Maarif-ul-Quran - Ar-Rahmaan : 3
خَلَقَ الْاِنْسَانَۙ
خَلَقَ الْاِنْسَانَ : اس نے پیدا کیا انسان کو
بنایا آدمی
خَلَقَ الْاِنْسَانَ ، عَلَّمَهُ الْبَيَانَ ، انسان کی تخلیق خود حق تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے، اور ترتیب طبعی کے اعتبار سے وہی سب سے مقدم ہے، یہاں تک کہ تعلیم قرآن جس کو پہلے ذکر کیا گیا ہے وہ بھی ظاہر ہے کہ تخلیق کے بعد ہی ہو سکتی ہے، مگر قرآن حکیم نے نعمت تعلیم قرآن کو مقدم اور تخلیق انسان کو موخر کر کے اس طرف اشارہ کردیا کہ تخلیق انسان کا اصل مقصد ہی تعلیم قرآن اور اس کے بتائے ہوئے راستہ پر چلنا ہے، جیسا کہ دوسری آیت میں ارشاد ہے، وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ " یعنی میں نے جن وانس کو صرف اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کیا کریں " اور ظاہر ہے کہ عبادت بغیر تعلیم الٰہی کے نہیں ہو سکتی، اسی کا ذریعہ قرآن ہے، اس لئے اس حیثیت میں تعلیم قرآن تخلیق انسان سے مقدم ہوگئی۔
تخلیق انسان کے بعد جو نعمتیں انسان کو عطا ہوئیں وہ بیشمار ہیں، ان میں خاص طور پر تعلیم بیان کو یہاں ذکر فرمانے کی حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ جن نعمتوں کا تعلق انسان کے نشوونما اور وجود و بقا سے ہے مثلاً کھانا پینا، سردی گرمی سے بچنے کے سامان، رہنے بسنے کا انتظام وغیرہ ان نعمتوں میں تو ہر جان دار انسان اور حیوان شریک ہے، وہ نعمتیں جو انسان کے ساتھ مخصوص ہیں ان میں سے پہلے تو تعلیم قرآن کا ذکر فرمایا اس کے بعد تعلیم بیان کا، کیونکہ تعلیم قرآن کا افادہ استفادہ بیان پر موقوف ہے۔
اور بیان میں زبانی بیان بھی داخل ہے، تحریر و خط اور افہام و تفہیم کے جتنے ذرائع حق تعالیٰ نے پیدا فرمائے ہیں وہ بیان کے مفہوم میں شامل ہیں اور پھر مختلف خطوں، مختلف قوموں کی مختلف زبانیں اور ان کے محاورات سب اسی تعلیم بیان کے اجزاء ہیں جو وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَاۗءَ كُلَّهَا کی عملی تفسیر ہے، فتبرک اللہ احسن الخلقین۔
Top