Tafseer-e-Saadi - Al-Ankaboot : 62
وَ لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَكَانُوْا لِرَبِّهِمْ وَ مَا یَتَضَرَّعُوْنَ
وَ : اور لَقَدْ اَخَذْنٰهُمْ : البتہ ہم نے انہیں پکڑا بِالْعَذَابِ : عذاب فَمَا اسْتَكَانُوْا : پھر انہوں نے عاجزی نہ کی لِرَبِّهِمْ : اپنے رب کے سامنے وَمَا يَتَضَرَّعُوْنَ : اور وہ نہ گڑگڑائے
ان کا حال تو یہ ہے کہ ہم نے انھیں تکلیف میں مبتلا کیا تو پھر بھی اپنے رب کی بارگاہ میں نہ جھکے اور نہ عاجزی اختیار کرتے ہیں
وَلَقَدْ اَخَذْنٰـھُمْ بِالْعَذَابِ فَمَا اسْتَکَانُوْا لِرَبِّھِمْ وَمَا یَتَضَرَّعُوْنَ ۔ (المومنون : 76) (ان کا حال تو یہ ہے کہ ہم نے انھیں تکلیف میں مبتلا کیا تو پھر بھی اپنے رب کی بارگاہ میں نہ جھکے اور نہ عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ ) مشرکین کی حالت سے تائید سابقہ آیت کریمہ میں جو بات ارشاد فرمائی گئی ہے پیش نظر آیت کریمہ میں ان کے حالات سے اس کی تائید کی گئی ہے کہ موجودہ حالات میں کس بری طرح سے یہ لوگ قحط کی سختیوں میں مبتلا کیے گئے۔ پانی کے جوہڑ تک ختم ہوگئے، کہیں ہریاول کا نام تک نہ رہا، اشیائے خوردنی اس حد تک کمیاب ہوگئیں کہ لوگ مردار کھانے پر مجبور ہوگئے۔ بایں ہمہ ان لوگوں کی سرکشی اور آخرت سے بےنیازی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ نہ ان کے دلوں میں شکستگی اور خستگی کے آثار پیدا ہوئے اور نہ ان کی آنکھوں سے خشیت یا ندامت کے آنسو بہہ سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلسل کفر اور شرک نے انھیں ہر طرح کے لطیف احساسات سے عاری کردیا ہے انسان کے دل کو بھی اللہ تعالیٰ نے عجیب صفات کا مرقع بنایا ہے کہ اگر اس میں سوز و گداز پیدا ہوجائے اور خشیت الٰہی کی تخم ریزی ہوجائے تو اس سے وہ برگ و بار پیدا ہوتے ہیں جس کے سائے میں نہ صرف انسانیت پلتی ہے بلکہ فرشتے بھی اس پر رشک کرتے ہیں لیکن اگر یہی دل اللہ تعالیٰ کے تصور سے خالی اور شیطانی خیالات کا مخزن بن جائے تو اس کی سختی پتھروں سے بھی بڑھ جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے رسول کی تبلیغ و دعوت بھی ایسے دلوں پر اثرانداز نہیں ہوتی۔ استکانۃ : دل کی شکستگی اور خستگی کو کہتے ہیں اور تضرع : گریہ وزاری کو کہتے ہیں جو استکانۃ کا نتیجہ ہوتی ہے۔
Top