Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 49
وَ سْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلْنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِهَةً یُّعْبَدُوْنَ۠   ۧ
وَسْئَلْ : اور پوچھ لیجئے مَنْ اَرْسَلْنَا : جس کو بھیجا ہم نے مِنْ قَبْلِكَ : آپ سے قبل مِنْ رُّسُلِنَآ : اپنے رسولوں میں سے اَجَعَلْنَا : کیا بنائے ہم نے مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ : رحمن کے سوا اٰلِهَةً : کچھ الہ يُّعْبَدُوْنَ : ان کی بندگی کی جائے
اور پوچھئے ان سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا اپنے رسولوں میں سے، کیا ہم نے رحمن کے سوا دوسرے معبود بھی مقرر کیے تھے کہ ان کی عبادت کی جائے
وَسْئَلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رُّسُلِنَـآ اَجَعَلْـنَا مِنْ دُوْنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِھَۃً یُّعْبَدُوْنَ ۔ (الزخرف : 45) (اور پوچھئے ان سے جن کو ہم نے آپ سے پہلے بھیجا تھا اپنے رسولوں میں سے، کیا ہم نے رحمن کے سوا دوسرے معبود بھی مقرر کیے تھے کہ ان کی عبادت کی جائے۔ ) مشرکین کے دعویٰ کی تردید گزشتہ ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات، صفات اور حقوق میں یکتا ہے، کوئی اس کا کسی طرح بھی شریک نہیں۔ لیکن مشرکینِ عرب نے اپنے تمام تر دین کا دارومدار شرک پر بنا رکھا تھا۔ اور دعویٰ ان کا یہ تھا کہ ہم جس شرک میں مبتلا ہیں یہ ہماری اپنی اختراع نہیں بلکہ ہم نے صدیوں پہلے اپنے آبائواجداد کو بھی اسی پر چلتا ہوا دیکھا ہے۔ اور یہ بات یقینا ان میں سے کسی نہ کسی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی ہوگی ورنہ وہ اتنا بڑا فیصلہ ازخود تو نہیں کرسکتے تھے۔ گزشتہ آیات میں ان کی اس غیرمعقول بات کا مختلف پہلوئوں سے جواب دیا گیا ہے اور آخر میں بحث کو سمیٹتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے بنیادی عقیدہ کیا دیا ہے اور کون سی بات صحیح ہے اور کون سی غلط اس کا دارومدار رسولوں پر رکھا گیا ہے۔ کیونکہ رسول ہی کی شخصیت ایسی شخصیت ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی وحی اترتی ہے۔ اور وہی اللہ تعالیٰ کی منشاء مشیت اور رضا کو واضح کرسکتا ہے۔ اس لیے فرمایا کہ تم بجائے اٹکل پچو سے کام لینے کے صاف صاف ان رسولوں سے پوچھو جو دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے ہیں اور ان میں کئی نام ایسے ہیں جن کو دنیا کی مختلف قومیں تسلیم کرتی ہیں۔ بالخصوص حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تمام اہل مذاہب کے یہاں مقتداء کی حیثیت سے تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان سے پوچھ کے دیکھ لو کہ کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا کوئی اور بھی معبود بنا رکھے ہیں یا مقرر کر رکھے ہیں کہ جن کی عبادت کی جاسکتی ہو۔ اور رسولوں سے پوچھنے کا یہ مطلب نہیں کہ انھیں تلاش کرو بلکہ ان سے پوچھنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی کتابوں اور ان کی تعلیمات سے معلوم کرنے کی کوشش کرو کہ کیا انھوں نے کبھی کوئی ایسی بات کہی ہے۔ اور اگر کسی رسول کی تعلیم میں ایسی کوئی بات نہیں تو پھر ایسی بےسروپا بات کی آخر تمہارے پاس کیا سند ہے۔
Top