Urwatul-Wusqaa - At-Taghaabun : 6
ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ كَانَتْ تَّاْتِیْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ فَقَالُوْۤا اَبَشَرٌ یَّهْدُوْنَنَا١٘ فَكَفَرُوْا وَ تَوَلَّوْا وَّ اسْتَغْنَى اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ
ذٰلِكَ بِاَنَّهٗ : یہ بوجہ اس کے کہ بیشک وہ كَانَتْ : تھے تَّاْتِيْهِمْ : آتے ان کے پاس رُسُلُهُمْ : ان کے رسول بِالْبَيِّنٰتِ : ساتھ واضح آیات کے فَقَالُوْٓا : تو وہ کہتے اَبَشَرٌ : کیا انسان يَّهْدُوْنَنَا : ہدایت دیں گے کہ ہم کو فَكَفَرُوْا : تو انہوں نے کفر کیا وَ : اور تَوَلَّوْا : منہ موڑ گئے وَّاسْتَغْنَى اللّٰهُ : اور بےپرواہ ہوگیا اللہ وَاللّٰهُ غَنِيٌّ : اور اللہ بےنیاز ہے حَمِيْدٌ : تعریف والا ہے
یہ اس لیے کہ ان کے پاس ان کے رسول کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے لیکن وہ کہتے تھے کیا ہم کو (ایک) انسان راہ ہدایت دکھائے گا پھر انہوں نے اس (اللہ کے رسول) کو نہ مانا اور روگردانی کی اور اللہ نے بھی (ان کی) کوئی پرواہ نہ کی اور اللہ تو بےنیاز بڑی تعریفوں والا ہے
ان کے پاس ہمارے رسول گئے تو انہوں نے ان کو بشر کہہ کر ٹال دیا اور اپنی ڈگر پر قائم رہے 6 ؎ آپ پیچھے پڑھ چکے ہیں کہ ان لوگوں کے پاس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو بھیجا جیسے ہود ، صالح ، ابراہیم لوط اور موسیٰ (علیہ السلام) کو ان کی قوموں کی طرف نبی و رسول بنا کر بھیجا گیا اور انہوں نے ان کا مذاق اڑایا کہ دیکھو کیا پدی اور کیا پدی کا شوربا ، یہ آخر ہیں کان ؟ یہ تو عام انسانوں کی طرح انسان ہیں خواص کی تو ان کی ہوا بھی نہیں لگی اگر یہ لوگ خود اس میں ہوتے تو آخر ان کے پاس بھی بڑے بڑے محلات ، کو ٹھیاں ، باغات اور نوکر و خدام ہوتے ۔ وہ باغوں میں بیٹھتے۔ لوگ ان کے ارد گرد حلقہ لگائے بیٹھتے ہوتے اور ان کا نام آتا تو ان کے دل ڈر جاتے ۔ تعجب ہے کہ ان رسول کہلانے والوں کے ساتھ تو دنیا کی کوئی آسائش بھی نہیں ہے اور نہ کوئی امتیازی حیثیت ان کی قائم ہے بلکہ یہ تو انسان ہیں اور وہ بھی عام انسانوں کی طرح ۔ کیا یہ اس طرح کے انسان ہماری رہنمائی کے لیے آئے ہیں ۔ تعجب ہے کہ ہم ان سے کس چیز کی رہنمائی حاصل کریں گے۔ اس طرح کی باتیں کہہ کر وہ اپنے کفر پر ڈٹے رہے اور رسولوں کی تکذیب ہی کرتے رہے اور پھر وہ وقت آگیا کہ وہ خود بعد میں آنے والوں کے لیے قصے اور کہانیاں بن کر رہ گئے ۔ اس کے علاوہ ان کی کوئی حیثیت نہ تھی ۔ ان کا سارا کرو فر بھی انکے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہوگیا ۔ غور کرو کہ ان کا نتیجہ کیا رہا ؟ یہی کہ ان احمقوں نے یہ کہہ کر نبیوں اور رسولوں کی دعوت کو جھٹلایا کہ یہ ہمارے جیسے انسان ہم کو کیا دعوت دیں گے اور یہ کہ ہم اپنے جیسے انسانوں کا اتباع نہیں کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان کی طرف سے اپنے قانون کے مطابق بےپروائی اختیار کرلی اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا ۔ بندوں کو اللہ تعالیٰ کے احسان اور لطف و کرم کی ضرورت ہے ، اس کو تو بندوں کے سجدوں اور عبادتوں کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہ کسی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ اس کی کوئی شخص بھی تعریف نہ کرے پھر بھی اس کی ان گنت مخلوق ہے جو اس کی تسبیح و تمحید کر رہی ہے۔ اس لیے وہ تو بہر حال غنی اور تعریف کیا گیا ہے اور ہرچیز سے وہ بےنیاز ہے۔
Top