Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ
: اور چور مرد
وَالسَّارِقَةُ
: اور چور عورت
فَاقْطَعُوْٓا
: کاٹ دو
اَيْدِيَهُمَا
: ان دونوں کے ہاتھ
جَزَآءً
: سزا
بِمَا كَسَبَا
: اس کی جو انہوں نے کیا
نَكَالًا
: عبرت
مِّنَ
: سے
اللّٰهِ
: اللہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
عَزِيْزٌ
: غالب
حَكِيْمٌ
: حکمت والا
اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت ‘ پس ان کے ہاتھ کاٹ دو ‘ یہ ان کے کرتوت کی جزا اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا جَزَآئًم بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللہِ ط وَ اللہ ُ عَزِیْزٌ حَکِیْمُٗ ۔ (المائدہ : 38) ” اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت ‘ پس ان کے ہاتھ کاٹ دو ۔ یہ ان کے کرتوت کی جزا اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے “۔ چوری کی حد کس وقت لاگو ہوتی ہے ؟ قرآن کریم کا عام انداز یہ ہے کہ وہ صرف مردوں کو خطاب کر کے احکام دیتا ہے اور عورتیں بھی ان احکام میں شامل ہوتی ہیں۔ لیکن حدود کے نفاذ میں چونکہ بہت احتیاط برتی گئی ہے ‘ اس لیے یہاں مردوں اور عورتوں کو الگ الگ ذکر فرمایا گیا ہے ‘ تاکہ کہیں اس شبے کا سہارا نہ لیا جائے کہ چوری کی سزا صرف مردوں پر نافذ ہوگی ‘ عورتوں پر نہیں ہوگی اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ السارق اور السارقہ یہ صفت کے صیغے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو چور قرار دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایسی چیز کی چوری کرے جو قدر و قیمت کی حامل ہو۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ اور صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کسی معمولی چیز پر کبھی حد سرقہ کو جاری کرنے کا حکم نہیں دیا۔ یعنی ایک آدمی راستے میں کسی درخت سے پھل توڑ لیتا ہے ‘ کسی کے ٹال سے چند لکڑیاں اٹھا لیتا ہے ‘ سبزی کی دکان سے کوئی سبزی چرا لیتا ہے ‘ ان ناشائستہ افعال پر عدالت سزا تو دے سکتی ہے ‘ لیکن حد جاری نہیں کرسکتی کیونکہ اس کو حقیقت میں ایسی چوری قرار نہیں دیا جاسکتا ‘ جس پر اتنی بڑی سزا دی جاسکے۔ پھر قرآن و سنت سے فقہا نے چوری کا جو مفہوم سمجھا ہے ‘ اس کے پیش نظر انھوں نے اس پر چند شرائط عائد کی ہیں کہ اس چیز کی چوری کو شرعی طور پر چوری قرار دیا جائے گا ‘ جو کسی کی ذاتی ملکیت ہو۔ اگر اس میں چوری کرنے والے کا کسی حد تک بھی اشتراک ہو یا وہ چیز رفاہ عامہ سے تعلق رکھتی ہو ‘ اس پر یہ حد جا ری نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ کسی محفوظ مال کی چوری کی گئی ہو۔ اگر وہ چوری کی چیز مال تو ہے ‘ لیکن اسے باہر ڈال دیا گیا ہے یا مثلاً بھینسیں باہر چرنے کے لیے چھوڑ دی گئی ہیں اور کوئی ساتھ محافظ نہیں ہے تو ایسی چوری پر بھی اور کوئی سزا تو دی جاسکتی ہے ‘ لیکن حد جاری نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح جیب تراش چاہے وہ کسی کو ہزاروں لاکھوں سے محروم کردے یا کفن چور جو ایک نہایت سنگین چوری کرتا ہے ‘ جو ہر طرح مذمت کے قابل ہے ‘ لیکن چونکہ یہ پوری طرح حفاظت میں نہیں ہے ‘ اس لیے اس پر بھی ہاتھ نہیں کاٹے جاسکتے۔ اسی طرح اس سزا کے اجراء کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس چیز کو چھپا کر چرایا گیا ہو۔ اگر سرعام اور جبر سے چرایا جائے تو وہ ڈاکہ ہے ‘ چوری نہیں۔ اس کی سزا اور ہے۔ اس کے علاوہ فقہ میں اس کی مزید شرائط کو دیکھا جاسکتا ہے۔ پھر اس جرم کے ثبوت کے لیے بھی ‘ باقی تمام حدود کی طرح بہت احتیاط سے کام لیا گیا ہے اگر ثبوت میں ذرا سا بھی شبہ پڑجائے ‘ تو حد کا اجراء روک دیا جاتا ہے کیونکہ شبہ کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو پہنچتا ہے۔ مزید یہ کہ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ چوری کرنے والا نابالغ یا اس کے دماغ میں فتو رہے ‘ جب بھی اس کو اس سزا سے بچایا جائے گا اور اگر یہ شبہ ہوجائے کہ چوری کرنے والا چوری کرنے میں اختیار نہیں رکھتا تھا ‘ بلکہ جبراً اس سے چوری کروائی گئی یا وہ اضطرار کا شکار تھا کہ اگر وہ چوری نہ کرتا تو ضرورت کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتا ‘ تب بھی یہ سزا اس پر نافذ نہیں ہو سکے گی کیونکہ اسلام میں حدود نافذ کرنے سے مقصود لوگوں کو سزائیں دینا نہیں بلکہ لوگوں میں ایک ایسا کریکٹر پیدا کرنا ہے کہ جس سے وہ خود ہی ایسے گناہ سے بچیں اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کو ایسی بنیادوں پر اٹھانا مقصود ہے ‘ جس میں اس طرح کے گناہوں کا وقوع اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجائے۔ اسلام صرف ترغیب ہی نہیں دیتا بلکہ ترہیب سے بھی کام لیتا ہے انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ دعوت و نصیحت سے وقتی اثر ضرور قبول کرتی ہے لیکن حالات کا دبائو اور خواہشات کی فراوانی اس اثر کو دیر پا نہیں رہنے دیتی اس کے لیے ضروری ہے کہ ترغیب کے ساتھ ساتھ ترہیب سے بھی کام لیا جائے۔ ترہیب کا سب سے اہم عنصر منکرات کے ارتکاب پر سزا کا نفاذ ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو انسان کو برائی کے ارتکاب سے پہلے سوچنے اور رکنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب چور کو یہ بات معلوم ہو کہ میں اگر چوری کے جرم میں پکڑا گیا تو مجھے سخت سزا ملے گی تو وہ کبھی بھی چوری کے ارتکاب میں جلد بازی سے کام نہیں لے گا۔ مزید برآں معاشرے کو اس لعنت سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مجرم کو ملنے والی سزا اس کے لیے سامان عبرت بن جائے۔ وہ جب بھی اس سزا کے تصور کو ذہن میں تازہ کرے تو اس کے جسم پر کپکپی چھوٹ جائے اور اس کے دل کی حرکت رک رک کر چلنے لگے۔ اگر ان دو باتوں کا اہتمام کرلیا جائے تو پھر امید کی جاسکتی ہے کہ افراد معاشرہ بہت حد تک اس لعنت سے بچ جائیں گے۔ اس لیے قرآن پاک کی اس آیت کریمہ میں ان دونوں باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے فرمایا : جَزَآئًم بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللہِ یہ چوری کی سزا چور کے لیے اس کے عمل کا بدلہ ہے ‘ لیکن معاشرے کے لیے سامان عبرت ہے۔ چور نے جو حرکت کی ہے ‘ اس کے لیے چونکہ اس نے دراز دستی سے کام لیتے ہوئے حدود سے تجاوز کیا ہے ‘ اس لیے اس کا ہاتھ اب باقی نہیں رہ سکتا اور چونکہ خطرہ ہے کہ دیگر افرادِ معاشرہ بھی اس کا ارتکاب نہ کرنے لگیں ‘ اس لیے علانیہ ہاتھ کاٹنا لوگوں کو عبرت دلانے کی ایک ترکیب ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو چوری کی وارداتیں کبھی نہیں رکیں گی۔ جیسا کہ آج پوری دنیا میں چوری کے مجرموں کو قید وبند کی سزائیں بھی ملتی ہیں ‘ جرمانے بھی ہوتے ہیں ‘ مار پیٹ بھی ہوتی ہے ‘ مگر یہ جرم ہے کہ روز بروز دیگر جرائم کی طرح بڑھتا ہی جارہا ہے جیلیں جرائم کی درسگاہیں بن کر رہ گئی ہیں اور معاشرہ اس بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ چوری کا یہ جرم صرف ایک جرم نہیں بلکہ کئی جرائم کا عنوان ہے۔ اگر اس کو نہ روکا جائے تو بہت سارے جرائم کو وقوع پذیر ہونے اور بہت ساری محرومیوں کو معاشرے میں در آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ فرض کریں ایک بیوہ جس نے اپنی بیٹی کو پالتے ہوئے عمر کا بیشتر حصہ گزارا ‘ جب بیٹی جوان ہوگئی تو اس نے اس کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے گھروں میں برتن مانجھے ‘ کپڑے دھوئے ‘ پیسہ پیسہ جمع کیا اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کے لیے جہیز بنایا۔ شادی کے دن طے ہوگئے تو چور نے آ کر اس کے گھر کی روشنی بجھا دی۔ اب یہ بظاہر ایک جرم ہے ‘ لیکن حقیقت میں اس جرم کے نتیجے میں ایک بیوہ کی آرزوئوں اور ایک جوان لڑکی کے سپنوں کی شکست و ریخت کا جو صدمہ چھپا ہوا ہے اور جس کے نتائج نامعلوم کس طرح اخلاقی تباہی کی شکل میں نکلیں گے ‘ اس کا اندازہ کرنا آسان نہیں۔ لیکن ہمارے گردوپیش میں ایسی کئی کہانیاں ہیں جن کو سن کر اور دیکھ کر ‘ بڑی آسانی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور بیوہ ماں نے اس لیے اپنی زندگی بھر کا زیور اور اثاثہ چھپا کے رکھا تھا کہ میرا بیٹا ‘ جب اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کالج یا یونیورسٹی جائے گا تو اس کے اخراجات میں کام آئیں گے۔ لیکن ایک چور کا ہاتھ جہاں ماں کی ساری امیدوں کا گلا گھونٹ دیتا ہے ‘ وہاں عین ممکن ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے دروازے پر کھڑا ہونے والا یہ نوجوان معاشرے سے انتقام لینے کے لیے ایک خطرناک مجرم کی صورت اختیار کر جائے۔ اس لیے ہمارا پروردگار ‘ جو خالق فطرت ہے۔ وہ ہمارے دانشوروں سے زیادہ جانتا ہے کہ معاشرے کو ان محرومیوں سے بچانے کے لیے کیسی سزائیں ہونی چاہئیں ‘ جس سے واقعی جرائم کا راستہ روکا جاسکے۔ لیکن مشکل یہ ہوگئی ہے کہ جب ایک دانشور یہ سنتا ہے کہ کسی معاشرے میں کسی چور کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تو ندامت سے اس کی پیشانی پر پسینہ کے قطرے جھلملانے لگتے ہیں ‘ لیکن پوری دنیا جس طرح ایسے جرائم کے ہاتھوں اخلاقی موت کا شکار ہو رہی ہے ‘ اس سے ہمارے دانشوروں کی پیشانیاں کبھی پسینے سے نہیں بھیگتیں حالانکہ یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ اگر چند ہاتھوں کے کٹ جانے سے ہزاروں سر ‘ ہزاروں گھر اور ہزاروں قسمتیں محفوظ ہوسکتی ہیں تو یہ سودا نہ صرف یہ کہ مہنگا نہیں بلکہ انسانیت کے لیے باعث رحمت ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ شاہ فیصل مرحوم امریکہ کے دورے پر گئے۔ وہاں انھوں نے ایک پریس کانفرنس بلائی۔ اس پر ہجوم پریس کانفرنس میں بڑے بڑے اخباروں کے رپورٹروں نے حدود اللہ کے حوالے سے چبھتے ہوئے سوالات کیے اور بار بار یہ بات کہی کہ آپ انسانوں کے ہاتھ کاٹ کر اور حدود اللہ کو نافذ کر کے بہت بڑی انسان دشمنی کا ثبوت دیتے ہیں ‘ اس سے بڑھ کر ظالمانہ سزائیں اور کیا ہوسکتی ہیں ؟ شاہ فیصل نے جواب میں فرمایا کہ بات اصل میں یہ ہے کہ تمہیں اور پورے مغرب کو انسانوں اور انسانیت سے ہمدردی نہیں بلکہ جرائم اور مجرموں سے ہمدردی ہے۔ اگر تمہیں انسانیت سے ہمدردی ہوتی تو تم نے انسانیت کے تحفظ کی کوشش کی ہوتی۔ تمہیں چونکہ جرائم اور مجرموں سے ہمدردی ہے ‘ اس لیے تم اس کے تحفظ کے لیے کوشاں رہتے ہو اور اس میں تم کامیاب بھی ہو۔ مزید فرمایا کہ میں تمہیں ڈالروں سے بھرا ہوا ایک بریف کیس دیتا ہوں اور پھر تمہیں میں اسی شہر میں گھومنے پھرنے کے لیے بغیر کسی باڈی گارڈ کے جانے کا حکم دیتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ چند گھنٹوں کے بعد مجھے خبر ملے گی کہ تمہیں یا تو قتل کردیا گیا ہے یا تمہارا بریف کیس چھین لیا گیا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے اور تم جانتے ہو کہ ایسا ہی ہے تو پھر تمہیں سوچنا چاہیے کہ تم نے سزائوں کے نام سے جو ایک تماشہ رچا رکھا ہے ‘ اس نے آخر تمہیں اور پوری دنیا کو کیا دیا ہے ؟ کہ جرائم میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں انسانوں کے دکھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کے بر عکس میں تمہیں اپنے ملک چلنے کی دعوت دیتا ہوں۔ تم میرے ملک میں آئو ‘ میں تمہیں سونے سے لاد دوں گا اور دولت کا ایک بڑا انبار تمہارے ساتھ کر کے ‘ تمہیں حکم دوں گا کہ پورے ملک کی سیر کرو۔ اگر اس سیر میں تمہارا کوئی نقصان ہو یا تمہاری طرف کوئی میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت کرے تو پھر میں مان لوں گا کہ تم اسلامی سزائوں کو جو ظالمانہ سزائیں کہتے ہو اور بظاہر انسانیت سے جو محبت جتاتے ہو ‘ یہ بالکل صحیح ہے۔ لیکن اگر تم دولت کا ایک انبار رکھتے ہوئے بھی اور تن تنہا پورے ملک میں سفر کرتے ہوئے بھی ‘ کسی حادثے کا شکار نہیں ہوتے اور کوئی تمہیں نقصان پہنچانے کی جرأت نہیں کرتا تو تمہیں مان لینا چاہیے کہ اسلام کی سزائیں جو بقول تمہارے سخت سہی ‘ سراسر رحمت ہیں ‘ اس نے انسانوں کو کچھ دیا ہے چھینا نہیں۔ کیا ایسا نہیں کہ جب کبھی یہ تجربہ ہوا ہے ‘ وہ چودہ سو سال پہلے ہوا ہو یا آج ‘ اس نے ہمیشہ انسانوں کی جان ‘ مال ‘ عزت ‘ آبرو ‘ حتیٰ کہ انسانیت کی حفاظت کی ہے۔ پھر میں نہیں سمجھتا کہ تم اگر انسانیت سے ہمدردی رکھتے ہو تو تمہیں اسلام کا دیا ہوا سزائوں کا نظام قبول کرنے میں آخر تأمل کیوں ہے ؟ مزید فرمایا : وَ اللہ ُ عَزِیْزٌ حَکِیمٌ اللہ غالب ہے ‘ حکمت والا ہے) وہ چونکہ غالب ہے ‘ اس لیے جو چاہے حکم دے سکتا ہے ‘ اس پر اعتراض کرنے کا کسی کو حق نہیں۔ چونکہ وہ حکیم بھی ہے ‘ اس لیے اس کا ہر حکم حکمت و دانش کا مرقع ہوتا ہے۔ انسان اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے بعض دفعہ اس کے نتائج وثمرات کو سمجھنے میں کوتاہی کر جاتے ہیں لیکن جب کبھی اس کا تجربہ کرتے ہیں تو تب انھیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و دانش سے کس طرح ہمیں نوازا ہے۔
Top