Baseerat-e-Quran - Al-Ahzaab : 28
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِكَ اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَهَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَ اُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی قُلْ : فرمادیں لِّاَزْوَاجِكَ : اپنی بیبیوں سے اِنْ : اگر كُنْتُنَّ : تم ہو تُرِدْنَ : چاہتی ہو الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَزِيْنَتَهَا : اور اس کی زینت فَتَعَالَيْنَ : تو آؤ اُمَتِّعْكُنَّ : میں تمہیں کچھ دے دوں وَاُسَرِّحْكُنَّ : اور تمہیں رخصت کردوں سَرَاحًا : رخصت کرنا جَمِيْلًا : اچھی
اے نبی ﷺ ْ ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ اگر دنیا کی زندگی اور اس کی زیب وزینت چاہتی ہو تو آئو میں تمہیں کچھ دے دلا کر اچھے طریقے پر رخصت کردوں ۔
لغات القرآن : آیت نمبر 28 تا 34 کنتن : تم ہو تعالین : تم سب آجاؤ امتع : میں سامان دوں گا اسرح : چھوڑ دوں گا۔ رخصت کردیتا ہوں یضعف : وہ دو گنا کردے گا یقنت : اطاعت کرے گی، جھکے گی مرتین : دو مرتبہ۔ دوھرا۔ دوگنا اتقیتن : تم پرہیزگاری اختیار کرو لا تخضعن : نرمی نہ کرو۔ لوچ پیدا نہ کرو یطمع : وہ لالچ کرے گا قرن : ٹکی رہیں۔ جمی رہیں تبرج : ابھر کر آنا۔ جسم اور چہرہ کی نمائش کرنا الرجس : گندگی ۔ آلودگی اھل البیت : گھر والے۔ اہل خانہ یتلی : تلاوت کیا گیا خبیر : خبر رکھنے والا۔ اللہ کی صفت تشریح آیت نمبر 28 تا 34 اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی زندگی کو ” احسنہ “ فرمایا ہے یعنی آپ کی زندگی کا ہر عمل امت کے لئے رہبر و رہنما ہے۔ آپ کے فیض صحبت اور تربیت سے آپ کے جاں نثار صحابہ کرام ؓ کی زندگیاں بھی دوسروں کے لئے بھی منیارہ نور بن گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کو براہ راست خطاب فرما کر ان کو ایک ایسا اعزاز عطا فرمایا ہے جو کسی نبی اور رسول کی ازواج کو بھی نصیب نہ ہوسکا ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ازواج مطہرات کو اہل بیت رسول فرما کر ان کی شان میں چار چاند لگا دیئے ہیں ۔ چونکہ آپ کی ازواج مطہرات کی زندگیاں بھی ساری امت کے لئے مثال تھیں اس لئے اللہ نے چاہا کہ ان کی زندگیوں کے اس میل کچیل کو دور فرما کر پاک صاف کردیں جس سے ان کے کردار میں کہیں بھی کمزوری باقی نہ رہے۔ قرآن کریم کی آیات سے توبہ بات بالکل واضح ہے کہ امت کی ان ماؤں کو رسول اللہ ﷺ کا اہل بیت قرار دیا گیا ہے لیکن معتبر احایث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت علی ؓ ، حضرت علی ؓ ، حضرت فاطمہ ، حضرت حسن ؓ ، اور حضرت حسین ؓ کو ایک چادر میں لے کر فرمایا کہ اے اللہ آپ گواہ رہیے گا یہ بھی میرے اہل بیت میں سے ہیں۔ اب ہم سب اہل سنت و جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کی تمام ازواج مطہرات اور حضرت علی ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ ، حضرت حسن ؓ ، اور حضرت حسین ؓ یہ سب اہل بیت رسول ہیں۔ ان تمام آیات کی مزید وضاحت سے پہلے اس پس منظر کو ذہن میں کھئے گا کہ جب بنو قریظہ کو بری طرح شکست ہوگئی اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مسلسل فتوحات عطا فرمائیں۔ خاص طور پر خیبر فتح ہونے کے بعد وہاں کی تمام زمینوں اور مال و دولت کو صحابہ کرام ؓ میں تقسیم کردیا گیا تو ایک طویل عرصہ تک فقر و فاقہ کی زندگی گذارنے والے صحابہ کرام ؓ کے گھروں میں رونق آگئی اور ایک خوش حالی کا دورہ شروع ہوگیا۔ نبی کریم ﷺ جن کی پوری زندگی ایک عظیم مشن کو حاصل کرنے کے لئے انتہائی غربت و افلاس اور فقر و فاقہ میں گذری تھی اور ام المومنین حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت کے مطابق کہ ہمارے گھروں میں کبھی کبھی آگ جلائے ہوئے ایک ایک مہینہ گذر جاتا تھا ہم صرف کھجوریں ، ستو اور پانی پر گذارہ کیا کرتے تھے ۔ اگر کہیں سے ہدیہ کے طور پر گوشت آجاتا تو اس کو پکا لیا جاتا تو کھجوریں اور پانی پر ہی گذارا لیا جاتا تھا۔ جب صحابہ کرام ؓ کی زندگیوں میں خیبر کی زرخیز زمینوں اور فتوحات سے کچھ خوش حالی کا دور شروع ہوا تو ایک دن تمام ازواج مطہرات جن کی تعداد اس وقت چار تھی حضرت عائشہ ؓ ، حضرت حفصہ ؓ ، حضرت سودہ ؓ اور حضرت ام سلمہ ؓ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ آج جب نبی کریم ﷺ تشریف لائیں گے تو ان سے یہ درخواست کریں گی کہ اس خوش حالی میں سے ان کو بھی کچھ حصہ دیا جائے تاکہ وہ بھی کچھ فراغت کے ساتھ اپنی زندگی گذارسکیں۔ جب نبی کریم ﷺ تشریف لائے تو ان تمام ازواج مطہرات نے آپ کی خدمت اقدس میں عرض کردیا کہ ہمارے لئے بھی خوش حالی کا سامان کردیا جائے۔ نبی کریم ﷺ نے یہ سنا تو آپ کی طبیعت پر کچھ گرانی چھاگئی اور آپ علیحدہ ایک کمرے میں ایک مہینے کے لئے قیام پذیر ہوگئے ۔ اس صورتحال سے صحابہ کرام ؓ خاص طور پر حضرت ابوبکر صدیق ؓ ، اور حضرت عمر ؓ نے اپنی بیٹیوں کو ہر طرح سمجھا یا ، ڈانٹ ڈپٹ بھی کی مگر وہ اپنے اس مطالبہ پر قائم رہیں۔ اس موقع پر سورة پر سورة الاحزاب کی یہ آیات ناز ل ہوئیں۔ جن میں اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کے لئے صاف صاف اعلان فرمادیا تھا کہ دو راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرلیں۔ اگر دنیا کی راحت ، اس کا آرام و دولت کی طلب گار رہیں تو اے نبی ﷺ ! آپ کہہ دیجئے کہ میرا اور تمہار راستہ الگ الگ ہے ۔ میں تمہیں کچھ دے دلا کر نہایت عزت سے رخصت کردیتا ہوں اور اگر اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی اور آخرت کی ابدی زندگی اور اس کی راحتیں مطلوب ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت میں اجر عظیم عطا فرمائے گا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ ان آیات کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم ﷺ سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تم سے ایک بات کا ذکر کرنے والا ہوں تم جواب میں جلدی نہ کرنا اپنے والدین سے بھی مشورہ کرلینا اس کے بعد جواب دینا۔ پھر آپ نے مذکورہ آیات پڑھ کر سنائیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے فوراً جواب دیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ اس میں والدین سے مشورہ کا کیا سوال ہے ؟ مجھے اللہ ، اس کا رسول اور آخرت کا گھر پسند ہے ۔ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کا جواب سنا تو خوش ہوگئے اور آپ ہنس پڑے۔ پھر اس بقیہ تینوں ازواج کے پاس بھی تشریف لے گئے۔ سب کا جواب وہی تھا جو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا تھا ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے امہات المومنین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے نبی ﷺ کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو تم میں سے جو بھی اللہ اور اس کے رسول حضرت محمد ﷺ کی اطاعت اور عمل صالح اختیار کرے گی تو اس کو دوگنا اجر وثواب دیا جائے گا۔ چونکہ اے ازواج النبی تمہاری زندگیاں دوسروں کے لئے مثال ہیں اس لئے تمہاری ایک غلطی بھی اللہ کے نزدیک دوہری سزا کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کے بعد ازواج مطہرات اور قیامت تک آنے والی تمام خواتین کے لئے جو کچھ فرمایا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ (1) سب سے پہلے آپ کی ازواج کو خظاب کرتے ہوئے فرمایا اے ازواج النبی ﷺ ! تمہاری حیثیت عام عورتوں کی طرح نہیں ہے ۔ تمہارے ہر عمل کو دوسرے دیکھ کر اس کی نقل کرتے ہیں لہذا اگر حسن عمل پیش کیا جائے تو اس پر دو ہرا اجر وثواب دیا جائے گا اور اگر کسی کمزوری کا مظاہرہ کیا گیا تو اس کی سزا بھی دوگنی دی جائے گی۔ (2) دوسری ہدایت یہ دی گئی کہ اگر تم اپنے دلون میں اللہ کا خوف رکھتی ہو تو غیر مردوں سے بات کرتے وقت تہذیب و شاستگی کے ساتھ ایسا رو کھا اور غیر جذباتی انداز اختیار کرو جس میں ایسی نرمی اور بےتکلفی نہ ہو جس سے بعض ذہنی مریض کیس غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں۔ چونکہ اللہ نے عورت کی آواز میں نرمی اور بےتکلفی نہ ہو جس سے بعض ذہنی مریض کسی غلط فہمی میں مبتلا ہوجائیں ۔ چونکہ اللہ نے عورت کی آواز میں نرمی اور خوبصورتی رکھی ہے اس لئے عبادات میں بھی حکم دیا ہے کہ وہ اپنی آواز کو دھیما رکھیں ۔ (ا) فرمایا کہ عورتیں اذان اور اقامت نہ کہیں۔ (2) آواز سے تلاوت کرنے کو منع کیا گیا ہے اس لئے عورت کو امامت کی اجازت نہیں ہے۔ (3) نامحرم مرد کو سلام کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ (4) اگر نماز کے دوران امام قرات میں یا کسی رکن ادا کرنے میں کوتاہی کر جائے تو مرد زور سے اللہ اکبر ، سبحان اللہ کہ کر امام کو صحیح کرنے کا اشارہ کرسکتے ہیں لیکن اگر تصیح کرنے والی عورت ہو تو وہ اپنے ہا تھ کی پشت پر دوسرا ہاتھ ما رکر امام کو آگاہ کرے گی مگر زبان سے نہ کہے گی۔ (5 ) حج اور عمرہ میں عورتوں کو تلبیہ زور سے پڑھنے کی اجازت نہیں ہے آہستہ آہستہ پڑھیں۔ ان کے علاوہ اور بہت سے احکام ہیں جن کو فقہ کی کتابوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ (3) تیسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں ٹک کر رہیں ۔ بلا کسی شدید ضرورت کے گھروں سے نہ نکلیں۔ اگر نکلنا ہو تو شریعت کی تمام پابندیوں کے ساتھ باہر نکلیں ۔ خواتین فرض نمازیں اپنے گھروں میں ادا کریں کیونکہ ان کے لئے اسی میں بہت اجروثواب رکھا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ عورت کا گھر میں نماز پڑھنا مسجد میں جاکر نماز پر ھنے سے زیادہ افضل ہے ۔ حضرت ام حمید ساعد یہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ (جماعت سے مسجد میں ) نماز ادا کروں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے معلوم ہے کہ تمہیں میرے ساتھ یعنی میرے پیچھے نماز پڑھنے کی خواہش ہے مگر تمہاری وہ نماز جو تم اپنے گھر کے اندر کے حصے میں پڑھو وہ اس نماز سے افضل ہے جو تم اپنے باہر کے دلان میں پڑھتی ہو اور باہر کے دلان میں تمہارا نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم اپنے گھر کے صحن میں پڑھو اور پنے گھر کے صحن میں تمہارا نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے جو تم اپنے قبیلے والی مسجد میں (جو گھر سے قریب ہے ) نماز پڑھو اور اپنے قبیلے والی مسجد میں تمہارا نماز پڑھنا اس سے بہتر ہے کہ تم میری مسجد میں آکر نماز ادا کرو۔ (معارف القرآن) (4) چوتھی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ دور جاہلیت کی طرح بےپردہ اور بنائو سنگھار کرکے باہر نہ نکلیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کو ” تبرج جاہلیت “ پسند نہیں ہے۔ یعنی ابھر کر سامنے آنا۔ اپنے جسم ، زیور ، کپڑے اور چہرے کی نمائش کرنا ، اس طرح چلنا جس سے خوامخواہ بھی لوگ متوجہ ہوجائیں اس کو ” تبرج جاہلیت ــ“ فر ما یا گیا ہے جس میں اسلام آنے سے پہلے لوگ مبتلا تھے اور عورتیں بےپردہ بےبا کانہ انداز سے اپنے جسم و لباس کی نمائش کرتی پھرتی تھیں۔ (5) پانچویں ہدایت یہ دی گئی ہے کہ خاص طور پر ازواج مطہرات اور تمام خواتین نمازوں کی پابندی کریں کیونکہ نماز دین کا ایک مضبوط ستون ہے ۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر ساری روحانی، اخلاقی ، معاشرتی، ، معیشی، اور تہذیبی و تمدنی زندگی کی عمارت تعمیر کی جاتی ہے۔ (6) چھٹی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ اگر وہ صاحب نصاب ہوں تو زکواۃ ادا کریں یعنی وہ زکواۃ سے مشتنیٰ نہیں ہیں ان کو بھی عام مسلمانوں کی طرح زکواۃ ادا کرنا ہوگی۔ (7) ساتویں ہدایت یہ دی گئی ہے کہ شریعت کے جتنے احکامات ہیں ان میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت و فرماں برداری کی جائے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ ساتوں ہدایات دے کر فرمایا کہ اے اہل بیت رسول اگر تم نے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی کامل اتباع کی تو اللہ تمہارے گھرانے کو ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے پاک و صاف فرمادے گا اور ہر طرح کی آلودگی سے تمہیں بچا لے گا ۔ ان آیات میں اگر چہ خطاب نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات سے کیا گیا ہے لیکن یہ تمام احکامات پوری امت کی تمام خواتین کے لئے ہیں کیونکہ جب ازواج مطہرات بھی اللہ کے احکامات کی پابند ہیں تو پھر عام مسلمان عورتیں اس سے مستشنیٰ کیسے ہوسکتی ہیں ؟ احکامات پر پوری طرح عمل کرنا ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت پر فرض ہے۔
Top