Ruh-ul-Quran - Maryam : 70
ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِیْنَ هُمْ اَوْلٰى بِهَا صِلِیًّا
ثُمَّ : پھر لَنَحْنُ : البتہ اَعْلَمُ : خوب واقف بِالَّذِيْنَ : ان سے جو هُمْ : وہ اَوْلٰى بِهَا : زیادہ مستحق اس میں صِلِيًّا : داخل ہونا
پھر بیشک ہم ان لوگوں کو خوب جانتے ہیں جو جہنم میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ سزاوار ہوں گے۔
ثُمَّ لَنَحْنُ اَعْلَمُ بِالَّذِیْنَ ھُمْ اَوْلٰی بِھَا صِلِیًّا۔ (مریم : 70) (پھر بیشک ہم ان لوگوں کو خوب جانتے ہیں جو جہنم میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ سزاوار ہوں گے۔ ) صِلِیًّا … علامہ قرطبی نے جوہری کے حوالے سے لکھا ہے کہ جب کسی چیز کو تم آگ میں جھونک دو تو عرب کہتے ہیں : صلیت الرجل نارا اذا ادخلتہ النار وجعلتہ یصلاھا۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ کسی کو یہ گمان نہ ہو کہ کفار کی جہنم پر ایسی بھیڑ ہوگی جس کا شمار ہی ممکن نہیں ہوگا، تو ایسی افراتفری میں کون جان سکے گا کہ کون جہنم کے کس حصے اور کس وادی میں داخل کیے جانے کا مستحق ہے اور ممکن ہے اس بھیڑ میں ایسے لوگ بھی دھر لیے جائیں جو سرے سے جہنم میں داخل کیے جانے کے مستحق نہ ہوں۔ اس طرح کی غلط فہمیوں کے ازالے کے لیے فرمایا کہ ایسی غلط فہمی صرف اس شخص کو ہوسکتی ہے جو ہمارے علم کی وسعت سے ناواقف ہے۔ دنیا میں ہماری مخلوقات بیشمار رہی ہیں لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خاکی مخلوق کو سمندر میں پیدا کردیا ہو اور آبی مخلوق کو کسی صحرا میں جنم دیا گیا ہو۔ پھر مخلوقات کی بیشمار اقسام ہیں۔ ان میں سے ہر مخلوق کو اس کی ضرورت کے مطابق رزق دیا جارہا ہے۔ کبھی ایسا نہیں دیکھا گیا کہ کسی مخلوق کو دوسری مخلوق کا رزق دے دیا گیا ہو۔ منطقہ باردہ کے جانور منطقہ حارہ میں نہیں پائے جاتے۔ اور منطقہ حارہ کے جانور منطقہ باردہ میں نہیں ہوتے۔ حشرات الارض کی ایسی قسمیں بھی ہیں جو زمین کے نیچے اور چٹانوں کے گوشوں میں آباد ہیں، لیکن وہیں ان کی ضرورت کے مطابق انھیں غذا مل رہی ہے۔ جس پروردگار کی علمی وسعت کا یہ عالم ہو اس کے بارے میں یہ سمجھنا کہ وہ اہل جہنم کے بارے میں کیسے صحیح فیصلہ کرسکے گا، کج فکری کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس لیے پروردگار نے فرمایا کہ ہم خوب جانتے ہیں، اب بھی جانتے ہیں اور اس وقت بھی جانتے ہوں گے کہ کون شخص جہنم کا سزاوار ہے اور کس وارڈ میں رکھے جانے کے قابل ہے۔ اور جن شیاطین نے دوسروں کو گمراہ کیا انھیں الگ نکال کر زیادہ سزا کی وادیوں میں کہاں رکھا جاسکتا ہے۔ اسی سے کفار کے اس عقیدے پر بھی چوٹ لگانا مقصود ہے کہ تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے جن کو اللہ تعالیٰ کا شریک بنا رکھا ہے وہ شاید یہ کہہ کر ہمیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے چھڑا لیں کہ ہم ان لوگوں کو خوب جانتے ہیں، اس لیے ہم سفارش کرتے ہیں کہ ہمارے علم کے مطابق یہ بہت اچھے لوگ ہیں انھیں چھوڑ دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر ایسے تصورات کی جڑ کاٹ دی کہ ہم سے زیادہ جاننے والا کوئی نہیں۔ اس لیے نہ ہمیں کسی کے مشورے کی ضرورت ہے اور نہ کوئی یہ کہنے کی جسارت کرسکتا ہے کہ ہم اس مجرم کو زیادہ جانتے ہیں اور یہ نرمی کا مستحق ہے۔
Top