Ruh-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 41
فَلَمَّا جَآءَ السَّحَرَةُ قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَئِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ كُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ
فَلَمَّا : پس جب جَآءَ : آئے السَّحَرَةُ : جادوگر قَالُوْا : انہوں نے کہا لِفِرْعَوْنَ : فرعون سے اَئِنَّ لَنَا : کیا یقیناً ہمارے لیے لَاَجْرًا : کچھ انعام اِنْ : اگر كُنَّا : ہم ہوئے نَحْنُ : ہم الْغٰلِبِيْنَ : غالب (جمع)
پس جب جادوگر میدان میں آئے تو انھوں نے فرعون سے کہا، کیا ہمیں کوئی انعام بھی ملے گا، اگر ہم غالب رہے
فَلَمَّا جَآئَ السَّحَرَۃُ قَالُوْا لِفِرْعَوْنَ اَیِنَّ لَنَا لَاَجْرًا اِنْ کُنَّا نَحْنُ الْغٰلِبِیْنَ ۔ قَالَ نَعَمْ وَاِنَّـکُمْ اِذًا لَّمِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ ۔ (الشعرآء : 41، 42) (پس جب جادوگر میدان میں آئے تو انھوں نے فرعون سے کہا، کیا ہمیں کوئی انعام بھی ملے گا، اگر ہم غالب رہے۔ فرعون نے کہا، ہاں۔ اور اس وقت تم مقربین میں سے ہو گے۔ ) ساحروں کی طلب اور فرعون کی حوصلہ افزائی ان آیات کو پڑھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ جادوگروں اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان اس مقابلے کو فرعون اور اس کے اعیانِ سلطنت حق و باطل کا معرکہ قرار دے چکے ہیں اور اسی حوالے سے ملک بھر میں جوش و جذبہ پیدا کردیا گیا ہے اور وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ آج ہماری روایات اور فرعون کی عزت و حرمت جادوگروں کے ہاتھ میں ہے۔ آج اگر انھوں نے میدان مار لیا تو مصر اور اہل مصر اور فرعون کی ربوبیت سربلند ہوجائے گی۔ لیکن کس قدر حیرت کی بات ہے کہ ایسے نازک موقع پر وہ جادوگر جو فرعون اور مصر کی عزت و حرمت کے امین بن کر آئے ہیں اور جو پورے ملک میں فنِ ساحری کے امام ہیں، ان کی ذہنی سطح اور ان کی خودداری کا عالم یہ ہے کہ وہ عین میدانِ معرکہ میں فرعون سے صلے اور انعام کا مطالبہ کررہے ہیں، گویا کہ ان کے نزدیک زندگی کا اصل ہدف مال و دولت اور شہرت و ناموری ہے۔ چناچہ ان کی ذہنیت کے مطابق فرعون انھیں جواب دیتا ہے کہ ہاں، تمہیں صرف انعام ہی سے نوازا نہیں جائے گا بلکہ غالب آنے کی صورت میں تمہیں فرعون کے دربار میں عزت و افتخار کی کرسی بھی ملے گی، اور تمہیں اس کے مقربین میں شامل کرلیا جائے گا۔ قومیں جب دین سے دور ہوتیں اور اللہ تعالیٰ سے رشتہ توڑ لیتی ہیں اور طاغوت اور دولت کی پجاری بن کر زندگی کے مقاصد طے کرتی ہیں تو ان کی ذہنی سطح ایک مردارخور جانور اور کلب دنیا سے بلند نہیں ہوتی۔ جس طرح پیٹ بھرا ہوا کتا ہر وقت زبان لٹکائے اور زمین کو سونگھتا ہوا چلتا ہے کہ شاید کہیں بوئے طعام آئے تو میں کھود کے نکال لوں۔ اور جس طرح مردارخور گدھ ہمیشہ مردار پر ہی اترتا ہے اسی طرح بندہ درہم و دینار اور دنیوی عزت و افتخار کا پجاری جب بھی سوچتا ہے دنیا اور دولت دنیا کے بارے میں سوچتا ہے۔ اور بڑے سے بڑے معرکے میں بھی اس کا ہدف اس کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا، یہی وہ لوگ ہیں جو ضمیر کی زندگی سے محر وم، قومی غیرت و حمیت سے بیگانہ اور اولوالعزمی اور حوصلہ مندی سے تہی دامن ہوتے ہیں۔ دوسری طرف ہم حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کو دیکھتے ہیں کہ زخارفِ دنیا سے ان کا دامن خالی ہے۔ قوت اور ہیبت سے کوئی رشتہ نہیں، کوئی ان کی پشت پناہی کرنے والا نہیں۔ ایک ایسی قوم کے افراد ہیں جو انتہائی پسماندہ حکومتِ وقت کی معتوب اور غلامی کی ستم خوردہ ہے۔ باایں ہمہ ان کی ذات غیرت و حمیت کا سرچشمہ معلوم ہوتی ہے۔ وہ اقتدار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہیں، حکومتِ وقت کا طنطنہ انھیں مرعوب کرنے سے عاجز ہے، ان کی شخصیت اور جادوگروں کی شخصیت کا تقابل یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ حق اور سچ کہاں ہے اور سچے لوگ کیسے ہوتے ہیں۔ اور وہ کون ہیں جن پر انسانیت فخر کرتی ہے۔ اور جن کی رہنمائی گرے پڑے انسانوں کو عزت و افتخار عطا کرسکتی ہے۔
Top