Tafseer-e-Mazhari - Al-Kahf : 84
اِنَّا مَكَّنَّا لَهٗ فِی الْاَرْضِ وَ اٰتَیْنٰهُ مِنْ كُلِّ شَیْءٍ سَبَبًاۙ
اِنَّا مَكَّنَّا : بیشک ہم نے قدرت دی لَهٗ : اس کو فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَاٰتَيْنٰهُ : اور ہم نے اسے دیا مِنْ : سے كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے سَبَبًا : سامان
ہم نے اس کو زمین میں بڑی دسترس دی تھی اور ہر طرح کا سامان عطا کیا تھا
انا مکنا لہ فی الارض ہم نے ہی اس کو زمین میں اقتدار عطا کیا تھا۔ وہ جس طرح چاہتا تھا حکم چلاتا تھا۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت علی ؓ نے فرمایا بادل کو ذوالقرنین کے حکم کے تابع بنا دیا گیا تھا ابر پر وہ سوار ہوتا تھا اس کے ذرائع دراز کردیئے گئے تھے اس کیلئے روشنی پھیلا دی گئی تھی (یعنی رات بھی اس کیلئے روشن کردی گئی تھی) رات دن اس کے لئے برابر تھے تمکین فی الارض کا یہی معنی ہے مطلب یہ ہے کہ زمین پر رفتار اس کے لئے آسان کردی گئی اور سارے راستے اس کے لئے کھول دیئے گئے تھے (راستے آسان کرنے کا شاید یہ مقصود ہو کہ ہر طرح کی سواری اس کو میسر تھی اور رات دن یا موسم کا اختلاف اس کے رفتار پر اثر انداز نہ ہوتا تھا) واتینہ من کل شئی سببا۔ اور ہر قسم کا سامان ہم نے اس کو عطا کردیا تھا یعنی جو چیز وہ چاہتا تھا اور جس طرف رخ کرتا تھا اس کا علم قدرت اور دوسرے کار برآری کے ذرائع ہم نے اس کو عطا کردیئے تھے۔ یا یہ مطلب ہے کہ مخلوق کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ذوالقرنین کو اس کے حصول کے ذرائع ہم نے دے دیئے تھے یا یہ مقصد ہے کہ بادشاہوں کو دشمنوں سے لڑنے اور ملک فتح کرنے میں جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب ذوالقرنین کو ہم نے دے دی تھیں۔ بعض نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ زمین کے کناروں کو ہم نے اس کے لئے قریب کردیا تھا۔ بغوی نے لکھا ہے حسن بصری نے سبباً کا ترجمہ بلاغاً کیا ہے یعنی مقصد تک پہنچانے والے اسباب ہم نے ذوالقرنین کو دے دیئے تھے۔
Top