Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 52
اِذْ قَالَ لِاَبِیْهِ وَ قَوْمِهٖ مَا هٰذِهِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْۤ اَنْتُمْ لَهَا عٰكِفُوْنَ
اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِاَبِيْهِ : اپنے باپ سے وَقَوْمِهٖ : اور اپنی قوم مَا هٰذِهِ : کیا ہیں یہ التَّمَاثِيْلُ : مورتیاں الَّتِيْٓ : جو کہ اَنْتُمْ : تم لَهَا : ان کے لیے عٰكِفُوْنَ : جمے بیٹھے ہو
یاد کرو ! جب حضرت ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا یہ کیا مورتیاں ہیں جن کی پوجا پاٹ پر تم جمے بیٹھے ہو۔
اِذْقَالَ لِاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَاھٰذِہِ التَّمَاثِیْلُ الَّتِیْٓ اَنْـتُمْ لَھَا عٰکِفُوْنَ ۔ (الانبیاء : 52) (یاد کرو جب حضرت ابراہیم نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا یہ کیا مورتیاں ہیں جن کی پوجا پاٹ پر تم جمے بیٹھے ہو۔ ) اصنام پرستی کی مذمت اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو جس دانش و بصیرت، ہدایت اور حوصلہ مندی سے نوازا تھا، یہ اس کا اظہار ہے۔ ابھی آپ عنفوانِ شباب میں ہیں۔ جب نوجوانوں پر جوانی کے جذبوں اور خواہشات کی سحرکاریوں کا غلبہ ہوتا ہے۔ جب وہ کسی سنجیدہ بات اور خواہشات کو حدود میں رکھنے والی کسی نصیحت کے سننے کے بھی روادار نہیں ہوتے انھیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کون کس کی پوجا کر رہا ہے، ان کے سامنے ایک ہی معبود ہوتا ہے کہ جس کا نام جوانی اور اس کے تقاضے ہیں۔ وہ صرف ایک راستے کو جانتے ہیں جس میں کچھ لوٹا جاتا اور کچھ لٹوایا جاتا ہے۔ لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نہ جانے کس سانچے میں ڈھلے اور کن جذبوں سے نوازے گئے تھے کہ آپ ( علیہ السلام) اسی عمر میں وہ بات کہہ رہے ہیں جس میں قوم اور اقتدار کی طرف سے پیش آنے والی مشکلات کے سوا اور کوئی چیز ملنے والی نہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بت گروں اور اقتدار کے مسند نشینوں میں ایک ملی بھگت کے نتیجے میں نمرود تخت اقتدار پر براجمان ہے۔ بتوں کو مورتیاں کہنا اور اس طرح تحقیر آمیز انداز میں انھیں یاد کرنا اپنے آپ کو مصائب کے حوالے کردینا ہے، لیکن وہ یہ سب کچھ جانتے ہوئے اپنے اس فرض کی انجام دہی کی فکر میں ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے انھیں فائز کیا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ زمین اللہ تعالیٰ کی ہے، حکمرانی کوئی اور کررہا ہے۔ رزق اللہ تعالیٰ کا کھایا جارہا ہے لیکن دل بتوں کی محبت سے سرشار ہیں۔ آپ ( علیہ السلام) نے سب سے پہلے اپنے باپ کے سامنے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ آپ کا کوئی خالق بھی ہے اور رازق بھی۔ اسی نے آپ کو مہلت عمل دے رکھی ہے۔ عجیب بات ہے کہ رزق اس کا کھاتے ہو اور سر بتوں کے سامنے جھکاتے ہو۔ پھر بت خانے میں جا کر اور اس سے باہر مختلف تقریبات میں قوم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جنھیں تم خدا سمجھتے ہو وہ تمہارے ہاتھوں کی بنائی ہوئی مورتیاں ہیں۔ تمثال اس صورت کو کہتے ہیں جو ہاتھوں سے بنائی جائے چونکہ اس قوم میں مظاہرِقدرت کی پوجا کرنے والے بھی تھے اور سیارہ پرست بھی اور کچھ لوگ ماضی میں گزرے ہوئے بزرگوں سے عقیدت رکھتے تھے اس لیے ان مورتیوں میں ستاروں کی شبیہیں بھی تھیں، گزشتہ بزرگوں کے مجسمے بھی تھے۔ اپنے ہاتھوں سے گھڑی ہوئی مورتیوں کے بارے میں وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ شان الوہیت کی مالک ہیں۔ چناچہ انھیں مورتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تحقیر کے انداز میں جھنجھوڑتے ہوئے فرمایا کہ ان مورتیوں کی آخر حقیقت کیا ہے ؟ تم جو شب و روز ان پر دھرنا جمائے بیٹھے ہو اور ہر وقت ان کی پوجا کرنے کی فکر میں رہتے ہو اور ان کے سامنے چڑھاوے چڑھاتے ہو، پتھر کی یہ مورتیاں جو نہ حرکت کرتی ہیں، نہ بولتی ہے نہ کھاتی ہیں اور تم ان کے سامنے مٹھائی کے تھال سجا کے رکھتے ہو، آخر یہ قصہ کیا ہے ؟
Top