Taiseer-ul-Quran - Al-Qasas : 11
وَ قَالَتْ لِاُخْتِهٖ قُصِّیْهِ١٘ فَبَصُرَتْ بِهٖ عَنْ جُنُبٍ وَّ هُمْ لَا یَشْعُرُوْنَۙ
وَقَالَتْ : اور اس نے (موسی کی والدہ نے) کہا لِاُخْتِهٖ : اس کی بہن کو قُصِّيْهِ : اس کے پیچھے جا فَبَصُرَتْ : پھر دیکھتی رہ بِهٖ : اس کو عَنْ جُنُبٍ : دور سے وَّهُمْ : اور وہ لَا يَشْعُرُوْنَ : (حقیقت حال) نہ جانتے تھے
چناچہ اس نے موسیٰ کی بہن سے کہا کہ : اس بچے کے پیچھے پیچھے چلتی جاؤ چناچہ وہ آنکھیں بچا کر دیھتی رہی اور دوسروں 17 کو اس کا پتہ نہ چل سکا۔
17 ام موسیٰ کے تین بچے تھے۔ سب سے بڑی لڑکی تھی۔ اس کے بعد ہارون پیدا ہوئے پھر ان کے ایک سال بعد موسیٰ کی پیدائش ہوئی۔ حضرت ہارون کی پیدائش تک بنی اسرائیل کے بچوں کے قتل کا حکم نافذ نہیں ہوا تھا۔ لہذا وہ بھی زندہ تھے اور بہن تو ان سے آٹھ دس سال بڑی تھی۔ جب ام ّموسیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دریا برد کرچکی اور دل بےقرار ہونے لگا تو ایک احتیاطی تدبیر اس کے ذہن میں آئی کہ شاید اس تدبیر کا کسی وقت فائدہ پہنچ جائے۔ اس نے موسیٰ کی بہن سے کہا کہ اس دریا کے کنارے کنارے چلی جاؤ۔ اور بچہ کو دیکھتی رہو کہ کہاں جاتا ہے۔ لیکن یہ احتیاط ملحوظ رکھنا کہ اس طریقہ سے چھپتی چھپاتی جانا کہ کسی کو یہ گمان نہ ہوسکے کہ یہ لڑکی اس ٹوکرے کی نگہداشت کر رہی ہے۔ اور اس کی ٹوہ میں لگی ہوئی ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب آل فرعون نے یہ تابوت دریا سے نکالا اور اس سے بچہ برآمد ہوا تو اس واقعہ کی خبر سارے شہر میں آناً فاناً پھیل گئی۔ اس وقت ام موسیٰ نے حضرت موسیٰ کی بہن سے کہا کہ جاؤ اور اس بچہ کا پتہ لگاؤ اور علیحدہ رہ کر دیکھنا کہ کیا ماجرا ہوتا ہے۔ لڑکی ہوشیار تھی وہ اس مقام پر پہنچ گئی جہاں بچہ کے گرد بھیڑ لگی تھی کہ وہاں وہ ایک طرف کھڑے ہو کر اور بےتعلق سی بن کر دور سے دیکھتی رہی اور لوگوں کی باتیں سنتی رہی مگر کسی کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ لڑکی اس بچہ کی بہن ہے۔
Top