Ruh-ul-Quran - Al-Fath : 8
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ
اِنَّآ : بیشک اَرْسَلْنٰكَ : ہم نے آپ کو بھیجا شَاهِدًا : گواہی دینے والا وَّمُبَشِّرًا : اور خوشخبری دینے والا وَّنَذِيْرًا : اور ڈرانے والا
بیشک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کردینے والا بنا کر بھیجا ہے
اِنَّـآ اَرْسَلْنٰـکَ شَاہِدًاوَّمُبَشِّرًاوَّنَذِیْرًا۔ لِّـتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُعَزِّرُوْہُ وَتُوَقِّرُوْہُ ط وَتُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلاً ۔ (الفتح : 8، 9) (بےشک ہم نے آپ کو گواہی دینے والا، بشارت دینے والا اور خبردار کردینے والا بنا کر بھیجا ہے۔ تاکہ اے لوگو ! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو، اور اس کی مدد کرو اور اس کی تعظیم کرو، اور اللہ کی تسبیح کرو صبح و شام۔ ) آنحضرت ﷺ کا مرتبہ و مقام اور امت پر آپ کے حقوق ان دونوں آیتوں میں پہلے نبی کریم ﷺ کا مرتبہ و مقام واضح فرمایا گیا ہے، پھر اس مرتبہ و مقام کے تقاضے سے مومنوں پر آپ کے جو حقوق قائم ہوئے ان کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ مقام و مرتبہ کے حوالے سے ارشاد فرمایا کہ ہم نے آپ کو شاہد بنا کے بھیجا ہے۔ شاہد کا معنی ہے گواہی دینے والا۔ کہ آپ قیامت کے دن اپنی امت پر گواہی دیں گے اور اس کے مطابق امت کو جزا و سزا سے گزارا جائے گا۔ لیکن یہ گواہی اس گواہی کا نتیجہ ہوگی جو آپ دنیا میں اللہ تعالیٰ کے بندوں کے سامنے دے چکے ہوں گے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے جو ضابطہ ٔ حیات نازل فرمایا اس کے ایک ایک حکم کو اللہ تعالیٰ کے حوالے سے آپ نے لوگوں تک پہنچایا۔ اور لوگوں کے اندر اعتماد پیدا کیا کہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کا حکم ہے اس میں شک و ارتیاب کی کوئی گنجائش نہیں۔ اور دوسری گواہی آپ نے یہ دی کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے احکام اور اس ضابطہ ٔ حیات کی ایک ایک دفعہ کو جو اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لیے نازل فرمایا، بلا کم وکاست نافذ فرما کر اس کے قابل عمل بلکہ واجب العمل ہونے کو ثابت کیا۔ اور ایک مختصر وقت میں اس ضابطہ ٔ حیات کی برکات اور اس کے نتائج سے لوگوں کو بہرہ ور فرمایا۔ جن لوگوں نے آنحضرت ﷺ پر ایمان لا کر اس ضابطہ حیات کو قبول کرلیا، آپ نے انھیں دنیوی و اخروی فوزوفلاح کی بشارت دی۔ اور دنیا میں چند ہی سال کے اندر لوگوں نے اپنی آنکھوں سے اس کی عملی تصویر دیکھی۔ اور جن لوگوں نے اسے ماننے سے انکار کیا انھیں آپ نے خبردار کیا کہ اگر تم اسے تسلیم کرنے سے انکار کرو گے تو دنیا میں بھی نقصان اٹھائو گے اور آخرت میں بدترین عذاب کے سزاوار ٹھہروگے۔ آنحضرت ﷺ کی اس حیثیت کو واضح کرنے کے بعد اس کے تقاضوں کو بیان فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لائو۔ اور نبی کریم ﷺ اللہ تعالیٰ کے دین کی اقامت کے لیے جو جدوجہد کررہے ہیں اس میں ان کی ہر ممکن مدد کرو۔ اور یہ بات یاد رکھو کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں سب سے بلندوبالا شخصیت ہیں۔ اور ایمان کے نقطہ نگاہ سے اللہ تعالیٰ کے بعد ان ہی کا مقام و مرتبہ ہے۔ اس لیے ان کے احترام اور تعظیم میں کبھی کمی نہ آنے دو ۔ اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوگا کہ صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے رہو۔ صبح و شام سے مراد صبح اور شام کے مخصوص اوقات نہیں بلکہ یہ الفاظ احاطہ پر دلیل ہیں۔ یعنی ہر وقت اللہ تعالیٰ کو یاد رکھو۔
Top