Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 62
اَللّٰهُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِهٖ وَ یَقْدِرُ لَهٗ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ
اَللّٰهُ : اللہ يَبْسُطُ : فراخ کرتا ہے الرِّزْقَ : روزی لِمَنْ يَّشَآءُ : جس کے لیے وہ چاہتا ہے مِنْ عِبَادِهٖ : اپنے بندوں میں سے وَيَقْدِرُ : اور تنگ کردیتا ہے لَهٗ ۭ : اس کے لیے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ بِكُلِّ شَيْءٍ : ہر چیز کا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، بیشک اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے
اَللّٰہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُ لَـہٗ ط اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلِیْمٌ۔ (العنکبوت : 62) (اللہ اپنے بندوں میں سے جس کا چاہتا ہے رزق کشادہ کردیتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے، بیشک اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے۔ ) رزق کے خزانے اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہیں یہ آیت کریمہ پہلی آیت کا منطقی نتیجہ ہے۔ پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ آسمانوں اور زمین کا خالق پروردگار ہے اور سورج اور چاند کو اسی نے اہل زمین کی خدمت میں لگا رکھا ہے۔ اس سے خودبخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب زمین اس کی مخلوق ہے اور زمین پر اثرانداز ہونے والے اجرامِ فلکی اسی کی قوت سے مسخر ہیں تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ رزق کے خزانوں کا مالک کوئی اور بن بیٹھے۔ زمین کی قوت روئیدگی اسی کے حکم سے ہر چیز کو اگاتی ہے۔ اور سورج اسی کے حکم سے پانی کے ذخیروں سے بھاپ اٹھا کر بادل بناتا اور زمین کی سیرابی کا کام کرتا ہے۔ اور پھر سورج ہی کی گرمی ہے جو پیداوار کو پکاتی ہے اور چاند کی شعاعیں اور اس کی روشنی پھلوں میں مٹھاس پیدا کرتی اور دانے میں گداز پیدا کرتی ہے۔ اور جب اس طرح سے غلہ تیار ہو کر کھلیانوں کی صورت میں تبدیل ہوجاتا ہے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ رزق دینے میں کوئی دوسری قوتیں بھی شریک ہیں۔ اور رزق کے کشادہ کرنے یا تنگ کرنے میں کسی اور کا بھی ہاتھ ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کسی کے پاس یہ استحقاق ہے اور نہ قدرت۔ اور نہ کوئی ایسے علم و حکمت کا مالک ہے جس سے وہ جان سکے کہ کس کو رزق پہنچا ہے اور کس کو نہیں پہنچا۔ اور نہ وہ بندوں کے احوال و مصالح سے باخبر ہے۔ اس لیے عقل و دانش کی بات یہ ہے کہ اس بات کا یقین پیدا کیا جائے کہ رزق کے خزانے بھی اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں۔ وہ جس کا چاہتا ہے رزق وسیع کرتا ہے اور جس کا چاہتا ہے تنگ کردیتا ہے۔ اور اس کے علم کی بےپناہی کا حال یہ ہے کہ وہ رزق کی تفصیل سے بھی واقف ہے اور جو رزق کے محتاج ہیں ان کے احوال و مصالح سے بھی پوری طرح باخبر ہیں۔
Top