Ruh-ul-Quran - Al-Qalam : 7
اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِهٖ١۪ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ
اِنَّ رَبَّكَ : بیشک رب تیرا هُوَ اَعْلَمُ : وہ زیادہ جانتا ہے بِمَنْ ضَلَّ : اس کو جو بھٹک گیا عَنْ سَبِيْلِهٖ : اس کے راستے سے وَهُوَ اَعْلَمُ : اور وہ زیادہ جانتا ہے بِالْمُهْتَدِيْنَ : ہدایت پانے والوں کو
بیشک آپ کا رب ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور وہ انھیں بھی جانتا ہے جو راہ راست پر ہیں
اِنَّ رَبَّـکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِـہٖ ص وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ ۔ (القلم : 7) (بیشک آپ کا رب ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹکے ہوئے ہیں اور وہ انھیں بھی جانتا ہے جو راہ راست پر ہیں۔ ) آنحضرت ﷺ کو مزید تسلی آنحضرت ﷺ کو مزید تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ کافر لوگ اپنے اور آپ کے بارے میں کیسے ہی الٹے سیدھے تصورات رکھیں لیکن اللہ تعالیٰ کی نگاہوں سے کوئی بات مخفی نہیں۔ وہ خوب جانتا ہے کہ آپ ﷺ کو ہم نے جو ہدایت دے کے بھیجا ہے اسے قبول کرنے والا، اس کے لیے قربانیاں دینے والا اور اس راستے پر چلنے والا کون ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے قدم قدم پر آپ ﷺ کی مخالفت اپنا فریضہ سمجھ رکھا ہے اور وہ اسلام کی ناکامی اور شکست کو زندگی کا سب سے بڑا ہدف بنا چکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ عادل ہے اور اس کی صفت عدل کائنات کے نظام پر اس طرح چھائے ہوئی ہے جیسے زندگی کی سرگرمیوں پر روشنی کا پہرہ ہوتا ہے۔ اس کے عدل کا ادنیٰ تقاضا یہ ہے کہ اس کے راستے پر چلنے والے لوگ دنیا میں بھی کامیاب ہوں اور آخرت میں بھی سرفراز ٹھہریں اور اس کی مخالفت کرنے والے آخرکار ناکامی سے دوچار ہوں اور آخرت میں جہنم کا ایندھن بنیں۔ کیونکہ اگر وہ دونوں کو ایک ہی سطح پر رکھے اور یکساں معاملہ کرے تو یہ عدل نہیں بلکہ ظلم ہے۔ اور اگر وہ اپنے راستے پر چلنے والوں کو ہمیشہ تکلیفوں میں مبتلا رکھے اور نافر مانوں اور باغیوں کو ہمیشہ کھل کھیلنے کا موقع دے تو یہ ظلم سے بڑھ کر ظلم ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کا تقاضا اس سے بالکل مختلف ہے۔ آپ ﷺ اطمینان رکھیں، اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کا ظہور ضرور ہوگا، اس کے راستے پر چلنے والے سرفراز ہوں گے اور مخالفت کرنے والے خائب و خاسر ہوں گے۔
Top