Ruh-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 9
ثُمَّ صَدَقْنٰهُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَیْنٰهُمْ وَ مَنْ نَّشَآءُ وَ اَهْلَكْنَا الْمُسْرِفِیْنَ
ثُمَّ : پھر صَدَقْنٰهُمُ : ہم نے سچا کردیا ان سے الْوَعْدَ : وعدہ فَاَنْجَيْنٰهُمْ : پس ہم نے بچا لیا انہیں وَمَنْ نَّشَآءُ : اور جس کو ہم نے چاہا وَاَهْلَكْنَا : اور ہم نے ہلاک کردیا الْمُسْرِفِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
پھر ہم نے ان سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ان کو اور جن کو ہم چاہتے ہیں نجات دی اور حدود سے تجاوز کر جانے والوں کو ہلاک کردیا۔
ثُمَّ صَدَقْـنٰـہُمُ الْوَعْدَ فَاَنْجَیْـنٰـھُمْ وَمَنْ نَّشَآئُ وَاَھْلَکْنَا الْمُسْرِفِیَنَ ۔ (الانبیاء : 9) (پھر ہم نے ان سے اپنا وعدہ پورا کیا اور ان کو اور جن کو ہم چاہتے ہیں نجات دی اور حدود سے تجاوز کر جانے والوں کو ہلاک کردیا۔ ) رسول کی تکذیب ہلاکت کا باعث ہے اللہ تعالیٰ جب بھی کسی رسول کو کسی قوم کی ہدایت کے لیے مبعوث فرماتا ہے تو اس رسول کو اپنی قوم کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بعض دفعہ جان و تن بھی خطرے میں پڑجاتے ہیں۔ بگڑی ہوئی قوم ہدایت کی دعوت دینے والی زبان کو ہمیشہ کے لیے خاموش کردینے پر تل جاتی ہے۔ پیغمبر پر ایسے نازک لمحات بھی آتے ہیں جب حوصلے شکست ہونے لگتے ہیں۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید و نصرت نازل ہوتی ہے اور اپنے پیغمبر کو یقین دلایا جاتا ہے کہ حق آپ کے ساتھ ہے، باطل آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ جیسے ہی آپ کی قوم حد سے گزرنے لگے گی تو ہم آپ کو اور آپ پر ایمان لانے والوں کو بچالیں گے اور آپ کی قوم پر عذاب نازل کردیں گے۔ یہ وہ وعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے ہر رسول کے ساتھ کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول اپنی ذات میں ایک بشر ہوتا ہے۔ لیکن اپنے تعلق اور وابستگی میں دوسرے انسانوں سے بہت بلند ہوتا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی وحی اترتی ہے جبکہ دوسرے انسان وحی کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ پروردگار اس کی دعوت کی بقا اور زندگی کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے جبکہ باقی تمام مخلوقات اس کے تکوینی اور طبعی نظام کے تحت زندگی اور موت کا شکار ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ براہ راست کسی انسان سے کوئی وعدہ نہیں کرتا لیکن انبیائے کرام کے تقرب اور وابستگی کا عالم یہ ہے کہ پروردگار براہ راست ان سے وعدہ کرتا ہے اور پھر وعدے کو ایفا کرتا ہے۔ ان کی زندگی کو ان کی قوم کی زندگی کے لیے ضمانت بنا دیتا ہے۔ وہ اپنی قوم کے جسد میں روح کے مانند ہوتے ہیں کہ جس طرح روح نکلنے سے جسد بیکار ہوجاتا ہے، اسی طرح پیغمبر کی ہجرت کر جانے سے قوم غیرمحفوظ ہوجاتی ہے۔ اب اس کی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں رہتی اس لیے وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کا شکار ہوجاتی ہے۔ متذکرہ بالا اللہ تعالیٰ کی سنت کو اس آیت میں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح سابقہ امتوں کی طرف رسول آتے رہے ہیں، اسی طرح آنحضرت ﷺ اہل عرب کی طرف خصوصاً اور باقی دنیا کی طرف عموماً رسول بن کر تشریف لائے ہیں۔ آپ ﷺ کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا وہی وعدہ ہے جو باقی رسولوں کے ساتھ کیا جاتا رہا ہے۔ قریش مکہ کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ان کی زندگی اور بقا کا انحصار آنحضرت ﷺ کی دعوت کو قبول کرنے پر ہے۔ اگر انھوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا اور آنحضرت ﷺ اور آپ ﷺ کی دعوت کے بارے میں حد سے گزر گئے اور اللہ تعالیٰ سے بغاوت اور سرکشی میں تمام حدود پامال کردیں تو پھر جس طرح پہلی امتوں کو ہلاک کیا گیا ہے یہ بھی اس ہلاکت سے بچ نہیں سکیں گے، کیونکہ باغیوں اور سرکشوں کو کبھی بھی زندہ نہیں چھوڑا جاتا۔
Top