Ruh-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 3
خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ
خَلَقَ الْاِنْسَانَ : اس نے پیدا کیا انسان کو
اسی نے انسان کو پیدا کیا
خَلَقَ الْاِنْسَانَ ۔ عَلَّمَہُ الْبَیَانَ ۔ (الرحمن : 3، 4) (اسی نے انسان کو پیدا کیا۔ اور اسے گویائی سکھائی۔ ) تخلیقِ انسان کا تقاضا انسان کی ہدایت ہے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک ایسی صفت کا ذکر فرمایا ہے جسے اہل عرب تسلیم کرتے تھے، لیکن اسے تسلیم کرنے کے بعد اس سے جو تقاضے پیدا ہوتے ہیں ان پر کان دھرنے کو تیار نہ تھے۔ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ جب تم اللہ تعالیٰ کو اپنا خالق مانتے ہو تو تمہیں یہ بات کیوں سجھائی نہیں دیتی کہ جو کسی چیز کو تخلیق کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی مخلوق کو وہ راستہ بتائے جس سے وہ اپنے مقصدوجود کو پورا کرسکے۔ اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یا تو وہ خالق نہیں اور یا وہ تخلیق کے تقاضوں کو نہیں جانتا۔ اور اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بدرجہا بلند ہے کہ اس کے بارے میں ایسی بدگمانی کی جائے۔ چناچہ اس نے اپنے خالق ہونے کی وجہ سے اپنے اوپر یہ لازم کرلیا ہے کہ وہ انسانوں کو اپنا مقصدوجود پورا کرنے کا ایک نظام بھی عطا فرمائے گا اور اس کا فہم بھی بخشے گا۔ چناچہ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ اِنَّ عَلَیْنَا لِلْھُدٰی ” بیشک ہدایت اور رہنمائی ہماری ذمہ داری ہے۔ “ ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا وَعَلَی اللّٰہِ قَصْدُالسَّبِیْلِ وَمِنْھَا جَائِرْ ” یہ اللہ کے ذمہ ہے کہ سیدھا راستہ بتائے، اور ٹیڑھے راستے بہت سے ہیں۔ “ چناچہ اس نے سیدھا راستہ بتانے کے لیے قرآن اتارا، اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو قوت گویائی عطا فرمائی۔ بیان : بولنے اور گویائی کو کہتے ہیں۔ لیکن معمولی تدبر کے بعد یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ صرف بول لینا انسانی ضرورت کی کفایت نہیں کرتا۔ کیونکہ بول تو طوطا بھی سکتا ہے اگر اس کے سدھایا جائے۔ لیکن صرف بولنے سے اس کے اندر آدمیت تو نہیں آجاتی۔ ذوق نے ٹھیک کہا : آدمی کچھ اور شے ہے، آدمیت اور ہے لاکھ طوطے کو پڑھایا پر وہ حیواں ہی رہا کیونکہ اس گویائی اور اظہار مافی الضمیر کے پیچھے خیر و شر اور بھلائی اور برائی میں امتیاز کی قوت اور جوہرِعقل کی نمود بھی ضروری ہے ورنہ ان کے بغیر صرف بول لینا انسانی ضروریات کے لیے کافی نہیں۔ ایک آدمی اگر عقل و شعور، فہم و ادراک، تمیز و ارادہ، اور دوسری ذہنی قوتوں سے مالامال نہیں تو محض اس کے بولنے کی قوت اسے نہ تو دوسرے حیوانات سے ممیز کرتی ہے اور نہ اس سے انسانیت کی خدمت ہوتی ہے۔ اور پھر قرآن کریم کے نزول کے بعد اس پر ایمان لانے والوں کو اس کے دیئے ہوئے پیغام کو دوسرے تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے اور جس ذات عزیز پر یہ قرآن کریم اتارا گیا ہے اسے خاتم النبیین بنایا گیا ہے۔ اس لحاظ سے جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کے آخری رسول پر ایمان لاکر اور اللہ تعالیٰ کے قرآن کو مان کر مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا ہے وہ درحقیقت ایک مبلغ اور مناد کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اس پہلو سے بھی اللہ تعالیٰ نے اس کو بیان، یعنی دوسروں تک اس پیغام کو پہنچانے کی صلاحیت دے کر ایک بہت بڑا احسان کیا ہے۔ اور انسان نے اسی صلاحیت کو آگے بڑھاتے ہوئے استدلال، استنباط اور اجتہاد کے اصول وضع کیے، اس کی تربیت کے ادارے کھولے، اس کے لیے کتابیں مرتب کی گئیں، پھر اس کے لیے رجال سازی کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے مدارس کھولے گئے اور ایک باقاعدہ نظام تعلیم و تربیت وجود میں آیا۔ اور یہ سب کچھ اس بیان کا تقاضا اور اس کا شاخسانہ ہے جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا۔
Top