Ruh-ul-Quran - At-Taghaabun : 6
ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِیْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْۤا اَبَشَرٌ یَّهْدُوْنَنَا١٘ فَكَفَرُوْا وَ تَوَلَّوْا وَّ اسْتَغْنَى اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ
ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ : یہ بوجہ اس کے کہ بیشک وہ كَانَتْ : تھے تَّاْتِيْهِمْ : آتے ان کے پاس رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : ساتھ واضح آیات کے فَقَالُوْٓا : تو وہ کہتے اَبَشَرٌ : کیا انسان يَّهْدُوْنَنَا : ہدایت دیں گے کہ ہم کو فَكَفَرُوْا : تو انہوں نے کفر کیا وَ : اور تَوَلَّوْا : منہ موڑ گئے وَّاسْتَغْنَى اللّٰهُ : اور بےپرواہ ہوگیا اللہ وَاللّٰهُ غَنِيٌّ : اور اللہ بےنیاز ہے حَمِيْدٌ : تعریف والا ہے
یہ اس وجہ سے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیوں کے ساتھ آتے رہے تو انھوں نے کہا کہ کیا انسان ہماری رہنمائی کریں گے ؟ پس انھوں نے ماننے سے انکار کردیا اور منہ پھیرلیا اور اللہ ان سے بےپرواہ ہوگیا اور اللہ بےنیاز اور ستودہ صفات ہے
ذٰلِکَ بِاَنَّہٗ کَانَتْ تَّاْتِیْہِمْ رُسُلُہُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْٓا اَبَشَرٌیَّھْدُوْنَنَا ز فَکَفَرُوْا وَتَوَلَّوْا وَّاسْتَغْنَی اللّٰہُ ط وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ۔ (التغابن : 6) (یہ اس وجہ سے ہوا کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیوں کے ساتھ آتے رہے تو انھوں نے کہا کہ کیا انسان ہماری رہنمائی کریں گے ؟ پس انھوں نے ماننے سے انکار کردیا اور منہ پھیرلیا اور اللہ ان سے بےپرواہ ہوگیا اور اللہ بےنیاز اور ستودہ صفات ہے۔ ) تکذیبِ رسول کے لیے منکرین کا بہانہ اس آیت کریمہ میں معذب قوموں کی تباہی اور بربادی کی بنیادی وجہ بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے رکھی ہے اِنَّ عَلَیْنَا لَلْہُدٰی ” بیشک ہم پر ہے ہدایت دینا۔ “ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے پروردگار نے ہمیشہ انبیاء و رسل مبعوث کیے، کتابیں نازل فرمائیں تاکہ انسان ان کے ذریعے سے صحیح علم حاصل کرسکے اور عمل کا صحیح طریقہ پا سکے۔ چناچہ اس نے انسانوں میں سے بعض افراد کو علم عطا کرکے دوسروں تک پہنچانے کی خدمت سپرد کی اور ان ہی کو رسل کہا گیا۔ اور ان کے ساتھ ایسی بینات کو نازل فرمایا جس سے یہ بات سمجھی جاسکے کہ یہ واقعی اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ بینات واضح باتوں اور واضح چیزوں کو کہتے ہیں۔ یہاں بینات سے مراد وہ معجزات اور نشانیاں ہیں جو اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں پر وقتاً فوقتاً نازل فرماتا ہے۔ اور پھر ہر رسول کی اپنی ذات بجائے خود ایک بینہ ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کا حُسنِ کردار پوری قوم میں ایسا ممتاز ہوتا ہے کہ کوئی شخص اس کی وجہ اس کے سوا متعین نہیں کرسکتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا رسول ہے اور اللہ تعالیٰ نے رسالت کے اعلان سے پہلے بھی ہر طرح کے عیب سے اس کی حفاظت فرمائی ہے۔ لیکن ان قوموں کا حال یہ رہا کہ جب بھی ان کے پاس ایسے رسول آئے جو واضح نشانیاں لے کر آئے تو لوگوں نے انھیں صرف اس لیے ماننے سے انکار کردیا کہ وہ تو ان کی طرح انسان ہیں ہم اپنے جیسے ایک انسان کو رسول کیسے مان لیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کو کوئی رسول بھیجنا ہی تھا تو وہ کسی برتر مخلوق میں سے ہونا چاہیے تھا۔ یہ تو ہمارے لیے بڑی توہین کی بات ہے کہ ہم جیسا ایک شخص اٹھ کر ہم سے اطاعت کا تقاضا کرے۔ اگر انسانوں ہی نے یہ کام کرنا ہے تو پھر ہمارے اندر کیا کمزوری ہے، ہم خود یہ کام کرلیں گے۔ حالانکہ ایک واضح سی بات ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے سب سے برتر مخلوق بنایا ہے۔ البتہ ذاتی پاکیزگی کے لحاظ سے ملائکہ بہت ممتاز ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کسی فرشتے کو رسول بنا کے بھیجا جاتا تو وہ اپنی شکل میں تو نظر نہیں آسکتا تھا اور اگر وہ انسانی شکل میں آتا تو پھر اس کو انسان سمجھ کر ماننے سے انکار کردیا جاتا۔ اور مزید یہ کہ رسول تو اسوہ ٔ حسنہ بن کر آتا ہے۔ اگر کوئی فرشتہ رسول بن کر آتا تو اس کی زندگی انسانوں کے لیے اسوہ ٔ حسنہ یعنی بہترین نمونہ نہیں بن سکتی تھی۔ اسے چونکہ بھوک نہ لگتی تو بھوکے آدمی کے لیے کیا نمونہ ہوتا۔ وہ کسی جنگ میں زخمی نہ ہوتا، اور نہ اسے قتل ہوجانے کا اندیشہ ہوتا، تو لوگ استقامت کا درس کہاں سے لیتے ؟ اسے کبھی اہل کفر کی اذیت رسانیوں اور چیرہ دستیوں سے واسطہ نہ پڑتا، تو لوگ صبر کا پیکر کہاں تلاش کرتے ؟ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی اصلاح و تربیت کے لیے انسان ہی ذریعہ بن سکتا ہے، فرشتہ نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو رسول بنا کر بھیجا ہے۔ لیکن مخالفین کو اس بات سے شدید انکار تھا کہ یہ رسالت کا دعویٰ کرنے والے چونکہ ہماری طرح بشر اور انسان ہیں تو ہم انھیں اللہ تعالیٰ کا رسول نہیں مان سکتے اور ان کی رہنمائی قبول نہیں کرسکتے۔ یہ عجیب بات ہے کہ انسانوں نے ہمیشہ انسانوں کو اپنا لیڈر مانا ہے اور بڑے بڑے معاملات میں ان کی رہنمائی قبول کی۔ حتیٰ کہ وہ بھی انسان ہی تھے جن کی رہنمائی میں لکڑی اور پتھر تک کے بتوں کو معبود بنایا گیا ہے۔ اور یہ بھی حادثہ بیت چکا ہے کہ انسانوں کو خدا کا اوتار اور خدا کا بیٹا تک سمجھا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کو گمراہ کن لیڈروں، عیار پیروں اور نہایت بگڑے ہوئے دانشوروں کی رہنمائی قبول کرنے میں تو کبھی کوئی عذر نہیں رہا، حالانکہ وہ بھی انسان ہی ہوتے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے رسولوں کہ ہمیشہ بشریت کا طعنہ دے کر ماننے سے انکار کردیا گیا۔ جب ان لوگوں نے اس طرح سے اللہ تعالیٰ کے رسولوں کی رہنمائی ماننے سے انکار کیا اور پوری طرح ان کی رہنمائی سے منہ پھیر گئے تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ان سے مستغنی ہوگیا۔ یعنی وہ جو انسانوں کی ہدایت کے لیے ہمیشہ اہتمام کرتا ہے اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہ رہی کہ یہ گمراہی کے کس گڑھے میں جا کر گرتے ہیں اور کس طرح اپنی جلائی ہوئی آگ میں جلتے ہیں۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تو ہے ہی بےنیاز اور ستودہ صفات۔ یعنی وہ اپنی ذات میں آپ محمود ہے۔ لوگ اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں کہ وہ ان کو ہدایت عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی کی ہدایت و ضلالت کی کیا پرواہ۔ کوئی اس کی عبادت کرے تو اس کی الوہیت کو طاقت نہیں ملتی۔ اور کوئی عبادت کرنے والا نہ ہو تو اس کی شان اور سربلندی میں کوئی کمی نہیں آتی۔ وہ ہدایت کا انتظام صرف اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں کی فلاح اسی میں ہے۔ لیکن جب اس کی قدر نہیں کرتے تو وہ زبردستی لوگوں کو ہدایت عطا نہیں کرتا۔
Top