Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 109
قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهٖ مَدَدًا
قُلْ
: فرمادیں
لَّوْ
: اگر
كَانَ
: ہو
الْبَحْرُ
: سمندر
مِدَادًا
: روشنائی
لِّكَلِمٰتِ
: باتوں کے لیے
رَبِّيْ
: میرا رب
لَنَفِدَ الْبَحْرُ
: تو ختم ہوجائے سمندر
قَبْلَ
: پہلے
اَنْ تَنْفَدَ
: کہ ختم ہوں
كَلِمٰتُ رَبِّيْ
: میرے رب کی باتیں
وَلَوْ
: اور اگرچہ
جِئْنَا
: ہم لے آئیں
بِمِثْلِهٖ
: اس جیسا
مَدَدًا
: مدد کو
اے پیغمبر ﷺ کہہ دیجیے ! کہ اگر سمندر سیاہی بن جائے میرے رب کے کلمات کو لکھنے کے لیے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا دیں۔
قُُلْ لَّوْکَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَالْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَلَوْجِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا۔ (الکہف : 109) (اے پیغمبر ﷺ کہہ دیجیے ! کہ اگر سمندر سیاہی بن جائے میرے رب کے کلمات کو لکھنے کے لیے تو سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں، اگرچہ ہم اس کے ساتھ اسی کے مانند اور سمندر ملا دیں۔ ) نشانیاں طلب کرنے والوں کو جواب تمام گمراہ امتوں کی طرح مشرکینِ مکہ کی بھی سب سے بڑی گمراہی یہ تھی کہ وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو تسلیم کرنے اور نبی کریم ﷺ کی رسالت پر ایمان لانے کے لیے عجیب و غریب معجزات اور نشانیاں طلب کرتے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی ایسی نشانی دکھا دی جائے جس کا ظہور انسان کی قدرت میں نہ ہو تو پھر یہ سمجھ لیا جائے گا کہ واقعی اللہ تعالیٰ کا کوئی وجود بھی ہے اور وہ ہر طرح کی باتوں پر قادر ہے اور چونکہ یہ محیرالعقول نشانی نبی کریم ﷺ کے کہنے پر دکھائی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ ہیں۔ ان کی کوتاہی عقل پر توجہ دلاتے ہوئے یہ فرمایا گیا کہ تم اللہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت کی کوئی ایک نشانی مانگتے ہو حالانکہ تمہارا اپنا وجود اور اس کائنات کا ایک ایک ذرہ اس کی قدرت و حکمت کی نشانیوں سے بھرپور ہے۔ اس کی قدرتوں اور حکمتوں کو اگر کوئی شخص شمار کرنا چاہے تو بطور مثال فرمایا کہ انھیں لکھنے کے لیے اگر سمندر کو سیاہی بنادیا جائے اور اس سیاہی میں قلم ڈبوڈبو کر لکھنا شروع کیا جائے تو لکھنے والی نسلیں تو ختم ہوں گی خود یہ سمندر بھی ختم ہوجائے گا اور ایک سمندر کا کیا کہنا اگر اور سمندر بھی اس کے ساتھ ملا دیئے جائیں تو ان کی سیاہی بھی اللہ تعالیٰ کے کلمات یعنی اس کی قدرتوں اور حکمتوں اور اس کی قدرت کے عجائبات کو شمار کرنے سے عاجز ہے۔ خود سمندروں سے اگر یہ کہا جائے کہ قدرت نے تمہارے اندر جو بیشمار مخلوقات اور حیرت انگیز چیزوں کے خزینے دفن کر رکھے ہیں تم ان کو ہی شمار کرکے دکھا دو تو وہ انھیں شمار کرنے سے بھی عاجز ہیں۔ ہم خشکی پر جس قدر مخلوقات کو دیکھتے ہیں جو حدوشمار سے باہر ہیں تو کہا جاتا ہے کہ سمندر کی مخلوقات اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ تو پھر جس طرح زمین کی مخلوقات کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اس زمین پر بیشمار نعمتیں پیدا کی گئی ہیں۔ قسم قسم کے جانور، رنگا رنگ نباتات، ہر آن بدلتے ہوئے موسم، اٹھتی ہوئی گھٹائیں، بیشمار رنگوں کے بادل، آسمان پر بننے والی قوس قزح، زمین پر اچھلنے والے چشمے، پارے کی طرح گرتی ہوئی آبشاریں، چاندی کی طرح بہتا ہوا پانی، تازہ بہ تازہ نکلتے ہوئے شگوفے، زمین پر پھیلی ہوئی بیلیں، لہلہاتی ہوئی فصلیں، پھولتی ہوئی سرسوں، مسکراتا ہوا زعفران زار، سونا اچھالتی ہوئی گندم کی فصل، مہکتے ہوئے گلستان، اودے اودے نیلے نیلے اور پیلے پیلے پیراہن پہنے ہوئے پھول اور پھر ہر پھول کا حیران کردینے والا رنگ اور ہر پنکھڑی پر کھلا ہوا دفترِ کردگار، درختوں کی خوشنما چھتریاں اور گھنے سائے اور پھلدار پودوں کے رسیلے پھل، اس کی قدرت کی کس کس نشانی کا ذکر کیا جائے۔ جن لوگوں نے خود انسان کو موضوع بنایا ہے انھوں نے انسان کی آنکھ کی تخلیق کو قدرت کا شاہکار لکھتے ہوئے ضخیم کتابیں لکھیں۔ اس کے چند انچ پر پھیلے ہوئے انگوٹھے کے حیرت انگیز خطوط کو ایسا عجوبہ قرار دیا ہے کہ ساری دنیا مل کر جس کی نظیر لانے سے قاصر ہے۔ انسان کے اندرکا پیچیدہ نظام آج تک اس کی ساری گتھیاں سلجھائی نہیں جاسکیں۔ حیوانوں میں سب سے بےڈول جانور اونٹ کہا جاتا ہے۔ اس کے جبڑے پر مصر میں تحقیق ہوئی ہے اور ابھی نامکمل تحقیق پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ لیبارٹری نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مکھی کے دونوں پروں میں قدرت نے حیرت انگیز طور پر زہر بھی رکھا ہے اور تریاق بھی۔ ایک پَر میں زہر ہے اور ایک میں تریاق۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اگر مکھی پڑجانے کے بعد مشروب پینا پڑے تو اس کو پورا ڈبو کر نکالو، کیونکہ وہ زہر والا پَر ڈبوتی ہے اور تریاق والا پَر اوپر رکھتی ہے۔ اس کا پورا جسم ڈوبنے سے زہر کا تریاق ہوجاتا ہے، بلکہ ماہرین کا خیال یہ ہے کہ اگر اس کے زہر کی پڑیا کو پوری طرح کھول دیا جائے تو اس سے 200 انسانوں کی موت واقع ہوسکتی ہے، لیکن قدرت نے اس کے دوسرے پَر میں اس زہر کا مکمل تریاق رکھا ہے۔ مختصر یہ کہ اس کی قدرتوں اور حکمتوں کی نشانیوں کا کوئی شمار نہیں، لیکن انسان کی بےبصیرتی کا کیا کہنا کہ اس کا اپنا جسم، اپنی روح اور اس کے گردوپیش میں پھیلی ہوئی دنیا اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے معمور ہے، لیکن وہ انھیں دیکھنے کی بجائے اور نشانی دیکھنا چاہتا ہے۔ دور نہ جایئے خود اس زمین کو دیکھ لیجئے جس پر انسان چلتا پھرتا اٹھتا بیٹھتا اور زندگی کے معمولات انجام دیتا ہے اور بالآخر اسی میں دفن ہوتا ہے۔ انسان بہت کم اس زمین کی حقیقت پر غور کرنے کی فرصت نکالتا ہے حالانکہ بیشمار نشانیوں میں سے زمین بجائے خود ایک بڑی نشانی ہے۔ سائنسدان ہمیں بتاتے ہیں کہ آغاز تخلیق میں جب زمین آفتاب سے الگ ہوئی تھی تو اس کا درجہ حرارت وہی تھا جو سورج کا ہے یعنی 12000 فارن ہائیٹ۔ جب یہ حرارت کم ہوتے ہوتے 4000 فارن ہائیٹ ہوگئی تو آکسیجن کی ایک خاص مقدار ہائیڈروجن کی طرف بھاگی اور پانی تیار ہوگیا۔ ان گیسوں کی مختلف مقادیر سے کروڑوں مرکبات تیار ہوسکتے ہیں۔ لیکن پانی ان کی صرف ایک ترکیب تقریباً دو حصے ہائیڈروجن اور ایک حصہ آکسیجن سے بنتا ہے اور باقی تمام مرکبات زہر ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اوزان و مقادیر کا یہ تعین خودبخود ہوگیا تھا ؟ کیا یہ ممکن ہے کہ کیمسٹ کی دکان میں مفرد ادویہ ازخود ایک دوسرے سے مل کر مرکب بن جائیں یا لکڑی کے تختے کشتی کی صورت اختیار کرلیں ؟ زمین کے سلسلہ میں اس پر غور فرمائیں کہ یہ زمین کہاں سے آئی ؟ ماہرینِ ارض نے اس سوال کا یہ جواب دیا ہے کہ آج سے ہزارہا صدیاں پہلے ایک بہت بڑا ستارہ سورج کے قریب سے گزرا۔ زورِکشش سے سورج کے چند ٹکڑے کٹ کر خلا میں گھومنے لگے۔ ان میں سے ایک زمین تھی۔ ان ٹکڑوں کو قریب کے ستاروں نے کھینچ کر متوازن کردیا۔ زمین کی دو حرکتیں ہیں ایک اپنے گرد جو 24 گھنٹوں میں مکمل ہوتی ہے اور دوسری آفتاب کے گرد جو 365 دن لیتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق زمین کو آفتاب سے جدا ہوئے آج 2 ارب صدیاں گزر چکی ہیں لیکن ان گردشوں میں ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آیا ورنہ علمائے ہئیت کے تمام حساب غلط ہوجاتے۔ اپنے گرد زمین ایک ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گھوم رہی ہے اور آفتاب کے گرد 68000 میل فی گھنٹہ کے حساب سے۔ اگر اس کی پہلی رفتار کو 10 گنا کم کردیا جائے تو شب و روز 10 گنا لمبے ہوجائیں گے۔ جون میں 140 گھنٹے کا گرم دن زمین کو جھلس کر رکھ دے گا اور جنوری کی اتنی ہی طویل رات ہر شے کو منجمد کردے گی اور اگر اسے بڑھا دیا جائے تو ہر شے کا وزن کم ہوتا جائے گا اور جب یہ رفتار 16200 میل فی گھنٹہ تک پہنچے گی تو کسی چیز میں کوئی وزن نہیں رہے گا ہوا کا ایک ہلکا سا جھونکا درختوں اور مکانوں کو گرا دے گا اور ہا کی کا بال ہٹ ہونے کے بعد ہوا میں اڑ جائے گا اور پھر کبھی واپس نہیں آئے گا۔ زمین کا وزن 5 ارب بلین ٹن ہے۔ اگر آدھا ہوتا تو کشش ثقل نصف رہ جاتی اور اشیاء کا وزن آدھا ہوجاتا۔ اگر یہ وزن دوگنا ہوتا تو ہر چیز کا وزن ڈبل ہوجاتا۔ زمین سورج سے تقریباً 9 کروڑ 29 لاکھ میل دور ہے۔ اگر یہ فاصلہ کم ہوتا تو ہم گرمی سے مرجاتے اور زیادہ ہوتا تو سردی سے مرجاتے۔ کرہ زمین کا رخ آفتاب کی طرح بالکل سیدھا نہیں بلکہ 23 درجہ کے قریب ایک طرف جھکا ہوا ہے۔ یہی جھکائو موسموں کا سبب ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہر دن پچھلے دن جیسا ہوتا اور ہم سردی، گرمی، بہار اور برسات کے مناظر، غذائوں اور پھلوں سے محروم رہ جاتے۔ آغازِ آفرینش میں جب زمین ٹھنڈی ہوئی تو دو گیسیں یعنی نائٹروجن اور آکسیجن باہم مل کر ہوا میں تبدیل ہوگئیں۔ نائٹروجن کی مقدار 3.78 تھی اور آکسیجن کی 99.20 آکسیجن ایک آتش پذیر گیس ہے۔ اگر فضا میں اس کی مقدار زیادہ ہوتی تو آسمانی بجلی کے ایک شرر سے آگ بھڑک اٹھتی اور سب کچھ جل جاتا اور اگر موجودہ مقدار سے نصف ہوتی تو نہ چولہوں میں آگ جلتی اور نہ حیوانی زندگی باقی رہتی۔ کرہ ہوا میں ذرات گرد آبی بخارات اور گیسوں کی وجہ سے کچھ کثافت ہوجاتی ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا تو لاتعداد شہاب جو کثیف ہوا کی رگڑ سے جل کر راکھ ہوجاتے ہیں ہم پر اتنے شرر اور پتھر برساتے کہ زندگی ختم ہوجاتی۔ زمین کا بیشتر حصہ سمندر نے گھیر رکھا ہے۔ ممکن ہے زمین کا بستر سمندر پر ہی بچھایا گیا ہو۔ اگرچہ یہ حقائق متشابہات میں سے ہیں تاہم سمندر ایک حقیقت ہے جس سے انسان کا شب و روز کا واسطہ ہے۔ جس طرح زمین کے مخفی حقائق اللہ تعالیٰ کی بیشمار نشانیوں پر مشتمل ہیں اسی طرح سمندر بھی اس کی نشانیوں کا مرقع ہے۔ اس وقت ان نشانیوں کو پیش کرنا مقصود نہیں کہنا صرف یہ ہے کہ سمندر کے قریب پہنچتے ہی جاننے والے اس کے عجیب و غریب حقائق کا انکشاف کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سمندر کے پاس ہوا کا دبائو 15 پونڈ فی انچ ہوتا ہے اور ہزار فٹ کی بلندی پر تقریباً ساڑھے 14 پونڈ فی انچ۔ انسان کے کندھے اندازاً 10 مربع انچ گھیرتے ہیں۔ ان پر ہوا کا دبائو 1160 پونڈ یعنی ساڑھے 14 من ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان اس بوجھ کے نیچے پس کیوں نہیں جاتا۔ کاش ساحل سمندر پر رہنے والے اللہ تعالیٰ کی اس رحمت اور اس کی نشانی کا ادراک کرسکتے۔ زمین پر بسنے والوں کی سب سے بنیادی ضرورت غذا ہے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ انسان لطف و لذت سے بھرپور مختلف اور متنوع غذائوں سے شب و روز متمتع ہوتا ہے لیکن وہ ان نعمتوں سے شادکام ہوتا ہوا کبھی نہیں سوچتا کہ یہ نعمتیں آئیں کہاں سے۔ نعمتیں تو بیشمار ہیں لیکن غذا کا بنیادی عنصر گندم پر مشتمل ہے۔ انسان کو بہت کم اس پر غور کرنے کی فرصت ملتی ہے کہ آخر یہ گندم کہاں سے آئی۔ انسان گندم کے حصول کے لیے خود گندم زمین میں کاشت کرتا ہے۔ کاشت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ گندم کا ایک ایک دانہ زمین میں دفن کرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ دانہ مرجائے مگر بجائے مرنے کے اس میں زندگی کی سوئی پھوٹتی ہے جو بڑھتے بڑھتے تنا بنتی ہے، پھر اسے خوشے لگتے ہیں، خوشوں میں دانوں کے موتی بھر دیئے جاتے ہیں، سورج کی کرنیں پانی کے ڈول بھر بھر کر فضا میں ابر کی چادریں پھیلا دیتی ہیں۔ ابر پانی برسا کر کھیتی کی آبیاری کا سامان کرتا ہے، سورج اسے گرمی پہنچاتا ہے، چاند اسے حلاوت دیتا ہے۔ ہوا اسے لوریاں دیتی ہے، زمین اپنی قوت نمو بروئے کار لاتی ہے اور پھر قدرت نہ جانے کیسی کیسی قوتوں کو کام میں لا کر انسان کے لیے غذا فراہم کرتی ہے۔ سائنسدان کہتا ہے کہ نائٹروجن حیوانی و نباتاتی حیات کا لازمی جزو ہے۔ یہ دو طریقوں سے زمین میں داخل ہوتی ہے۔ اول خوردبینی اجرام یا بیکٹیریا کے ذریعے جو زمین کی بالائی تہہ میں رہتے ہیں اور کھاد وغیرہ کھا کر ایک ایسا رس خارج کرتے ہیں جن میں نائیٹروجن بہت زیادہ ہوتی ہے۔ نصف چھٹانک زمین میں ان کی تعداد ایک کھرب، 35 ارب کے قریب ہوتی ہے اور زمین کے ہر ایکڑ میں ان کا کام بارہ آدمیوں کے برابر ہوتا ہے۔ اگر 100 ایکڑ کھیت میں 10 کسان ہل چلا رہے ہیں تو 1200 مزدوروں کا ایک مخفی لشکر بھی وہاں کام کررہا ہوتا ہے۔ غور فرمائیے ! اس غذا کو مہیا کرنے اور اسے پروان چڑھانے میں انسان کا حصہ کتنا ہے اور اللہ کا کتنا ؟ پروردگار فرماتے ہیں : اَفَرَئَ یْتُمْ مَّاتَحْرُثُوْنَ ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَـہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزَّارِعْوُنَ ( کیا تم نے اپنی کھیتی پر کبھی غور کیا زراعت کون کرتا ہے تم یا ہم) دوسری جگہ ارشاد فرمایا : فَلْیَنْظُرِالْاِنْسَانُ اِلَی طَعَامِہٖٓ اَنَّاصَبَبْنَا الْمَآئَ صَبًّا ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَ شَقًّا فَاَنْبَتْنَا فِیْھَا حَبًّا وَّعِنَبًا وَّقَضْبًا وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلًا وَّحَدَآئِقَ غُلْبًا وَّفَاکِھَۃً وَّاَبًّا مَّتَاعًالَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْ (انسان ذرا اپنی غذا پر نظر ڈالے (کہ کہاں سے آئی) ہم نے مینہ برساکر زمین کا سینہ چیر ا، اس سے غلے، انگور، ترکاری، زیتون، کھجوریں، گھنے باغ، میوے اور چارہ پیدا کیا، یہ سب تمہارا اور تمہارے مویشیوں کا متاع حیات ہے۔ ) اسے اقبال مرحوم نے اپنے انداز میں نظم کیا ؎ پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون کون دریائوں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب کون لایا کھینچ کر پچھم سے باد سازگار خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نور آفتاب کس نے بھر دی موتیوں سے خوشہ گندم کی جیب موسموں کو کس نے سکھلائی یہ خوئے انقلاب انسان کی دوسری فوری اور ناگزیر ضرورت پانی ہے۔ آدمی پانی کی حقیقت پر غور کرے اور پھر اس کے فوائد کو سمجھنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت نمایاں نظر آتی ہے جس کے آئینے میں انسان اپنے پروردگار کی نشانیوں کو دیکھ سکتا ہے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس قدر فراخی اور وسعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے پانی کے خزانے پیدا فرمائے اور زمین کی تخلیق کے ساتھ جب پانی کو پیدا فرمایا گیا تو کس طرح قیامت تک کی مخلوقات کی ضروریات کو ملحوظ رکھا گیا ‘ نہ جانے کتنے زمانے گزر گئے لیکن آج تک پانی کے خزانوں میں کبھی کمی نہیں آئی اور پھر چونکہ یہ انسان کی ایسی ضرورت ہے جس سے انسان کبھی صرف نظر نہیں کرسکتا اس لیے ہوا کے بعد اس کے ناپیداکنار سمندر پیدا فرمائے اور کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پانی کا پہنچنا آسان نہیں کیا گیا۔ کہیں سمندروں کو پیدا کیا گیا، کہیں چشمے جاری کردئیے گئے اور پھر ساتھ ساتھ یہ انتظام فرمایا کہ سردیوں میں پہاڑوں پر برف جما کر گرمیوں میں اسے پگھلاکر زمین کی آبیاری کا سامان کیا گیا اور پھر ایک ایساحیرت انگیز انتظام دیکھنے میں آتا ہے کہ سمندر سے بھاپ اٹھاکر بادلوں کی چادریں بچھائی جاتی ہیں اور انھیں اس طرح برسایا جاتا ہے کہ زمین کا ایک ایک گوشہ اس سے معمور ہوجاتا ہے اور پھر ایسا نہیں ہو تاکہ سارا پانی زمین میں جذب ہوجائے اور زمین دلدل بن جائے اور نہ ایسا ہوتا ہے کہ سارا پانی بہہ جائے اور ندی نالوں میں پہنچ جائے اور زمین مناسب آبیاری سے محروم رہ جائے بلکہ قرآن کہتا ہے کہ ضرورت کے مطابق ہم پانی زمین میں جذب کرتے ہیں جہاں مزید ضرورت ہوتی ہے اس کو روک دیتے ہیں اور باقی پانی ہم ندی نالوں اور جدولوں کی شکل میں واپس دریائوں سمندروں میں لے جاتے ہیں اور پھر پانی کے اوصاف کو دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے اور بےساختہ اپنے رب کی یاد آنے لگتی ہے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔ 1 پانی کو سیال پیدا کیا گیا اگر ایسا نہ ہوتا تو اس سے پیاس بجھتی نہ کپڑے صاف ہوتے اور نہ کھیتیاں سیراب ہوتیں۔ 