Tafseer-e-Haqqani - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے نبی اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم کو دنیا کی زندگی اور اس کی آرائش منظور ہے تو آؤ میں تم کو کچھ دے دلاکر اچھی طرح سے رخصت کردوں
ترکیب : ان شرطیۃ و جو ابھا فتعلین امتعکن و اسرحکن بالجزم علیٰ انہ جواب للامر فتعالین و بالرفع علی الاستیناف للمحسنات متعلق باعد منکن حال من المحسنات او بیان لاتبعیض اجراء عظیما مفعول لاعد یضاعف جواب من یات۔ تفسیر : اس سورة میں پیشتر اخلاق انسانی کی اصلاح ہے اور اس مسئلہ کو نہایت تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ معاشرت کے متعلق سب سے اول بات احکام الہیہ کا اتباع ہے۔ کس لیے کہ عقول عالیہ جو مؤید بالالہام ہیں، معاشرت و تمدن میں رسم و رواج سے جو تغیرات واقع ہوئے ہیں ان کا فیصلہ انہی کے ہاتھ ہے، اس لیے سب سے اول خود آنحضرت ﷺ کو اتباع وحی کا حکم بڑی تاکید سے دیا، اس کے بعد ان لوگوں کی سرزنش کی جو سخت حوادث میں احکام الہامیہ کی مخالفت کربیٹھے ہیں۔ جیسا کہ غزوئہ احزاب میں منافقوں سے ظہور میں آیا، جن کی مذمت پچھلی آیتوں میں کی گئی۔ کس لیے کہ رسول الٰہی کی مخالفت سخت محرومی کا باعث ہے۔ اب ایک بات اور اخلاق کے متعلق رہ گئی تھی، جن کو ان آیات یا ایھا النبی قل لازواجک الخ میں ارشاد فرماتا ہے۔ وہ مسئلہ معاشرت ازواج کا ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ایلاء : منافقوں کی تکلیف آنحضرت ﷺ کو دلی عداوت اور پوشیدہ کفر کی وجہ سے تھی، مگر حضرات امہات المومنین ؓ کی طرف سے دنیاوی تجمل اور مرفہ الحالی کے سامان طلب کرنے سے بھی آنحضرت ﷺ کو سخت تکلیف پہنچتی تھی، گو دل سے محبت اور ایمان رکھتی تھیں اور آپ کو اللہ کا رسول برحق جانتی تھیں، لیکن بااینہمہ اپنا شوہر بھی سمجھتی تھیں اور جیسا کہ عورتوں کی جبلت اور طینت ہے، آپ سے دنیاوی معاملات میں وہی برتاوا برتتی تھیں کہ جو معمولی عورتیں اپنے خاندانوں سے برتا کرتی ہیں، یہ لاؤ وہ لاؤ ہمارے پاس فلاں چیز نہیں فلاں کے پاس یہ کچھ ہے، اس پر متعدد بیویوں کی باہمی رقابت اور رشک اور بھی افروختگی کا باعث ہوتا تھا، اس لیے ایک بار آنحضرت ﷺ سب سے خفا ہو کر ایک مہینے تک الگ مکان میں بیٹھ گئے اور صحابہ ؓ کے پاس بھی تشریف نہ لائے، تب یہ آیات نازل ہوئیں جن میں ازواج مطہرات کو تعلیم و تہدید و ترغیب دی گئی۔ اس آیت میں ازواج مطہرات کو دو باتوں میں اختیار دیا گیا اور اس لیے اس آیت کو آیت تخییر کہتے ہیں کہ اگر تم کو حیات دنیا اور اس کی آرائش منظور ہے تو آؤ میں تم کو کچھ دے 1 ؎ کر بالکل چھوڑ دوں، طریق سنت پر طلاق دے دوں، پھر تم جہاں چاہو جاکر دنیا حاصل کرو اور اگر تم کو اللہ اور اس کا رسول اور دار آخرت منظور ہے تو اللہ نے تم نیک بخت بیویوں کے لیے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ اس آیت کے بعد ازواج مطہرات نے طلاق لینا منظور نہ کیا اور آخرت اور اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کیا اور عہد کیا کہ آیندہ آنحضرت ﷺ سے اس قسم کے سوال نہ کریں گی۔ بخاری نے حضرت عائشہ ؓ سے روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سب سے اول حضرت ﷺ نے مجھے فرمایا اور یہ بھی کہہ دیا کہ جلدی نہ کرنا اپنے ماں باپ سے صلاح لے کر کرنا، میں نے کہا وہ کیا ہے، فرمایا تو مجھے اختیار کرتی ہے اور آخرت کو یا دنیا کو۔ میں نے کہا، اس بارے میں ان سے کیا پوچھوں گی، میں نے اللہ اور اس کے رسول اور دار آخرت کو اختیار کیا۔ اسی طرح سب بیویوں نے کہا، اسی مضمون کو مسلم نے اور ابن جریر اور احمد اور نسائی نے بھی روایت کیا ہے۔ 