Asrar-ut-Tanzil - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے پیغمبر ! اپنی بیویوں سے فرمادیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کی طلب گارہو تو آؤ میں تم کو کچھ مال ومتاع (دنیوی) عطا کردوں اور تم کو اچھی طرح رخصت کروں
آیات 28 تا 34 اسرار ومعارف جب یہ فتوحات حاصل ہوئیں تو مال غنیمت بھی ملا اور صابہ کرام رضہ اللہ عنہ کے معاشی حالات بھی کافی حد تک سدھر گئے مگر کاشانہ نبوی پر وہی حال تھا کہ کبھی بھی ایک دن دونوں وقت کا کھانا پیٹ بھر کر میسر نہ ہوتا تھا اور مہینوں چولہا نہ جلا کرتا تھا ازواج مطہرات نے باہمی مشورہ کر کے عرض کیا کہ اب تو اللہ نے فراخی بخشی ہے تو ساری غنیمت سحابہ میں نہ بٹ جائے بلکہمہ میں بھی کچھ آسانی اور فراخی عطا ہو اور گھر کے لیے کچھ نہ کچھ عطا ہوا کرے کہ یہ عسرت اور تنگدستی نہ رہے مگر یہ بات اپنی ذات اور اپنے گھر کے لیے آپ کو پسند نہ آئی اس پر یہ آیات نازل ہوئیں اور ازواج مطہرات کو اختیار دیا گیا کہ وہ موجودہ تنگی و عسرت کی حالت میں بھی آپ کا ساتھ نباہنا چاہتی ہیں یا الگ ہونا چاہیں تو بھی اختیار ہے۔ طلاق کا اختیار : یہاں سے علما نے ثابت فرمایا ہے کہ عورت کو طلاق کا اختیار دیا جاسکتا ہے کہ اگر نہ رہنا چاہے تو خود پر طلاق جاری کرلے اور یا پھر اختیار مرد کے پاس رہے اگر عورت مطالبہ کرے تو طلاق دے کر فارغ کردے دونوں صورتوں میں جائز ہے۔ تو ارشاد ہوتا ہے : اے نبی اپنی بیویوں سے کہ دیجیے کہ اگر انہیں دنیا کی آسودگی اور مال و دولت چاہیے تو دنیا اس گھر میں آنے سے رہی ہاں تمہیں مال و دولت دے کر بہت مناسب طریقے سے الگ کر کے رخصت کردیا جائے یعنی طلاق لے کر الگ ہوجاؤ۔ حضرت عائشہ رضہ اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ آپ نے سب سے پہلے مجھے فرمایا کہ میں ایک بات کہنے چلا ہوں مگر جواب دینے سے پہلے والدین سے مشورہ کرلینا تو یہ آیت سنائی فرماتی ہیں میں نے عرض کیا بھلا اس میں مشورہ کیسا میں تو اللہ اور اس کے رسول کو اختیار کرتی ہوں اور پھر باقی سب کو سنائی گئی تو سب نے یہی جواب دیا آپ ﷺ کو حضرت عائشہ سے بہت محبت تھی اور جانتے تھے کہ والدین سے مشورہ کریں گی تو وہ کبھی الگ ہونے کو نہ کہیں گے۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو اور آخرت کی زندگی میں بلندی درجات کو اختیار کرتی ہو تو یہ بہت اعلی نیکی ہے اور یہ نیکی اپنانے والیوں کو بہت ہی بڑا اجر عطا ہوگا ۔ مقربین کی خطا پر زیادہ سزا مرتب ہوتی ہے : اور اے ازواج نبی اگر تم ہی غلط کام کرنے لگو تو یہ نہ سمجھا جائے کہ مقرب بندہ کو گناہ کی اجازت ہے بلکہ تم لوگوں کو دو گناہ سزا دی جائے گی یا تمہاری خطا کو دو گناہ کردیا جائے گا اور اللہ کو ایسا کرنا کچھ مشکل نہیں۔ یہاں سے بائیسواں پارہ شروع ہوتا ہے اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی اطاعت اور اللہ کے رسول کا اتباع اختیار کرے گا اور عمل صالح اپنائے گا تو اس کی نیکیاں بھی دوگنی کردی جائیں گی اور اس کو روزی بھی نہایت عزت و وقار سے نصیب ہوگی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ازواج النبی دنیا کی خواتین سے افضل ہیں : اے نبی کی بیویو تم دنیا کی سب عورتوں سے فضیلت رکھتی ہو کہ کوئی خاتون اس پہلو سے تمہاری مثل نہیں اس لیے تمہیں لازم ہے کہ اللہ کا تقوی اختیار کرو ۔ عورت کی آواز : اور عورت کی آواز کا پردہ تو نہیں مگر ایسی صورت میں کہ کسی کو اس کی طرف گناہ کی رغبت ہو جائز نہیں حتی کہ نماز میں اگر عورت کو پتہ چلے کہ امام بھول رہا ہے تو بول کر لقمہ نہ دے بلکہ ہاتھ کی پشت پر ہاتھ مار کر مطلع کرے چہ جائیکہ آج ایک طبقہ طبلہ اور سارنگی پہ چلا گیا تو دوسرے ٹی وی پہ نعت سنانے لگیں اور سب سے الگ ایک طبقہ حکومت اور سلطنت کی امامت کبری پر قابض ہوگیا۔ یاللعجب۔ جاہلیت کا زمانہ اور پردہ : زمانہ جاہلیت کی طرح بےپردہ اور بلا ضرورت نمائش کے لیے نہ پھر اکیجیے۔ آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے کے دور کو عہد جاہلیت کہا گیا ہے کہ اسلام کی آمد جہالت کے خلاف تھی اور اس زمانہ میں عورتیں اچھے لباس اور زیورات پہن کر پھرا کرتی تھیں جس سے امارت اور شان و شوکت کا اظہار مقصود ہوتا تھا اسلام نر اس سب کام سے روک دیا اور ازواج النبی ﷺ کو حکم دے کر ثابت کردیا کہ کسی بھی مسلمان خاتون کے لیے لاضرورت گھر سے نکلنا جائز نہیں ہاں ضرورت سے منع نہیں فرمایا مگر اس میں بھی برج یعنی شان و شوکت کا اظہار اور زیورات و لباس کی نمائش نہ ہو بلکہ شرعی پردہ کر کے نکلے۔ اور گھر میں عبادات ادا کرے بدنی بھی مالی بھی اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں کمربستہ رہے اور حکم آپ کو اس لیے دیا جارہا ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ہر طرح کی چھوٹی سے چھوٹی خطا بھی دور کر دے اور تمہیں پاک صاف کردے۔ طہارت تشریعی اور تکوینی یہ پاک صاف کرنا شرعی اعتبار سے ہے جو صحابہ اور اہل اللہ کو نصیب ہوتی ہے کہ اللہ ان کی حفاظت فرما کر گناہ سے محفوظ رکھتا ہے یہ تکوینی نہیں ہوتی کہ جیسے نبی تکوینی طور پر معصوم ہوتا ہے۔ یہ صرف خاصہ نبوت ہے اور کسی کو معصوم ماننا یا نبی ماننا برابر ہے۔ اہل بیت : شیعہ کا یہاں سے آئمہ کے معصوم ہونے کا استدلال باطل ہے حق بات تو یہ ہے کہ یہ آیات ازواج مطہرات کے حق میں نازل ہوئیں اور آپ ﷺ نے حضرت علی۔ فاطمہ اور حسنین کریمین رضہ اللہ عنہ کو اس میں شامل کرنے کی دعا کہ آپ ﷺ کی باقی تین بیٹیاں اس کے نزول سے قبل فوت ہوچکی تھی ورنہ اہل بیت کا اطلاق ہی ان افراد خانہ پر ہوتا ہے جن کا نان نفقہ صاحب خانہ کے ذمہ ہو۔ اور اسی طرح قرن فی بیوتکن سے مراد حضرت عائشہ پر اعتراض کہ آپ حج پر کیوں تشریف لے گئیں یا بصرہ کیوں گئیں درست نہیں کہ وہاں محض اظہار شوکت کے لیے باہر پھرنے سے منع فرما یا ہے۔ حج سے نہیں اور حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں بھی دوسری ازواج مطہرات نے حج ادا فرمائے نیز آپ کے ساتھ آپ کے محرم بھی تھے اور آہنی ہودج میں پردہ میں سفر فرمایا۔ اسی طرح آپ کو مکہ مکرمہ میں شہادت عثمان اور مدینہ پر روافض کے قبضہ اور مسلمانوں کی بےبسی حضرت علی کی مجبوری کی خبر ہوئی تو بصرہ تشریف لے گئیں جہاں اسلامی قوت تھی اور افواج جمع تھیں حضرت علی کو روافض نے چلنے پر مجبور کردیا ورنہ بصرہ جانے سے روکنے میں خود حضرت حسن اور حسین بھی تھے بصرہ میں سرے سے جنگ نہیں ہوئی بلکہ باتیں ہوئیں اور طے پا گیا کہ سب قوت یکجا کرکے قاتلان عثمان سے قصاص لیا جائے جس پر تیسرے روز علی الصبح روافض نے اچانک حملہ کردیا اور یوں بیخبر ی میں دونوں طرف کے لوگوں کو لڑا دیا بات صاف ہونے تک بہت سے لوگ شہید ہوچکے تھے اور روافض کا ایک گروہ الگ ہو کر خارجہ کہ لایا جو بعد میں بھی حضرت علی رضہ اللہ عنہ سے لڑا۔ اور لڑائی کے وقت حضرت عائشہ سرے سے ہودج میں موجود نہ تھیں اگر یہ جنگ تھی تو غنیمت کس نے لی اور جنگی قیدی کون بنے یا منقوکین کا کیا فیص کہ کیا گیا ؟ یہ سب کچھ روافض کی سازش تھی اور حضرت علی کا یہ کارنامہ کہ اس دور میں روافض کی سازشوں کا مقابلہ کر کے امت مسلمہ کو کا نہ جنگی سے بچا لیا بہت بڑا کارنامہ ہے رہے روافض تو یہ ہمیشہ سے امت مسلمہ کے دشمن جھوٹے اور چالباز ہیں ان کے دلائل میں بھی جھوٹ اور بودا پن موجود ہوتا ہے ان کی روایات پہ توجہ ہی نہ کی جانی چاہیے۔ اور اے ازواج النبی اللہ کی آیات کو یاد کرو جو تمہارے گھروں میں پڑھی جاتی ہیں جن کے نزال کے مقام تمہارے کاشانے ہیں اور جن میں حقیقی حکمت و دانائی موجود ہے اس لیے اللہ اس باریک ترین خیال سے بھی واقف ہے جو لمحہ بھر کے لیے دور کہیں دل کی گہرائی میں گزر جاتا ہے اور اللہ ہر چیز سے باخبر ہیں۔
Top