Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 38
وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَةُ فَاقْطَعُوْۤا اَیْدِیَهُمَا جَزَآءًۢ بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
وَالسَّارِقُ : اور چور مرد وَالسَّارِقَةُ : اور چور عورت فَاقْطَعُوْٓا : کاٹ دو اَيْدِيَهُمَا : ان دونوں کے ہاتھ جَزَآءً : سزا بِمَا كَسَبَا : اس کی جو انہوں نے کیا نَكَالًا : عبرت مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت ‘ پس ان کے ہاتھ کاٹ دو ‘ یہ ان کے کرتوت کی جزا اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا جَزَآئًم بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللہِ ط وَ اللہ ُ عَزِیْزٌ حَکِیْمُٗ ۔ (المائدہ : 38) ” اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت ‘ پس ان کے ہاتھ کاٹ دو ۔ یہ ان کے کرتوت کی جزا اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزا ہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے “۔ چوری کی حد کس وقت لاگو ہوتی ہے ؟ قرآن کریم کا عام انداز یہ ہے کہ وہ صرف مردوں کو خطاب کر کے احکام دیتا ہے اور عورتیں بھی ان احکام میں شامل ہوتی ہیں۔ لیکن حدود کے نفاذ میں چونکہ بہت احتیاط برتی گئی ہے ‘ اس لیے یہاں مردوں اور عورتوں کو الگ الگ ذکر فرمایا گیا ہے ‘ تاکہ کہیں اس شبے کا سہارا نہ لیا جائے کہ چوری کی سزا صرف مردوں پر نافذ ہوگی ‘ عورتوں پر نہیں ہوگی اور پھر ہم دیکھتے ہیں کہ السارق اور السارقہ یہ صفت کے صیغے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی کو چور قرار دینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایسی چیز کی چوری کرے جو قدر و قیمت کی حامل ہو۔ اسی لیے آنحضرت ﷺ اور صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے کسی معمولی چیز پر کبھی حد سرقہ کو جاری کرنے کا حکم نہیں دیا۔ یعنی ایک آدمی راستے میں کسی درخت سے پھل توڑ لیتا ہے ‘ کسی کے ٹال سے چند لکڑیاں اٹھا لیتا ہے ‘ سبزی کی دکان سے کوئی سبزی چرا لیتا ہے ‘ ان ناشائستہ افعال پر عدالت سزا تو دے سکتی ہے ‘ لیکن حد جاری نہیں کرسکتی کیونکہ اس کو حقیقت میں ایسی چوری قرار نہیں دیا جاسکتا ‘ جس پر اتنی بڑی سزا دی جاسکے۔ پھر قرآن و سنت سے فقہا نے چوری کا جو مفہوم سمجھا ہے ‘ اس کے پیش نظر انھوں نے اس پر چند شرائط عائد کی ہیں کہ اس چیز کی چوری کو شرعی طور پر چوری قرار دیا جائے گا ‘ جو کسی کی ذاتی ملکیت ہو۔ اگر اس میں چوری کرنے والے کا کسی حد تک بھی اشتراک ہو یا وہ چیز رفاہ عامہ سے تعلق رکھتی ہو ‘ اس پر یہ حد جا ری نہیں کی جاسکتی۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ کسی محفوظ مال کی چوری کی گئی ہو۔ اگر وہ چوری کی چیز مال تو ہے ‘ لیکن اسے باہر ڈال دیا گیا ہے یا مثلاً بھینسیں باہر چرنے کے لیے چھوڑ دی گئی ہیں اور کوئی ساتھ محافظ نہیں ہے تو ایسی چوری پر بھی اور کوئی سزا تو دی جاسکتی ہے ‘ لیکن حد جاری نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح جیب تراش چاہے وہ کسی کو ہزاروں لاکھوں سے محروم کردے یا کفن چور جو ایک نہایت سنگین چوری کرتا ہے ‘ جو ہر طرح مذمت کے قابل ہے ‘ لیکن چونکہ یہ پوری طرح حفاظت میں نہیں ہے ‘ اس لیے اس پر بھی ہاتھ نہیں کاٹے جاسکتے۔ اسی طرح اس سزا کے اجراء کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس چیز کو چھپا کر چرایا گیا ہو۔ اگر سرعام اور جبر سے چرایا جائے تو وہ ڈاکہ ہے ‘ چوری نہیں۔ اس کی سزا اور ہے۔ اس کے علاوہ فقہ میں اس کی مزید شرائط کو دیکھا جاسکتا ہے۔ پھر اس جرم کے ثبوت کے لیے بھی ‘ باقی تمام حدود کی طرح بہت احتیاط سے کام لیا گیا ہے اگر ثبوت میں ذرا سا بھی شبہ پڑجائے ‘ تو حد کا اجراء روک دیا جاتا ہے کیونکہ شبہ کا فائدہ ہمیشہ ملزم کو پہنچتا ہے۔ مزید یہ کہ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ چوری کرنے والا نابالغ یا اس کے دماغ میں فتو رہے ‘ جب بھی اس کو اس سزا سے بچایا جائے گا اور اگر یہ شبہ ہوجائے کہ چوری کرنے والا چوری کرنے میں اختیار نہیں رکھتا تھا ‘ بلکہ جبراً اس سے چوری کروائی گئی یا وہ اضطرار کا شکار تھا کہ اگر وہ چوری نہ کرتا تو ضرورت کے ہاتھوں ہلاک ہوجاتا ‘ تب بھی یہ سزا اس پر نافذ نہیں ہو سکے گی کیونکہ اسلام میں حدود نافذ کرنے سے مقصود لوگوں کو سزائیں دینا نہیں بلکہ لوگوں میں ایک ایسا کریکٹر پیدا کرنا ہے کہ جس سے وہ خود ہی ایسے گناہ سے بچیں اور اس کے ساتھ ساتھ معاشرے کو ایسی بنیادوں پر اٹھانا مقصود ہے ‘ جس میں اس طرح کے گناہوں کا وقوع اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوجائے۔ اسلام صرف ترغیب ہی نہیں دیتا بلکہ ترہیب سے بھی کام لیتا ہے انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ دعوت و نصیحت سے وقتی اثر ضرور قبول کرتی ہے لیکن حالات کا دبائو اور خواہشات کی فراوانی اس اثر کو دیر پا نہیں رہنے دیتی اس کے لیے ضروری ہے کہ ترغیب کے ساتھ ساتھ ترہیب سے بھی کام لیا جائے۔ ترہیب کا سب سے اہم عنصر منکرات کے ارتکاب پر سزا کا نفاذ ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو انسان کو برائی کے ارتکاب سے پہلے سوچنے اور رکنے پر مجبور کرتی ہے۔ جب چور کو یہ بات معلوم ہو کہ میں اگر چوری کے جرم میں پکڑا گیا تو مجھے سخت سزا ملے گی تو وہ کبھی بھی چوری کے ارتکاب میں جلد بازی سے کام نہیں لے گا۔ مزید برآں معاشرے کو اس لعنت سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مجرم کو ملنے والی سزا اس کے لیے سامان عبرت بن جائے۔ وہ جب بھی اس سزا کے تصور کو ذہن میں تازہ کرے تو اس کے جسم پر کپکپی چھوٹ جائے اور اس کے دل کی حرکت رک رک کر چلنے لگے۔ اگر ان دو باتوں کا اہتمام کرلیا جائے تو پھر امید کی جاسکتی ہے کہ افراد معاشرہ بہت حد تک اس لعنت سے بچ جائیں گے۔ اس لیے قرآن پاک کی اس آیت کریمہ میں ان دونوں باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے فرمایا : جَزَآئًم بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللہِ یہ چوری کی سزا چور کے لیے اس کے عمل کا بدلہ ہے ‘ لیکن معاشرے کے لیے سامان عبرت ہے۔ چور نے جو حرکت کی ہے ‘ اس کے لیے چونکہ اس نے دراز دستی سے کام لیتے ہوئے حدود سے تجاوز کیا ہے ‘ اس لیے اس کا ہاتھ اب باقی نہیں رہ سکتا اور چونکہ خطرہ ہے کہ دیگر افرادِ معاشرہ بھی اس کا ارتکاب نہ کرنے لگیں ‘ اس لیے علانیہ ہاتھ کاٹنا لوگوں کو عبرت دلانے کی ایک ترکیب ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو چوری کی وارداتیں کبھی نہیں رکیں گی۔ جیسا کہ آج پوری دنیا میں چوری کے مجرموں کو قید وبند کی سزائیں بھی ملتی ہیں ‘ جرمانے بھی ہوتے ہیں ‘ مار پیٹ بھی ہوتی ہے ‘ مگر یہ جرم ہے کہ روز بروز دیگر جرائم کی طرح بڑھتا ہی جارہا ہے جیلیں جرائم کی درسگاہیں بن کر رہ گئی ہیں اور معاشرہ اس بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ چوری کا یہ جرم صرف ایک جرم نہیں بلکہ کئی جرائم کا عنوان ہے۔ اگر اس کو نہ روکا جائے تو بہت سارے جرائم کو وقوع پذیر ہونے اور بہت ساری محرومیوں کو معاشرے میں در آنے سے نہیں روکا جاسکتا۔ فرض کریں ایک بیوہ جس نے اپنی بیٹی کو پالتے ہوئے عمر کا بیشتر حصہ گزارا ‘ جب بیٹی جوان ہوگئی تو اس نے اس کے ہاتھ پیلے کرنے کے لیے گھروں میں برتن مانجھے ‘ کپڑے دھوئے ‘ پیسہ پیسہ جمع کیا اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کے لیے جہیز بنایا۔ شادی کے دن طے ہوگئے تو چور نے آ کر اس کے گھر کی روشنی بجھا دی۔ اب یہ بظاہر ایک جرم ہے ‘ لیکن حقیقت میں اس جرم کے نتیجے میں ایک بیوہ کی آرزوئوں اور ایک جوان لڑکی کے سپنوں کی شکست و ریخت کا جو صدمہ چھپا ہوا ہے اور جس کے نتائج نامعلوم کس طرح اخلاقی تباہی کی شکل میں نکلیں گے ‘ اس کا اندازہ کرنا آسان نہیں۔ لیکن ہمارے گردوپیش میں ایسی کئی کہانیاں ہیں جن کو سن کر اور دیکھ کر ‘ بڑی آسانی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک اور بیوہ ماں نے اس لیے اپنی زندگی بھر کا زیور اور اثاثہ چھپا کے رکھا تھا کہ میرا بیٹا ‘ جب اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے کالج یا یونیورسٹی جائے گا تو اس کے اخراجات میں کام آئیں گے۔ لیکن ایک چور کا ہاتھ جہاں ماں کی ساری امیدوں کا گلا گھونٹ دیتا ہے ‘ وہاں عین ممکن ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے دروازے پر کھڑا ہونے والا یہ نوجوان معاشرے سے انتقام لینے کے لیے ایک خطرناک مجرم کی صورت اختیار کر جائے۔ اس لیے ہمارا پروردگار ‘ جو خالق فطرت ہے۔ وہ ہمارے دانشوروں سے زیادہ جانتا ہے کہ معاشرے کو ان محرومیوں سے بچانے کے لیے کیسی سزائیں ہونی چاہئیں ‘ جس سے واقعی جرائم کا راستہ روکا جاسکے۔ لیکن مشکل یہ ہوگئی ہے کہ جب ایک دانشور یہ سنتا ہے کہ کسی معاشرے میں کسی چور کا ہاتھ کاٹ دیا گیا تو ندامت سے اس کی پیشانی پر پسینہ کے قطرے جھلملانے لگتے ہیں ‘ لیکن پوری دنیا جس طرح ایسے جرائم کے ہاتھوں اخلاقی موت کا شکار ہو رہی ہے ‘ اس سے ہمارے دانشوروں کی پیشانیاں کبھی پسینے سے نہیں بھیگتیں حالانکہ یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ اگر چند ہاتھوں کے کٹ جانے سے ہزاروں سر ‘ ہزاروں گھر اور ہزاروں قسمتیں محفوظ ہوسکتی ہیں تو یہ سودا نہ صرف یہ کہ مہنگا نہیں بلکہ انسانیت کے لیے باعث رحمت ہے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ شاہ فیصل مرحوم امریکہ کے دورے پر گئے۔ وہاں انھوں نے ایک پریس کانفرنس بلائی۔ اس پر ہجوم پریس کانفرنس میں بڑے بڑے اخباروں کے رپورٹروں نے حدود اللہ کے حوالے سے چبھتے ہوئے سوالات کیے اور بار بار یہ بات کہی کہ آپ انسانوں کے ہاتھ کاٹ کر اور حدود اللہ کو نافذ کر کے بہت بڑی انسان دشمنی کا ثبوت دیتے ہیں ‘ اس سے بڑھ کر ظالمانہ سزائیں اور کیا ہوسکتی ہیں ؟ شاہ فیصل نے جواب میں فرمایا کہ بات اصل میں یہ ہے کہ تمہیں اور پورے مغرب کو انسانوں اور انسانیت سے ہمدردی نہیں بلکہ جرائم اور مجرموں سے ہمدردی ہے۔ اگر تمہیں انسانیت سے ہمدردی ہوتی تو تم نے انسانیت کے تحفظ کی کوشش کی ہوتی۔ تمہیں چونکہ جرائم اور مجرموں سے ہمدردی ہے ‘ اس لیے تم اس کے تحفظ کے لیے کوشاں رہتے ہو اور اس میں تم کامیاب بھی ہو۔ مزید فرمایا کہ میں تمہیں ڈالروں سے بھرا ہوا ایک بریف کیس دیتا ہوں اور پھر تمہیں میں اسی شہر میں گھومنے پھرنے کے لیے بغیر کسی باڈی گارڈ کے جانے کا حکم دیتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ چند گھنٹوں کے بعد مجھے خبر ملے گی کہ تمہیں یا تو قتل کردیا گیا ہے یا تمہارا بریف کیس چھین لیا گیا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے اور تم جانتے ہو کہ ایسا ہی ہے تو پھر تمہیں سوچنا چاہیے کہ تم نے سزائوں کے نام سے جو ایک تماشہ رچا رکھا ہے ‘ اس نے آخر تمہیں اور پوری دنیا کو کیا دیا ہے ؟ کہ جرائم میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس کے نتیجے میں انسانوں کے دکھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ اس کے بر عکس میں تمہیں اپنے ملک چلنے کی دعوت دیتا ہوں۔ تم میرے ملک میں آئو ‘ میں تمہیں سونے سے لاد دوں گا اور دولت کا ایک بڑا انبار تمہارے ساتھ کر کے ‘ تمہیں حکم دوں گا کہ پورے ملک کی سیر کرو۔ اگر اس سیر میں تمہارا کوئی نقصان ہو یا تمہاری طرف کوئی میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرأت کرے تو پھر میں مان لوں گا کہ تم اسلامی سزائوں کو جو ظالمانہ سزائیں کہتے ہو اور بظاہر انسانیت سے جو محبت جتاتے ہو ‘ یہ بالکل صحیح ہے۔ لیکن اگر تم دولت کا ایک انبار رکھتے ہوئے بھی اور تن تنہا پورے ملک میں سفر کرتے ہوئے بھی ‘ کسی حادثے کا شکار نہیں ہوتے اور کوئی تمہیں نقصان پہنچانے کی جرأت نہیں کرتا تو تمہیں مان لینا چاہیے کہ اسلام کی سزائیں جو بقول تمہارے سخت سہی ‘ سراسر رحمت ہیں ‘ اس نے انسانوں کو کچھ دیا ہے چھینا نہیں۔ کیا ایسا نہیں کہ جب کبھی یہ تجربہ ہوا ہے ‘ وہ چودہ سو سال پہلے ہوا ہو یا آج ‘ اس نے ہمیشہ انسانوں کی جان ‘ مال ‘ عزت ‘ آبرو ‘ حتیٰ کہ انسانیت کی حفاظت کی ہے۔ پھر میں نہیں سمجھتا کہ تم اگر انسانیت سے ہمدردی رکھتے ہو تو تمہیں اسلام کا دیا ہوا سزائوں کا نظام قبول کرنے میں آخر تأمل کیوں ہے ؟ مزید فرمایا : وَ اللہ ُ عَزِیْزٌ حَکِیمٌ اللہ غالب ہے ‘ حکمت والا ہے) وہ چونکہ غالب ہے ‘ اس لیے جو چاہے حکم دے سکتا ہے ‘ اس پر اعتراض کرنے کا کسی کو حق نہیں۔ چونکہ وہ حکیم بھی ہے ‘ اس لیے اس کا ہر حکم حکمت و دانش کا مرقع ہوتا ہے۔ انسان اپنی کوتاہ فہمی کی وجہ سے بعض دفعہ اس کے نتائج وثمرات کو سمجھنے میں کوتاہی کر جاتے ہیں لیکن جب کبھی اس کا تجربہ کرتے ہیں تو تب انھیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت و دانش سے کس طرح ہمیں نوازا ہے۔
Top