Ruh-ul-Quran - Al-An'aam : 135
قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ١ۚ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ١ۙ مَنْ تَكُوْنُ لَهٗ عَاقِبَةُ الدَّارِ١ؕ اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ
قُلْ : فرمادیں يٰقَوْمِ : اے قوم اعْمَلُوْا : کام کرتے رہو عَلٰي : پر مَكَانَتِكُمْ : اپنی جگہ اِنِّىْ : میں عَامِلٌ : کام کر رہا ہوں فَسَوْفَ : پس جلد تَعْلَمُوْنَ : تم جان لو گے مَنْ : کس تَكُوْنُ : ہوتا ہے لَهٗ : اس عَاقِبَةُ : آخرت الدَّارِ : گھر اِنَّهٗ : بیشک لَا يُفْلِحُ : فلاح نہیں پاتے الظّٰلِمُوْنَ : ظالم
کہہ دو ‘ اے میرے ہم قومو ! تم اپنے طریقے پر چلو ‘ میں اپنے طریقے پر چلتا ہوں۔ تم جلد جان لو گے کہ انجام کار کی کامیابی کس کا حصہ ہے۔ یقینا ظالم فلاح پانے والے نہیں ہوسکتے
قُلْ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ اِنِّیْ عَامِلٌج فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ لا مَنْ تَکُوْنُ لَہٗ عَاقِبَۃُ الدَّارِ ط اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ۔ (الانعام : 135) (کہہ دو ‘ اے میرے ہم قومو ! تم اپنے طریقے پر چلو ‘ میں اپنے طریقے پر چلتا ہوں۔ تم جلد جان لو گے کہ انجام کار کی کامیابی کس کا حصہ ہے۔ یقینا ظالم فلاح پانے والے نہیں ہوسکتے) رسول اللہ ﷺ کو فرمایا جا رہا ہے کہ کفار کو کہہ دیں تم اپنے طریقے پر چلو میں اپنے طریقے پر چلتا ہوں اے پیغمبر ان سے کہہ دو کہ تم نے اگر میری دعوت کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور میری کوئی دلیل تم پر اثر انداز نہیں ہو رہی اور تمہارے دل پتھروں سے بڑھ کر سخت ہوگئے ہیں اور تم نے انسانیت سے بالکل ناطہ توڑ لیا ہے اور ترغیب اور ترہیب کا کوئی لہجہ تم پر اثر انداز نہیں ہو رہا تو اسکا مطلب یہ ہے کہ تبلیغ و دعوت کا معاملہ اپنی انتہاء کو پہنچ گیا کیونکہ کاوشیں مکمل ہوگئیں ‘ انکار کی روش بھی مکمل ہوگئی یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جس میں اتمام حجت کا اعلان ہوجاتا ہے۔ یہاں آنحضرت ﷺ سے اتمام حجت کرایا جا رہا ہے کہ تم نے اگر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ تم کسی قیمت پر میری دعوت پر کان نہیں دھرو گے تو پھر میں آخری بات کہے دیتا ہوں تم اپنی خو نہ بدلو گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں سبک سر ہو کے کیوں پوچھیں کہ ہم سے تم خفا کیوں ہو کہ تم اپنے انکار پر قائم رہو اور اپنی اذیت رسانی کے عمل کو جاری رکھو لیکن میں اپنے کام سے نہیں رک سکتا میں تمہاری اذیتوں کے مقابلے میں بھی تمہیں اللہ کے دین کی دعوت دیتا رہوں گا ‘ البتہ یہ ضرور ہے کہ تمہیں اگر یہ قبول نہیں تو تم مجھے یہ کام دوسروں میں کرنے دو ۔ لیکن یہ کام بہرحال ہوگا کیونکہ تم اگر اپنی جفائیں نہیں چھوڑ سکتے تو میں اپنی وفائیں کیسے چھوڑ دوں۔ مریض اگر کھانا پینا بالکل چھوڑ دے تو تیمار دار آخری دم تک مریض کو کھلانے کی کوشش جاری رکھتا ہے۔ یہ کفر اور شرک کے مریض جب تک آخری ہچکی نہیں لے لیتے پیغمبر اپنے کام سے کبھی فارغ نہیں ہوتا۔ جب تک اسے ہجرت کا حکم نہیں ملتا وہ آخری لمحے تک اپنے کام کو جاری رکھتا ہے اس کا طرز عمل کچھ اس طرح کا ہوتا ہے جفا سے ہٹو تم وفا سے ٹلوں میں نہ یہ بات ہوگی نہ وہ بات ہوگی البتہ ! ایک بات یاد رکھو کہ یہ بات میں تمہیں برملا بتائے دیتا ہوں کہ آج تم بیشک میری دعوت کو قبول نہ کرو لیکن تم عنقریب دیکھ لو گے کہ اچھا انجام کس کو ملتا ہے اور کون برے انجام سے دوچار ہوتا ہے۔ یہاں عَاقِبَۃُ الدَّارِکا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یوں تو عاقبت کا معنی صرف انجام ہوتا ہے خواہ نیک انجام ہو یا بد لیکن بعض اوقات یہ مخصوص طور پر خیر و فلاح کے انجام کے معنی میں استعمال ہوتا ہے کیونکہ قابل ذکر انجام تو وہی ہے جو اس فلاح وسعادت کا حامل ہو کیونکہ یہ فلاح وسعادت ہی کائنات کی تخلیق کا اصل مقصد ہے نا مرادی اور خسران کا انجام وہ تو اس مقصد سے انحراف کا لازمہ ہے۔ چناچہ یہاں بھی یہ لفظ اسی خیر و فلاح کے انجام کے معنی میں استعمال ہو رہا ہے۔ مشرکینِ مکہ سے یہ کہا جا رہا ہے کہ تمہیں عنقریب اندازہ ہوجائے گا کہ یہ خیر و فلاح کس کا مقدر بنتی ہے تم بظاہر دنیا کی خوش عیشیوں میں مبتلا ہو کر اپنے آپ کو کامیاب و کامران سمجھتے ہو لیکن تمہیں اندازہ نہیں کہ تم ہلاکت اور بربادی کے انجام کی طرف بڑھ رہے ہو اور مسلمان جو تمہاری اذیتوں کی وجہ سے زار و نزار ہیں تمہیں معلوم نہیں کہ وہ ایک روشن مستقبل کو سامنے پا رہے ہیں جو عنقریب ان کے انتظار میں ہے اور یہ روشن مستقبل اور یہ خوبصورت انجام دو صورتوں میں ان کا استقبال کرے گا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ آخرت میں تو بالکل واضح ہے کہ آخرت کی کامیابیاں تو یقینا اہل ایمان کا حصہ ہیں۔ جہاں تک دنیا کی فلاح و کامرانی کا تعلق ہے اس لفظ میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے اسی وجہ سے الدار کو بغیر صفت کے لایا گیا ہے اگر اس سے مراد صرف دار آخرت ہوتا تو پھر الدارالاخرۃ آتا۔ یہاں صرف الدار لا کر اس کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد دار دنیا اور دار آخرت دونوں ہیں اس لحاظ سے یہ ایک پیش گوئی بھی ہے اور ایسے وقت میں کی جا رہی ہے جب کہ اسلامی دعوت کے پھلنے پھولنے اور آگے بڑھنے کے امکانات روز بروز مسدود ہوتے جا رہے تھے اور دشمن یہ دیکھ کر خوش ہو رہا تھا کہ یہ نوزائدہ تحریک چند دنوں تک خود اپنی موت آپ مرجائے گی۔ لیکن یہاں پیش گوئی فرمائی جا رہی ہے کہ اے مشرکین مکہ تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے کہ اسلامی دعوت کا انجام کیا ہوتا ہے اور تمہاری اس ہٹ دھرمی کا انجام کیا ہوتا ہے ؟ چناچہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہجرت کے سات سال بعد ہی اس پیش گوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا کہ وہ لوگ جو اسلام کا نام سننے کے روادار نہیں تھے اور جنھوں نے آنحضرت ﷺ کے قتل کے منصوبے بنائے تھے ان میں بڑے بڑے سردار تو جنگ بدر میں قتل کردیئے گئے اور جو باقی بچے وہ فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے معافی کے طلبگار تھے اور وہ نہایت لجاجت سے حضور ﷺ سے اپنی جان بخشی کی درخواست کر رہے تھے اس سے انھوں نے بھی اور ساری دنیا نے اس پیش گوئی کی صداقت پورے ہوتے دیکھی کہ کفر کی قسمت میں سوائے ذلت و ندامت کے اور کچھ نہ آیا اور مسلمانوں کو اللہ نے اپنی پیش گوئی کے مطابق ایک روشن اور کامیاب مستقبل سے نوازا اور یہ جو بظاہر کفار مکہ کو زندگی ملی اور پھر وہ اسلام کی دولت سے مشرف ہوئے یہ بھی اس لیے ہوا کہ مکہ میں ہجرت کے بعد بھی اسلام کی قبولیت کا سلسلہ رکا نہیں۔ اندر ہی اندر تبلیغ و دعوت کا یہ سلسلہ جاری رہا اور فرداً فرداً لوگ اسلام قبول کرتے رہے اگر یہ لوگ کہیں بالکل اسلام قبول کرنے سے انکار کردیتے تو اللہ کی سنت کے مطابق آنحضرت کی ہجرت کے بعد اللہ کا عذاب ان پر نازل ہوجاتا۔ البتہ جن لوگوں کو بالکل اسلام قبول نہ کرنا تھا وہ جنگ بدر اور اس کے بعد کی جنگوں میں اللہ کے عذاب کا شکار ہو کر جہنم واصل ہوئے یہ جو میں نے عرض کیا کہ یہ لوگ اس لیے اجتماعی عذاب سے بچ گئے کہ ان میں قبولیت ایمان کا سلسلہ دھیرے دھیرے جاری رہا۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ واقعہ حدیبیہ کے موقع پر جس طرح کی صورت حال پیدا ہوئی اس میں صاف نظر آرہا تھا کہ اب مسلمانوں اور قریش مکہ میں تصادم ہوا ہی چاہتا ہے لیکن اللہ نے محض اپنے فضل و کرم سے اس تصادم سے جانبین کو محفوظ رکھا اور اس کی وجہ قرآن کریم میں یہ بیان فرمائی گئی کہ مکہ معظمہ میں ایک معتد بہ تعداد نومسلم لوگوں کی تھی جن سے مسلمان بالکل ناواقف تھے اگر یہ تصادم ہوجاتا تو ممکن تھا کہ خود یہ نومسلم مسلمانوں ہی کے ہاتھوں مارے جاتے۔ اللہ کو یہ بات منظور تھی کہ ان کی زندگی بچائی جائے اور ان سے اللہ کے دین کی سربلندی میں کام لیا جائے۔ چناچہ حدیبیہ کے ایک ہی سال بعد ہم دیکھتے ہیں کہ مکہ سے جو لوگ چھپتے چھپاتے ساحل سمندر تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ان کی تعداد ستر (70) کے قریب تھی اور جو لوگ نہ نکل سکے اور فتح مکہ کے بعد مسلمانوں میں شامل ہو سکے ان کی تعداد ان سے بھی زیادہ تھی۔ یہی وہ قبولیت ایمان کا سلسلہ تھا جس نے اہل مکہ کو اجتماعی عذاب سے محفوظ رکھا۔ چناچہ یہاں آخرت کی کامیابی کے ساتھ ساتھ اسی کامیابی کی پیش گوئی کی گئی ہے جو چند ہی سالوں میں حرف بحرف پوری ہوئی۔ اس آیت کریمہ کے آخری جملے میں اس پوری صورتحال کو سمیٹتے ہوئے ایک اصولی بات فرمائی گئی کہ تم بھی اور قیامت تک آنے والے انسان بھی اس بات کو یاد رکھیں کہ اللہ کا قانون یہ ہے کہ یہاں فلاح و کامرانی ظالموں کو کبھی نصیب نہیں ہوتی۔ اگر ظالم کہیں بظاہر کامیاب دکھائی دیتے ہیں تو اس کی دو صورتیں ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ جسے کامیابی سمجھا جاتا ہے وہ کامیابی کی صورت ہوتی ہے حقیقت نہیں اور دوسری یہ بات کہ ظالموں کو کامیابی اس وقت ملتی ہے جب مظلوم اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اللہ سے مدد مانگتے ہوئے ظالم کے مقابلے میں اٹھنے سے کمزوری کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں چونکہ ظالم کے سامنے کوئی مقابل قوت نہیں ہوتی تو ایک مختصر وقت کے لیے قدرت ایسے ظالموں کو من مانی کرنے کے لیے چھٹی دے دیتی ہے اور ان سے ان مظلوموں کو سزا دلوانے کو کام لیتی ہے جو ان ظالموں کے خلاف جدوجہد سے انکار کرتے یا تساہل سے کام لیتے ہیں۔ اس لیے کہ قدرت کا یہ بھی قانون ہے کہ وہ ظالموں سے ظالموں کو سزا دلواتا ہے اور جس طرح ایک ڈاکٹر نشتر سے ناسور زدہ حصے کو کاٹنے کا کام لیتا ہے اسی طرح ان ظالموں کو بھی تقدیر کے نشتر کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے لیکن اصول اپنی جگہ ہے کہ اللہ ظالموں کو کبھی کامیابی عطا نہیں فرماتا۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ ظالموں سے کیا مراد ہے ہم پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ ظلم شرک کا دوسرا نام ہے کائنات میں چونکہ اللہ کا تکوینی نظام کارفرما ہے اور یہاں کی ہر چیز اس کی حاکمیت کی پابند ہے۔ چھوٹے بڑے کرے اسی کے حکم کے تحت محو گردش ہیں۔ اس کا ایک قطعی قانون ہے جس کے مطابق پوری کائنات محو سفر ہے اور اسی میں اس کائنات کی زندگی کا راز مضمر ہے جس دن سورج اپنا اصل فرض انجام دینے سے قاصر رہے گا تو وہ بجھ کے رہ جائے گا جو کرہ اپنے مدار سے نکل جائے گا وہ ٹوٹ کر تباہ ہوجائے گا ‘ جو درخت اپنی جڑوں سے اکھڑ جاتا ہے وہ موت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی زندگی اللہ کے اس قانون کی پابندی میں ہے۔ جس قانون کا اسے پابند بنایا گیا ہے۔ اسی طرح انسان بھی ایک تکوینی قانون کے ساتھ ساتھ تشریعی قانون کا پابند بنایا گیا ہے۔ اسی کے لیے اللہ نے اپنے رسول بھیجے اور کتابیں اتاری ہیں اور اسی قانون کی پابندی اور اس کے مطابق عمل کرنے میں اس کی فلاح و کامرانی کا راز مضمر ہے اور یہ بتادیا گیا ہے کہ جس طرح پوری کائنات اللہ کی اطاعت میں زندگی گزار رہی ہے اور جس سمت میں اس کا سفر جاری ہے تم بھی اپنی زندگی کا سفر اگر تشریعی نظام کی اطاعت کرتے ہوئے اسی سمت میں جاری رکھو گے تو کامیابی اور کامرانی تمہارا نصیب ہوگی لیکن اگر تم اس کی الٹی سمت چلنے کی کوشش کرو گے تو تباہ و برباد ہوجاؤ گے اور یہ الٹی سمت سفر کرنے کو ہی کفر اور شرک کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور انسانوں پر انسان جو ظلم توڑتے ہیں وہ بھی اس وقت ممکن ہوتا ہے جب انسان اس نظام شریعت سے باغی ہوجاتے ہیں۔ اسی سے آج کی امت مسلمہ کی نامرادی اور بدنصیبی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ آج امت مسلمہ جس طرح قدم قدم پر ناکامیوں اور نامرادیوں سے دوچار ہے اس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اس نے اجتماعی ظلم کا رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس نے ہر قدم پر کفر اور شرک کا ارتکاب کیا ہے۔ اللہ کے دین اور اس کے احکام کو ماننے سے انکار کرنا یہ کفر ہے اور اللہ کے احکام اور اس کے قانون میں کسی دوسرے قانون کو شریک کرنا اللہ کی کبریائی اور حاکمیت میں کسی دوسرے کی حاکمیت کو دخیل کرنا یہ شرک ہے اور پوری امت مسلمہ آج اس کفر اور شرک کا ارتکاب کر رہی ہے۔ اللہ کا وہ قانون جو قرآن و سنت کی شکل میں ہمارے پاس محفوظ ہے تمام ممالک اسلامیہ میں کہیں بھی پوری طرح نافذ نہیں۔ سعودی عرب میں حدود اللہ نافذ ہیں پورا دین نہیں اور باقی کسی ملک میں حدود اللہ بھی نافذ نہیں۔ ہم یا تو اسے قبول کرنے سے انکار کرچکے اور یا ہمارا طرز عمل یہ ہے کہ ہم مسجد میں جا کر اللہ کی بندگی کرتے ہیں اور مسجد سے باہر نکل کر باقی تمام شعبہ ہائے زندگی میں دوسرے قوانین کی پیروی کرتے ہیں اور اللہ کے قانون کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ آپ خود اندازہ فرما لیجئے کہ اس صورت حال کو کفر اور شرک کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے اور یہی وہ ظلم ہے جس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ ظالم کبھی فلاح نہیں پاتے۔ اگلی آیات کریمہ میں مشرکین عرب کے اس ظلم یعنی شرک کی تفصیل بیان کی جا رہی ہے دور جاہلیت میں جس پر یہ لوگ عامل تھے اللہ کے ساتھ ان کا شرک مختلف انواع پر مشتمل تھا بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ شرک کی ایسی کوئی قسم باقی نہیں رہ گئی تھی جس کا یہ لوگ ارتکاب نہیں کرتے تھے اور ویسے بھی دیکھا جائے تو جس طرح دنیا بھر کے موحدین اپنے نظریہ توحید میں موافقت اور مماثلت رکھتے ہیں اسی طرح مشرکین میں بھی بہت حد تک دنیا بھر میں توافق پایا جاتا ہے کسی بھی علاقہ کے مشرکین کو دیکھ لیجئے شرک کے اظہار کی صورتوں میں تھوڑا بہت اختلاف آپ کو ملے گا لیکن بنیادی مشرکانہ تصورات میں آپ کو مکمل موافقت نظر آئے گی چناچہ ان آیات میں ان کے شرک کی تمام تفصیلات کو ذکر کرنا ممکن نہیں البتہ اس کی اہم تر صورتوں کو ذکر کردیا گیا ہے اور اسی پر باقی کو قیاس کیا جاسکتا ہے ارشاد خداوندی ہے :
Top