Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-A'raaf : 141
وَ اِذْ اَنْجَیْنٰكُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَكُمْ سُوْٓءَ الْعَذَابِ١ۚ یُقَتِّلُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ یَسْتَحْیُوْنَ نِسَآءَكُمْ١ؕ وَ فِیْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِیْمٌ۠ ۧ
وَاِذْ
: اور جب
اَنْجَيْنٰكُمْ
: ہم نے تمہیں نجات دی
مِّنْ
: سے
اٰلِ فِرْعَوْنَ
: فرعون والے
يَسُوْمُوْنَكُمْ
: تمہیں تکلیف دیتے تھے
سُوْٓءَ
: برا
الْعَذَابِ
: عذاب
يُقَتِّلُوْنَ
: مار ڈالتے تھے
اَبْنَآءَكُمْ
: تمہارے بیٹے
وَ يَسْتَحْيُوْنَ
: اور جیتا چھوڑ دیتے تھے
نِسَآءَكُمْ
: تمہاری عورتیں (بیٹیاں)
وَفِيْ ذٰلِكُمْ
: اور اس میں تمہارے لیے
بَلَآءٌ
: آزمائش
مِّنْ
: سے
رَّبِّكُمْ
: تمہارا رب
عَظِيْمٌ
: بڑا۔ بڑی
اور یاد کرو جب کہ ہم نے تم کو آل فرعون سے نجات دی جو تمہیں نہایت برے عذاب چکھاتے تھے وہ تمہارے بیٹوں کو بےدردی سے قتل کرتے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی ہی آزمائش تھی۔
تمہید بنی اسرائیل بحر قلزم کو عبور کرنے کے بعد جب صحرائے سینا میں داخل ہوئے تو ان کا رخ کوہ سینا کی طرف تھا بڑھتے بڑھتے جب وہاں پہنچے جو موجودہ نقشہ میں نبی ٔ صالح اور کوہ سینا کے درمیان وادی الشیخ کے نام سے موسوم ہے اور جو آج کل میدان الراحہ کہلاتا ہے۔ اس وادی کے ایک سرے پر وہ پہاڑی واقع ہے جہاں مقامی روایت کے مطابق حضرت صالح (علیہ السلام) ثمود کے علاقے سے ہجرت کر کے تشریف لے آئے تھے آج وہاں ان کی یاد گار کے طور پر ایک مسجد بنی ہوئی ہے دوسری طرف ایک اور پہاڑی جبل ہارون نام سے موسوم ہے تیسری طرف سینا کا بلند پہاڑ ہے جس کا بالائی حصہ اکثر بادلوں سے ڈھکا رہتا ہے اور جس کی بلندی سات ہزار تین سو انسٹھ فیٹ ہے اس پہاڑ کی چوٹی پر آج تک وہ کھوہ زیارت گاہ عام بنی ہوئی ہے جہاں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے چلہ کیا تھا اس میدان الراحہ میں بنی اسرائیل موجود تھے جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات دینے کے لیے کوہ طور پر بلایا اور قرائن سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو مصر سے نکلے ابھی صرف تین ماہ گزرے تھے چناچہ اتنی مختصر مدت کے بعد جیسے ہی ان کو صحرا میں نسبتاً پرسکون ماحول میسر آیا اور وہ غلامانہ زندگی سے نکل کر اب اس قابل ہوئے کہ اپنی مرضی کی زندگی گزار سکتے ہیں اور جس طریق زندگی اور زندگی کی راہنمائی کو قبول کرنا چاہیں اس کے لیے ان کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں اب وہ نہ صرف کہ فیصلے کرنے میں آزاد ہیں بلکہ ایک ایسی ریاست کا نظام بھی چلا سکتے ہیں جس میں صرف اللہ ہی کی بندگی کارفرما ہو اور اللہ کے سوا کسی اور کی اطاعت پر مجبور نہ کیا جائے۔ چناچہ بنی اسرائیل نے خود ضرورت محسوس کرتے ہوئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے گزارش کی کہ آپ مصر میں ہم سے یہ فرمایا کرتے تھے کہ جب تمہیں مصر کی غلامی سے آزادی نصیب ہوگی تو تمہیں آزادانہ زندگی گزارنے کے لیے اللہ تعالیٰ کتاب عطا فرمائیں گے جس میں تمہارے انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لیے راہنمائی ہوگی چناچہ اب اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہمیں وہ راہنمائی اور شریعت کتاب کی صورت میں عطا فرمائیں۔ چناچہ اگلی آیات کریمہ میں اسی کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ پیشتر اس کے کہ ہم ان آیات کو پڑھیں چند باتیں ایسی ہیں جن پر توجہ دینا ازبس ضروری ہے سب سے پہلی بات یہ کہ جب بھی کبھی کوئی قوم اپنے وطن سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوتی ہے تو یقینا وہ اپنے وطن سے خالی ہاتھ نکلتی ہے زندگی کے وسائل کے حوالے سے اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اگر اسے نیا وطن نصیب ہوجائے تو اس کی سب سے پہلی ضرورت اس کی آباد کاری ‘ اس کے لیے وسائل کی فراہمی اور زندگی کی ضروریات کا مہیا کرنا ہوتا ہے اور پھر آگے چل کر جیسے جیسے یہ ضرورتیں پھیلتی جاتی ہیں ان کی فکر دامن گیر ہوتی جاتی ہے اور بچوں کے مستقبل کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے پھر ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے اداروں کے وجود کو سب سے ضروری سمجھا جاتا ہے لیکن ہمیں یہاں یہ دیکھ کر حیرت ہو رہی ہے کہ اسرائیلی روایات کے مطابق چھ لاکھ افراد پر مشتمل یہ بنی اسرائیل کی قوم صحرا میں پڑی ہے جس میں رہنے کے لیے کوئی گھر نہیں ‘ زندگی کے وسائل بالکل نایاب اور زندگی کی ضروریات روز بروز افزوں تر۔ بایں ہمہ ! ان میں سے اگر کھانے پینے کا مطالبہ ہوتا ہے تو چند چشموں کے اجراء اور من وسلویٰ کے نزول سے پورا کردیا جاتا ہے اور موسم کی تمازت سے بچنے کے لیے سر پر بادلوں کا سائبان تان دیا جاتا ہے بس اتنی سی ضروریات کی فراہمی کے بعد بنی اسرائیل کی طرف سے اگر کوئی مطالبہ ہوتا ہے تو وہ یہ کہ ہمیں اللہ کی کتاب چاہیے۔ اللہ سے ہمیں کتاب آئین لے کردیں تاکہ ہم اس کی راہنمائی میں اللہ کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے زندگی گزار سکیں۔ اور یہ صرف ان کا مطالبہ نہیں بلکہ مصر میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مسلسل تربیت اور تعلیم کا یہ نتیجہ تھا کہ تمہاری اصل ضرورت تمہاری سیرت و کردار کی تعمیر ہے اور وہ اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی جب تک تمہیں تعمیر سیرت کا پروگرام مہیا نہ کیا جائے۔ اس سے ہمیں یہ بات سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ قومیں وسائل سے زندہ ضرور رہتی ہیں لیکن قوموں کی تشکیل ان کے مقاصد کا حصول اور ان کی سیرت و کردار کی تعمیر وہ وسائل سے نہیں ہوتی بلکہ وہ اللہ کی راہنمائی میں زندگی گزارنے اور اسی کے مطابق مسلسل تعلیم و تربیت سے ہوتی ہے اس لیے جو قوم بھی معنوی اور اخلاقی زندگی کی ضرورت محسوس کرتی ہے اس کا سب سے پہلے فرض یہ ہے کہ قوم کو اگر مکان میسر نہ ہوں تو خیمے لگا دیئے جائیں اگر پر تکلف ضروریات بہم نہ ہو سکیں تو سادہ سے سادہ زندگی پر کفایت کرلی جائے اور کم سے کم ضروریات پر اکتفا کرنے کا ذوق پیدا کیا جائے لیکن جہاں تک سیرت و کردار کی تعمیر کا تعلق ہے اس میں کسی طرح کا تساہل بھی ممکن نہیں۔ جیسے ہی زندگی کے معمولی امکانات مہیا ہوجائیں تو سب سے پہلے اسی بات کی طرف توجہ دی جائے تاکہ قوم کی شیرازہ بندی ہو سکے ‘ ایک مہذب انسان مہذب معاشرہ ‘ مہذب سوسائٹی اور مہذب ریاست اور حکومت وجود میں آئے یہ ضرورت اگر پوری ہوجائے تو باقی ضرورتیں نہ صرف کہ تیزی سے پوری ہوجاتی ہیں بلکہ اس طرح پوری ہوتی ہیں کہ ہر ایک شخص دوسرے شخص کی ضرورت پورا کرنے میں لگ جاتا ہے اگر افرادسازی کا کام نہ کیا جائے اور تعمیر سیرت کو نظرانداز کردیا جائے تو پھر قوم ‘ قوم نہیں رہتی انسانوں کی بھیڑ بن جاتی ہے اور وسائل کی فراہمی میں سب سے بڑی رکاوٹ خود اس ملک کے رہنے والوں کی خودغرضی اور حد سے بڑھی ہوئی ہوس بن جاتی ہے ملک میں وسائل ہوں گے لیکن حسن کردار سے محروم لوگ اسے اپنی ذات کے لیے سمیٹنے کی کوشش کریں گے۔ قوی ‘ قوی تر ہوتا جائے گا اور کمزور ‘ کمزور تر۔ رفتہ رفتہ یہ قوم طبقات میں تقسیم ہوجائے گی اور پھر خدانخواستہ اگر اس قوم کو کسی افتاد یا حادثے سے دوچار ہونا پڑے تو یہ ریت کا ایک انبار ثابت ہوگی۔ ہمارے لیے لمحہ فکریہ پاکستان بھی بنی اسرائیل ہی کی طرح غلامی کی ایک طویل رات سے آزاد ہونے کے بعد وجود میں آیا تھا اور ہندوستان سے ہجرت کرنے والے ہر فرد کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ اب تم جس پاکستان میں جا رہے ہو وہ تمہارے لیے ایک ایسا خوبصورت ملک ہوگا جس میں ممکن ہے کہ وسائل میں کمی ہو لیکن محبت ‘ خیر خواہی ‘ انسان دوستی ‘ اللہ کا خوف جیسی اقدار کی ایسی ہمہ ہمی ہوگی کہ تم ہزار مصیبتوں سے نکل کر جب وہاں پہنچو گے تو یوں محسوس کرو گے جیسے جنت میں پہنچ گئے ہیں وہاں کا ایک ایک فردخود بھوکا رہ کر دوسرے کو کھلانے کی کوشش کرے گا ‘ وہاں ملیں کپڑا بنیں گی تو وہ کپڑا ہر غریب اور امیر کی تن پوشی کے کام آئے گا وہاں کسی کو یہ گلہ کبھی نہیں ہوگا ؎ ملیں اسی لیے ریشم کے ڈھیر بنتی ہیں کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں وہاں کا ہر گھر ‘ گھر سے محروم لوگوں کی پناہ گاہ ہوگا وہاں کی سڑکوں پر چلنے والے لوگ ایک دوسرے کی حفاظت کے لیے مستعد ہوں گے ایک روٹی کھانے والا بھی آدھی روٹی دوسرے کو دینے کے لیے بیتاب ہوگا ہمیں یہ سراب دکھایا جاتا رہا لیکن جب ہم پاکستان میں آگئے تو ہم یہ بات بھول گئے کہ اس سراب کو حقیقت بنانے کے لیے حسن کردار اور مضبوط سیرت کی ضرورت ہے اور وہ جس چیز سے وجود میں آتا ہے ہمیں سب سے پہلے اپنے وعدے کے مطابق اور بنی اسرائیل کی تاریخ سے سبق سیکھتے ہوئے اسی کی فکر کرنی چاہیے لیکن ہم نے ہر چیز کی فکر کی بجز اس فکر کے جس میں ہماری بقا کی ضمانت تھی۔ نتیجہ سامنے ہے کہ آج ہم اپنے بکھیرے ہوئے کانٹوں کو پلکوں سے چننے میں لگے ہوئے ہیں لیکن وہ کانٹے ختم ہونے میں نہیں آتے۔ آج بھی یہ آیات کریمہ ہمیں اسی حقیقت کی طرف متوجہ کررہی ہیں۔ کاش ! ہم آج بھی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ہم نے 1948 ء کی اسمبلی سے جو دھوکہ دینا شروع کیا تھا اور جس طرح ہم نے ہر موقع پر اس ریاست کے جواز کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اگر ہم نے اس رویے کو نہ بدلا تو اللہ بہتر جانتا ہے اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ دوسری بات جو ان آیات سے سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو تورات دینے کے لیے کوہ طور پر طلب فرمایا لیکن اس سے پہلے چالیس دن تک انھیں اعتکاف میں رکھا گیا اور ان سے روزے رکھوائے گئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا دستور نامہ (تورات) بنی اسرائیل کی راہنمائی کے لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے اس بات کی کیا ضرورت ہے کہ آپ سے چالیس دن تک ایک لمبی مشقت لی جائے لیکن ہم جب دوسری کتابوں کے نزول کی تاریخ پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی خصوصیت نہیں بلکہ جب بھی کسی پیغمبر کو اللہ نے کتاب عطا فرمائی ہے تو پہلے اس پیغمبر کو اسی تربیت سے گزارا گیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پہاڑی پر اعتکاف کرنا پڑا۔ ہمارے رسول پاک احرا کی تنہائیوں میں مسلسل عبادت میں مصروف رہے۔ دن کو روزے سے رہتے رات کو اللہ سے لو لگائے بیٹھے رہتے۔ دنیا کی بےثباتی ‘ اپنی ذات کی دریافت ‘ مخلوقِ خدا کی اصلاح اور نجانے کتنے سوالات بار بار دل میں اٹھتے رہے اور مسلسل اللہ کی طرف توجہ سمٹتی گئی۔ جب تربیت کا یہ عمل اپنی انتہا کو پہنچا تو تب آپ کی زبان مبارک پر قرآن پاک کا نغمہ سرمدی جاری ہوا۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنا کلام نازل فرماتے ہیں اور زندگی کی راہنمائی کا سامان بہم پہنچاتے ہیں تو اس کے تحمل اور قبولیت کی استعداد کو پہلے پیدا فرماتے ہیں۔ باوجود اس کے کہ اللہ کے نبی معصوم ہوتے ہیں وہ نبوت سے پہلے بھی نخل فطرت کا سب سے خوبصورت ثمر ہوتے ہیں انھیں یہ تو معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ کے احکام کیا ہیں لیکن اپنے گردوپیش میں پھیلے ہوئے تمام منکرات سے وہ فطرت کی راہنمائی میں ہر طرح سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس کے باوجود انھیں فوراً کتاب عطا نہیں فرما دی جاتی بلکہ مسلسل روزے اور اعتکاف کی تربیت سے ان کے دل و دماغ اور ان کی اندرونی قوتوں کو اتنا پاکیزہ اور اتنا مستعد بنادیا جاتا ہے جن سے ان کے اندر کلام خداوندی کے برداشت کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی کبھی کوئی اللہ کے کلام اور اس کی کتاب سے استفادہ کرنا چاہے گا تو اسے حتی المقدور اپنی فطرت ‘ اپنی طبیعت اور اپنے احساسات کو پاکیزہ کرنا ہوگا تاکہ وہ اللہ کے کلام سے موافقت پیدا کرسکے۔ جب اس کے انوار اس کے دل پر اتریں تو جس طرح آئینہ روشنی کو سمیٹتا ہے وہ فوراً ان انوار کو جذب کرسکے اور جس طرح صاف سلیٹ پر عبارت لکھی جاسکتی ہے اسی طرح قرآن پاک کی ایک ایک ہدایت اس کے لوح قلب پر کندہ کی جاسکے اور اگر ایسا ہو کہ قرآن کریم جن بنیادی تصورات اور بنیادی ہدایات کو زندگی کی تطہیر کے لیے عطا فرماتا ہے ‘ دل و دماغ اسے قبول کرنے کی بجائے شک و ارتیاب کی دیواریں کھڑی کر دے وہ کردار و عمل کی جس عمارت کو استوار کرنا چاہتا ہے بےعملی کے غار اور بداطواری کے خود رو پودے اسے جگہ بنانے کا موقع ہی نہ دیں تو اللہ کی کتاب کو پڑھنے کے باوجود بھی آدمی اس کی ہدایت سے محروم رہتا ہے چناچہ یہاں بنی اسرائیل کی تاریخ کے ضمن میں ہمیں یہ ہدایت دی جا رہی ہے کہ لوگو ! تمہاری سیرت سازی کا کام تمہاری انفرادی زندگی کی تعمیر ‘ تمہاری اجتماعی زندگی کی استواری صرف اللہ کی کتاب کی راہنمائی سے ممکن ہے لیکن یہ دیکھنا کہ تمہارے تعلیمی ادارے تمہارے ذرائع ابلاغ اور تمہاری معاشرتی روایات اس راستے میں رکاوٹ نہ بننے پائیں تم جب تک قرآن پاک سے استفادہ کے لیے پہلے ان کی اصلاح کی فکر نہیں کرو گے اس وقت تک اللہ کی کتاب سے استفادہ کرنا اور اس کی راہنمائی سے فیض پانا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ چناچہ ان دونوں بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھ کر آنے والی آیات کریمہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
Top