Ruh-ul-Quran - Al-Maaida : 39
فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَمَنْ : بس جو۔ جس تَابَ : توبہ کی مِنْ : سے بَعْدِ : بعد ظُلْمِهٖ : اپنا ظلم وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يَتُوْبُ عَلَيْهِ : اس کی توبہ قبول کرتا ہے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
اور جس شخص نے اس ظلم و سرکشی کے بعد توبہ کرلی اور اپنے عمل کی اصلاح کرلی ‘ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائیں گے ‘ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والے ہیں ‘ رحم کرنے والے ہیں
فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللہ َ یَتُوْبُ عَلَیْہِ ط اِنَّ اللہ َ غَفُوْرٌ رَّحِیْمُٗ ۔ (المائدہ : 39) ” اور جس شخص نے اس ظلم و سرکشی کے بعد توبہ کرلی اور اپنے عمل کی اصلاح کرلی ‘ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائیں گے ‘ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والے ہیں ‘ رحم کرنے والے ہیں “۔ توبہ کے بعد ایک مجرم سے اسلامی معاشرے کا سلوک تمام قوموں اور انسانی معاشروں میں یہ معمول رہا ہے کہ جب کسی مجرم کو سزا دی جاتی ہے تو اس کے بارے میں طبیعتوں میں نفرت پیدا ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں معاشرہ دوبارہ ایسے آدمی کو قبول کرنے سے انکار کردیتا ہے۔ اب وہ شخص یا تو محرومیوں کی پوٹ بن کر زندگی گزارتا ہے یا مایوسیوں کا شکار ہو کر خودکشی کی موت قبول کرلیتا ہے۔ لیکن ہمارا پروردگار چونکہ خالق فطرت اور انسانی جبلت کو جاننے والا ہے ‘ وہ انسانیت کا یہ نقصان کیسے گوارا کرسکتا ہے۔ اس لیے جہاں اس نے جرم کی سزا دے کر معاشرے پر پڑنے والے اس کے برے اثرات سے معاشرے کو بچایا ‘ وہیں اس نے مجرم کو معاشرے سے کٹ جانے اور دوبارہ معاشرے کے اسے قبول نہ کرنے جیسے نقصان سے بچا کر نہ صرف اس مجرم کی بلکہ جمیع انسانیت کی حفاظت کا اہتمام فرمایا۔ اس لیے ارشاد فرمایا : فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللہ َ یَتُوْبُ عَلَیْہِ ط اِنَّ اللہ َ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (اور جس شخص نے اس ظلم و سرکشی کے بعد توبہ کرلی اور اپنے عمل کی اصلاح کرلی ‘ اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائیں گے ‘ یقیناً اللہ تعالیٰ بخشنے والے ہیں ‘ رحم کرنے والے ہیں) یعنی ایک مجرم کے لیے نہ اسلامی معاشرے کے دروازے بند ہوتے ہیں اور نہ اللہ کی رحمت کے۔ شرط صرف یہ ہے کہ وہ اللہ کے سامنے معافی مانگے ‘ اپنے فعلِ بد پر ندامت کا اظہار کرے ‘ اپنے اس بگڑے ہوئے رویے کی پوری طرح اصلاح کرے اور تجدید عہد کرتے ہوئے یقین دلا دے کہ دوبارہ ایسی حرکت کا صدور نہیں ہوگا تو اللہ فرماتا ہے کہ میری مغفرت جھوم کر اس پر برسے گی اور میری رحمت اسے اپنی آغوش میں لے لے گی ‘ اس لیے کہ کسی انسان کا ٹھوکر کھا جانا ایسا جرم نہیں ‘ جس کی اصلاح ممکن نہ ہو۔ اصل جرم ‘ جرم کو جرم نہ سمجھنا اور اس پر اصرار کرتے ہوئے اسے جاری رکھنا ہے ‘ جس کے نتیجے میں اس کے اندر کی انسانیت تباہ ہوجاتی ہے اور انسانی معاشرہ نہ صرف اپنے ایک کارکن سے محروم ہوجاتا ہے ‘ بلکہ اس کے برے اثرات دوسروں کو اپنی لپیٹ میں لے کر اس جرم کا دائرہ کہیں سے کہیں پھیلا دیتے ہیں اور اگر یہ مجرم ‘ مجرم نہ رہے ‘ بلکہ نادم ہو کر اصلاح کی طرف لپکے تو نہ صرف یہ کہ انسانی معاشرے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ غلطی کرنے والوں کے سامنے ایک نمونہ آجاتا ہے ‘ جس سے ان کے لیے واپس پلٹنے کی ترغیب پیدا ہوجاتی ہے۔ سچ کہا ماہر القادری مرحوم نے ؎ اس دل پہ خدا کی رحمت ہو ‘ جس دل کی یہ حالت ہوتی ہے اک بار خطا ہوجاتی ہے ‘ سو بار ندامت ہوتی ہے
Top