Madarik-ut-Tanzil - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے پیغمبر اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت و آرائش کی خواستگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح رخصت کردوں
طلب ِخوشی کا جواب : 28: یٰٓـاَیـُّھَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا (اے نبی ﷺ آپ اپنی بیویوں سے فرمادیں۔ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی بہار چاہتی ہو) یعنی خوشحالی اور کثرت ِاموال فَتَعَالَیْنَ (تو آئو) ۔ یہ اصل میں تعال ہے۔ جو کسی بلند جگہ میں ہو اس کو نچلی جگہ والا بلانے کے لئے کہتا ہے پھر اس کا استعمال عام ہو کر اونچی، نیچی تمام جگہوں کیلئے ہونے لگا تعالین ؔ کا معنی اپنے ارادہ اور اختیار سے ایک امر کا چنائو کرلو۔ اس سے مراد جگہ سے اٹھ کرجانا نہیں ہے۔ جیسا کہ اس قول میں ہے قام یُھَدِّدُنِیْ (وہ مجھے دھمکانے لگا) ۔ اُمَتِّعْکُنَّ (میں تمہیں کچھ متاع دے دوں) متعہ طلاق مراد ہے۔ اور یہ متعہ طلاق ہر مطلقہ کیلئے مستحب ہے۔ سوائے اس عورت کے جو طلاق سے قبل اپنا حق تفویض کردے۔ یہ آیت تخییر ہے : وَاُسَرِّحْکُنَّ (اور تمہیں رخصت کر دوں) طلاق دے کر رخصت کرنا مراد ہے۔ سَرَاحًا جَمِیْلًا (اچھی طرح رخصت کرنا) دنیا کی جو چیز کپڑے، خرچہ میں اضافہ و تبدیلی اس میں کمی نہ کی جائے گی۔ آپ ﷺ اس بات سے غمزدہ ہوئے۔ پس یہ آیت تخییر نازل ہوئی۔ پس آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے ابتداء کی یہ آپ کی سب سے زیادہ محبوب بیوی تھیں۔ ان پر جب آپ نے آیت تخییر پڑھی تو انہوں نے اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو پسند کیا۔ آپ ﷺ کے چہرہ مبارک سے غم کا بادل چھٹ کر چاند کی چمک آگئی۔ پھر تمام ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہن نے اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرلیا۔ جیسے عائشہ ؓ نے کیا۔ روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے عائشہ ؓ کو فرمایا میں تمہیں ایک بات کہنے والا ہوں۔ تم اپنے والدین کے مشورہ کے بغیر اس کا جواب دینے میں جلدی نہ کرنا۔ پھر ان کے سامنے قرآن مجید کی یہ آیات پڑھیں تو حضرت عائشہ ؓ نے آیات سننے کے بعد کہا کیا اس معاملے میں اپنے والدین سے مشورہ کروں۔ میں تو اللہ اور اس کے رسول اور آخرت والے گھر کو پسند کرتی ہوں۔ ] رواہ البخاری : 4785: مسلم 1475[۔ تخییر کا حکم : طلاق کے سلسلہ میں تخییر کا حکم یہ ہے کہ جب اس نے اپنی بیوی کو کہا اختاری بیوی نے کہا اخترت نفسی۔ ایک طلاق بائنہ ہوجائے گی۔ علی ؓ فرماتے ہیں۔ اگر اس نے اپنے خاوند کو اختیار کیا تو اس کو ایک طلاق رجعی واقع ہوجائے گی اور اگر اپنے آپ کو اختیار کرلیا تو ایک طلاق بائنہ واقع ہوجائے گی۔
Top