Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 3
وَ اِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَیْرَ مَمْنُوْنٍۚ
وَاِنَّ لَكَ : اور بیشک آپ کے لیے لَاَجْرًا : البتہ اجر ہے غَيْرَ مَمْنُوْنٍ : نہ ختم ہونے والا
اور یقینا آپ کے لیے ایک کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے
وَاِنَّ لَکَ لَاَجْرًا غَیْرَمَمْنُوْنٍ ۔ (القلم : 3) (اور یقینا آپ کے لیے ایک کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے۔ ) غَیْرَمَمْنُوْنٍ … کا معنی ہے غیرمنقطع، یعنی ختم نہ ہونے والا۔ آنحضرت ﷺ کو تسلی اور پروپیگنڈے کا جواب ہم سورة الملک میں پڑھ چکے ہیں اور ہم سورة الطور سے مثال بھی پیش کرچکے ہیں کہ کافروں کا گمان یہ تھا کہ نبی کریم ﷺ بڑی تندہی سے جس دین کی دعوت میں لگے ہوئے ہیں خطرہ ہے کہیں اس کے اثرات سے انقلاب برپا نہ ہوجائے۔ اس کے اثر سے بچانے کے لیے اشرافِ قریش عوام کو یہ کہہ کر اطمینان دلاتے تھے کہ تم ہرگز اس کی فکر نہ کرو، یہ شاعر آدمی ہے چند دنوں تک اس کے اثرات ہوں گے اس کے بعد یہ سب کچھ ہوا میں اڑ جائے گا اور یہ شخص اپنی دعوت سے جس طرح کے حالات پیدا کررہا ہے اس سے خود ہی یہ کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے گا۔ یہ اور اس کے ساتھی گردش روزگار کا شکار ہو کر تباہ و برباد ہوجائیں گے تو اس کی کہی ہوئی باتیں اور اس کی دعوت کے اثرات سب کچھ ختم ہو کر رہ جائے گا۔ اس کے جواب میں ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ اے پیغمبر آپ ان کی باتوں سے اثر قبول نہ کریں۔ آپ جو کچھ کررہے ہیں اور جس تندہی، ہمدردی، جانفشانی، غمگساری اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لیے اپنا فریضہ انجام دے رہے ہیں اس کا اجر کبھی ختم ہونے والا نہیں۔ ایک اجر کا وہ حصہ ہے جو قیامت کے دن آپ کو ملے گا۔ لواء الحمد آپ کے ہاتھ میں ہوگا۔ شفاعتِ کبریٰ کے مقام پر آپ کھڑے کیے جائیں گے۔ مقامِ محمود آپ کے انتظار میں ہے، جنت کے اعلیٰ ترین حصے میں آپ کا مسکن ہوگا۔ سب سے زیادہ آپ کی امت نجات پائے گی اور جنت میں پہنچے گی۔ اور اجر کا دوسرا حصہ یہ ہے کہ آپ کا دین تمام دنیا میں پھیل جائے گا، آپ کی امت مختلف وقتوں میں دنیا کی امامت و سیادت کا فرض انجام دے گی اور ایک وقت آئے گا جب اسلام کے سوا دنیا میں اور کوئی مذہب باقی نہیں رہے گا۔ یہ آپ کی کاوشوں کا وہ صلہ ہے جس کا ایک سرا آپ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا قیامت سے بندھا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی مجنون اور دیوانے کی کاوشوں کا یہ نتیجہ آج تک کبھی لوگوں نے دیکھا ہے۔ اگر ایسا ہے تو سب پاگل خانے سے پاگلوں کو نکال کر دنیا کی رہنمائی کی مسندوں پر بٹھا دینا چاہیے لیکن اس کے بعد جو ہوگا اس کو جاننے کے لیے کسی بڑی عقل کی ضرورت نہیں۔ لیکن آنحضرت ﷺ کے نہ ختم ہونے والے اجر کے حوالے سے جو کچھ ہم نے کہا ہے وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی علم و دانش کا سوداگر اس طرح کی بات کہتا ہے جیسے آج کل بعض مستشرقین آنحضرت ﷺ کو مرگی کا مریض قرار دیتے ہیں اور بعض لوگ آپ کو مالیخولیا کا بیمار بتاتے ہیں۔ اہل علم کو چاہیے کہ ان نام نہایت دانشوروں کے دماغ کا معائنہ کرائیں اور ان سے اس کا جواب طلب کریں کہ جس نے دنیا کو ایک ایسی امت دی جس کی نظیر تاریخ پیش نہیں کرسکتی، ایک ایسا نظام دیا جس نے جزیرہ عرب کو جو نفرتوں کا جہنم تھا محبتوں کی جنت میں تبدیل کردیا۔ جس نے ایسے اخلاق دیئے، جس نے بگڑے ہوئے انسانوں کو مکارمِ اخلاق کا معلم بنادیا، جس نے انسانوں کے لیے دل و دماغ میں ایسی تبدیلی پیدا کی کہ دشمنوں نے بھی انھیں اپنا محسن گردانا۔ غرضیکہ وہ دنیا کے لیے رحمت و مروت، ہمدردی و غمگساری اور راحت و آرام کی ایک بہار بن کر چھا گئے۔ تو کیا ایک ایسی امت، ایسے نظام اور ایسے اخلاق پیدا کرنے والے کو مجنون کہا جائے گا یا ان لوگوں کو کہا جائے گا جو اسے مجنون قرار دیتے ہیں۔
Top