر میں زہر ہے اور ایک میں تریاق۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر مکھی پڑجانے کے بعد مشروب پینا پڑے تو اس کو پورا ڈبو کر نکالو، کیونکہ وہ زہر والا پَر ڈبوتی ہے اور تریاق والا پَر اوپر رکھتی ہے۔ اس کا پورا جسم ڈوبنے سے زہر کا تریاق ہوجاتا ہے، بلکہ ماہرین کا خیال یہ ہے کہ اگر اس کے زہر کی پڑیا کو پوری طرح کھول دیا جائے تو اس سے 200 انسانوں کی موت واقع ہوسکتی ہے، لیکن قدرت نے اس کے دوسرے پَر میں اس زہر کا مکمل تریاق رکھا ہے۔ مختصر یہ کہ اس کی قدرتوں اور حکمتوں کی نشانیوں کا کوئی شمار نہیں، لیکن انسان کی بےبصیرتی کا کیا کہنا کہ اس کا اپنا جسم، اپنی روح اور اس کے گردوپیش میں پھیلی ہوئی دنیا اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے معمور ہے، لیکن وہ انھیں دیکھنے کی بجائے اور نشانی دیکھنا چاہتا ہے۔ دور نہ جایئے خود اس زمین کو دیکھ لیجئے جس پر انسان چلتا پھرتا اٹھتا بیٹھتا اور زندگی کے معمولات انجام دیتا ہے اور بالآخر اسی میں دفن ہوتا ہے۔ انسان بہت کم اس زمین کی حقیقت پر غور کرنے کی فرصت نکالتا ہے حالانکہ بیشمار نشانیوں میں سے زمین بجائے خود ایک بڑی نشانی ہے۔ سائنسدان ہمیں بتاتے ہیں کہ آغاز تخلیق میں جب زمین آفتاب سے الگ ہوئی تھی تو اس کا درجہ حرارت وہی تھا جو سورج کا ہے یعنی 12000 فارن ہائیٹ۔ جب یہ حرارت کم ہوتے ہوتے 4000 فارن ہائیٹ ہوگئی تو آکسیجن کی ایک خاص مقدار ہائیڈروجن کی طرف بھاگی اور پانی تیار ہوگیا۔ ان گیسوں کی مختلف مقادیر سے کروڑوں مرکبات تیار ہوسکتے ہیں۔ لیکن پانی ان کی صرف ایک ترکیب تقریباً دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن سے بنتا ہے اور باقی تمام مرکبات زہر ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اوزان و مقادیر کا یہ تعین خودبخود ہوگیا تھا ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کیمسٹ کی دکان میں مفرد ادویہ ازخود ایک دوسرے سے مل کر مرکب بن جائیں یا لکڑی کے تختے کشتی کی صورت اختیار کرلیں ؟ زمین کے سلسلہ میں اس پر غور فرمائیں کہ یہ زمین کہاں سے آئی ؟ ماہرینِ ارض نے اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ آج سے ہزارہا صدیاں پہلے ایک بہت بڑا ستارہ سورج کے قریب سے گزرا۔ زورِکشش سے سورج کے چند ٹکڑے کٹ کر خلا میں گھومنے لگے۔ ان میں سے ایک زمین تھی۔ ان ٹکڑوں کو قریب کے ستاروں نے کھینچ کر متوازن کردیا۔ زمین کی دو حرکتیں ہیں ایک اپنے گرد جو 24 گھنٹوں میں مکمل ہوتی ہے اور دوسری آفتاب کے گرد جو 365 دن لیتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق زمین کو آفتاب سے جدا ہوئے آج 2 ارب صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ان گردشوں میں ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آیا ورنہ علمائے ہئیت کے تمام حساب غلط ہوجاتے۔ اپنے گرد زمین ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے اور آفتاب کے گرد 68000 میل فی گھنٹہ کے حساب سے۔ اگر اس کی پہلی رفتار کو 10 گنا کم کردیا جائے تو شب و روز 10 گنا لمبے ہوجائیں گے۔ جون میں 140 گھنٹے کا گرم دن زمین کو جھلس کر رکھ دے گا اور جنوری کی اتنی ہی طویل رات ہر شے کو منجمد کردے گی اور اگر اسے بڑھا دیا جائے تو ہر شے کا وزن کم ہوتا جائے گا اور جب یہ رفتار 16200 میل فی گھنٹہ تک پہنچے گی تو کسی چیز میں کوئی وزن نہیں رہے گا ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا درختوں اور مکانوں کو گرا دے گا اور ہا کی کا بال ہٹ ہونے کے بعد ہوا میں اڑ جائے گا اور پھر کبھی واپس نہیں آئے گا۔ زمین کا وزن 5 ارب بلین ٹن ہے۔ اگر آدھا ہوتا تو کشش ثقل نصف رہ جاتی اور اشیاء کا وزن آدھا ہوجاتا۔ اگر یہ وزن دوگنا ہوتا تو ہر چیز کا وزن ڈبل ہوجاتا۔ زمین سورج سے تقریباً 9 کروڑ 29 لاکھ میل دور ہے۔ اگر یہ فاصلہ کم ہوتا تو ہم گرمی سے مرجاتے اور زیادہ ہوتا تو سردی سے مرجاتے۔ کرہ زمین کا رخ آفتاب کی طرح بالکل سیدھا نہیں بلکہ 23 درجہ کے قریب ایک طرف جھکا ہوا ہے۔ یہی جھکائو موسموں کا سبب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر دن پچھلے دن جیسا ہوتا اور ہم سردی، گرمی، بہار اور برسات کے مناظر، غذائوں اور پھلوں سے محروم رہ جاتے۔ آغازِ آفرینش میں جب زمین ٹھنڈی ہوئی تو دو گیسیں یعنی نائٹروجن اور آکسیجن باہم مل کر ہوا میں تبدیل ہوگئیں۔ نائٹروجن کی مقدار 3.78 تھی اور آکسیجن کی 99.20 آکسیجن ایک آتش پذیر گیس ہے۔ اگر فضا میں اس کی مقدار زیادہ ہوتی تو آسمانی بجلی کے ایک شرر سے آگ بھڑک اٹھتی اور سب کچھ جل جاتا اور اگر موجودہ مقدار سے نصف ہوتی تو نہ چولہوں میں آگ جلتی اور نہ حیوانی زندگی باقی رہتی۔ کرہ ہوا میں ذرات گرد آبی بخارات اور گیسوں کی وجہ سے کچھ کثافت ہوجاتی ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو لاتعداد شہاب جو کثیف ہوا کی رگڑ سے جل کر راکھ ہوجاتے ہیں ہم پر اتنے شرر اور پتھر برساتے کہ زندگی ختم ہوجاتی۔ زمین کا بیشتر حصہ سمندر نے گھیر رکھا ہے۔ ممکن ہے زمین کا بستر سمندر پر ہی بچھایا گیا ہو۔ اگرچہ یہ حقائق متشابہات میں سے ہیں تاہم سمندر ایک حقیقت ہے جس سے انسان کا شب و روز کا واسطہ ہے۔ جس طرح زمین کے مخفی حقائق اللہ تعالیٰ کی بیشمار نشانیوں پر مشتمل ہیں اسی طرح سمندر بھی اس کی نشانیوں کا مرقع ہے۔ اس وقت ان نشانیوں کو پیش کرنا مقصود نہیں کہنا صرف یہ ہے کہ سمندر کے قریب پہنچتے ہی جاننے والے اس کے عجیب و غریب حقائق کا انکشاف کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سمندر کے پاس ہوا کا دبائو 15 پونڈ فی انچ ہوتا ہے اور ہزار فٹ کی بلندی پر تقریباً ساڑھے 14 پونڈ فی انچ۔ انسان کے کندھے اندازاً 10 مربع انچ گھیرتے ہیں۔ ان پر ہوا کا دبائو 1160 پونڈ یعنی ساڑھے 14 من ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان اس بوجھ کے نیچے پس کیوں نہیں جاتا۔ کاش ساحل سمندر پر رہنے والے اللہ تعالیٰ کی اس رحمت اور اس کی نشانی کا ادراک کرسکتے۔ زمین پر بسنے والوں کی سب سے بنیادی ضرورت غذا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انسان لطف و لذت سے بھرپور مختلف اور متنوع غذائوں سے شب و روز متمتع ہوتا ہے لیکن وہ ان نعمتوں سے شادکام ہوتا ہوا کبھی نہیں سوچتا کہ یہ نعمتیں آئیں کہاں سے۔ نعمتیں تو بیشمار ہیں لیکن غذا کا بنیادی عنصر گندم پر مشتمل ہے۔ انسان کو بہت کم اس پر غور کرنے کی فرصت ملتی ہے کہ آخر یہ گندم کہاں سے آئی۔ انسان گندم کے حصول کے لیے خود گندم زمین میں کاشت کرتا ہے۔ کاشت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ گندم کا ایک ایک دانہ زمین میں دفن کرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ دانہ مرجائے مگر بجائے مرنے کے اس میں زندگی کی سوئی پھوٹتی ہے جو بڑھتے بڑھتے تنا بنتی ہے، پھر اسے خوشے لگتے ہیں، خوشوں میں دانوں کے موتی بھر دیئے جاتے ہیں، سورج کی کرنیں پانی کے ڈول بھر بھر کر فضا میں ابر کی چادریں پھیلا دیتی ہیں۔ ابر پانی برسا کر کھیتی کی آبیاری کا سامان کرتا ہے، سورج اسے گرمی پہنچاتا ہے، چاند اسے حلاوت دیتا ہے۔ ہوا اسے لوریاں دیتی ہے، زمین اپنی قوت نمو بروئے کار لاتی ہے اور پھر قدرت نہ جانے کیسی کیسی قوتوں کو کام میں لا کر انسان کے لیے غذا فراہم کرتی ہے۔ سائنسدان کہتا ہے کہ نائٹروجن حیوانی و نباتاتی حیات کا لازمی جزو ہے۔ یہ دو طریقوں سے زمین میں داخل ہوتی ہے۔ اول خوردبینی اجرام یا بیکٹیریا کے ذریعے جو زمین کی بالائی تہہ میں رہتے ہیں اور کھاد وغیرہ کھا کر ایک ایسا رس خارج کرتے ہیں جن میں نائیٹروجن بہت زیادہ ہوتی ہے۔ نصف چھٹانک زمین میں ان کی تعداد ایک کھرب، 35 ارب کے قریب ہوتی ہے اور زمین کے ہر ایکڑ میں ان کا کام بارہ آدمیوں کے برابر ہوتا ہے۔ اگر 100 ایکڑ کھیت میں 10 کسان ہل چلا رہے ہیں تو 1200 مزدوروں کا ایک مخفی لشکر بھی وہاں کام کررہا ہوتا ہے۔ غور فرمائیے ! اس غذا کو مہیا کرنے اور اسے پروان چڑھانے میں انسان کا حصہ کتنا ہے اور اللہ کا کتنا ؟ پروردگار فرماتے ہیں : اَفَرَئَ یْتُمْ مَّاتَحْرُثُوْنَ ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَـہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعْوُنَ ( کیا تم نے اپنی کھیتی پر کبھی غور کیا زراعت کون کرتا ہے تم یا ہم) دوسری جگہ ارشاد فرمایا : فَلْیَنْظُرِالْاِنْسَانُ اِلَی طَعَامِہٖٓ اَنَّاصَبَبْنَا الْمَآئَ صَبًّا ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا فَاَنْبَتْنَا فِیْھَا حَبًّا وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلًا وَّحَدَآئِقَ غُلْبًا وَّفَاکِھَۃً وَّاَبًّا مَّتَاعًالَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْ (انسان ذرا اپنی غذا پر نظر ڈالے (کہ کہاں سے آئی) ہم نے مینہ برساکر زمین کا سینہ چیر ا، اس سے غلے، انگور، ترکاری، زیتون، کھجوریں، گھنے باغ، میوے اور چارہ پیدا کیا، یہ سب تمہارا اور تمہارے مویشیوں کا متاع حیات ہے۔ ) اسے اقبال مرحوم نے اپنے انداز میں نظم کیا ؎ پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نور آفتاب کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب موسموں کو کس نے سکھلائی یہ خوئے انقلاب انسان کی دوسری فوری اور ناگزیر ضرورت پانی ہے۔ آدمی پانی کی حقیقت پر غور کرے اور پھر اس کے فوائد کو سمجھنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت نمایاں نظر آتی ہے جس کے آئینے میں انسان اپنے پروردگار کی نشانیوں کو دیکھ سکتا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس قدر فراخی اور وسعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے پانی کے خزانے پیدا فرمائے اور زمین کی تخلیق کے ساتھ جب پانی کو پیدا فرمایا گیا تو کس طرح قیامت تک کی مخلوقات کی ضروریات کو ملحوظ رکھا گیا ‘ نہ جانے کتنے زمانے گزر گئے لیکن آج تک پانی کے خزانوں میں کبھی کمی نہیں آئی اور پھر چونکہ یہ انسان کی ایسی ضرورت ہے جس سے انسان کبھی صرف نظر نہیں کرسکتا اس لیے ہوا کے بعد اس کے ناپیداکنار سمندر پیدا فرمائے اور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پانی کا پہنچنا آسان نہیں کیا گیا۔ کہیں سمندروں کو پیدا کیا گیا، کہیں چشمے جاری کردئیے گئے اور پھر ساتھ ساتھ یہ انتظام فرمایا کہ سردیوں میں پہاڑوں پر برف جما کر گرمیوں میں اسے پگھلاکر زمین کی آبیاری کا سامان کیا گیا اور پھر ایک ایساحیرت انگیز انتظام دیکھنے میں آتا ہے کہ سمندر سے بھاپ اٹھاکر بادلوں کی چادریں بچھائی جاتی ہیں اور انھیں اس طرح برسایا جاتا ہے کہ زمین کا ایک ایک گوشہ اس سے معمور ہوجاتا ہے اور پھر ایسا نہیں ہو تاکہ سارا پانی زمین میں جذب ہوجائے اور زمین دلدل بن جائے اور نہ ایسا ہوتا ہے کہ سارا پانی بہہ جائے اور ندی نالوں میں پہنچ جائے اور زمین مناسب آبیاری سے محروم رہ جائے بلکہ قرآن کہتا ہے کہ ضرورت کے مطابق ہم پانی زمین میں جذب کرتے ہیں جہاں مزید ضرورت ہوتی ہے اس کو روک دیتے ہیں اور باقی پانی ہم ندی نالوں اور جدولوں کی شکل میں واپس دریائوں سمندروں میں لے جاتے ہیں اور پھر پانی کے اوصاف کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے اور بےساختہ اپنے رب کی یاد آنے لگتی ہے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔ 1 پانی کو سیال پیدا کیا گیا اگر ایسا نہ ہوتا تو اس سے پیاس بجھتی نہ کپڑے صاف ہوتے اور نہ کھیتیاں سیراب ہوتیں۔ 2 جب پانی جمنے لگتا ہے تو وہ کثیر مقدار میں حرارت خارج کرتا ہے جس سے نیچے کا پانی متأثر ہوتا اور غیرمنجمد رہتا ہے۔ اگر سردیوں میں سارا پانی جم جاتا تو تمام مچھلیاں اور پانی کے دیگر جانور مرجاتے۔ 