1 ؎ متعہ طلاق جو مہر کی جگہ دیا جاتا ہے۔ کپڑوں کا جوڑا 12 منہ اور جو تم میں سے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گی اور نیک کام کرے گی تو ہم اس کو دو بار اس کا بدلہ دیں گے اور اس کے لیے عزت کی روزی بھی تیار کر رکھی ہے۔ اے نبی کی بیویو ! تم کسی عام عورتوں جیسی نہیں ہو، اگر تم اللہ سے ڈرتی رہو تو دبی زبان سے بات نہ کہا کرو، کیونکہ جس کے دل میں مرض ہے وہ طمع کرے گا اور (بےرکاوٹ) دستور کے موافق کلام کیا کرو اور اپنے گھروں میں بیٹھی رہا کرو اور (بناؤ سنگھار) دکھاتی نہ پھرا کرو جیسا کہ اگلے جاہلیت کے زمانہ میں دکھاتی پھرا کرتی تھیں اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرو۔ اللہ بھی چاہتا ہے کہ اے گھر والو تم میں سے ناپاکی دور کردے اور تم کو خوب پاک کردے اور تمہارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں اور حکمت کی باتیں تم کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں، ان کو یاد رکھو بیشک اللہ جو ہے تو بھید جاننے والا ‘ خبردار ہے۔ ترکیب : ومن شرطیۃ یقنت بالیاء رعایۃ للفظ من وبالتاء رعایۃ لمعنا ھا۔ تعمل معطوف علی یقنت نوتہا، جوابھا، واعتدنا، معطوف علی نوء تھا کا حد اصل احد وحد بمعنی الواحد ثم وضع فی النفیء العام مستوھا فیہ المذکر والمونث والواحد والکثیر والمغنی لستن کجماعۃ واحدۃ من جماعات النساء فی الفضل، اھل البیت منصوبا علی النداء والمدح من آیات بیان لمایتقی والحکمۃ معطوف علیٰ آیات اللہ۔ تفسیر : اس آیت کے متعلق یہ بات باقی رہ گئی، وہ یہ کہ علماء کی اس بارے میں بحث ہے کہ یہ اختیار کیا، تفویض طلاق تھی کہ نفس اختیار سے طلاق واقع ہوجاتی یا نہیں ؟ حسن اور قتادہ اور اکثر اہل علم اس بات کے قائل ہیں کہ یہ بات نہ تھی، بلکہ اس بات میں اختیار دیا تھا کہ دنیا کو اختیار کرتی ہو تو آؤ طلاق لے لو یا آخرت کو منظور کرتی ہو، خود طلاق لے لینے میں بھی اختیار نہ دیا تھا۔ بدلیل قولہ تعالیٰ فتعالین امتعکن و اسرحکن سراحا جمیلا اور عائشہ ؓ و مجاہد و عکرمہ و شعبی و زہری و ربیعہ وغیرہم علماء کہتے ہیں کہ ان کو ازخود طلاق لے لینے میں بھی اختیار دے دیا تھا۔ یہاں تک کہ جو بیوی یہ کہہ دیتی کہ میں نے اپنے نفس کو اختیار کیا تو بغیر آپ کے طلاق دینے کے اس پر طلاق پڑجاتی۔ پہلا قول بہت ٹھیک ہے۔ مسئلہ جو کوئی اپنی بیوی کو اختیار دے دے کہ خواہ تو مجھے اختیار کرلے، خواہ طلاق لے لے، پس اگر وہ اپنے خاوند کو اختیار کرلے تو جمہور کے نزدیک طلاق نہیں پڑتی، مگر زید بن ثابت اور علی ؓ کا قول ہے کہ زوج کے اختیار کرلینے پر بھی ایک طلاق بائن پڑجاوے گی اور یہی قول حسن اور لیث اور خطابی اور نقاش کا ہے جو اس نے امام مالک (رح) سے نقل کیا ہے۔ قوی اول بات ہے، کیونکہ صحیحین میں عائشہ ؓ کا قول مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم کو اختیار دیا لیکن ہم نے حضرت ﷺ کو اختیار کرلیا، پھر اس سے ہم پر کوئی طلاق نہ واقع ہوئی اور قیاس بھی اسی کو چاہتا ہے کہ محض اختیار دینے سے طلاق واقع ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور اگر عورت نے اپنے نفس کو اختیار کرلیا تو جمہور کے نزدیک طلاق پڑجاوے گی، مگر عمرو ابن مسعود و ابن عباس ؓ و ابن ابی لیلیٰ اور ثوری اور شافعی (رح) یہ کہتے ہیں کہ ایک طلاق رجعی واقع ہوگی اور حضرت علی ؓ اور امام ابوحنیفہ (رح) کہتے ہیں، ایک طلاق بائن پڑے گی اور امام مالک (رح) کا بھی اسی طرف میلان ہے۔ 1 ؎ بغیر گواہ اور مہر کے وہ نبی کے لیے حلال ہوجاتی ہے۔
Top