Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 69
وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا : اور جن لوگوں نے کوشش کی فِيْنَا : ہماری (راہ) میں لَنَهْدِيَنَّهُمْ : ہم ضرور انہیں ہدایت دیں گے سُبُلَنَا ۭ : اپنے راستے (جمع) وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ : البتہ ساتھ ہے نیکوکاروں کے
اور جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کریں گے ہم ان پر اپنی راہیں ضرور کھولیں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے ساتھ ہے
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا ط وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ ۔ (العنکبوت : 69) (اور جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کریں گے ہم ان پر اپنی راہیں ضرور کھولیں گے۔ بیشک اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کے ساتھ ہے۔ ) جہاد اور مجاہدہ کا مفہوم اور اہل ایمان کو بشارت معمولی سے معمولی محبت کی راہ طویل بھی ہے اور کٹھن بھی۔ قدم قدم پر مشکلات سے واسطہ پڑتا ہے۔ جو ان راستوں سے آشنا ہیں وہ ہر نئے مسافر کو اس راستے کی مشکلات پر شکایت کرتے یا روتے دھوتے دیکھ کر ہمیشہ نصیحت کرتے ہیں کہ یہ راستہ صبر و استقامت کا راستہ ہے، شکایت کا راستہ نہیں۔ اور جو آدمی اللہ تعالیٰ سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے یہ محبت سب سے پاکیزہ محبت ہے اور اس کا راستہ سب سے کٹھن راستہ ہے۔ اس راستے کی مشکلات سب راہوں سے زیادہ شدید اور سب سے زیادہ جان لیوا ہیں۔ اس میں ذرا سی بھی آمیزش منزل کو کھوٹا کردیتی ہے اور معمولی بےدلی منزل کو دور کردیتی ہے۔ لغتِ عرب میں جہاد کا یہ مفہوم بیان کیا گیا ہے اَلْجِہَادُوَالْمُجَاہِدَۃٌ اِسْتِفْرَاغُ الْوُسْعِ فِیْ مُدَافَعْۃِ الْعُدُوْ ” دشمن سے بچائو کے لیے اپنی امکانی قوت و طاقت کو صرف کردینا جہاد اور مجاہدہ کہلاتا ہے۔ “ دشمن سے مراد دو طرح کے دشمن ہیں، ظاہری بھی اور باطنی بھی۔ ظاہری دشمن کفار و منافقین ہیں جن سے میدانِ جنگ میں دو دو ہاتھ کیے جاتے ہیں۔ اسے بھی جہاد کہتے ہیں۔ اور باطنی دشمن ہَوائے نفس اور شیطان کے وسوسے ہیں۔ ان سے برسرپیکار ہونا بھی جہاد ہے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے جَاہِدُوْا اَہْوَائَ کُمْ کَمَاتُجَاہِدُوْنَ اَعْدَائَ کُمْ ” اپنی نفسانی خواہشات کے خلاف بھی اسی طرح جہاد کرو جیسے تم ظاہری دشمنوں سے جہاد کرتے ہو۔ “ ” فِیْنَا “ کی قید سے اس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ جہاد اصل میں اس سر توڑ کوشش کو کہتے ہیں جس میں کوئی دنیوی مقصد پیش نظر نہ ہو۔ جس کا مقصد اور منزل صرف اللہ تعالیٰ کی رضا ہو۔ اگر اس میں کوئی سا دنیوی مقصد نیت میں یا عمل میں شامل ہوگیا تو اس سے روح جہاد نکل جائے گی۔ گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور دین حق کی سربلندی کے لیے ظاہری اور باطنی دشمنوں سے برسرپیکار رہتے ہیں ان پر اللہ تعالیٰ کا یہ کرم ہوتا ہے کہ وہ ان پر اپنے راستے کھول دیتا ہے۔ سبل، سبیل کی جمع ہے۔ یعنی وہ راستہ جو منزل تک باآسانی پہنچا دے۔ ایک مومن کے لیے اللہ تعالیٰ کی رضا اور دین کی سربلندی کے سوا اور منزل کیا ہوسکتی ہے۔ جب کوئی مومن اس راستے میں اپنا سب کچھ جھونک دیتا ہے تو یہ منزل اس کے لیے آسان کردی جاتی ہے۔ آیت کے آخری جملے میں اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ لیکن اسے احسان کا نام دے کر اس راستے کی جدوجہد کو بلند ہدف دے دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے لیے جو بشارت دی گئی ہے اس سے بہتر یا بڑی بشارت کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ وہ اللہ تعالیٰ کی معیت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی معیت کو سمجھنے کے لیے ایک نہایت ناتمام مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ جس طرح پانی کا قطرہ سمندر میں مل کر سمندر کا ایک حصہ بن جاتا ہے اسی طرح ایک فانی انسان اللہ تعالیٰ کی معیت کا تاج پہن کر اس کے ان انعامات کا مستحق بن جاتا ہے جنھیں کبھی فنا نہیں۔ وہ اس جنت میں داخل ہوگا جو ہمیشہ رہنے والی ہے۔ اور اس کے ذکر میں کبھی انقطاع نہیں ہوگا۔ ” مع “ کے لفظ سے شایدیہ تصور دینا بھی مقصود ہو کہ راہ محبت کے راہ رو اپنے آپ کو تنہا خیال نہ کریں۔ ان کا مالک اور ان کا محبوب پروردگار ان کے ساتھ ہے۔ وہ ہر مشکل مرحلہ پر ان کی دستگیری کرے گا۔ وہ جب بھی کوئی مشکل محسوس کریں گے اس کی توفیق آگے بڑھ کر ان کو سنبھال لے گی۔ انسان اپنے اندر جتنی بیچارگی رکھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی معیت سے بہرہ ور ہو کر اتنی ہی بےنیازی سے ہمکنار ہوجاتا ہے۔ اسی سے شاید اللہ تعالیٰ کے دین کے دشمنوں کو بھی یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ میرے بندوں کو کبھی بےیارومددگار نہ سمجھیں۔ وہ بظاہر کمزور سہی لیکن پشت پناہی انھیں اس کی حاصل ہے جس سے بڑا کوئی نہیں۔
Top