Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 141
وَ اِذْ اَنْجَیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ١ۚ یُقَتِّلُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ۠   ۧ
وَاِذْ : اور جب اَنْجَيْنٰكُمْ : ہم نے تمہیں نجات دی مِّنْ : سے اٰلِ فِرْعَوْنَ : فرعون والے يَسُوْمُوْنَكُمْ : تمہیں تکلیف دیتے تھے سُوْٓءَ : برا الْعَذَابِ : عذاب يُقَتِّلُوْنَ : مار ڈالتے تھے اَبْنَآءَكُمْ : تمہارے بیٹے وَ يَسْتَحْيُوْنَ : اور جیتا چھوڑ دیتے تھے نِسَآءَكُمْ : تمہاری عورتیں (بیٹیاں) وَفِيْ ذٰلِكُمْ : اور اس میں تمہارے لیے بَلَآءٌ : آزمائش مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : تمہارا رب عَظِيْمٌ : بڑا۔ بڑی
اور یاد کرو جب کہ ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات دی جو تمہیں نہایت برے عذاب چکھاتے تھے وہ تمہارے بیٹوں کو بےدردی سے قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی ہی آزمائش تھی۔
تمہید بنی اسرائیل بحر قلزم کو عبور کرنے کے بعد جب صحرائے سینا میں داخل ہوئے تو ان کا رخ کوہ سینا کی طرف تھا بڑھتے بڑھتے جب وہاں پہنچے جو موجودہ نقشہ میں نبی ٔ صالح اور کوہ سینا کے درمیان وادی الشیخ کے نام سے موسوم ہے اور جو آج کل میدان الراحہ کہلاتا ہے۔ اس وادی کے ایک سرے پر وہ پہاڑی واقع ہے جہاں مقامی روایت کے مطابق حضرت صالح (علیہ السلام) ثمود کے علاقے سے ہجرت کر کے تشریف لے آئے تھے آج وہاں ان کی یاد گار کے طور پر ایک مسجد بنی ہوئی ہے دوسری طرف ایک اور پہاڑی جبل ہارون نام سے موسوم ہے تیسری طرف سینا کا بلند پہاڑ ہے جس کا بالائی حصہ اکثر بادلوں سے ڈھکا رہتا ہے اور جس کی بلندی سات ہزار تین سو انسٹھ فیٹ ہے اس پہاڑ کی چوٹی پر آج تک وہ کھوہ زیارت گاہ عام بنی ہوئی ہے جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے چلہ کیا تھا اس میدان الراحہ میں بنی اسرائیل موجود تھے جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات دینے کے لیے کوہ طور پر بلایا اور قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکلے ابھی صرف تین ماہ گزرے تھے چناچہ اتنی مختصر مدت کے بعد جیسے ہی ان کو صحرا میں نسبتاً پرسکون ماحول میسر آیا اور وہ غلامانہ زندگی سے نکل کر اب اس قابل ہوئے کہ اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتے ہیں اور جس طریق زندگی اور زندگی کی راہنمائی کو قبول کرنا چاہیں اس کے لیے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں اب وہ نہ صرف کہ فیصلے کرنے میں آزاد ہیں بلکہ ایک ایسی ریاست کا نظام بھی چلا سکتے ہیں جس میں صرف اللہ ہی کی بندگی کارفرما ہو اور اللہ کے سوا کسی اور کی اطاعت پر مجبور نہ کیا جائے۔ چناچہ بنی اسرائیل نے خود ضرورت محسوس کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے گزارش کی کہ آپ مصر میں ہم سے یہ فرمایا کرتے تھے کہ جب تمہیں مصر کی غلامی سے آزادی نصیب ہوگی تو تمہیں آزادانہ زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ کتاب عطا فرمائیں گے جس میں تمہارے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے راہنمائی ہوگی چناچہ اب اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہمیں وہ راہنمائی اور شریعت کتاب کی صورت میں عطا فرمائیں۔ چناچہ اگلی آیات کریمہ میں اسی کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ پیشتر اس کے کہ ہم ان آیات کو پڑھیں چند باتیں ایسی ہیں جن پر توجہ دینا ازبس ضروری ہے سب سے پہلی بات یہ کہ جب بھی کبھی کوئی قوم اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوتی ہے تو یقینا وہ اپنے وطن سے خالی ہاتھ نکلتی ہے زندگی کے وسائل کے حوالے سے اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اگر اسے نیا وطن نصیب ہوجائے تو اس کی سب سے پہلی ضرورت اس کی آباد کاری ‘ اس کے لیے وسائل کی فراہمی اور زندگی کی ضروریات کا مہیا کرنا ہوتا ہے اور پھر آگے چل کر جیسے جیسے یہ ضرورتیں پھیلتی جاتی ہیں ان کی فکر دامن گیر ہوتی جاتی ہے اور بچوں کے مستقبل کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے پھر ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اداروں کے وجود کو سب سے ضروری سمجھا جاتا ہے لیکن ہمیں یہاں یہ دیکھ کر حیرت ہو رہی ہے کہ اسرائیلی روایات کے مطابق چھ لاکھ افراد پر مشتمل یہ بنی اسرائیل کی قوم صحرا میں پڑی ہے جس میں رہنے کے لیے کوئی گھر نہیں ‘ زندگی کے وسائل بالکل نایاب اور زندگی کی ضروریات روز بروز افزوں تر۔ بایں ہمہ ! ان میں سے اگر کھانے پینے کا مطالبہ ہوتا ہے تو چند چشموں کے اجراء اور من وسلویٰ کے نزول سے پورا کردیا جاتا ہے اور موسم کی تمازت سے بچنے کے لیے سر پر بادلوں کا سائبان تان دیا جاتا ہے بس اتنی سی ضروریات کی فراہمی کے بعد بنی اسرائیل کی طرف سے اگر کوئی مطالبہ ہوتا ہے تو وہ یہ کہ ہمیں اللہ کی کتاب چاہیے۔ اللہ سے ہمیں کتاب آئین لے کردیں تاکہ ہم اس کی راہنمائی میں اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے زندگی گزار سکیں۔ اور یہ صرف ان کا مطالبہ نہیں بلکہ مصر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مسلسل تربیت اور تعلیم کا یہ نتیجہ تھا کہ تمہاری اصل ضرورت تمہاری سیرت و کردار کی تعمیر ہے اور وہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی جب تک تمہیں تعمیر سیرت کا پروگرام مہیا نہ کیا جائے۔ اس سے ہمیں یہ بات سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ قومیں وسائل سے زندہ ضرور رہتی ہیں لیکن قوموں کی تشکیل ان کے مقاصد کا حصول اور ان کی سیرت و کردار کی تعمیر وہ وسائل سے نہیں ہوتی بلکہ وہ اللہ کی راہنمائی میں زندگی گزارنے اور اسی کے مطابق مسلسل تعلیم و تربیت سے ہوتی ہے اس لیے جو قوم بھی معنوی اور اخلاقی زندگی کی ضرورت محسوس کرتی ہے اس کا سب سے پہلے فرض یہ ہے کہ قوم کو اگر مکان میسر نہ ہوں تو خیمے لگا دیئے جائیں اگر پر تکلف ضروریات بہم نہ ہو سکیں تو سادہ سے سادہ زندگی پر کفایت کرلی جائے اور کم سے کم ضروریات پر اکتفا کرنے کا ذوق پیدا کیا جائے لیکن جہاں تک سیرت و کردار کی تعمیر کا تعلق ہے اس میں کسی طرح کا تساہل بھی ممکن نہیں۔ جیسے ہی زندگی کے معمولی امکانات مہیا ہوجائیں تو سب سے پہلے اسی بات کی طرف توجہ دی جائے تاکہ قوم کی شیرازہ بندی ہو سکے ‘ ایک مہذب انسان مہذب معاشرہ ‘ مہذب سوسائٹی اور مہذب ریاست اور حکومت وجود میں آئے یہ ضرورت اگر پوری ہوجائے تو باقی ضرورتیں نہ صرف کہ تیزی سے پوری ہوجاتی ہیں بلکہ اس طرح پوری ہوتی ہیں کہ ہر ایک شخص دوسرے شخص کی ضرورت پورا کرنے میں لگ جاتا ہے اگر افرادسازی کا کام نہ کیا جائے اور تعمیر سیرت کو نظرانداز کردیا جائے تو پھر قوم ‘ قوم نہیں رہتی انسانوں کی بھیڑ بن جاتی ہے اور وسائل کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ خود اس ملک کے رہنے والوں کی خودغرضی اور حد سے بڑھی ہوئی ہوس بن جاتی ہے ملک میں وسائل ہوں گے لیکن حسن کردار سے محروم لوگ اسے اپنی ذات کے لیے سمیٹنے کی کوشش کریں گے۔ قوی ‘ قوی تر ہوتا جائے گا اور کمزور ‘ کمزور تر۔ رفتہ رفتہ یہ قوم طبقات میں تقسیم ہوجائے گی اور پھر خدانخواستہ اگر اس قوم کو کسی افتاد یا حادثے سے دوچار ہونا پڑے تو یہ ریت کا ایک انبار ثابت ہوگی۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ پاکستان بھی بنی اسرائیل ہی کی طرح غلامی کی ایک طویل رات سے آزاد ہونے کے بعد وجود میں آیا تھا اور ہندوستان سے ہجرت کرنے والے ہر فرد کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ اب تم جس پاکستان میں جا رہے ہو وہ تمہارے لیے ایک ایسا خوبصورت ملک ہوگا جس میں ممکن ہے کہ وسائل میں کمی ہو لیکن محبت ‘ خیر خواہی ‘ انسان دوستی ‘ اللہ کا خوف جیسی اقدار کی ایسی ہمہ ہمی ہوگی کہ تم ہزار مصیبتوں سے نکل کر جب وہاں پہنچو گے تو یوں محسوس کرو گے جیسے جنت میں پہنچ گئے ہیں وہاں کا ایک ایک فردخود بھوکا رہ کر دوسرے کو کھلانے کی کوشش کرے گا ‘ وہاں ملیں کپڑا بنیں گی تو وہ کپڑا ہر غریب اور امیر کی تن پوشی کے کام آئے گا وہاں کسی کو یہ گلہ کبھی نہیں ہوگا ؎ ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں وہاں کا ہر گھر ‘ گھر سے محروم لوگوں کی پناہ گاہ ہوگا وہاں کی سڑکوں پر چلنے والے لوگ ایک دوسرے کی حفاظت کے لیے مستعد ہوں گے ایک روٹی کھانے والا بھی آدھی روٹی دوسرے کو دینے کے لیے بیتاب ہوگا ہمیں یہ سراب دکھایا جاتا رہا لیکن جب ہم پاکستان میں آگئے تو ہم یہ بات بھول گئے کہ اس سراب کو حقیقت بنانے کے لیے حسن کردار اور مضبوط سیرت کی ضرورت ہے اور وہ جس چیز سے وجود میں آتا ہے ہمیں سب سے پہلے اپنے وعدے کے مطابق اور بنی اسرائیل کی تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے اسی کی فکر کرنی چاہیے لیکن ہم نے ہر چیز کی فکر کی بجز اس فکر کے جس میں ہماری بقا کی ضمانت تھی۔ نتیجہ سامنے ہے کہ آج ہم اپنے بکھیرے ہوئے کانٹوں کو پلکوں سے چننے میں لگے ہوئے ہیں لیکن وہ کانٹے ختم ہونے میں نہیں آتے۔ آج بھی یہ آیات کریمہ ہمیں اسی حقیقت کی طرف متوجہ کررہی ہیں۔ کاش ! ہم آج بھی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہم نے 1948 ء کی اسمبلی سے جو دھوکہ دینا شروع کیا تھا اور جس طرح ہم نے ہر موقع پر اس ریاست کے جواز کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اگر ہم نے اس رویے کو نہ بدلا تو اللہ بہتر جانتا ہے اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ دوسری بات جو ان آیات سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات دینے کے لیے کوہ طور پر طلب فرمایا لیکن اس سے پہلے چالیس دن تک انھیں اعتکاف میں رکھا گیا اور ان سے روزے رکھوائے گئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا دستور نامہ (تورات) بنی اسرائیل کی راہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ آپ سے چالیس دن تک ایک لمبی مشقت لی جائے لیکن ہم جب دوسری کتابوں کے نزول کی تاریخ پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصیت نہیں بلکہ جب بھی کسی پیغمبر کو اللہ نے کتاب عطا فرمائی ہے تو پہلے اس پیغمبر کو اسی تربیت سے گزارا گیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پہاڑی پر اعتکاف کرنا پڑا۔ ہمارے رسول پاک احرا کی تنہائیوں میں مسلسل عبادت میں مصروف رہے۔ دن کو روزے سے رہتے رات کو اللہ سے لو لگائے بیٹھے رہتے۔ دنیا کی بےثباتی ‘ اپنی ذات کی دریافت ‘ مخلوقِ خدا کی اصلاح اور نجانے کتنے سوالات بار بار دل میں اٹھتے رہے اور مسلسل اللہ کی طرف توجہ سمٹتی گئی۔ جب تربیت کا یہ عمل اپنی انتہا کو پہنچا تو تب آپ کی زبان مبارک پر قرآن پاک کا نغمہ سرمدی جاری ہوا۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنا کلام نازل فرماتے ہیں اور زندگی کی راہنمائی کا سامان بہم پہنچاتے ہیں تو اس کے تحمل اور قبولیت کی استعداد کو پہلے پیدا فرماتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ اللہ کے نبی معصوم ہوتے ہیں وہ نبوت سے پہلے بھی نخل فطرت کا سب سے خوبصورت ثمر ہوتے ہیں انھیں یہ تو معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ کے احکام کیا ہیں لیکن اپنے گردوپیش میں پھیلے ہوئے تمام منکرات سے وہ فطرت کی راہنمائی میں ہر طرح سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس کے باوجود انھیں فوراً کتاب عطا نہیں فرما دی جاتی بلکہ مسلسل روزے اور اعتکاف کی تربیت سے ان کے دل و دماغ اور ان کی اندرونی قوتوں کو اتنا پاکیزہ اور اتنا مستعد بنادیا جاتا ہے جن سے ان کے اندر کلام خداوندی کے برداشت کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی کبھی کوئی اللہ کے کلام اور اس کی کتاب سے استفادہ کرنا چاہے گا تو اسے حتی المقدور اپنی فطرت ‘ اپنی طبیعت اور اپنے احساسات کو پاکیزہ کرنا ہوگا تاکہ وہ اللہ کے کلام سے موافقت پیدا کرسکے۔ جب اس کے انوار اس کے دل پر اتریں تو جس طرح آئینہ روشنی کو سمیٹتا ہے وہ فوراً ان انوار کو جذب کرسکے اور جس طرح صاف سلیٹ پر عبارت لکھی جاسکتی ہے اسی طرح قرآن پاک کی ایک ایک ہدایت اس کے لوح قلب پر کندہ کی جاسکے اور اگر ایسا ہو کہ قرآن کریم جن بنیادی تصورات اور بنیادی ہدایات کو زندگی کی تطہیر کے لیے عطا فرماتا ہے ‘ دل و دماغ اسے قبول کرنے کی بجائے شک و ارتیاب کی دیواریں کھڑی کر دے وہ کردار و عمل کی جس عمارت کو استوار کرنا چاہتا ہے بےعملی کے غار اور بداطواری کے خود رو پودے اسے جگہ بنانے کا موقع ہی نہ دیں تو اللہ کی کتاب کو پڑھنے کے باوجود بھی آدمی اس کی ہدایت سے محروم رہتا ہے چناچہ یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے ضمن میں ہمیں یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ لوگو ! تمہاری سیرت سازی کا کام تمہاری انفرادی زندگی کی تعمیر ‘ تمہاری اجتماعی زندگی کی استواری صرف اللہ کی کتاب کی راہنمائی سے ممکن ہے لیکن یہ دیکھنا کہ تمہارے تعلیمی ادارے تمہارے ذرائع ابلاغ اور تمہاری معاشرتی روایات اس راستے میں رکاوٹ نہ بننے پائیں تم جب تک قرآن پاک سے استفادہ کے لیے پہلے ان کی اصلاح کی فکر نہیں کرو گے اس وقت تک اللہ کی کتاب سے استفادہ کرنا اور اس کی راہنمائی سے فیض پانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ چناچہ ان دونوں بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھ کر آنے والی آیات کریمہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
Top