Ruh-ul-Quran - At-Taghaabun : 7
وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْئًا١ۙ وَّ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْئِدَةَ١ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ
وَاللّٰهُ : اور اللہ اَخْرَجَكُمْ : تمہیں نکالا مِّنْ : سے بُطُوْنِ : پیٹ (جمع) اُمَّهٰتِكُمْ : تمہاری مائیں لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہ جانتے تھے شَيْئًا : کچھ بھی وَّجَعَلَ : اور اس نے بنایا لَكُمُ : تمہارے لیے السَّمْعَ : کان وَالْاَبْصَارَ : اور آنکھیں وَالْاَفْئِدَةَ : اور دل (جمع) لَعَلَّكُمْ : تاکہ تم تَشْكُرُوْنَ : تم شکر ادا کرو
منکرین نے بڑے دعوے سے کہا ہے کہ وہ ہرگز مرنے کے بعد اٹھائے نہیں جائیں گے، کہہ دیجئے ! کیوں نہیں، میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جائو گے، پھر تمہیں ضرور بتایا جائے گا جو کچھ تم نے دنیا میں کیا ہوگا اور یہ کام اللہ پر بہت آسان ہے
زَعَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَنْ لَّنْ یُّبْعَثُوْا ط قُلْ بَلٰی وَرَبِّیْ لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبَّؤُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ ط وَذٰلِکَ عَلیَ اللّٰہِ یَسِیْرٌ۔ (التغابن : 7) (منکرین نے بڑے دعوے سے کہا ہے کہ وہ ہرگز مرنے کے بعد اٹھائے نہیں جائیں گے، کہہ دیجئے ! کیوں نہیں، میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے، پھر تمہیں ضرور بتایا جائے گا جو کچھ تم نے دنیا میں کیا ہوگا اور یہ کام اللہ پر بہت آسان ہے۔ ) مشرکین کے انکار کا جواب انھیں کے لہجے میں دوسری بڑی کمزوری ہے جس نے منکرینِ حق کو ہدایت سے دور رکھا ہے۔ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ آخرت کا انکار کرتے آئے ہیں حالانکہ ان کے پاس آخرت کے نہ آنے کی کوئی دلیل موجود نہیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ بڑے زور سے اس بات کا دعویٰ کرتے آئے ہیں کہ مرنے کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے۔ اور وہ ہرگز مرنے کے بعد اٹھائے نہیں جائیں گے۔ پروردگار نے آنحضرت کو حکم دیا ہے کہ آپ بھی انھیں اس کا جواب اسی انداز میں دیں جس انداز میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے۔ وہ پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے نہیں جائیں گے، آپ بھی اسی زور و تاکید کے ساتھ بقیدقسم ان کو جواب دیجئے کہ میرے رب کی قسم تم ضرور اٹھائے جاؤ گے۔ قرآن کریم نے اسی انداز میں دو اور جگہ بھی قیامت کے آنے اور لوگوں کے زندہ کیے جانے کا ذکر کیا ہے۔ اور وہاں بھی یہ بات بقیدقسم فرمائی گئی۔ ایک سورة یونس آیت 53 میں اور دوسرا سورة سبا آیت 3 میں۔ سوال یہ ہے کہ جو قیامت کے آنے کے منکر ہیں انھیں اگر قسم کھا کر بھی یہ جواب دیا جائے تو کیا ان پر اثراندازی کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ جب انھوں نے یہ طے کر رکھا ہے کہ وہ آخرت کو کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے تو انھیں اس بات کی کیا پرواہ ہے کہ آپ قسم کھا کر یہ بات کہتے ہیں یا قسم کے بغیر۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یوں تو ایک عام آدمی جس کے بارے میں جھوٹا ہونے کا یقین نہ ہو وہ بھی جب کسی بات کو قسم سے مؤکد کرکے کہتا ہے تو سننے والا ضرور سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ اور جہاں تک رسول اللہ ﷺ کا تعلق ہے ان کے مخالفین آپ کی نبوت کے انکار کے باوجود دل سے اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ چناچہ ایسا سچا انسان جب کبھی خدا کی قسم کھا کر آخرت کی بات کہے تو یہ ممکن نہیں کہ مخالفین آپ کو جھوٹا قرار دیں۔ اس لیے جب کبھی آنحضرت ﷺ اس انداز میں بات فرماتے تھے تو مخالفین اپنے دلوں میں ہل کے رہ جاتے تھے۔ علاوہ ازیں صرف یہی نہیں تھا کہ آپ آخرت کو ایک مؤکد انداز میں بیان فرماتے تھے بلکہ اس پر ایسے معقول دلائل بھی پیش فرماتے تھے جس کا انکار کرنا قریش کے لیے آسان نہ تھا۔ مزید ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبیوں کی خصوصیات میں سے اہم ترین خصوصیت یہ ہے کہ وہ انسانوں میں یقین کی دولت تقسیم کرنے آتے ہیں۔ اس لیے ایسے ان دیکھے حقائق پر جب وہ قسم کھا کر بات کہتے ہیں تو اس سے یقین کی وہ کیفیت پیدا ہوتی ہے جو کسی فلسفی کے استدلال سے پیدا نہیں ہوسکتی۔ آخر میں ارشاد فرمایا کہ تمہیں قیامت کے آنے پر اس لیے وثوق پیدا نہیں ہوتا کہ تم اسے ایک ناممکن یا مشکل کام سمجھتے ہو۔ تمہارے اندازے تمہاری اپنی ذات یا اپنے ماحول کی پیداوار ہیں۔ اس لیے تم کسی نہ کسی حد تک اس میں حق بجانب بھی ہو۔ لیکن اگر تم اللہ تعالیٰ کے صحیح علم اور اس کی بےکراں قدرت کا استحضار پیدا کرسکو تو پھر تمہیں اس میں اشکال نظر نہیں آئے گا۔ اس لیے پروردگار نے فرمایا کہ تمہارا دوبارہ زندہ کیا جانا اور میدانِ حشر میں تمہارا جمع کیا جانا اور پھر تمہیں تمہارے اعمال کی تفصیل کے بارے میں بتانا یہ تمہارے لیے مشکل ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی مشکل نہیں، بہت آسان ہے۔
Top