3 برف پانی سے ہلکی ہوتی ہے یہ پانی کی سطح پر رہ کرنیچے کے پانی کو انجماد سے بچاتی ہے۔ 4 اگر سمندر منجمد ہوتے تو دنیاسردی سے ہلاک ہوجاتی۔ اگر ابل رہے ہوتے تو گرمی سے مرجاتی۔ اس کا اعتدال ہی بقائے حیات کا باعث ہے۔ اسی طرح جب ہم اپنے گردوپیش پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نباتات کی چاروں طرف پھیلی ہوئی ایک دنیا دکھائی دیتی ہے۔ درخت سراٹھائے کھڑے ہیں۔ سبزے کی چادریں بچھی ہوئی ہیں، فصلیں لہلہارہی ہیں۔ لیکن کبھی ہم نے نباتات کے اعجاز پر غور نہیں کیا کہ یہ نباتات صرف کائنات کا حسن ہی نہیں یہ ہمارے لیے مدار حیات بھی ہیں۔ یہ غلہ اور پھل جو ہم کھاتے ہیں، یہ کپڑے جو ہم پہنتے ہیں، یہ چائے، کافی اور شربت جو ہم پیتے ہیں، سب نباتات سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ ربڑ، یہ کاغذ، یہ کوئلہ، یہ تیل، یہ صابن، سب نباتات کا کرشمہ ہے۔ ہماری یہ الماری میں سجی ہوئی کتابیں وہ جنگل ہیں جنھیں مزدور کاٹ کر کاغذ کے کارخانوں تک لے گئے تھے۔ پھولوں کے ننھے پودے سے لے کر چنار کے درخت تک آپ کو نباتات کی کروڑوں اقسام نظر آئیں گی۔ ان میں سے کچھ باغوں کی آرائش ہیں، کچھ ہماری غذا ہیں اور کچھ متاع حیات۔ یہ سب ایک ہی زمین سے اگتی ہیں اور ایک ہی پانی سے نشو و نما پانی ہیں۔ لیکن کمال تخلیق دیکھیے کہ سب کی حیثیت، رنگ، قامت، تاثیر، بو اور ذائقہ الگ ہے۔ وَفَی الْاَرْضِ قِطْعٌ مُّتَجَوِّرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٍ وَّنَخِیْلٍ صِنْوَانٍ وَّغَیْرِ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَآئٍ وَّاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَھَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاَکْلِ اَنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ (زمین میں پاس پاس ایسے قطعات ہیں جن میں کہیں کھیتی، کہیں انگور اور کہیں کھجور کے درخت ہیں، ان میں سے کچھ ایک جڑ سے نکلتے ہیں اور کچھ الگ جڑوں سے، ان سب کی پرورش ایک ہی پانی سے ہوتی ہے ‘ لیکن ان کے ذائقے الگ الگ ہیں، ان باتوں میں اربابِ دانش کے لیے کتنے ہی اسباب و شواہد موجود ہیں۔ ) درخت اپنے پتوں کا دامن ہوا اور سورج کے سامنے پھیلاکر ان سے زندگی کی بھیک مانگتے ہیں۔ ان کی جڑیں بطن زمین سے پانی اور غذا لے کر بلند شاخوں تک پہنچاتی ہیں اور پھلوں میں رس، مٹھاس اور خوشبو بھرتی ہیں۔ کیا یہ حیرت انگیز نظام اور نتائج و علل کا ایک مربوط سلسلہ اس سے بڑھ کر کوئی اور نشانی بھی ہوسکتی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلمات یعنی اس کی قدرت و حکمت کی نشانیاں اس قدر بیشمار ہیں انھیں لکھنے کے لیے نہ سمندروں کی سیاہی کفایت کرسکتی ہے اور نہ انسانوں کی زندگیاں اس کے لیے کافی ہوسکتی ہیں۔ شیخ شیراز نے اس بات کو اپنے عجز کے اعتراف پر ختم کرتے ہوئے کہا : دفتر تمام گشت و بپایاں رسید عمر ما ہمچناں دراولِ وصفِ تو ماندہ ایم
Top