Kashf-ur-Rahman - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے نبی آپ اپنی بیویوں سے فرما دیجئے کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زندگی کی رونق اور سازو سامان چاہتی ہو تو آئو میں تم کو کچھ مال و متاع دیدوں اور تم کو خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کر دوں
28۔ اے نبی آپ اپنی ازواج یعنی بیویوں سے فرما دیجئے اگر تم دنیا کی زندگی کا عیش اور اس زندگی کی بہار اور ساز و سامان چاہتی ہو تو آئو میں تم کو کچھ مال و متاع دیدوں اور تم کو خوش اسلوبی کے ساتھ رخصت کر دوں ۔ مال و متاع شاید اس سے وہ جوڑا مراد ہو جو مطلقہ عورت کو دیا جاتا ہے ، خیبر کی فتح کے بعد جیسا کہ ہم نے کہا مسلمان کچھ آسودہ اور مرفہ الحال ہوگئے تھے ازواج مطہرات نے متفقہ طور پر نان و نفقہ کی زیادتی کا مطالبہ کردیا ۔ ازواج مطہرات کی تعداد اس وقت نو تھی ۔ عائشہ بنت ابوبکر ، حفصہ بنت عمر ، ام حبیبہ بنت ابو سفیان ، ام سلمہ بنت امیہ ، سودہ بن زمعہ ، زینب بنت حجش ، میمونہ بنت حارث ، صفیہ بنت حییی بن اخطب ، جو ریہ بن حارث۔ ان میں سے پہلی پانچ قریشی ہیں چھٹی اسدیہ ہیں ، ساتویں ہلالیہ ، آٹھویں خیبر کی ، نویں مصطلقیہ ہیں ۔ جب یہ مطالبہ ہوا تو نبی کریم ﷺ نا خوش ہوئے اور آپ نے ایک ماہ کیلئے سب سے علیحدگی اختیار کرلی اور قسم کھالی کہ ایک ماہ تک گھر میں نہ جائوں گا۔ لوگوں میں مختلف چرچے ہونے لگے کوئی کہتا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی کوئی کہتا علیحدگی اختیارفرمائی ہے ان افواہوں سے حضرت صدیق ؓ اور حضرت فاروق ؓ بہت پریشان تھے گھر میں اپنی اپنی لڑکیوں کو دھمکاتے تھے کہ تم نے یہ کیا کیا ۔ نبی کریم ﷺ کسی گھر میں تشریف نہ لے جاتے تھے صرف مسجد کے برابر جو بالا خانہ تھا اس پر قیام فرماتے کسی کو اوپر جانے کی اجازت نہ تھی آخر صدیق اکبر اور عمر فاروق اعظم نے اجازت طلب کی ۔ حضور ﷺ نے ان دونوں کو اجازت دی جب یہ بالا خانے پر گئے تو حضرت عمر ؓ نے سرکار کی توجہ منتقل کرنے کی غرض سے کہا یا رسول اللہ ﷺ اگر میری بیوی خارجہ مجھ سے میری حیثیت سے زیادہ نفقہ طلب کرتی تو میں اس کو خوب مارتا ۔ اس پر حضور ﷺ مسکرائے اور فرمایا دیکھ لو یہ میرے گرد بیٹھی ہیں اور مجھ سے وہ چیز طلب کرتی ہیں جس کے دینے کی مجھ کو مقدرت نہیں ہے۔ اس پر حضرت صدیق اکبر ؓ ا عائشہ کو اور حضرت عمر فاروق ؓ نے حفصہ ؓ کو اٹھ کر مارنا شروع کیا اور ان سے کہا تم کیوں نبی کریم ﷺ سے وہ چیز طلب کرتی ہو جس کو ادا کرنے کی آپ مقدرت نہیں رکھتے۔ تب ازواج نے خدا کی قسم کھا کر کہا کہ ہم کبھی ایسی کوئی چیز حضور ﷺ سے طلب نہیں کریں گے جو آپ کے پاس نہ ہو۔ اسی واقعہ میں یہ آیت تخییر نازل ہوئی۔
Top