2 جب پانی جمنے لگتا ہے تو وہ کثیر مقدار میں حرارت خارج کرتا ہے جس سے نیچے کا پانی متأثر ہوتا اور غیرمنجمد رہتا ہے۔ اگر سردیوں میں سارا پانی جم جاتا تو تمام مچھلیاں اور پانی کے دیگر جانور مرجاتے۔ 3 برف پانی سے ہلکی ہوتی ہے یہ پانی کی سطح پر رہ کرنیچے کے پانی کو انجماد سے بچاتی ہے۔ 4 اگر سمندر منجمد ہوتے تو دنیاسردی سے ہلاک ہوجاتی۔ اگر ابل رہے ہوتے تو گرمی سے مرجاتی۔ اس کا اعتدال ہی بقائے حیات کا باعث ہے۔ اسی طرح جب ہم اپنے گردوپیش پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں نباتات کی چاروں طرف پھیلی ہوئی ایک دنیا دکھائی دیتی ہے۔ درخت سراٹھائے کھڑے ہیں۔ سبزے کی چادریں بچھی ہوئی ہیں، فصلیں لہلہارہی ہیں۔ لیکن کبھی ہم نے نباتات کے اعجاز پر غور نہیں کیا کہ یہ نباتات صرف کائنات کا حسن ہی نہیں یہ ہمارے لیے مدار حیات بھی ہیں۔ یہ غلہ اور پھل جو ہم کھاتے ہیں، یہ کپڑے جو ہم پہنتے ہیں، یہ چائے، کافی اور شربت جو ہم پیتے ہیں، سب نباتات سے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ ربڑ، یہ کاغذ، یہ کوئلہ، یہ تیل، یہ صابن، سب نباتات کا کرشمہ ہے۔ ہماری یہ الماری میں سجی ہوئی کتابیں وہ جنگل ہیں جنھیں مزدور کاٹ کر کاغذ کے کارخانوں تک لے گئے تھے۔ پھولوں کے ننھے پودے سے لے کر چنار کے درخت تک آپ کو نباتات کی کروڑوں اقسام نظر آئیں گی۔ ان میں سے کچھ باغوں کی آرائش ہیں، کچھ ہماری غذا ہیں اور کچھ متاع حیات۔ یہ سب ایک ہی زمین سے اگتی ہیں اور ایک ہی پانی سے نشو و نما پانی ہیں۔ لیکن کمال تخلیق دیکھیے کہ سب کی حیثیت، رنگ، قامت، تاثیر، بو اور ذائقہ الگ ہے۔ وَفَی الْاَرْضِ قِطْعٌ مُّتَجَوِّرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّزَرْعٍ وَّنَخِیْلٍ صِنْوَانٍ وَّغَیْرِ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَآئٍ وَّاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَھَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاَکْلِ اَنَّ فِی ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ (زمین میں پاس پاس ایسے قطعات ہیں جن میں کہیں کھیتی، کہیں انگور اور کہیں کھجور کے درخت ہیں، ان میں سے کچھ ایک جڑ سے نکلتے ہیں اور کچھ الگ جڑوں سے، ان سب کی پرورش ایک ہی پانی سے ہوتی ہے ‘ لیکن ان کے ذائقے الگ الگ ہیں، ان باتوں میں اربابِ دانش کے لیے کتنے ہی اسباب و شواہد موجود ہیں۔ ) درخت اپنے پتوں کا دامن ہوا اور سورج کے سامنے پھیلاکر ان سے زندگی کی بھیک مانگتے ہیں۔ ان کی جڑیں بطن زمین سے پانی اور غذا لے کر بلند شاخوں تک پہنچاتی ہیں اور پھلوں میں رس، مٹھاس اور خوشبو بھرتی ہیں۔ کیا یہ حیرت انگیز نظام اور نتائج و علل کا ایک مربوط سلسلہ اس سے بڑھ کر کوئی اور نشانی بھی ہوسکتی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلمات یعنی اس کی قدرت و حکمت کی نشانیاں اس قدر بیشمار ہیں انھیں لکھنے کے لیے نہ سمندروں کی سیاہی کفایت کرسکتی ہے اور نہ انسانوں کی زندگیاں اس کے لیے کافی ہوسکتی ہیں۔ شیخ شیراز نے اس بات کو اپنے عجز کے اعتراف پر ختم کرتے ہوئے کہا : دفتر تمام گشت و بپایاں رسید عمر ما ہمچناں دراولِ وصفِ تو ماندہ ایم
Top